فضائی آلودگی کے پاکستان کی زراعت پر اثرات

شبینہ فراز  اتوار 25 دسمبر 2016
موسموں کا شدید اور بگڑتا ہوا مزاج وہ دوسرا اہم چیلینج ہے جو اس رپورٹ میں درج ہے۔ فوٹو: فائل

موسموں کا شدید اور بگڑتا ہوا مزاج وہ دوسرا اہم چیلینج ہے جو اس رپورٹ میں درج ہے۔ فوٹو: فائل

ہر سال گہری دُھند موسم سرما میں ملک کے بیشتر حصوں کو اپنی لپیٹ میں لے لیتی ہے جس سے ان علاقوں میں معمول کی سرگرمیاں، جن میں فضائی اور ٹرین کا سفر بالخصوص متاثر ہوتا ہے۔ اس دُھند کی وجہ سے حدنگاہ بہت کم ہوجاتی ہے، لہٰذا شام کے بعد موٹر وے اور دیگر مرکزی شاہ راہوں کو بھی ہر قسم کی ٹریفک کے لیے بند کرنا پڑتا ہے۔

دوسری طرف انٹرنیشنل ایئرپورٹ پر طیاروں کی آمدورفت بھی روک دی جاتی ہے۔ گذشتہ پانچ برسوں سے یہ مسئلہ بہت زیادہ شدت اختیار کرگیا ہے۔ اس کی وجہ شہروں میں گاڑیوں کی بڑھتی ہوئی تعداد اور فیکٹریوں سے دھوئیں اور گیسوں کا مسلسل اخراج بھی ہے۔ پنجاب میں اس کا سبب سرحدپار ہندوستان سے آنے والی فضائی آلودگی بھی ہے۔فضائی آلودگی ایک ایسا مسئلہ ہے جو ہم سے فوری توجہ چاہتا ہے۔

یہ براہ راست ہماری معاشی سرگرمیوں پر اثرانداز ہوتا ہے۔ موسم سرما میں جب بارش کا سلسلہ رک جاتا ہے اور سردی اور مسلسل خشک موسم میں تمام آلودگی بوجھل ہوکر فضا میں نچلی طرف آجاتی ہے تو یہ اسموگ کی شکل میں پنجاب میں ہر طرف پھیل جاتی ہے۔ دھندلی فضا کی وجہ سے سردی میں اضافہ ہوجاتا ہے، کیوںکہ سورج کی روشنی بہت کم زمین تک پہنچ پاتی ہے۔ یہ دھند ہماری زراعت اور معیشت پر بھی برے اثرات مرتب کرتی ہے۔

پاکستان کی وفاقی وزارت ماحولیات نے کچھ عرصہ قبل میڈیا میں ایک رپورٹ تقسیم کی تھی جس کے مطابق ملک میں آب وہوا کی تبدیلی کے زراعت پر ممکنہ اثرات کے متعلق خبردار کیا گیا تھا۔اس رپورٹ میں شامل آب و ہوا سے متاثر ہونے والے نو میں سے چھے اہم شعبوں کا تعلق براہ راست کھیتی باڑی اور زراعت سے بتایا گیا ہے۔ رپورٹ میں دعویٰ کیا گیا تھا کہ کاربن سے بھرپور کوڑا کرکٹ دریائے سندھ کے پانی میں شامل ہورہا ہے اور یہ گلیشیئروں سے آرہا ہے۔ اس طرح دریاؤں اور ندی نالوں میں موجود ہر طرح کی آبی حیات کو شدید خطرات لاحق ہوسکتے ہیں۔

یہ سرگرمیاں ہندوکش، قراقرم اور ہمالیہ تینوں پہاڑی سلسلوں میں جاری ہیں اور یہ تینوں سلسلۂ کوہ پاکستانی دریاؤں کو سیراب کرتے ہیں۔رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ پاکستان کے موسموں میں شدت اور شدید موسمی کیفیات میں اضافہ نوٹ کیا گیا ہے۔ اس کے علاوہ عالمی تپش سے گلیشیئروں کے پیچھے ہٹنے اور پہاڑیوں کے کناروں پر ٹرانس باؤنڈری آلودگی اور کاربن جمع ہونے کا بھی ذکر ہے۔ اس کے علاوہ شدید بارشوں اور سیلاب سے ڈیموں میں ریت جمع ہونے میں اضافہ ہورہا ہے۔

دوسری جانب بارانی اور نیم بارانی علاقوں میں حرارت اور پانی کی قلت میں اضافہ ہوسکتا ہے۔انڈس ڈیلٹا میں سمندری پانی کی آمد سے تیمر کے جنگلات اور ساحلی زراعت کو نقصان پہنچنے کے ساتھ ساتھ ملک کے بالائی اور زیریں علاقوں میں پانی سے وابستہ تنازعات بھی بڑھ سکتے ہیں۔

موسموں کا شدید اور بگڑتا ہوا مزاج وہ دوسرا اہم چیلینج ہے جو اس رپورٹ میں درج ہے۔گذشتہ دہائی میں ہمارے ملک نے موسمی شدت کے ہر پہلو کا مشاہدہ کیا ہے جن میں سیلاب کے علاوہ خشک سالی اور شدید بارشیں وغیرہ شامل ہیں۔

پاکستان میں صورت حال مختلف، لیکن زیادہ ابتر ہے۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ اگر گہرائی سے تجزیہ کیا جائے تو2025 تک پاکستان کا شمار کم آبی وسائل والے ملک سے انتہائی آبی قلت کے حامل ملک کے طور پر کیا جائے گا۔ زرعی ملک ہونے کے ناتے پانی کا زراعت میں بے تحاشہ استعمال ہے یعنی 93 فی صد زراعت کے لیے، 4 فی صد گھریلو استعمال کے لیے اور بقیہ صنعتی شعبے میں استعمال کیا جاتا ہے، جب کہ سیلابی پانی صرف ڈیلٹا کے استعمال میں آتا ہے جو ماحولیاتی نظام کے لیے بہتر ثابت ہوتا ہے۔ سیلاب اور خشک سالی ایک عام مظاہر ہیں۔ مون سون کی بارشوں اور گرمیوں میں گلیشیئرز پگھلنے کے باعث دریا میں پانی کی مقدار خریف کے سیزن میں ربیع کے مقابلے میں پانچ گنا زیادہ ہوتی ہے۔

پاکستان میں بارشوں کا سالانہ اوسط 240 ملی میٹر ہے۔ آبادی اور دست یاب پانی کے درمیان عدم توازن کے باعث پاکستان کا شمار پانی کی کمی والے ممالک میں کیا جاتا ہے لیکن اس کی تیزرفتار بڑھنے والی آبادی اسے بہت جلد انتہائی کمی والے ممالک میں لے جائے گی۔ آبادی اور زراعت کا دارومدار دریائے سندھ کے پانی پر ہے، اور گلوبل چینج امپیکٹ اسٹڈی سینٹر(GCISC) کی تحقیق کے مطابق آئندہ پچاس سالوں میں مغربی ہمالیائی گلیشیئرز میں کمی واقع ہوگی، جس سے دریا میں پانی اور بھی کم ہوجائے گا۔

اگر ایسا ہوتا ہے تو ہمالیائی خطے پر انحصار کرنے والے ممالک کی معیشت، ماحول اور معاشرے پر برے اثرات مرتب ہوں گے۔ مشاہدہ اور تحقیقی نتائج واضح کررہے ہیں کہ پانی کی کمی بدلتے موسموں کے اثرات سے اور بڑھ جائے گی، اور اس کے اثرات معیشت اور معاشرہ، ذاتی کمی، قدرتی آفات میں اضافہ، بڑے پیمانے پر لوگوں کی نقل مکانی بالائی اور زیریں علاقوں میں رہنے والوں میں تنازعات میں اضافہ آنے والے دنوں میں بڑھ جائے گا۔ آبی وسائل پاکستان کے لیے اس لیے بھی اہم ہیں کہ وہ ایک زرعی ملک ہے۔

بلاشبہہ پاکستان ایک زرعی ملک ہے اور زراعت اس کی اہم معاشی سرگرمی ہے۔ یہ شعبہ GDP کا 21 فی صد پیدا کرتا ہے۔ ملکی سطح پر یہ 41 فی صد لوگوں کے لیے روزگار کا ذریعہ ہے جب کہ ہماری دیہی آبادی کے 60 فی صد افراد کے گزراوقات کا ذریعہ یہی شعبہ ہے۔ پاکستان کے کل رقبے کا 25 فی صد زیرکاشت ہے۔ زراعت دریائے سندھ کی قدیم تہذیب کا جزو لازم رہی ہے۔ اس کے 4500 سال قبل مسیح کے آثار بھی ملے ہیں۔

پاکستان کی اہم فصلوں میں کپاس، چاول، گندم، گنا ، پھل اور سبزیاں شامل ہیں۔ ملک میں زرعی سرگرمیوں کے دو اہم سیزن خریف اور ربیع ہیں۔ پاکستان دنیا بھر میں خام کپاس پیدا کرنے والے ممالک میں سے ایک ہے۔ تمباکو، جس کی کاشت زیادہ تر پنجاب اور خیبر پختونخواہ میں ہوتی ہے، کا شمار ایک نقد آور فصل میں کیا جاتا ہے۔ پاکستان کا نہری نظام دنیا کے بڑے نظاموں میں سے ایک ہے۔ اتنا شان دار نہری نظام ہونے کے باوجود پیداوار کا تناسب دوسرے ممالک سے نسبتاً کم ہے۔ پاکستان میں نہری نظام اور چھوٹے ڈیموں کی پیداواری صلاحیت دنیا کے دیگر ممالک مثلاً مصر، ترکی اور ایران وغیرہ سے کم ہے۔

ورلڈ انڈیکیٹر کی 2003 کی رپورٹ کے مطابق زراعت میں پیداواری بڑھوتری کا تناسب  1980-2004 کے دوران پاکستان میں 4.6 جب کہ چین میں 5.0 رہا ہے۔اس صلاحیت میں اضافے کی غرض سے فصلوں کے لیے معیاری بیجوں کا استعمال، کھیتوں میں آب پاشی کے جدید اور کم خرچ طریقے مثلاً فوارہ اور قطرہ آب پاشی وغیرہ سے پانی کا ضیاع کم کیا جاسکتا ہے۔ روزگار کے نئے مواقع سے بھی زراعت اور خصوصاً پانی پر دباؤ کم ہوسکتا ہے۔ اسی طر ح چھوٹے ڈیموں کی پیداواری صلاحیت کے ساتھ ساتھ، مقامی افراد کے شراکتی منصوبوں سے پانی کی مقدار میں اضافہ اور ساتھ ہی حیاتیاتی تنوع اور جنگلی حیات کے لیے بھی ماحول بہتر بنایا جاسکتا ہے اور یہ تمام اقدامات مجموعی صورت حال پر بہتر اثر انداز ہوں گے۔

پاکستان میں فضائی آلودگی کے حوالے سے ہم یہاں اقوام متحدہ کی مدد سے یونی ورسٹی آف کیلیفورنیا کے انسٹی ٹیوٹ آف اوشینو گرافی کی ایک رپورٹ کے مندرجات پیش کررہے ہیں۔ اس ادارے نے جنوبی ایشیا اور خصوصاً قراقرم کے پہاڑی سلسلے پر پھیلے ان بادلوں پر تحقیق کی ہے جو آلودگی کی وجہ سے بھورے ہوجاتے ہیں۔ ان بھورے بادلوں میں دھواں اور زرعی اور صنعتی مادوں کے ذرے پائے جاتے ہیں۔

تحقیق میں شامل سائنس دانوں کا کہنا ہے کہ ماحولیاتی آلودگی اور بڑھتی ہوئی گرین ہاؤس گیسوں سے خطے کا ماحول گرم ہوگیا ہے اور برف تیزی سے پگھل رہی ہے۔ پچھلے پچاس سالوں میں پہاڑوں پر برفانی تودے یا گلیشیئرز چھوٹے ہوتے جارہے ہیں۔ماحولیات سے متعلق اقوام متحدہ کی ایجنسی کا کہنا ہے کہ اس رپورٹ سے عالمی برادری کو اندازہ ہونا چاہیے کہ ماحول کی بہتری کے لیے فوری اقدامات کتنے ضروری ہیں۔ ایجنسی نے یہ بھی کہا ہے کہ قراقرم کے گلیشیئرز کو پگھلنے سے روکنے کا ایک ہی طریقہ ہے کہ ماحول میں سے نقصان دہ گیسیں کم کی جائیں۔

فضائی آلودگی خصوصاً دُھند اور اسموگ کے فصلوں پر کیا اثرات مرتب ہوتے ہیں؟ اس کا تجزیہ ماہرماحولیات رفیع الحق آسان الفاظ میں یوں کرتے ہیں کہ اسموگ سے فصلوں کا فوٹو سنتھیسس کا عمل متاثر ہوتا ہے۔ اس عمل میں پودے سورج کی روشنی میں اپنی غذا تیار کرتے ہیں اور کاربن ڈائی آکسائیڈ جذب کرتے ہیں۔ پتوں کی نچلی سطح پر جو باریک سوراخ موجود ہوتے ہیں، جنہیں اسٹومیٹا کہا جاتا ہے، پودے ان سوراخوں کی مدد سے کاربن ڈائی آکسائیڈ جذب کرتے ہیں، لیکن اگر اسموگ میں ذرات کی تعداد یا مقدار بہت زیادہ ہوجائے تو وہ ان پتوں کے سوراخ بند کردیتے ہیں۔

سورج کی روشنی پہلے ہی نہیں ہوتی ہے، لہٰذا پودوں میں غذا بننے کا عمل رک جاتا ہے اور پودوں کی نشوونما متاثر ہوتی ہے۔ رفیع الحق صاحب کا مزید کہنا تھا کہ سردیوں کی سبزیوں کو ایک خاص درجۂ حرارت درکار ہوتا ہے لیکن جیسا کہ دسمبر میں بھی درجۂ حرارت کم نہیں ہوا اور سردیاں پورے طور پر نہیں آئی ہیں۔ زیادہ درجۂ حرارت سردیوں کی سبزیوں اور فضلوں کو متاثر کرتا ہے۔ سبزیوں کے منہگے ہونے کی ایک وجہ یہ بھی ہے۔

پاکستان محکمۂ موسمیات کے ڈائریکٹر جنرل ڈاکٹر غلام رسول کہتے ہیں کہ فضائی آلودگی خصوصاً اسموگ براہ راست ہماری زراعت کو متاثر کرتی ہے۔ یہ دھندلے بادل سورج کی روشنی کو روک لیتے ہیں اور پودے فوٹو سنتھسس کا عمل نہیں کرپاتے۔

غذائی اجناس مثلاً چاول، مکئی، گندم وغیرہ میں دانہ اچھا نہیں بنتا اور بھٹے کی شکل بھی پچکی ہوئی رہ جاتی ہے۔

ماہرین کا کہنا ہے کہ شدید موسموں سے نمٹنے کا ایک طریقہ تو یہ ہے کہ فصلوں کے لیے ایسے بیج تیار کیے جائیں جو اس طرح کی شدید تبدیلیاں جھیل سکیں۔ موسمیاتی شدت سے بارانی اور نیم بارانی علاقے کئی طرح سے متاثر ہوں گے اور حیرت انگیز طور پر زراعت کا بڑا عمل بھی یہیں انجام پاتا ہے۔ یہاں کی مٹی میں ایسی ماحولیاتی تبدیلیاں سہنے کی سکت نہیں ہے۔اس کے لیے ضروری ہے کہ فصلوں اور بیجوں پر کام کیا جائے۔

بدقسمتی سے پاکستان کا اہم فصلوں کے لیے بیجوں کی تیاری کو خاطر خواہ اہمیت نہیں دی ہے۔ ضرورت ہے کہ فصلوں کی ایسی اقسام تیار کی جائیں جو بدلتے ہوئے ماحول اور آب و ہوا سے ہم آہنگ ہوکر فروع پاسکیں۔ زراعت کے شعبے میں نت نئی ٹیکنالوجی متعارف کرنا بھی ضروری ہے۔

فضائی آلودگی کے حوالے سے بہت ادارے کام کررہے ہیں، یہاں ہم ایک ادارے کا ذکر کرنا چاہیں گے جس کا نام The International Centre for Integrated Mountain Development (ICIMOD) ہے۔ یہ ادارہ علاقائی سطح پر ہندوکش ہمالیہ اور قراقرم کے پہاڑی سلسلوں میں تحقیق کا کام انجام دیتا ہے۔ اس کے آٹھ ممبر ممالک میں پاکستان، ہندوستان، بنگلہ دیش، افغانستان، چین، بھوٹان، نیپال اور میانمار شامل ہیں۔فضائی آلودگی کے حوالے سے یہ ادارہ تحقیق کا گرانقدر کام کررہا ہے، جس میں صحافیوں کی معلومات تک رسائی میں ہر ممکن مدد بھی شامل ہے۔

اس وقت دنیا بھرکی نظریں ہمالیائی خطے کے ممالک اور ان کے آبی وسائل پر مرکوز ہیں۔ یہ خطہ اپنے آبی وسائل کے حوالے سے دنیا بھر میں ایک منفرد اہمیت کا حامل ہے۔ دنیا کے کئی اہم ترین دریا اسی خطے کی پگھلتی برف سے رواں دواں رہتے ہیں۔ اس خطے کے دریائی علاقوں کو مشترکہ طور پر استعمال کرنے والے ممالک میں پاکستان، افغانستان، بنگلا دیش، بھوٹان، انڈیا، چین اور نیپال شامل ہیں۔ دنیا کی 21 آبادی ان ہی ملکوں میں آباد ہے۔ یہی خطہ دیگر جنوبی ایشیائی دریاؤں کے ساتھ ساتھ دو بڑے دریا یعنی عظیم دریائے سندھ اور برہم پترا کا منبع بھی ہے۔

ہمالیہ سے پھوٹتے پانی کے یہ سرچشمے یعنی برہم پترا، گنگا، سندھ، میگھنا 1.5بلین یعنی ڈیڑھ ارب لوگوں کی زندگیوں کو رواں دواں رکھتے ہیں۔ وقت کی ضرورت ہے کہ اس خطے کے لوگ اور حکومتیں مشترکہ طور پر ایسے اقدام کریں جن سے اس علاقے کے آبی وسائل مزید مُنَظّم ہوں اور زیریں علاقوں میں رہنے والے بھی ان سے مستفید ہوں، شاید یہی بقا کا راستہ ہوگا۔یہ امر مسلم ہے کہ پانی نہ صرف حیاتیاتی نمو کے لیے ایک جزو لازم ہے بلکہ ماحول کو متناسب اور متوازن رکھنے کے لیے بھی نہایت ضروری ہے۔

آج سے تقریباً تیس سال قبل سبزانقلاب کا نعرہ لگایا گیا اور اس انقلاب کو برپا کرنے کے لیے جس بے دردی سے ماحولیاتی عناصر بالخصوص پانی کے ذخائر کو استعمال کیا گیا۔ اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ آج پاکستان کا شمار آبی قلت والے ممالک میں کیا جارہا ہے۔

یہ حقیقت ہے کہ پاکستان میں آبی وسائل کے تحفظ کے حوالے سے صورت حال بہت حوصلہ افزا نہیں ہے۔ اس منظرنامے میں صرف پانی کی کمی ہی نہی بل کہ اس کا تحفظ بھی ایک اہم مسئلہ ہے۔ آبی وسائل محدود ہیں، لیکن خوش آئند بات یہ ہے کہ ان کے بہتر انتظام کے لیے ملک کا انڈس بیسن اریگیشن سسٹم موجود ہے، جو ملک کا قابل قدر اثاثہ ہے۔ دنیا کے بڑے نہری نظاموں میں سے ایک دریائے سندھ کا نہری نظام وفاق کے ماتحت ہے۔ یہ نہری نظام ملکی معیشت میں نمایاں کردار ادا کرتا ہے۔ اس نظام کے ڈھانچے کی مالی قدر 300 ارب ڈالر ٹھہرتی ہے، جب کہ معیشت میں اس کا حصہ 18 ارب ڈالر یا جی ڈی پی کا 21% ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔