مسلمان اور سائنس‘ ایک تجزیہ

ڈاکٹر ناصر مستحسن  جمعرات 27 دسمبر 2012

ساری دنیا جانتی ہے کہ مغرب نے سائنس اور ٹیکنالوجی مسلمان سائنسدانوں ہی سے حاصل کی ہے وگرنہ مغرب میں تاریخ کا سبق یونانیوں سے شروع ہوتا ہے اور پھر رومی تہذیب اور اس کے بعد ایک عہد تاریک یعنی (Dark Age) پھر یکدم نشاۃ ثانیہ (Renaissance) کا ڈنکا کس نے بجایا۔

بہت کم لوگ یہ بات جانتے ہوں گے اور جو جانتے ہوں گے ان کو یہ بات منوانے کے لیے تنقید بھی سہنی پڑتی ہوگی۔ مغرب میں بہت کم ہی ایسے درس دیے جاتے ہوں گے جس میں بتایا جاتا ہوگا کہ ان کی قومی ترقی میں مسلمانوں کا کردار مسلمہ حقیقت ہے، جب یورپ ایک دور جاہلیت سے گزر رہا تھا، جہاں تیرگی ہی تیرگی تھی تو دوسری طرف مشرق میں ایک درخشاں پرشکوہ سائنسی دور اپنے عروج پر پہنچ رہا تھا اور یہ سب اتنا دور بھی نہ تھا۔ اسپین میں قرطبہ صرف مسلمانوں کی ہی نہیں بلکہ ساری دنیا کا ایک علمی مرکز تھا۔

لوگ مغرب کے انقلابات کو تو زبردست خراج تحسین دیتے ہیں مثلاً انقلاب فرانس جس پر کتابوں کے ڈھیر لگ گئے، لیکن وہ مسلمانوں کے مقروض ہیں اور اس قرض کا اعتراف تک نہیں کیا جاتا جو انھیں ان شاندار اور غیر معمولی اسلامی تہذیبی اور سائنسی مظاہرات کے سبب ممکن ہوا ہے۔ اس وصف میں، میں یہ بات اپنے قارئین کو بتانا چاہتا ہوں کہ مسلمانوں نے جو عظیم خدمات سرانجام دیں وہ تین حصوں میں بٹی ہوئی ہیں۔

(1)۔ مسلمانوں نے اپنے سے پہلی تہذیبوں کی میراث کو محفوظ کیا اور منجمد ہونے سے بچاتے ہوئے اس کو آگے بھی بڑھایا۔ (2) انھوں نے سائنس کو علم ہی تک محدود نہیں رکھا بلکہ سائنسی تجربوں کو ترقی دے کر ان کو ناقابل تسخیر بنادیا۔ (3) انھوں نے علم ریاضی کو جو سائنس کا نیوکلیس (Neucleus) ہے اس کو آسان سے آسان بنادیا اور اس کو اس نقطہ عروج پر پہنچادیا کہ ’’سائنس کی شروعات بغیر علم سائنسدانوں کے ہو ہی نہیں سکتی تھی‘‘۔

عظیم جغرافیہ دان الادریسی سیوطی (Aladresi Seueti) جنہوں نے ریاضیاتی نقشہ نویسی کو فروغ دیا اور ان کے نقشے بیرونی کام کے لیے معاون ہوئے، یا کارگر ثابت ہوئے ان کا دنیا کا نقشہ اس عہد کا ایک نہایت نمایاں اور اہل مغرب پر قرض ہے۔ ایک نقشے میں انھوں نے دریائے نیل کا منبع وسطی افریقہ کی جھیلوں کو دکھایا۔ یورپی لوگوں نے انیسویں صدی میں یہ حقیقت تسلیم کی کہ مسلمانوں کی اس باب میں معلومات اس زمانے میں ہی نہیں ہر زمانے میں بہت ترقی یافتہ تھیں۔

مکینیکل انجینئر بدیع الزماں اسطرلابی، انھیں ’’اسطرلاب‘‘ بنانے کی وجہ سے بے پناہ شہرت ملی جیسے کہ نویں صدی میں علی ابن عیسیٰ کو حاصل تھی، انھوں نے شایان سلجوق کے ایما پر خودکار آلات (Automations) آٹومیشن تخلیق کیے، ماہر حیوانات شرف الزماں طاہر مروازی کی نہایت ہی عمدہ کتاب ’’طبائع الحیوان‘‘ کا میں نے مطالعہ کیا، یہ کتاب ایک تو نایاب ہے دوسرا یہ علم حیوانات (Zoology) کی منفرد کتاب ہے۔ اس کتاب کا نام (on the nature of animals) ہے۔

فلسفی، طبیب، ریاضی دان، ماہر فلکیات اور موسیقار ابوبکر محمد ابن یحییٰ ابن باجہ جنھیں لاطینی میں (Avempace) کہا جاتا ہے، وہ اسپین کے اولین فلسفی شمار کیے جاتے ہیں، انھوں نے طب اور فلسفے میں ارسطو، جالینوس، فارابی، اور رازی کے کاموں کی تشریح کی اور بہت قابل قدر کام کیے۔ مسلمانوں نے ساری دنیا میں سائنس اور ٹیکنالوجی کو عروج بام بخشا، طبیب ابو مروان زہد (وفات 1077)، ان کے بیٹے ابوالاعلیٰ زہد جو یوسف بن تاشفین کے وزیر ہوئے اور لاطینی میں (Alguazir) کہلاتے ہیں اور ان کے بیٹے ابو مروان زہد یعنی دادا کے ہم نام وفات (1162) کو (Auenzoar) کے نام سے جانے جاتے ہیں 1140 کے قریب انھوں نے شاہکار کتاب ’’التقسیر‘‘ (The Mothod) تحریر کی۔

اس کتاب میں نئے معالجاتی اشارات (The Rapeutic Notions) پیش کیے گئے، خصوصاً مصنوعی خوراکی(Artificial Alimatation) جس میں پہلی مرتبہ ناک کے ذریعے خوراک دینے کا طریقہ بتایا گیا اور اسی طرح پہلی مرتبہ تشخیص دل کی بیماری کی قسم بندی کا بیان ہے۔ انھوں نے جلدی چمونے (Scabies) کی تفصیلات درج کیں۔ ابن زہد اندلس کے عظیم ماہر تجربہ گاہ (Cunician) مانے گئے اور رازیؔ کے بعد انھیں اسلامی دنیا میں عظمت کا مقام دیا گیا۔

اب صہیونی سازشوں کو بے نقاب کرتے ہیں، مسلمانوں کے علوم جن کو مغربی دنیا نے دبوچ لیا ہے وہ ان کا نہیں ہمارا ہے، لیکن آج 21 ویں صدی میں بحیثیت مسلمان ہم منجمد ہوگئے ہیں اور کسی بھی شعبہ ہائے زندگی میں وہ مقام، وہ لافانی اور امر کام انجام نہیں دے رہے ہیں جو بحیثیت مسلمان ہماری رگوں میں دوڑ رہا ہے اس کی وجہ جاننے کی کوشش تو کرنی چاہیے۔ جہاں کسی زمانے میں طب، فلکیات، ریاضی، فلسفہ، حیواناتی علوم، نباتاتی علوم، علم النجوم، نیز ہر علم میں ہم آگے تھے اس کی جگہ آج کرپشن، لوٹ مار، دھوکا دہی، قتل و غارت گری، بھتہ خوری، حکومتی زمینوں پر قبضے، اقربا پروری، رشوت خوری، جھوٹ، ریاکاری میں ہم آگے ہی آگے ہوگئے ہیں اور جو ان کو بے نقاب کرنے کی کوشش کرتا ہے، سفید لٹھے سے اس کے ہی چہرے کو نقاب میں قید کردیا جاتا ہے۔

مغرب نے مسلمانوں کے دلوں میں یہ بات بٹھا دی ہے کہ ان کا مذہب یعنی ’’اسلام‘‘ آڑے آگیا ہے، اور ہماری ترقی میں رکاوٹ ہے۔ انھوں نے خدا کی الہامی کتابوں میں ردوبدل کرکے کیا مقام حاصل کرلیا ماسوائے دنیا کو اپنی مٹھی میں لینے کی سعی لاحاصل کرنے کے، آج وہ سائنس اور ٹیکنالوجی کی بات کر رہے ہیں، وہ ہمارے آباؤ اجداد نے ہمارے قرآن ہی کو اساس بنا کر حاصل کی تھی۔ ترقی کا مفہوم مختلف قوموں میں مختلف ہوتا ہے، لیکن ہم اسے آج کل کے وسیع تر سمجھنے والے معنی میں لیں تو بھی اسلام نے کبھی ترقی کا راستہ نہیں روکا بلکہ اس کے برعکس اسلام تو معاشرے کی ترقی کے راستے میں ایک غیر معمولی ممد و معاون ثابت ہوا ہے۔

ساتویں صدی عیسوی سے اسلامی تہذیب کا نقطہ آغاز ہوتا ہے اور آٹھویں صدی عیسوی میں ہی وہ ایک ہمہ مقتدر فوجی اور سیاسی قوت کی حیثیت سے دنیا کے افق پر کامیاب و کامران جلوہ افروز ہوچکی تھی، نویں صدی کے آغاز پر مسلمانوں نے قابل ذکر علمی مراکز قائم کرلیے تھے جہاں دنیا بھر کی سائنسی اور ثقافتی میراث کا عربی میں ترجمہ کیا۔ پھر ان علمی مراکز کو نقطہ آغاز (Spring Boards) کے طور پر سائنس اور ٹیکنالوجی کی ترقی کی راہیں کھولیں۔ جہاں مسلمان سائنسدانوں نے ایسی ایسی مثالیں، ایسے ایسے کام، ایسی ایسی علمی، فکری، سیاسی، سماجی، فلاحی، سائنسی علوم کو بام عروج پر پہنچایا کہ دنیا ہمارے زیر دام آگئی، مگر افسوس صد افسوس، آج ہم کہاں کھڑے ہیں؟

آج ہم شطرنج کی بساط پر بچھے ہوئے مہروں کی طرح استعمال ہورہے ہیں۔ شطرنج میں سب سے پہلے پیادہ قربانی دیتا ہے جس کی چال صرف آگے کی طرف ہوتی ہے، جہاں اس کو مات ہوتی ہے اور وزیر اور بادشاہ ہر طرف سے یلغار کرتے ہیں وہ پیادوں (عوام) کی قربانی دے کر ہی آگے بڑھتے ہیں لیکن کبھی کبھی پیادہ بھی شاہ کو مات دے دیا کرتا ہے۔ آج وہی وقت ہے کہ ہم پیادے شاہوں کو مات دیں۔ آج وہی سماجی، سیاسی شعور کی ضرورت ہے جس کو استعمال کرکے ہم پاکستان کی بقا کی جنگ جیت سکتے ہیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔