زمانہ آج بھی روتا ہے جانے والے کو۔۔۔

عارف عزیز  منگل 27 دسمبر 2016
اقوام متحدہ کی رپورٹ جاری ہونے کے بعد پرویزمشرف سمیت دیگر ذمہ داروں کے خلاف کارروائی کا فیصلہ کیا گیا۔  فوٹو: فائل

اقوام متحدہ کی رپورٹ جاری ہونے کے بعد پرویزمشرف سمیت دیگر ذمہ داروں کے خلاف کارروائی کا فیصلہ کیا گیا۔ فوٹو: فائل

سورج کی کروڑوں کرنیں زمین پر اتریں، آسمان پر چاند چمکا اور جنم لینے والی بے شمار راتوں کا وجود تاریکی میں تمام ہو گیا، مگر بے نظیر بھٹو کے قاتل بے نقاب نہ ہوسکے، بھٹو خاندان کو انصاف نہ مل سکا۔

سانحے کے بعد جائے حادثہ پر تحقیقات کا آغاز ہوا، تفتیش شروع ہوئی، گواہوں کی طلبی اور بیانات، گرفتاریاں، ملزمان کی پیشی اور فردِ جرم بھی عائد کی گئی۔ اسی عرصے میں اقتدار کے ایوانوں میں تبدیلی آئی، اداروں اور انتظامی امور کے کرتا دھرتا بدلے گئے۔ اب طاقت اور اختیار کسی اور کے ہاتھوں میں تھا۔ مقامی تفتیشی اداروں کے بعد اسکارٹ لینڈ یارڈ اور پھر اقوامِ متحدہ کی ٹیم نے بھی بے نظیر بھٹو کے قاتلوں کے کھوج میں جائے حادثہ کا رخ کیا، لیکن یہ سب بے نتیجہ ثابت ہوا۔ شہید بے نظیر بھٹو کی نویں برسی پر ایک مرتبہ پھر یہی سوال ہمارے سامنے ہے کہ قاتل کون ہے؟

پاکستان میں آمریت کے سیاہ دور کے خاتمے کے حوالے سے جدوجہد اور قربانیوں کی وجہ سے نہ صرف ملک میں محترمہ بے نظیر بھٹو کو نہایت قدر اور احترام کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے بلکہ دنیا بھی ان کی جمہوریت کے لیے خدمات اور قربانیوں کا اعتراف کرتی ہے۔ تاہم ملک کے کروڑوں عوام میں مقبول اور جیالوں کی محبوب لیڈر کا قتل ہنوز ایک معما ہے۔ ان نو برسوں میں ملک کی سیاسی صورتِ حال یک سر بدل چکی ہے، ریاست کو دہشت گردی سمیت کئی چیلنجز کا سامنا ہے۔

پاکستان پیپلز پارٹی شہید لیڈر کے بیٹے بلاول بھٹو زرداری کی قیادت میں اپنا سیاسی سفر شروع کرچکی ہے اور کہا جارہا ہے کہ وہ اپنی والدہ شہید بے نظیر بھٹو کے روایتی حلقۂ انتخاب این اے 207 سے الیکشن لڑنے کا اعلان کریں گے۔ پارٹی کے شریک چیئرمین آصف علی زرداری ڈیڑھ سال بیرونِ ملک قیام کے بعد چند روز قبل ہی وطن لوٹے ہیں۔ ان کے استقبال کے لیے جیالوں کی بڑی تعداد ایئرپورٹ پر موجود تھی اور ہر طرف بھٹو، بھٹو کے نعرے گونج رہے تھے۔

اس موقع پر آصف علی زرداری نے شہید لیڈر کی طرح جمہوریت کے دفاع کا عزم دہرایا اور کہا کہ ہم شہید لیڈر کی قربانی کو رائیگاں نہیں جانے دیں گے، لیکن  2007ء میں قتل کے بعد سانحے سے متعلق تحقیق اور تفتیش کا جو سلسلہ شروع ہوا تھا، وہ آج تک بے نتیجہ ہے۔ اس حوالے سے گزرے ہوئے برسوں میں تحقیقات اور تفتیش کا سلسلہ کچھ اس طرح جاری رہا۔

سانحے کے ابتدائی چند گھنٹوں بعد میڈیکل کالج کے ماہرین پر مشتمل ٹیم نے جنرل اسپتال میں بے نظیر بھٹو کا طبی معائنہ کیا اور بتایا کہ موت کی وجہ سَر پر لگنے والی گولی ہے، مگر اگلے ہی روز یہ کہا گیا کہ بے نظیر بھٹو کا سَر کسی سخت چیز سے ٹکرایا تھا، جس سے موت واقع ہوئی۔ 4 جنوری 2008ء کو اسکاٹ لینڈ یارڈ کی ایک ٹیم نے تحقیقات کے بعد کہاکہ بے نظیر بھٹو کی موت کی وجہ براہِ راست گولی یا جلسہ گاہ میں ہونے والا دھماکا نہیں بلکہ حملے کے فوری بعد ان کا سَر کسی چیز سے ٹکرانا تھا۔ پاکستان پیپلز پارٹی نے اسکاٹ لینڈ یارڈ کی رپورٹ مسترد کردی۔ 29 ستمبر 2012ء کو ایک اور بات سامنے آئی۔ بم ڈسپوزل اسکواڈ کی جانب سے عدالت کو بتایاگیا کہ بے نظیر بھٹو کی موت کی وجہ خودکُش دھماکا تھا۔

سانحے کے اگلے برس یعنی 2008ء میں اعتزاز شاہ کا نام سامنے آیا جو اس کیس میں پولیس کے زیرِ حراست پہلا ملزم تھا۔ اس کے اقبالی بیان پر رفاقت، حسنین، عبدالرشید اور شیر زمان کی گرفتاری عمل میں لائی گئی۔ راول پنڈی کی انسدادِ دہشت گردی کی خصوصی عدالت میں ملزمان پر فردِ جرم عاید کی گئی۔ بعد میں اعتزاز شاہ اور طالبان کمانڈر بیت اللہ محسود کے مابین ٹیلی فونک گفتگو کا دعویٰ بھی کیا گیا، مگر قتل کے اصل ملزمان بے نقاب نہ ہوسکے۔ حکومتِ وقت قتل کی تحقیقات برطانوی ادارے اسکاٹ لینڈ یارڈ سے کرانے کا فیصلہ کیا۔

ادھر پیپلز پارٹی کا مطالبہ سامنے آیا کہ قتل کی تحقیقات اقوام متحدہ سے کرائی جائیں اور 22 مئی 2008ء کو اس حوالے سے اعلان کردیا گیا۔ یہ وہ وقت تھا جب پیپلز پارٹی  2008ء کے عام انتخابات میں کام یاب ہونے کے بعد وفاق میں حکم راں تھی۔

15 اپریل 2010ء کو اقوام متحدہ کے کمیشن کی رپورٹ منظرِ عام پر آئی، جس کے مطابق حکومت بے نظیر بھٹو کو مکمل سیکیورٹی فراہم نہ کرسکی جب کہ پیپلز پارٹی کی جانب سے بھی حفاظتی بندوبست ناقص تھا۔ ایک سیکیورٹی انچارج کو بھی اس حوالے سے غافل قرار دیا گیا۔ اسی طرح سی پی او راولپنڈی کے فرائض کی انجام دہی پر بھی سوال قائم کیا گیا تھا۔ کمیشن نے اپنی رپورٹ تیار کرنے کے لیے 250 افراد کے انٹرویوز کیے تھے۔ کمیشن کا کہنا تھا کہ یہ سوال اہمیت رکھتا ہے کہ لاش کا پوسٹ مارٹم کیوں نہیں کرایا گیا؟

کمیشن کے سربراہ کے مطابق اس بات کے کوئی شواہد نہیں کہ اس قتل میں خاندان کا کوئی فرد ملوث ہے۔ اس رپورٹ کو پی پی پی نے عجلت کا نتیجہ بتایا۔ 2010ء میں بے نظیر کی تیسری برسی پر آصف علی زرداری نے کہا کہ اقوام متحدہ کی رپورٹ پر تحفظات ہیں، اس کے ساتھ انہوں نے پرویز مشرف پر الزام لگایا کہ بے نظیر کو وطن واپسی پر تحفظ نہیں دیا گیا۔

اقوام متحدہ کی رپورٹ جاری ہونے کے بعد پرویزمشرف سمیت دیگر ذمہ داروں کے خلاف کارروائی کا فیصلہ کیا گیا۔ اپریل 2010ء میں 9 افراد کے بیرون ملک جانے پر پابندی لگائی گئی جب کہ مختلف افسران کی تنزلی کے علاوہ ان میں سے چند کو کام کرنے سے بھی روک دیا گیا۔ قتل کے بعد جائے حادثہ کو پانی سے دھو دیا گیا تھا اور اس پر سبھی نے حیرت کا اظہار کیا۔ یہ قتل کے شواہد اور ممکنہ ثبوت کو مٹا دینے کی کوئی کوشش تھی؟ اس حوالے سے بھی 24 اپریل 2010ء کو تحقیقاتی کمیٹی قائم کی گئی، لیکن کوئی ثبوت نہ مل سکا۔

اسی سال 25 مئی کو ڈائریکٹر ایف آئی اے خالد قریشی کی قیادت میں قتل کی ازسرنو تحقیقات کی گئیں، جس میں راول پنڈی پولیس کے 3 افسران بھی نام زَد کیے گئے۔ بیت اللہ محسود کا نام مرکزی ملزم کے طور پر لیا گیا اور بتایا گیا کہ سازش اکوڑہ خٹک میں تیار کی گئی تھی۔

13 دسمبر 2010ء کو ایف آئی اے کی جوائنٹ انویسٹی گیشن ٹیم نے اس وقت کے سی پی او سعود عزیز اور ایس پی خرم شہزاد کو باقاعدہ شامل تفتیش کر لیا۔ ان کی کمرۂ عدالت سے گرفتاری عمل میں لائی گئی اور چالان میں اعانت جرم، تحفظ فراہم نہ کرنے اور مجرمانہ غفلت کا مظاہرہ کرنے کے علاوہ دیگر الزام عاید کیے گئے۔ سابق صدر پرویز مشرف پہلی بار 7 فروری 2011ء کو بے نظیر قتل کیس میں مفرور قرار پائے۔ 12 فروری کو ان کے ناقابل ضمانت وارنٹ گرفتاری جاری ہوئے۔ اسی دن جوائنٹ انویسٹی گیشن ٹیم کی قیادت بھی تبدیل کردی گئی۔

تین مرتبہ وارنٹ جاری ہونے کے بعد انٹر پول کے ذریعے گرفتاری کا حکم دیا گیا جس پر بتایا گیاکہ وہ جس ملک میں ہیں اس کے ساتھ ملزمان کی حوالگی کا کوئی معاہدہ موجود نہیں۔ 30 مئی 2011ء کو پرویز مشرف اشتہاری قرار دیا گیا اور بعد میں تمام جائیداد ضبط اور کھاتے منجمد کر دیے گئے۔ تاہم وہ 24 مارچ 2013ء کو وطن واپسی سے قبل ضمانتیں منظور کروانے میں کام یاب ہو گئے۔ 24 اپریل 2013ء کو پرویز مشرف کو اس مقدمے میں گرفتار کر لیا گیا۔

بے نظیر بھٹو قتل کیس میں امریکا میں موجود مارک سیگل نے بھی انسداد دہشت گردی کی خصوصی عدالت میں ویڈیو لنک کے ذریعے ایک بیان ریکارڈ کرایا تھا۔ اس کے مطابق محترمہ نے دھمکیوں کا بتایا تھا اور خدشہ ظاہر کیا تھا کہ 2007ء کے الیکشن سے پہلے پاکستان جائیں گی تو قتل کردیا جائے گا اور اس کے ذمے دار جنرل پرویز مشرف اور دیگر ہوں گے۔ اس حوالے سے تفتیش میں پرویز مشرف نے کسی بھی دھمکی کے الزام کو مسترد کیا۔ مقدمے کے سرکاری وکیل چوہدری ذوالفقار نے سیگل کے خط کا حوالہ دے کر کہاکہ بے نظیر بھٹو نے کہا تھا کہ انہیں سابق آرمی چیف پرویزمشرف سے جان کا خطرہ ہے۔ تاہم مئی 2013ء میں پرویز مشرف کی ضمانت ہو گئی۔

20 اگست 2013ء کو سات ملزمان سمیت مشرف پر فرد جرم عاید کر دی گئی۔ بعد میں امریکی صحافی مارک سیگل نے سابق صدر کے خلاف بہ طور گواہ پیش ہونے سے معذرت کر لی جب کہ قتل کیس میں پیروی کرنے والے وکیل کو 2013 ء میں اسلام آباد میں نامعلوم افراد نے قتل کردیا۔ پرویز مشرف کی وطن آمد کے بعد 2013ء میں دوبارہ اس کیس کی سماعت کا فیصلہ کیا گیا۔ تاہم اس وقت تک 25 گواہان کے بیانات غیر مؤثر ہوچکے تھے۔ 4 ستمبر 2013ء کو بلاول بھٹو کی طرف سے قتل کیس کی دوبارہ سماعت چیلنج کی گئی، جسے خارج کر دیا گیا۔ یوں 22 اکتوبر 2013ء کو اس مقدمے کی سماعت شروع ہوئی۔

عدالت نے 31 دسمبر 2014ء کو سماعت مکمل کرکے کیس کا فیصلہ سنانے کا حکم دیا، لیکن یہ نہ ہوسکا۔ اگلے سال یعنی 2015ء میں بھی یہی کہا گیا، لیکن یہ کیس تمام نہ ہوسکا اور مقدمہ طول پکڑتا جارہا ہے۔ پیپلز پارٹی کی جانب سے کہا جاتا رہا ہے کہ قاتلوں کو جانتے ہیں اور جلد انہیں بے نقاب کریں گے، لیکن اب تک اس حوالے سے کوئی اہم پیش رفت یا نام سامنے نہیں لایا گیا ہے۔ 1986ء میں بے نظیر بھٹو کی وطن واپسی پر شان دار استقبال کیا گیا اور اس کے بعد سیاست نے ایک نئی کروٹ لی۔

1988ء کے انتخابات میں اکثریت حاصل کرنے والی جماعت پیپلز پارٹی کی چیئرپرسن اب ملک کی پہلی خاتون وزیراعظم تھیں، لیکن 1990ء میں صدر غلام اسحاق خان نے ان کی حکومت برطرف کردی۔ 1993ء کے انتخابات میں بے نظیر بھٹو ایک مرتبہ پھر وزیراعظم منتخب ہوئیں اور اس بار بھی ان کی حکومت ختم کر دی گئی۔ یہ 1996ء کی بات ہے۔ اس بار صدر فاروق لغاری نے حکومت ختم کی تھی۔ 1997ء کے الیکشن کے بعد محترمہ کو جلا وطنی اختیار کرنا پڑی۔

بیرونِ ملک قیام کے دوران انہوں نے اپنی سیاسی سرگرمیاں جاری رکھیں اور اسی دوران ملک پر آمریت مسلط ہو گئی۔ جنرل پرویز مشرف سیاہ و سفید کے مالک بن بیٹھے۔ 18 اکتوبر 2007ء کو بے نظیر بھٹو وطن واپس لوٹیں تو ایک مرتبہ پھر ان کا شان دار استقبال کیا گیا۔ پیپلز پارٹی کی استقبالیہ ریلی میں کراچی میں بم دھماکا ہوا جس میں درجنوں افراد ہلاک اور سیکڑوں کی تعداد میں کارکن زخمی ہوئے۔ تاہم محترمہ محفوظ رہیں۔ بعد میں راول پنڈی میں انتخابی جلسے کا اعلان کیا گیا اور یہی محترمہ کی زندگی کا آخری سیاسی جلسہ ثابت ہوا۔

بے نظیر بھٹو شہید نے اپنے والد اور منتخب وزیرِ اعظم ذوالفقار علی بھٹو کو اقتدار کے ایوان سے جیل منتقل ہوتے دیکھا اور ان کی پھانسی کے بعد دلیری اور بہادری سے حالات کا مقابلہ کیا۔ محترمہ بے نظیر بھٹو نے بھی جیل اور مقدمات کا سامنا کیا۔ وہ شہید ذوالفقار علی بھٹو کے سیاسی نظریے اور عوامی خدمت کا مشن لے کر انتخابی میدان میں اتریں تو بھٹو خاندان کے چاہنے والوں اور عوام نے بھٹو کی بیٹی کو خوش آمدید کہا اور بھرپور پزیرائی کی۔ آج اسی عظیم راہ نما کی برسی منائی جارہی ہے۔ دنیا بے نظیر بھٹو کو ایک مدبر، دلیر اور بہادر لیڈر اور دور اندیش سیاست داں کے طور پر ہمیشہ یاد رکھے گی۔

 

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔