کیا پیاس بجھ گئی ہے؟

زاہدہ حنا  اتوار 1 جنوری 2017
zahedahina@gmail.com

[email protected]

2017ء کا پہلا سورج آج ایک ایسی سرزمین پر بھی طلوع ہورہا ہے جو ’شام‘ کے نام سے مشہور ہے۔ یہ سرزمین کئی برس سے اپنے ہی بیٹوں اور بیٹیوں کے خون سے غسل کرتی رہی ہے۔ اس کی سرحدیں لبنان، اسرائیل، اردن، ترکی اور عراق کی سرحدوں سے متصل ہیں۔ ان سرحدوں کو بزرگ اور نوجوان شامی مصنوعی سمجھتے ہیں، یہ 20ء کی دہائی میں، فرانسیسی سیاست دانوں اور فوجی افسروں نے کھینچی تھیں۔

ملک شام کے رہنے والے اپنے ملک کو لبنان، اردن اور فلسطین کا مجموعہ قرار دیتے ہیں، لیکن دوسری جنگ عظیم نے مملکت شام کے ٹکڑے کردیے اور جو کچھ بچ رہا تھا وہ اس کے حکمرانوں اور اس کے دوستوں اور دشمنوں کی ہوسِ اقتدار کی نذر ہوا۔ درمیان میں حافظ الاسد اور ان کے فرزند بشارالاسد کو شامی دعائیں دیتے ہیں جنھوں نے ان کے شہروں، خاندانوں اور گھرانوں کو ملیامیٹ کردیا۔

دمشق جس کے لیے یہ طرۂ امتیاز تھا کہ وہ دنیا کا قدیم ترین شہر ہے اور وہاں ایک دن کے لیے بھی اس تسلسل میں کوئی رخنہ نہیں پڑا۔ اس پر سے خون کے دریا گزر گئے۔ تاریخ کا ایک شاندار کردار ملکہ زنوبیہ کا ہے جس کے محلوں کے کھنڈرات کو ہم پامیرا کے نام سے جانتے ہیں۔ اس آثار قدیمہ کے ستون زمیں بوس ہوئے۔ شام جو 1920ء سے 1941ء تک فرانس کے زیر تسلط رہا، اسے مکمل خودمختاری 1946ء میں حاصل ہوئی۔ درمیان میں حافظ الاسد کی مطلق العنان حکومت کو دعوتِ مبارزت دیتی ہوئی اسلامی انتہا پسندوں کی بغاوت نے سر اٹھایا، جسے نہایت درشتی سے کچل دیا گیا اور ہزاروں کھیت رہے۔

پانچ برس پہلے شام میں پنجے گاڑنے والی خانہ جنگی اس وقت آغاز ہوئی جب ہر طرف عرب بہار کا شہرہ تھا۔ شامی نوجوانوں نے بشارالاسد کی حکومت کے خلاف مظاہرے کیے۔ یہ مظاہرے پُرامن اور غیر متشدد تھے۔ لیکن تمام مطلق العنان حکمرانوں کی طرح بشار الاسد کو بھی ان بے ضرر مظاہروں سے خوف محسوس ہوا اور حکومت مخالف مظاہروں کو نہایت سفاکی سے کچلنے کا سلسلہ شروع ہوا۔ اس رویے نے پُرامن مظاہرین کو مشتعل کردیا اور انھوں نے تشدد کا جواب تشدد سے دینا شروع کیا۔

جولائی 2011ء میں بشار الاسد سے اختلاف رکھنے والے کچھ فوجی نوجوانوں نے فوج سے بغاوت کی اور آزاد شامی فوج بنالی، جس میں بہت سے شہری بھی شریک ہوگئے۔ بشارالاسد کے خلاف سیکولر عناصر بھی تھے اور مذہبی رجحانات رکھنے والے افراد بھی۔ اس میں مختلف لسانی اور مسلکی دھڑوں کی شمولیت نے معاملات کو مزید الجھایا۔

نتیجہ یہ نکلا کہ گذشتہ پانچ برسوں کی خانہ جنگی میں ایک اندازے کے مطابق 4 لاکھ 70 ہزار افراد ہلاک ہوچکے ہیں۔ اقوام متحدہ کا کہنا ہے کہ 61 لاکھ شہری آئی ڈی پیز (اندرونی طور پر بے گھر افراد) بن چکے ہیں۔ ان میں بڑی تعداد عورتوں اور بچوں کی ہے۔ بچے دودھ سے اور عام شہری خوراک اور طبی سہولتوں سے محروم ہوئے۔

ان 5 برسوں کے دوران بچوں اور نوجوانوں کو سب سے بڑا نقصان یہ ہوا کہ تعلیم سے ان کا رشتہ ٹوٹ گیا۔ اس کی وجہ اسکولوں اور کالجوں کی تباہی تھی۔ سرکاری فوجوں کی محصور شہروں پر پیش قدمی اور بشار الاسد کی فضائی فوج کی متعدد شہروں پر بے دریغ بمباری نے حلب، دمشق کے مضافات اور کئی دوسرے شہروں کو تہس نہس کردیا۔ اس کے نتیجے میں یہاں کے شہری پناہ کی تلاش میں نکلے، کچھ نے عراق میں پناہ لی اور ایک نئے عذاب میں گرفتار ہوئے۔ کچھ نے ترکی کا رخ کیا۔

بہتوں نے یورپ کے مختلف شہروں کی راہ لی۔ انھوں نے سمندر اور خشکی کے راستے سے یورپ کا سفر اختیار کیا، کچھ سمندر کا نوالہ بنے اور کچھ راستے کے شداید کو برداشت نہ کرسکے اور سفر کے دوران ہی دم توڑ گئے۔ ان مصیبت زدہ لوگوں کی تصویریں دنیا بھر کے اخباروں میں شائع ہوئیں اور ٹیلی وژن چینلوں سے دکھائی گئیں۔ دل دہلادینے والی ان تصویروں میں سے ایک وہ بھی ہے جس میں دو ڈھائی برس کا ایک بچہ ساحل پر پہنچ کر ڈوب گیا۔ قمیص، نیکر اور جوتوں میں یہ بچہ ریت پر اوندھا پڑا ہے اور جان سے گزر چکا ہے۔ اس تصویر نے ساری دنیا کے لوگوں کا کلیجہ شق کردیا۔ اس کی ماں کون تھی؟ اس کا باپ کہاں تھا؟ یہ بچہ کس کا بچہ تھا؟ یہ 6 ارب انسانوں کا بچہ تھا، جسے وہ بچا نہیں سکے۔

جگر شق کر دینے والے ان انسانی المیوں کے ساتھ ہی خانہ جنگی کے ذمے داران کے درمیان جنگ بندی کی کوشش ہوتی رہیں۔ ہر مرتبہ امید بندھی کہ ان المیوں کے ذمے دار اس بات کو محسوس کریں گے کہ ان کی انا پرستی عام شامی شہریوں کو کس طرح غارت کررہی ہے۔ لیکن ہر بار یہ امید موہوم ثابت ہوئی۔

اب سے دو دن پہلے خبر آئی کہ روسی صدر پوتن نے اعلان کیا ہے کہ شامی حکومت اور باغیوں کے درمیان جنگ بندی کے ایک معاہدے پر دستخط ہوگئے ہیں۔ اس کے بعد ہی مستقل امن کے لیے گفت و شنید شروع ہوجائے گی۔ مسٹر پوتن کا کہنا ہے کہ پس پردہ جنگ بندی کی کوششیں 2 مہینے سے جاری تھیں جو اب خدا خدا کرکے کامیاب ہوئی ہیں۔

یہ جنگ بندی روس اور ترک حکومت کی کوششوں کا نتیجہ ہے۔ صدر پوتن نے شام میں اپنی فوجوں میں کمی کا بھی اعلان کیا ہے۔ اس کے ساتھ ہی اس بات پر بھی اصرار کیا ہے کہ خطے میں دہشت گردوں کو کچلنے کی مہم جاری رہے گی اور اس کے ساتھ ہی یہ بھی کہا ہے کہ روس، شامی صدر بشارالاسد کی حمایت جاری رکھے گا۔ ادھر ترکی نے کہا ہے کہ یہ جنگ بندی نئے سال کے ساتھ آغاز ہوگی۔ ترکی اور روس نے یہ اعلان بھی کیا ہے کہ جنگ بندی کے لیے اقوام متحدہ کی کوششوں کو بھی مستحسن نگاہوں سے دیکھا جائے گا۔

قازقستان کے دارالحکومت آستانہ میں شامی حکومت اور باغیوں کے درمیان جو امن مذاکرات ہوں گے، ان میں ایران بھی ترکی اور روس کے ساتھ ہوگا۔ اس کی بھی کوشش کی جارہی ہے کہ ان مذاکرات میں مصر، سعودی عرب، قطر، عراق اور اردن کو بھی شامل کیا جائے۔ امریکی صدر بارک اوباما جو اس جنگ بندی میں بہت دلچسپی رکھتے ہیں، انھیں روسی صدر نے قطعاً نظر انداز کردیا ہے اور کہا یہ جارہا ہے کہ جنوری میں حلف اٹھانے والے نئے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کو اس گفت و شنید میں شامل کیا جائے گا۔

مملکت شام میں زندگی کرنے والوں کے لیے 2017ء کا سورج کیا لے کر آرہا ہے، اس بارے میں حتمی طور پر کچھ کہنا تو ممکن نہیں لیکن یہ اندازہ ضرور لگایا جاسکتا ہے کہ اس خانہ جنگی سے جن فریقوں کو جو حاصل کرنا تھا اور اپنے اثر و رسوخ میں جس حد تک اضافہ کرنا تھا، وہ کرچکے۔ رہ گئے وہ لاکھوں لوگ جو اقتدار کی اس شطرنج میں پیادوں کی طرح پٹ گئے اور وہ لاکھوں لوگ جو اپنے گھروں کو چھوڑنے پر مجبور ہوئے، ان کے  لیے صلح صفائی کی یہ کوششیں اور امن کی یہ دستاویزیں کوئی مفہوم نہیں رکھتیں۔ پناہ کی تلاش میں ساحل سمندر پر منہ کے بل سو جانے والا بچہ، اب کبھی نیند سے نہیں جاگے گا۔ بس یہی بہت ہے کہ دوسرے بچے اس کی طرح لہروں کی آغوش میں نہ سوئیں۔

گذشتہ 5 برسوں میں ہوس اقتدار نے ملک شام کو جس طور تاراج کیا اور جس بے دردی کے ساتھ اس میں پشتوں سے آباد شہریوں کا ستھراؤ کیا گیا، وہ ناقابل یقین ہے۔ شامی خانہ جنگی کی تفصیلات میں جائیے تو مشہورِ زمانہ عرب ادیب خلیل جبران کی ایک نہایت مختصر کہانی ’’ہوسِ اقتدار‘‘ یاد آتی ہے۔ وہ لکھتا ہے:

’’ایک دفعہ میں نے ایک انسانی سر اور لوہے کے پاؤں والا دیو دیکھا جو پیہم زمین کو کھاتا اور سمندر کو پیتا تھا۔ میں دیر تک اسے دیکھتا رہا، پھر میں اس کے قریب گیا اور پوچھا ’’کیا یہ تمہارے لیے کافی نہیں؟ تم کبھی سیر نہیں ہوئے اور تمہاری پیاس کبھی نہیں بجھی؟ اس نے جواب دیا ’’ہاں! میں مطمئن ہوں، میں بھی کھانے پینے سے اُکتا گیا ہوں لیکن مجھے اندیشہ ہے، کہ کل میرے کھانے کے لیے زمین باقی رہے گی اور نہ پینے کے لیے سمندر‘‘۔

آج شامی اپنے حکمرانوں، دوستوں اور دشمنوں سے سوال کررہے ہیں کہ کیا ہمارے خون سے تمہاری پیاس بجھ گئی ہے یا تم سب کو ہمارے اور ہمارے بچوں کے خون کی کچھ اور ہوس ہے؟

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔