طاہر القادری، عمران خان اور ٹیکنوکریٹ سیٹ اپ

نصرت جاوید  جمعرات 27 دسمبر 2012
nusrat.javeed@gmail.com

[email protected]

کینیڈا سے آئے شیخ الاسلام نے جب لاہور میں میلہ لوٹ لیا تو عمران خان بہت خوش ہوئے۔دو جماعتوں یعنی پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ نواز کے درمیان ’’مک مکا‘‘ کے خلاف للکارکو انھوں نے اپنا ایجنڈا سمجھا اور دہری شہریت والے قادری کو تاریخی جلسہ منعقد کرنے پر مبارکباد بھی دے ڈالی۔ دریں اثناء چند چینلز نے تحریک انصاف کے مرکزی سیکریٹری اطلاعات شفقت محمود کو فون پر لے لیا ۔

چونکہ شیخ الاسلام نے واضح طورپر اعلان کردیاتھا کہ صاف،شفاف اور غیر جانبدارانہ انتخابات کرانے کے نام پر بنائی گئی عبوری حکومت کے لیے ضروری نہیں کہ وہ آئینی طور پر طے شدہ مدت میں اپنا کام مکمل کرے،اسی لیے سوالات اس نکتے پر مرکوز رہے۔شفقت محمود نے واضح الفاظ میں بتادیا کہ ان کی جماعت آئندہ انتخابات کو وقت مقررہ پر ہوتا دیکھنا چاہے گی۔معاملہ یہاں ختم ہونا چاہیے تھا مگر ہوا نہیں ۔

پیر کو تحریک انصاف ہی کے ڈاکٹر اسرار شاہ اور سرور خان دو مختلف ٹاک شوز میں آئے اور سینہ پھلا کر کینیڈا سے آئے قادری کے کڑے احتساب کے ذریعے ریاست بچائو مہم والے ایجنڈے کا دفاع کرتے رہے۔اسی دوران سوشل میڈیا اور ایس ایم ایس کے ذریعے یہ افواہ شدت سے پھیلادی گئی کہ عمران خان نے شفقت محمود کو شدید ڈانٹ ڈپٹ کے بعد فارغ کردیا ہے ۔شفقت محمود تک یہ افواہ شاید بہت دیر میں پہنچی اور انھوں نے منگل کی رات اپنے ایک ٹویٹر پیغام کے ذریعے اس کی تردید کردی۔مجھے ہرگز خبر نہیں کہ اپنے سیکریٹری اطلاعات کے بارے میں عمران خان کیا طے کیے بیٹھے ہیں۔ وہ جانیں اور شفقت محمود ۔جہاں رہیں خوش رہیں ۔

یہ بات کہنے سے اگرچہ میں اب بھی نہیں رکوں گا کہ تحریک انصاف کی صفوں میں چند لوگ ہیں جو خود کو پیدائشی یا فطری طورپر اس حکومت کی قیادت کرنے کا اہل سمجھتے ہیں جو ’’کم ازکم ‘‘ تین سال کے لیے کام کرے اور ’’اہل،ایمان دار اور محب الوطن ٹیکنوکریٹس‘‘ پر مشتمل ہو۔

مثال کے طور پر مخدوم شاہ محمود قریشی ہیں۔کئی برسوں سے سیاست میں ہیں مگر کرپشن وغیرہ کے الزامات سے بچے ہوئے۔1990ء کی دہائی سے ورلڈ بینک اور ہمیں قرض فراہم کرنے والے دوسرے عالمی اداروں کے زیر اہتمام غریب ملکوں میں زرعی معیشت کو بہتر بنانے کے لیے جو سیمینار اور ورکشاپس وغیرہ منعقد ہوا کرتی ہیں، وہ ان میں اکثر مدعو کیے جاتے ہیں اور ’’عام کسانوں‘‘ کے دکھڑے بیان کرتے ہیں۔احمد مختار کی طرح ان کا نام بھی 2008ء کے بعد بنائے جانے والے وزرائے اعظم کے ناموں کی فہرست میں شامل تھا۔

امریکا کے ایک بڑے ہی طاقتور سمجھے جانے والے سینیٹر جان کیری ان کے ذاتی دوست سمجھے جاتے تھے ۔مخدوم صاحب کے ہونہار سپوت زین قریشی نے ان کے دفتر میں تربیت بھی لی ہے ۔مگر پاکستان کے وزیر خارجہ کی حیثیت میں شاہ صاحب اسی جان کیری کے سامنے ریمنڈ ڈیوس کی رہائی کے خلاف ڈٹ گئے۔بادشاہ مگر بادشاہوں کو معاف کردیا کرتے ہیں۔ مخدوم صاحب پاکستان کے وزیر اعظم بنا دئیے گئے تو اب امریکا کے وزیر خارجہ بن جانے والے جان کیری شاید ان کا ساتھ دینے پر تیار ہوجائیں ۔

’’اہل ،ایمان دار اور محب وطن ٹیکنوکریٹس‘‘ کی جو حکومت بننا ہے، اسے امریکی فوجوں کی 2014ء تک افغانستان سے پرامن واپسی میں مدد بھی تو فراہم کرنا ہے۔اپنے ذاتی تعلقات کی وجہ سے قریشی اور کیری یہ فریضہ بخوبی انجام دے پائیں گے۔شاہ محمود قریشی صاحب کے دشمن مگر اس بات پر زور دے کر ان کا راستہ روک سکتے ہیں کہ ملتان کے ایک پرانے جاگیردار اور مخدوم گھرانے کے فرزند ہوتے ہوئے وہ ’’فرسودہ نظام‘‘ کی جگہ اپنی محنت سے معاشرے میں مقام بنانے والوں کو ہمارے سیاسی عمل میں حصہ دار بنانے والا نظام نہ دے پائیں گے ۔

شاہ محمود قریشی پسند نہ آئیں تو تحریک انصاف میں ایک اور نابغہ روزگار اسد عمر کی صورت میں بھی موجود ہے۔موصوف غیر ملکی یونیورسٹیوں میں پڑھے ہیں ۔ان کے بیرون ملک کاروباری دنیا میں اپنا مقام بنانے کے بہت امکانات تھے ۔مگر یہ ان کو نظرانداز کرتے ہوئے مادرِ وطن کی خاطر پاکستان لوٹ آئے۔ایک بہت بڑے کاروباری ادارے میں ملازمت حاصل کی اور اس کو کامیابیوں کے عروج تک پہنچادیا۔ابھی کاروباری دنیا میں اور بھی کارنامے سرانجام دے سکتے تھے مگر وطن کی قسمت سنوارنے کے جذبے سے مجبور ہوکر سب کچھ چھوڑ چھاڑ کر تحریک انصاف میں آگئے۔

انھیں ’’اہل ،ایمان دار اور محب الوطن ٹیکنوکریٹس‘‘ کی حکومت کا سربراہ بنادیا گیا تو کسی کو اعتراض نہ ہوگا ۔شیخ الاسلام ایسی حکومت کے لیے فوج کی مدد بھی چاہتے ہیں ۔ایک جرنیل کے فرزند ہوتے ہوئے اسد عمر اپنے پرانے’’انکلوں‘‘ کے ذریعے یہ حمایت حاصل کرسکتے ہیں۔ہاں اعتراض یہ کیا جاسکتا ہے کہ وہ سیاسی عمل میں نووارد ہیں اورگھاگ لٹیروں اور اقتدار کے پجاریوں‘‘ کی مکاریاں نہ سمجھ پائیں گے۔ اگر اس بنیاد پر اسد عمر کو رد کرتے ہوئے آپ کو ’’تھوڑا سیاسی،تھوڑا کاروباری‘‘ بندہ چاہیے تو جہانگیر ترین ہیں ۔

2002ء سے قومی اسمبلی کے رکن چلے آرہے تھے مگر سب اراکین پارلیمان سے زیادہ ٹیکس دے کر نیک نام ہوئے ۔آصف علی زرداری اور یوسف رضا گیلانی سمجھ رہے ہیں کہ انھوں نے مخدوم احمد محمود کو گورنر پنجاب بنواکر بڑا کارنامہ سرانجام دیا ہے۔ترین صاحب گورنر پنجاب کے بہنوئی ہیں مگر دونوں میں تعلقات گزشتہ تین برسوں سے بڑے کشیدہ ہیں ۔اسی لیے تو رحیم یار خان کی بجائے جہانگیر ترین آئندہ کا انتخاب لودھراں سے لڑنے کی تیاریاں کررہے تھے۔اس ملک میں صاف ستھری سیاست متعارف کرانے کے لیے ترین کو بھی تو وزیر اعظم بنایا جاسکتا ہے ۔

شاہ محمود قریشی ہوں یا اسد عمر اور پھر جہانگیر ترین ان تینوںمیں سے ایک بھی یہ نہیں چاہے گا کہ وہ عمران خان کو ’’دغا‘‘ دے کر اس حکومت کی سربراہی قبول کرتا نظر آئے جو شیخ الاسلام 14جنوری 2013ء کو اسلام آباد پر نازل ہوکر ’’فوج اور عدلیہ کی مداخلت اور منشاء ‘‘ سے بنوانے کے بعد فروغ دین کے لیے کینیڈا روانہ ہوجائیں گے۔

عمران خان ’’اہل ،ایمان دار اور محب وطن ٹیکنوکریٹس‘‘ والوں کی حکومت کی سربراہی کے لیے اپنا بندہ دینے پر آمادہ ہوسکتے ہیں اگر انھیں سمجھا دیا جائے کہ اگر’’کم از کم تین سال‘‘ والی حکومت نے صفائی ستھرائی کے بعد انتخابات کرادئیے تو تحریک انصاف کے امیدواروں کے سوا اس قوم کو کوئی دوسرا نظر ہی نہیں آئے گا ۔مجھے پکی خبر تو نہیں مگر شدید نوعیت کا شک لاحق ہوگیا ہے کہ ان دنوں عمران خان کو بہت سارے لوگ یہی بات سمجھارہے ہوں گے ۔عمران خان سے درخواست ہے کہ وہ ایسے تمام لوگوں کی باتیں سننے کے بعد اپنی جماعت میں آئے خورشید محمود قصوری سے اکیلے میں ملاقات کرلیں اور جاننے کی کوشش کریں کہ 5جولائی 1977ء کے روز اس ملک پر قبضہ کرنے کے بعد ضیاء الحق کے کارندوں نے ایئرمارشل اصغر خان کو کونسے خواب دکھائے تھے ۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔