فقیرو سائیں

زاہد نثار  اتوار 25 دسمبر 2016
لوگ اسے پاکستان کا مائیکل انجلو کہتے ہیں۔ فوٹو: فائل

لوگ اسے پاکستان کا مائیکل انجلو کہتے ہیں۔ فوٹو: فائل

انسان شروع ہی سے حیرت کا کاسہ تھامے قدرت کی بے پناہ فیاض ومزین وسعتوں سے ہم کنار ہونے کا طلب گار رہا ہے۔ اس کی آنکھ کبھی اس کے ذہن سے بڑا برتن ثابت ہوئی تو اس نے قدرت کی تخلیق کی پیروی کرنا شروع کردی اور جب کہیں ذہن آنکھ سے بڑا کاسۂ حیرت بنا تو اس نے خود کو منوانے کی خواہش کا اظہار اپنے تخلیق کردہ فن سے کرنا شروع کردیا۔

رنگوں سے ہم کلام ہوتے ہوئے پتھروں میں اپنے تئیں جان ڈالتے ہوئے تعمیرات سے اپنے ذہن کی عکاسی کرتے ہوئے انسان ہمیشہ سے قدرت کی بے مثال صناعی کا معترف رہا ہے اور بہترین نقال بھی۔ قدرت نے جابجا اپنے مظاہر کو مختلف جلوؤں کی صورت آشکار کیا ہے اور اس کے سربستہ رازوں سے اپنا تعلق جوڑنے کی خاطر انسان نے فن و ادب کا سہارا لیا۔ تاریخ گواہ ہے کہ فن و ادب کے لاجواب شاہ کار انسان کی اُسی تڑپ کا نتیجہ ہیں۔ تہذیبوں کے آثار اس بات کے شاہد ہیں کہ فن و ادب کی دنیا ہی وہ دنیا ہے جو اذہان کو مسخر کرتی ہے اور نت نئے ارتقائی تغیرات سے انسانی جبلت کو آشنا کرتی ہے۔

جمالیاتی تسکین کے وہ پہلو جو سطحی تشنگی سے لمس آلود ہوں، انہیں فن و ادب کی فعال خلاقیت عمیق وسعت دے کر ان کی موجود سطح سے بلند کردیتی ہے۔ ایسے فن وادب کے ناد ر نمونے تشکیل پاتے ہیں جو اپنی جگہ پر مستقل اپنی مثال آپ ہوتے ہیں۔ یہ نمونے کہیں تعمیرات کی شکل میں کہیں پینٹنگز کہیں ڈرائنگز اور کہیں مجسموں کی شکل میں انسانی حیرت کو مہمیز کرتے رہتے ہیں۔ مذہبی حوالہ جات سے بھی بے شمار ایسے محیرالعقول نادر شاہ کار انسانی نظروں سے گزرتے ہیں کہ جن پر غیرارضی ہونے کا گمان ہوتا ہے۔

مختلف مذاہب میں تصویر سازی و مجسمہ سازی کو بہت اہمیت حاصل ہے اور یہ ہزاروں سال پرانی تہذیبوں کا خاصہ بھی ہے کہ جہاں مختلف قسم کی تصاویر دیوار گیر مجسمے یا نقاشی یا پینٹنگ آج بھی فن کے قدر شناس لوگوں کے جمالیاتی ذوق کی بھرپور تسکین کا سامان ہیں، ایسے ہی فن پارے جو حیرت عطا کرنے کا سبب بنیں شاہ کار کہلائے جانے کے لائق ہیں اور ایسے شاہ کار کے تخلیق کار بلاشبہہ بے پناہ داد کے مستحق قرار پاتے ہیں۔

سندھ کی دھرتی صوفیاء کرام کی محبت کے پیغام کے حوالے سے معروف ہے۔ سندھ کے باسی محبت و امن کے داعی ہیں۔ صوفیاء کرام وہ روشن جبینوں والے محترم انسان ہیں جنہوںنے احترام آدمیت کا سبق دیا اور لوگوں میں محبتوں اور احترام کا جذبہ سرد نہ ہو نے دیا۔ انہی روشن جبینوں سے انسانیت کے لیے بلاتفریق محبت کی کرنیں پھوٹیں۔

سندھ میں آج بھی صوفیائے کرام کی انسانیت سے محبت ان کی تعلیمات کو اشعار اور اقوال کی صورت میں عام آدمی تک پہنچایا جارہا ہے۔ اسی محبت والی سرزمین سندھ میں 1979ء میں جنم لینے وال فقیرا مینگوار المعروف فقیرو سائیں ضلع ٹنڈو الہ یارک ا رہائشی ایک بے مثال مجسمہ ساز آرٹسٹ اور ڈرائنگ ماسٹر ہے، جس نے پاک سنگھار یونین کونسل ٹنڈو الہ یار سے بنیادی تعلیم حاصل کی اور ایس ایم کالج ٹنڈو الہ یار سے انٹر کیا۔

فقیرو سائیں کے دادا بیکھا رام گجرات انڈیا کے علاقے سنوا سے ہجرت کر کے پاکستان آئے اور فقیرو سائیں کے والد کھیم چند کے ساتھ سندھ میں سکونت اختیار کی۔ بیکھا رام بنیادی طور پر روایتی مذہبی معماری کا کام کرتے تھے اور مندروں میں مورتیاں اور مجسمے بنانے کے ساتھ ساتھ مندوں کی ڈرائنگ نیز تعمیر ونقاشی کا مہین کام بھی کرتے تھے۔

فقیرو سائیں کے بڑے بھائی مان سنگھ، جو اب مقامی سرکاری اسکول میں ٹیچر ہیں، کے ساتھ شروع شروع میں فقیرو سائیں نے اپنا ہاتھ سیدھا کرنا شروع کیا، چوںکہ یہ ان کا خاندانی وراثتی فن بھی ہے لہذا بڑے بھائی نے فقیرو سائیں کو بنیادی اصول وضوابط سکھائے۔ 1990ء میں فقیرو سائیں محض گیارہ سال کی عمر میں مجسمہ سازی کے فن کے بارے میں بہت کچھ جان چکے تھے۔ ایک خاص قسم کی تڑپ اور جستجو نے فقیرو سائیں کو نت نئے تجربات پر مائل کیا۔

روایتی طو ر پر سیمنٹ اور پلاسٹر آف پیرس کے آمیزے سے بنائے جانے والے مجسمے اور دیوار گیر شبیہیں فقیرو سائیں کو وزن اور استعمال میں ثقیل لگیں تو انہوں نے کام میں بدلاؤ لانے کا فیصلہ کیا۔ فقیرو سائیں کو روایتی مجسمہ سازی کی بجائے جدت نے اپنی طرف مائل کیا اور مشرقی اور مغربی آرٹ کی تیکنیک کے ملاپ سے وہ نئی باریکیوں سے روشناس ہوئے۔ ایسے میں کراچی میں ایک ٹھیلے سے اطالوی آرٹ کی کتاب خریدتے ہوئے فقیرو سائیں نے فیصلہ کیا کہ وہ رئیلسٹک آرٹ پر ہی اپنی توجہ مرکوز رکھیں گے۔ انہیں نام ور اطالوی مجسمہ ساز مائیکل انجلو (1475تا 1564) برنینی (1598تا1680) نے اتنا متاثر کیا کہ انہوں نے ان کو اپنا روحانی استاد مان لیا۔

فقیرو سائیں کو روایتی ہندوستانی تھیم آرٹ متاثر نہ کرسکا تو انہوں نے اپنے کام میں بدلاؤ کا آغاز کیا، کیوں کہ وہ اطالوی فن اپنا چکے تھے، لہٰذا فائبر گلاس کو پلاسٹر آف پیرس کی جگہ بطور میٹریل استعمال کرنا شروع کردیا۔ فائبر گلاس نہ صرف ہلکا بل کہ استعمال میں مضبوط بھی ہے، لہٰذا فقیرو سائیں نے 1997ء میں سیمنٹ اور پلاسٹر آف پیرس کا بطور میٹریل استعمال ترک کردیا۔

فقیرو سائیں نے زیادہ تر مذہبی مجسمہ سازی کی ہے اور سندھ و بلوچستان کے مختلف علاقوں میں مندوں اور چرچ میں اپنے تخلیق کردہ شاہ کار مجسموں کی صورت آویزاں کیے ہیں۔ رئیلسٹک آرٹ کی بدولت فقیرو سائیں کی نظر میں ان کے کام کے ساتھ مزید تجربات بھی ہوتے رہے، وہ اپنے فن میں مزید نکھار بھی لاتے رہے اور جزئیات کو تیکینکی طور پر نئے انداز سے پیش کرتے رہے۔ اپنے استاد نظام الدین ڈاہری سے 1993ء اپنے بھائی کے ساتھ ڈرائنگ اور پینٹنگز کے بنیادی اصول و ضوابط کو پختہ کرنے کے ساتھ کچھ نئے طریقے بھی سیکھے۔ اپنے اساتذہ کرام احمد علی منگنہار، جو کہ ڈرائینگ اور اناٹومی کے استاد بھی ہیں اور ٹنڈو الہ یار کے رہائشی بھی، نیز محمد علی تالپور جو کہ این سی اے میں پروفیسر اور سائیں فتح علی ہالیپوتو، جو کہ حیدرآباد کے باسی ہیں، سے فقیرو سائیں کو سیکھنے کا بہت موقع ملا۔

بعض ناگزیر وجوہات کی بنا پر تعلیم کا سفر جاری نہ رکھنے کا قلق فقیرو سائیں کو بے چین کیے رکھتا اور کوئی آرٹ اسٹوڈیو نہ ہونے کی وجہ سے بھی فقیرو سائیں کو بڑا کام کرنے کا موقع نہ ملا۔ اسی اثناء میں ان کی ملاقات معروف خاتون مجسمہ ساز حمرا عباس سے ہوئی، جنہوں نے مجسمہ سازی کی تیکنیکی تبدیلیوں سے فقیرو سائیں کو روشناس کروایا۔ فقیرو سائیں نے ریلیف آرٹ جو کہ آرٹ کی وہ قسم ہے جس میں پس منظر ٹھوس حالت رکھتے ہوئے اس میں مجسمے کو ابھارا جاتا ہے اور وہ آرام دہ حالت میں ہوتا ہے۔

ریلیف آرٹ کا کام فقیرو سائیں نے بے تحاشہ کیا ہے جب کہ رئیلسٹک آرٹ 3Dصور ت میں ہوتا ہے۔ مذہبی نوعیت کی مجسمہ سازی کے علاوہ فقیروسائیں نے باقی ماندہ کام جو کہ ان کے بہ قول 20 فی صد ہے ان کی ذاتی دل چسپی کا اظہار ہے۔ فقیرو سائیں نہایت باریک بیں اور حیرت انگیز مجسمہ ساز ہیں جو کہ قدرت کی عطا کردہ بے مثال صلاحیتوں سے مالا مال ہیں ان کے بنائے ہوئے مجسمہ اپنی اپنی جگہ پر شاہ کار ہیں اور یہ غیرمعمولی صلاحیتوں کے حامل فقیرو سائیں کی بے مثال تخلیقی کاوش ہے۔ منہ بولتا شاہ کار بھی ہیں۔

فقیروسائیں نے سنیما کے بل بورڈ اور ہورڈنگز بھی بنائے ان کو اپنی پہلی نمائش کا موقع 2006ء میں ملا جب انہوں نے اپنی استاد حمرا عباس کے اشتراک سے لاہور میں اپنی تخلیقات کو فن کے قدر شناسوں کے لیے پیش کیا اور2007ء میں وہی کام حمرا عباس کے ساتھ استنبول ترکی میں پیش کیا۔ 2008ء کینوس گیلری کراچی میں فورمین شو میں اپنا آرٹ ورک پیش کیا، جب کہ 2010ء میں اپنے استاد سائیں فتح ہالیپوتو کے دیگر 10شاگردوں کے ساتھ سندھ میوزیم حیدرآباد میں پیش کیا ان کا یہی آرٹ ورک 2010 ء میں کراچی کی وی ایم گیلری میں پیش ہوا، جب کہ 2014 میں کوئل گیلری میں ان کے شاہ کار نمائش کے لیے پیش کیے گئے۔

نومبر 11سے 19تک نیپال میں ہونے والی عالمی نمائش میں اپنے نومولود بچے کی طبیعت ناساز ہونے کی وجہ سے شرکت نہ کرنے کا فقیروسائیں کو قلق ہے۔ انہوں نے 315کے قریب مجسمے بنائے ہیں اور اپنی بے مثال مہارت کی وجہ سے اپنے مداحوں کو ششدر کردیتے ہیں۔ 2007ء میں ان کے والد کھیم چند دیہانت کرگئے تو انہوں نے آرکیٹکچر کا کام سنبھال لیا اور سندھ اور بلوچستان کے مختلف مندروں اور چرچوں میں اپنے فن کے جوہر دکھانے شروع کردیے۔

فقیرو سائیں کو فن کے دل دادہ لوگ پاکستانی مائیکل انجلو کے لقب سے یاد کرتے ہیں، جب کہ فقیرو سائیں اپنی عاجزانہ طبیعت اور سادگی سے خود کو اپنے روحانی استاد کا ایک ادنیٰ شاگرد سمجھتے ہیں۔ ان کے 8 بھائی اور چار بہنیں ہیں اور وہ بہن بھائیوں میں چوتھے نمبر پر ہیں۔ فقیروسائیں کا بڑا بیٹا 8سال جب کہ چھوٹا بیٹا سوا مہینہ کا ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ اگر ان کے بچوں میں سے کوئی فطری آرٹسٹ ہے تو ٹھیک، ورنہ وہ کوئی بندش نہیں لگائیں گے کہ ان کی اولاد آرٹسٹ ہی بنے۔ فقیرو سائیں اپنے نام کی طرح ایک درویش منش اور سادہ طبع آدمی ہیں۔ ان کی سادگی اور سچائی ان کے فن سے بے ساختگی سے اپنا اظہار کرتی ہے اور دیکھنے والے کو مبہوت کردیتی ہے۔

فقیرو سائیں کا ایک چھوٹا سا ذاتی اسٹوڈیو بھی ہے، مگر یہ ان کے لاجواب تخلیقی کام کے لیے بہت ہی چھوٹا ہے۔ ان کی خواہش ہے کہ وہ اپنا فن آرٹ کے دل دادہ اور شائق لوگوں تک پہنچائیں مگر ان کے محدود وسائل اور اسٹوڈیو کی عدم دست یابی ان کی اس خواہش کے آڑے آجاتی ہے۔ ان کو اس طرح کی پذیرائی نہیں مل سکی جس کے وہ حق دار ہیں جب کہ سرکاری سطح پر بھی ان کی کسی قسم کی سرپرستی تو دور کی بات ان کی حوصلہ افزائی تک نہیں کی گئی۔ وطن عزیز میں دیگر ناقدریوں کے ساتھ ساتھ فن کاروں کی ناقدری ہمارے جمالیاتی ذوق کے انحطاط کا واضح ثبوت ہے۔ انتہائی سادہ فقیرو سائیں کراچی لاہور اور اسلام آبادسے پرے ہونے کی وجہ سے کوئی لابی بنانے سے بھی قاصر ہیں۔ انہیں پاکستان خصوصاً سندھ سے عشق ہے اور وہ اپنی اس محبت پر نازاں ہیں۔

مٹی سے والہانہ محبت کی وجہ سے فقیروسائیں ہجرت کرنے سے قاصر ہیں۔ انہیں کسی قسم کی مذہبی اور نسلی تفریق کا سامنا نہیں ہے۔ ان کے محبت کرنے والے ان کے دوست احباب، قدردان اور رشتے دار ان کے فن اور عمر کے لیے دعا گو ہیں۔ فقیروسائیں اپنی فن کا مستقبل روشن دیکھنے کی امید لیے اپنے شاہ کار تخلیق کرنے میں مگن ہیں، مگر محدود وسائل اور ارزاں نرخ ان کے فن کی ناقدر ی کا واضح ثبوت ہے۔ ان کی خواہش ہے کہ اندرون سندھ ایک ایسا اسٹوڈیو کا آرٹ اسکول بنایا جائے، جہاں یہ فن آنے والے نسلوں تک منتقل کر سکے میوزیم کی بے انتہا ضرورت ہے مگر ۔۔۔۔۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔