بے نظیر بھٹو۔۔۔ ایک تعارف

محفوظ النبی خان  منگل 27 دسمبر 2016
18 اکتوبر 2007ء کو وہ  وطن واپس آئیں۔ فوٹو: فائل

18 اکتوبر 2007ء کو وہ وطن واپس آئیں۔ فوٹو: فائل

بے نظیر بھٹو نے کراچی میں 21 جون 1953ء کو آنکھ کھولی۔ اِسی شہر سے ان کی تعلیم کا سلسلہ شروع ہوا اور پھر راول پنڈی کے کانونٹ اسکول میں داخل کروا دی گئیں۔ بعد ازاں کانونٹ اسکول مری میں تعلیمی سفر آگے بڑھا۔ پاکستان میں ابتدائی تعلیمی مدارج طے کرنے کے بعد اعلیٰ تعلیم کے لیے امریکا چلی گئیں۔ 1969ء سے 1973ء تک وہ ریڈکلف کالج اور ہاورڈ یونیورسٹی میں زیرِ تعلیم رہیں۔ اگلے تعلیمی مرحلے میں انہوں نے آکسفورڈ یونیورسٹی میں قدم رکھا۔ یہاں سے ’’بین الاقوامی قانون اور ڈپلومیسی‘‘ کا کورس مکمل کیا اور اسی سال آکسفورڈ کے ایک کالج میں داخلہ لے لیا۔ اس کالج سے فلسفہ، سیاسیات اور معاشیات کی تعلیم مکمل کی۔ 1976ء میں وہ آکسفورڈ یونین کی صدر بھی منتخب ہوئیں۔

پیپلز پارٹی کے بانی اور ملک کے وزیراعظم شہید ذوالفقار علی بھٹو کی سیاسی زندگی میں اتار چڑھاؤ اور اس سفر میں مشکلات کو نہ صرف قریب سے دیکھنے کا موقع ملا بلکہ اقتدار کے ایوان سے جیل منتقل کیے جانے اور پھر پھانسی تک بے نظیر بھٹو نے خود بھی نہایت کڑے اور کٹھن حالات کا سامنا کیا اور مشکلات کا مقابلہ کرتی رہیں۔

1977ء میں جنرل ضیاء الحق نے ذوالفقار علی بھٹو کی حکومت کا تختہ الٹا تو بے نظیر کی والدہ نصرت بھٹو نے پارٹی کی قیادت سنبھالی۔ اس دوران بے نظیر بھٹو تعلیم مکمل کر کے پاکستان واپس آگئیں اور وہ بھی آمر کے عتاب کا نشانہ بنیں۔ انہیں گھر میں نظر بند کر دیا گیا تھا۔ بعد کے برسوں میں انہوں نے باقاعدہ پارٹی قیادت سنبھالی اور ملک میں جمہوریت کی بحالی کی جدوجہد شروع کی۔ ضیا الحق کے بعد جماعتی انتخابات کے نتیجے میں وہ پاکستان کی پہلی خاتون وزیراعظم بنیں اور دو بار اس منصب پر فائز ہوئیں۔

اپنے دورِ حکومت میں بے نظیر بھٹو نے خواتین کی بہبود بالخصوص ان کی صحت کے حوالے سے اہم پالیسیاں بنائیں اور اقدامات بھی کیے۔ عورتوں کے خلاف متعدد امتیازی قوانین کا خاتمہ بھی انہی کا کارنامہ ہے۔ بے نظیر بھٹو وومن پولیس اسٹیشن، عدالتیں اور ترقیاتی بینک قائم کرنے کا منصوبہ رکھتی تھیں، تاہم انہیں دونوں مرتبہ اقتدار سے الگ کیا گیا اور وہ اپنے منصوبوں پر مکمل طور پر عمل درآمد نہ کرسکیں۔ 2002ء کے عام انتخابات میں بے نظیر بھٹو ملک میں آکر اپنی پارٹی کی قیادت نہ کرسکیں، تاہم ان کی غیر موجودگی میں پارٹی نے الیکشن میں حصہ لیا۔

18 اکتوبر 2007ء کو وہ  وطن واپس آئیں۔ وہ 2008ء کے عام انتخابات میں بھرپور انداز میں حصہ لینے کا ارادہ رکھتی تھیں، مگر لیاقت باغ کے سانحے میں ان کی زندگی کا باب ہمیشہ کے لیے بند ہو گیا۔ جمہوریت کی بقا، اس کی خاطر قربانیوں، انسانی حقوق کے تحفظ، صنفی امتیاز کے خاتمے اور عوام دوست نظریات کے باعث انہیں تاریخ ہمیشہ یاد رکھے گی۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔