منٹو، شہیدِ جامِ و سبو

زاہدہ حنا  منگل 27 دسمبر 2016
zahedahina@gmail.com

[email protected]

یوں تو ہمارے یہاں خاکے بہت دنوں سے لکھے جارہے ہیں اور ادب کی نمایاں صنف کی حیثیت رکھتے ہیں۔ کچھ لوگوں نے خاکے نہیں لکھے لیکن دوسروں کے لکھے ہوئے خاکوں کو تلاش کیا اور انھیں مرتب کرکے پڑھنے والوں کے لیے پیش کیا۔ اس میں شاہد احمد دہلوی کا ’’گنجینہ گوہر‘‘ منٹو کا ’’گنجے فرشتے‘‘ رشید احمد صدیقی کا ’’گنج ہائے گرانمایہ‘‘ اور جگن ناتھ آزاد کی کتاب ’’آنکھیں ترستیاں ہیں‘‘ بطور خاص قابل ذکر ہیں۔

2016 میں راشد اشرف کی مرتب کردہ کتاب ’’اردو کے نادر و کم یاب شخصی خاکے‘‘ منظر عام پر آئی۔ یوں تو اس میں مولانا ابو الکلام آزاد سے فراق گورکھپوری، علی سردار جعفری اور ابنِ انشاء تک سب ہی کے ایسے خاکے اکٹھے کیے گئے ہیں جو وقت کی گرد میں کھو گئے تھے۔ ایک دل فگار خاکہ سعادت حسن منٹو کا ہے۔ منٹو کی صدی برصغیر میں دھوم دھام سے منائی گئی۔ ان پر کتابیں شائع ہوئیں، ڈرامے بنے، فلم سامنے آئی اور صدی گزر جانے کے بعد بھی ان کا ذکر ہوتا رہتا ہے۔

راشد اشرف نے اپنی کتاب میں ان کا وہ خاکہ منتخب کیا ہے جو ایک بڑی حد تک گم نام لکھنے والے حسن عباس کے قلم سے نکلا اور لاہور سے نکلنے والے سیارہ ڈائجسٹ میں جنوری 1971 کی اشاعت میں شایع ہوا اور بڑی حد تک گوشہ گیر ہی رہا۔ راشد اشرف کوششوں کے باوجود حسن عباس کے بارے میں بس اتنا ہی جان سکے کہ وہ پہلے لاہور میں رہتے تھے اور پھر زندگی کے آخری برس انھوں نے کراچی میں بسر کیے۔

حسن عباس 30 کی دہائی میں زندگی کرنے والے منٹو کا تعارف ہم سے کچھ اس طور کراتے ہیں کہ:یہ کوئی 38 برس ادھر کی بات ہے۔ ایک دبلے پتلے چھریرے بدن کے لڑکے نے مسلم ہائی اسکول امرتسر میں ایک اودھم سا مچا رکھا تھا۔ اس کے ہم جماعت اسے ٹومی کہہ کر پکارتے (جو لفظ منٹو کی انتہائی بگڑی ہوئی شکل ہے) تو اس کی کشتی نما آنکھوں میں کھٹی میٹھی شرارتیں جھلکیاں لیتی نظر آتیں۔ گورا چٹا رنگ، ذرا کھلتی ہوئی پیشانی، کتابی چہرہ، بانچھیں کھلی ہوئی سی، ناک کی پھنگی  پر تل کا نشان (اگر چہ وہ ناک پر کبھی مکھی بیٹھنے نہیں دیتا تھا)۔

وہ اکثر سفید پتلون نما پاجامہ قمیص یا کھدر کا کرتا پہنے اپنی نئی سائیکل اور مووی کیمرہ لیے اسکول کے آس پاس پھرتا رہتا۔ وہ اسکول کے متعلق نت نئی خبریں ایجاد کرتا اور موٹے موٹے شلجم کے ٹکڑوں پر کاپنگ پینسل سے لکھے ہوئے الٹے حروف کو کسی محلول کی مدد سے کاغذ کے پرزوں پر چھاپ کر علی الصبح نوٹس بورڈ پر چسپاں کردیتا۔ موقع پاتا تو ایک پرزہ ہیڈ ماسٹر کی جیب میں بھی ڈال دیتا۔ اس کی حرکتوں سے اسکول کی چار دیواری میں اکثر ایک ہنگامہ سا برپا رہتا۔

ایک اتفاقی ملاقات میں ہم دونوں باتوں باتوں میں آپس میں گھل مل گئے اور میں محض اس کی خاطر اپنا اسکول تبدیل کرکے اس کا ہم جماعت بن گیا… اسے ہالی وڈ کی اداکارہ گریٹا گاربو اور خاص کر مارلیم ڈیٹرش سے ان کی فن کارانہ صلاحیتوں کی وجہ سے والہانہ عقیدت تھی۔ وہ لون چینی اور بورس کارلوف کا بھی سخت مداح تھا اور اس میں کوئی شک نہیں کہ یہ اداکار جیتی جاگتی زندگی کو شیشے میں اتارنا خوب جانتے تھے۔

اس کا سیلولائڈ کی ان طلسمی صورتوں سے لگاؤ کچھ دیرپا ثابت نہ ہوا اور اشتراکی ادیب باری علیگ کی رفاقت کی وجہ سے وہ دفعتاً ادب کی طرف متوجہ ہوا اور ایک بوسیدہ کوچ پر لیٹے لیٹے اس نے دنوں میں وکٹر ہیوگو، فلابیئر، موپساں، ترگنیف، میکسم گورکی، دوستوفسکی، چیخوف اور دوسرے شہرہ آفاق مفکروں کی تخلیقات کا بخوبی مطالعہ کرلیا۔ اب اس کے اندر غورو فکر کا ایک نہ بجھنے والا الاؤ روشن ہونے لگا جس میں پگھل پگھل کر اسے ایک دن کندن بن جانا تھا۔

حس عباس ہمیں بتاتے ہیں کہ:منٹو آسکر وائلڈ سے سخت متاثر تھا اور انھیں دنوں اس کے ایک ناول کا ترجمہ ’سرگزشت اسیر‘ کے نام سے چھپ چکا تھا۔ اس نے اپنا پہلا طبع زاد افسانہ ’تماشا‘ لکھا جو جلیانوالہ باغ کے خونی حادثے سے متعلق تھا اور اس طرح وہ ادبی دنیا سے متعارف ہوگیا۔ ہم دونوں نے مل کر آسکر وائلڈ کے انقلاب روس سے متعلق مشہور ڈرامے ’ویرا‘ کا ترجمہ شایع کیا اور امرتسر کے بازاروں میں شہ سرخیوں سے بڑے بڑے پوسٹر لگادیے: ’’زاریت کے تابوت میں آخری کیل‘‘… مستبد حکمرانوں کا عبرت ناک انجام‘‘۔

یہ وہ زمانہ تھا جب بنگال میں دہشت پسندوں کی سرگرمیاں بڑے زوروں پر تھیں۔ بھگت سنگھ، دت اور چوہدری شیر جنگ اسی تحریک کے کرتا دھرتا تھے۔ پنجاب اسمبلی میں بم کے اچانک دھماکے نے صورت حال کو اور بھی بگاڑ دیا تھا۔ ہمارے پوسٹر کے منظر عام پر آتے ہی سی، آئی، ڈی فوراً حرکت میں آگئی اور ہماری تلاش میں منٹو کے گھر کا رخ کیا۔

اتفاق سے ان دنوں اس کے بہنوئی خواجہ عبدالحمید انسپکٹر پولیس رخصت پر آئے ہوئے تھے اور اسی کوچے میں رہائش پذیر تھے۔ وہ پولیس والوں سے ہماری ’دہشت پسندی‘ کا ماجرا سن کر بے اختیار ہنس دیے اور کہا کہ ’’یہ محض چند سرپھرے نوجوانوں کا ٹولہ ہے جو یونہی خون کی گرمی کی وجہ سے ذرا سنسنی خیز ہوگیا ہے، ورنہ سب کے سب سو فیصد بے ضرر ہیں‘‘۔ انھوں نے ہمارے آیندہ کردار کی پوری ذمے داری لی۔

حسن عباس یہ سوال بھی اٹھاتے ہیں کہ: کیا سعادت حسن منٹو نے کبھی عشق بھی کیا؟ میں اس بارے میں صرف اتنا کہہ سکتا ہوں کہ منٹو کو تو اس کی انا (جو حسن اتفاق سے بڑی حد تک اس کی انّا بن بیٹھی تھی) کبھی اس بات کی اجازت نہ دیتی، البتہ سعادت حسن کا معاملہ ذرا مشکوک سا ہے کیونکہ کالج کے زمانے میں وہ زلفِ پریشاں اور دیدۂ گریاں کا تھوڑا بہت قائل دکھائی دیتا تھا۔ مجھے یاد ہے کبھی کبھی وہ اپنی میز کی نچلی دراز سے گتے کی ایک چھوٹی سی ڈبیا نکالتا اور اسے آنکھ جھپکتے میں بند کرتے ہوئے کہتا۔ ’’خواجہ! میں تباہ ہوگیا ہوں‘‘۔ اور پھر وہ اپنی مخصوص لے میں یہ شعر پڑھتا:

دل میں اک درد اٹھا آنکھوں میں آنسو بھر آئے… بیٹھے بیٹھے ہمیں کیا جانیے کیا یاد آیا

اگرچہ میں اس کی غیر حاضری میں بھی کئی بار گھنٹوں اس کے کمرے میں تنہا موجود رہا مگر میں نے کبھی وہ دراز کھول کر اس تصویر کو دیکھنے کی کوشش نہ کی۔ البتہ ایک دن جب باتوں باتوں میں ذرا سنجیدگی سے اس بارے میں دریافت کیا تو اس نے کہا ’’عباس! یاد رکھو ہر انسان ایک آدھ راز ضرور اپنی قبر میں لے جاتا ہے بلکہ میری زندگی میں بعض باتیں تو ایسی ہیں جنھیں میں خود اپنے آپ سے بھی چھپانے کی کوشش کرتا ہوں‘‘۔ میرے نزدیک اس کا یہ جملہ اس موضوع پر حرف آخر کی حیثیت رکھتا ہے۔

پھر وہ صفیہ سے اس کی شادی کا احوال کچھ یوں بیان کرتے ہیں: انھی دنوں اس کی والدہ جو بمبئی آکر اپنی لڑکی کے پاس قیام پذیر تھیں، اپنے چہیتے بیٹے کو اس غلیظ کھولی میں ملنے آئیں تو اس کی حالت دیکھ کر ان کی مامتا پگھل کر آنکھوں میں امڈ آئی۔ انھوں نے ڈبڈباتی ہوئی نظروں سے اپنے لاڈلے کو دیکھا اور نجانے کیا سوچ کر ایک نہایت معزز کشمیری گھرانے میں اس کی شادی کا بندوبست کردیا۔ چند دنوں میں نکاح کی رسم ادا کردی گئی۔ لیکن رخصتی تقریباً دس مہینے بعد عمل میں آئی۔

اس شادی کا کچھ حال دولہا میاں کی زبانی سنیے: ’’ایجاب و قبول کی رسم ختم ہوئی تو میری جان میں جان آئی۔ ٹانگ سیدھی کی۔ درد کے کئی اور گھونٹ پیئے ۔ مبارک بادیں وصول کیں اور لنگڑاتا لنگڑاتا اپنے گھر پہنچا۔ مٹی کے تیل کا لیمپ روشن کیا اور کٹھملوں بھری کھاٹ پر دراز ہوکر سوچنے لگا کہ آیا سچ مچ میرا نکاح ہوگیا ہے۔ برات کی تیاریاں کررہا ہوں لیکن جیب میں صرف ساڑھے چار آنے ہیں۔ چار آنے میں سگریٹ کی ڈبیا آجائے گی، دو پیسے کی ماچس۔ چلو قصہ پاک… شام تک میں نے ساری ڈبیا پھونک ڈالی۔ اب میری جیب میں صرف ایک ماچس تھی، وہ بھی آدھی‘‘۔

اس کی زندگی کے آخری دنوں کے بارے میں حسن عباس لکھتے ہیں: اسے زندہ رہنے کے لیے روشنی کی ضرورت تھی۔ اس نے اتھاہ تاریکیوں میں ڈوب کر چند کرنیں تلاش کیں جنہوں نے اس کے ذہن، اس کی روح کو جگمگا دیا لیکن بدلے ہوئے ماحول کے گھپ اندھیرے میں اسے راستہ سجھائی نہ دے سکا۔ اسی لیے منٹو نے لکھا:

’’میرے لیے یہ ایک تلخ حقیقت ہے کہ میں ابھی تک خود کو اپنے ملک میں جسے پاکستان کہتے ہیں اور جو مجھے بہت عزیز ہے، اپنا صحیح مقام تلاش نہیں کرسکا۔ یہی وجہ ہے کہ میری روح بے چین رہتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ میں کبھی پاگل خانے میں اور کبھی اسپتال میں ہوتا ہوں‘‘۔

آہستہ آہستہ اسپتال اور پاگل خانے کی دیواریں آپس میں ملنے لگیں۔ وہ جام و سبو کے سہارے کسی چور دروازے کی تلاش میں سرگرداں رہا۔ لیکن بالآخر اسے بھی سقراط کی طرح اپنے ہاتھوں زہر پینا پڑا۔

ایسے میں ہم کیوں نہ اسے شہیدِ جامِ وسبو کہیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔