سیاسی کہانی

نصرت جاوید  بدھ 26 دسمبر 2012
nusrat.javeed@gmail.com

[email protected]

میں یہ کالم لکھتے ہوئے ہمیشہ فرض کیے ہوتا ہوں کہ ہمارے اخبارات کو ذرا تفصیل سے پڑھنے والے میرے جیسے محض رپورٹر لکھاریوں سے کہیں زیادہ ذہین ہوا کرتے ہیں۔اسی مفروضے کو ذہن میں رکھتے ہوئے میں نے گزشتہ چند ماہ سے تواتر کے ساتھ اس منصوبے کا ذکر دہرانا شروع کر دیا تھا جو 2013ء کے ابتدائی مہینوں میں صاف ستھرے انتخابات کے ذریعے ایک اور جمہوری حکومت کے بجائے کم از کم تین سال کے لیے ’’ اہل ،دیانت دار اور محب وطن ٹیکنوکریٹس ‘‘ کو اقتدار میں لانے کے لیے بنایا جا رہا تھا ۔ اس منصوبے کا ذکر کرتے ہوئے میں نہ تو یہ اصرار کر رہا تھا کہ چاہے کچھ ہو جائے ٹیکنوکریٹس کی یہ حکومت بن کر رہے گی اور نہ ہی اس بات کا اظہار کہ پاکستان کے تمام مسائل کا واحد حل ایسی حکومت کا قیام ہی رہ گیا ہے ۔ میں تو اپنے تئیں صرف اسلام آباد کے طاقتور اور امیر گھروں میں سجائی جانے والی محفلوں میں اس ممکنہ حکومت کے بارے میں ہونے والی گفتگو کا خلاصہ پیش کر رہا تھا ۔ مگر میرے انداز ِتحریر میں یقینا کوئی ٹھوس خامی رہ گئی جو ’’اصل بات ‘‘ کو قارئین تک پوری طرح پہنچا نہیں پائی ۔ اس خامی کو دور کرنا میرا فرض ہے اور میں اسے نبھانے کی ہر ممکن کوشش کروں گا۔

پاکستانی سیاست کے بارے میں ایمان افروز خطابت سے اجتناب برت کر فی الحال تو آغاز اس حقیقت کے اعتراف سے کرنا ہو گا کہ ہماری ضرورت سے زیادہ پھیلی ہوئی ریاست کے جو اخراجات ہیں وہ اس ملک کے اندر لگائے گئے محاصل کو اکٹھا کرنے کے بعد پورے نہیں کیے جا رہے۔1950ء کی دہائی سے ہمارے ملک کی تنخواہ دار اشرافیہ نے خواہ وہ وردی میں ہو اس کے بغیر یہ طے کر لیا کہ ہماری ریاست کے مجموعی اخراجات اور آمدنی کے درمیان جو فرق ہے اسے سرد جنگ کے دوران سوویت یونین کے خلاف قائم کیے گئے مغربی ملکوں کے اتحاد کی ترجیحات کے حصول کا آلہ کار بن کر پورا کیا جائے ۔ جنرل ضیا ء الحق کی قیادت میں برپا کیے جانے والا ’’ افغان جہاد ‘‘ اس سوچی سمجھی پالیسی کا نقطہ معراج تھا ۔ پھر سوویت یونین ٹوٹ گیا اور سرمایہ دارانہ ملکوں کے بنائے ہوئے اتحاد کے اہداف پورے ہو گئے ۔ ان اہداف کو پوراکر لینے کے بعد امریکنوں کو اچانک یاد آگیا کہ پاکستا ن تو ان کی خواہشات کے بالکل برعکس ’’ چوری چوری ‘‘ ایٹمی ہتھیار بنا رہا تھا۔

ہمارے اوپر بہت ساری اقتصادی پابندیاں عائد کر دی گئیں۔ اقتصادی پابندیوں کے اسی موسم میں پاکستانی ریاست کے پاس بڑے امکانات موجود تھے جن کا فائدہ اٹھاتے ہوئے ہم اپنی ریاست کی ضرورتوں کو پورا کرنے والے محاصل جمع کرنے کی صلاحیت کو بھر پور طریقے سے استعمال کر سکتے تھے مگر ایسا نہ ہو سکا ۔ محترمہ بے نظیر بھٹو اور نواز شریف ایک دوسرے کی حکومتوں کے خلاف تخت یا تختہ قسم کی جنگوں میں مبتلا رہے ۔ ان کی اس جنگ میں مصروفیت نے عسکری اشرافیہ کو اپنا کھیل رچانے کا پورا موقع فراہم کرتے ہوئے مزید مضبوط بنا دیا ۔ اسی مضبوطی کی بدولت جنرل مشرف کو اقتدار پر قابض ہونے کے بعد ’’ مارشل لاء ‘‘ کا لفظ استعمال کرنے کی ضرورت ہی نہ پڑی ۔ انھوں نے بد عنوان سیاستدانوں کے لیے ’’ کڑے احتساب ‘‘کے لیے جنرل امجد کو مامور ضرور کیا مگر احتساب کے لیے فوجی عدالتوں کے قیام کا تردد نہ کیا۔

میڈیا کے بارے میں بھی ان کا رویہ تقریباً دوستانہ رہا اور پھر 9/11 ہو گیا ۔ افغانستان کے حوالے سے امریکا کو ایک بار پھر پاکستان کی ضرورت پڑ گئی ۔ جنرل مشرف نے اپنے اقتدار کو طول دینے کے لیے اس کا بھر پور فائدہ اٹھایا ۔ شاید وہ اب بھی ہمارے مائی باپ ہوتے مگر ستمبر 2005 سے امریکنوں کو شک ہونا شروع ہو گیا کہ وہ اور پاکستان کی عسکری اشرافیہ طالبان کے خلاف جنگ کے سلسلے میں Double Gaming کر رہے ہیں ۔ جب یہ شک یقین میں بدل گیا تو محترمہ بے نظیر بھٹو کی ضرورت محسوس ہوئی ۔ NRO کروایا گیا ، مگر NRO کے ذریعے جو حاصل کرنا تھا اسی دن سے نا ممکن نظر آنا شروع ہو گیا جب محترمہ کو راولپنڈی میں شہید کر دیا گیا ۔ اس کے بعد انتخابات تو ضرور ہوئے مگر ان کے نتائج نے ایک مخلوط حکومت کا تقاضہ کیا ۔ نواز شریف ان تقاضوں کو پورا کرنے کو تیار نہ ہوئے تو آصف علی زرداری نے قومی مفاہمت کی گردان کرتے ہوئے بالآخر ’’ قاتل لیگ ‘‘ کو بھی گلے لگا لیا ۔ بھان متی کا جو کنبہ گزشتہ چار برسوں سے اس ملک پر حکومت کر رہا ہے وہ بس پنجابی محاورے والا ’’ ڈنگ ٹپانا ‘‘ہے ۔ وہ کچھ کرنا بھی چاہے تو ہمارا بے باک میڈیا اور بعض دوسرے طاقتور ادارے اس کی راہ میں آ جاتے ہیں ۔نتیجتاً لوگ پریشان ہیں ۔ بجلی اور گیس کا بحران ہے ۔ معیشت جامد ہے ۔ مہنگائی ہے۔ بے روزگاری ہے۔

ان تمام مسائل کا حل کوئی دینے کو تیار نہیں ہے۔جن کے پاس شفا بخش نسخے ہیں وہ ان پر عمل درآمد کرنے کی ہمت نہیں کر پاتے ۔ ایسے میں شام کے سات بج جاتے ہیں اور رات بارہ بجے تک میرے جیسے اینکرز سرخی پائوڈر لگا کر اپنے دکھوں کا سیاپا کرتے ہوئے کسی مسیحا کے انتظار کا ماحول بنا دیتے ہیں۔عمران خان نے تلاشِ مسیحا کے اس عمل کا بھر پور فائدہ اٹھایا ۔ ہماری ریاست کی تنخواہ دار اشرافیہ اس کے ’’ ظہور ‘‘ پر شروع شروع میں بہت خوش ہوئی۔ مگر آہستہ آہستہ انھیں یہ خوف لاحق ہو گیا کہ جمہوری عمل میں پوری طرح شریک ہو کر عمران خان نئے انتخابات کے بعد بھٹو اور نواز شریف جیسا مقبول ، Charismatic لیکن اپنی من مانی کرنے والا حکمران بن سکتا ہے ۔ ہمارے ’’ دائمی حکمرانوں ‘‘ کو ایسے رہنما پسند نہیں آیا کرتے۔

ان کی اپنی پالیسیاں ہوتی ہیں جنھیں وہ سنا ہے Collective Wisdom کے ذریعے بنایا اور پھر Institutional ذرایع سے چلایا کرتے ہیں ، شیخ الاسلام طاہر القادری اس موقع پر کسی زمانے کی ’’ نواب ٹیوب ویل ‘‘ کی طرح واحد حل نظر آ رہے ہیں ۔ وہ 14 جنوری کو 40 لاکھ نہ سہی ایک لاکھ آدمی لے کر بھی اسلام آباد آ گئے تو پوری دنیا میں واویلا مچ جائے گا ۔ پاکستان کے دارالحکومت میں ’’ التحریر اسکوائر ‘‘ بنا تو صدر آصف علی زرداری کے پاس اس کے سوا کوئی راستہ ہی نہیں رہے گا کہ وہ خود جنرل کیانی سے درخواست کریں کہ وہ اس صورت حال کو بہتر کرنے کا کوئی منصوبہ بنائیں۔

جب فوج سے کسی نسخے کی درخواست کی جائے گی تو اس پر عمل بھی وہی کروائے گی تا کہ مریض پوری طرح شفا یاب ہو سکے ، نسخہ بننے کے بعد اس کا استعمال شروع ہوا توشیخ الاسلام ڈاکٹر طاہرالقادری ’’ کچھ دنوں کے لیے ‘‘ دوبارہ کینیڈا چلے جائیں گے اور ہمارے نصیب میں حفیظ شیخ یا ان جیسے ’’ اہل ‘ایمان دار اور محب وطن ٹیکنو کریٹس ‘‘ رہ جائیں گے ۔ ہم تم ہوں گے۔ ’’ عبوری قومی حکومت ‘‘ ہو گی ۔ رقص میں سارا میڈیا ہو گا ۔ مگر یہ سب کچھ اسی صورت میں ہو گا اگر۔۔۔۔اور اس ’’ اگر ‘‘ کی کہانی پھر سہی۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔