ماہ جنوری و فروری 2016 کے اہم ترین عالمی اور ملکی واقعات

اقبال خورشید  اتوار 1 جنوری 2017
یہ ہُوا، یوں ہُوا تھا بیتے سال۔ فوٹو: فائل

یہ ہُوا، یوں ہُوا تھا بیتے سال۔ فوٹو: فائل

وقت کا پہیا حرکت میں ہے، ہر لمحہ تغیر پذیر، ہر ساعت کچھ بیت رہا ہے۔

ایک اور سال گزر گیا۔ نیا سورج مبارک ہو، مگر 2017 سے بغل گیر ہوتے ہوئے 2016 کو بھی یاد رکھیے، جسے کی آمد کا جشن بارہ ماہ قبل اِسی جوش و خروش سے منایا گیا تھا۔ آئیں، پلٹ کر سال گذشتہ پر نظر ڈالتے ہیں۔ ابتدائی سرا پکڑتے ہیں۔

جنوری 2016

اگر جنوری اور فروری کا جائزہ لیا جائے، تو واقعات کی وہ ابتدائی اینٹیں صاف دکھائی دیتی ہیں، جن پر 2016 کی عمارت کھڑی ہوئی۔ بے شک بنیاد اہم۔ آغاز میں اختتام کے اشارے موجود تھے۔ مثلاً سال کے آغاز ہی میں پاک بھارت تعلقات میں کشیدگی در آئی، جو آخر تک قائم رہی۔ جنرل راحیل شریف کی جانب سے توسیع نہ لینے کا اعلان، جس نے حقیقت کی شکل اختیار کی۔ ترکی میں دہشت گردی کی لہر، ضرب عضب میں کام یابیاں؛ الغرض سال کے ابتدائی دو ماہ میں پورے سال کا عکس دکھائی دیتا ہے۔ آئیں، چند اہم واقعات پر نظر ڈالتے ہیں۔

٭ راحت کو بھارت میں راحت نہ ملی!

نئے سال کے جشن میں مہمانوں کی آؤ بھگت کی جاتی ہے، مگر بھارت اپنے مہمانوں کو دھکے دے کر نکال دیتا ہے۔ اور مہمان بھی کون؟ ایک بین الاقوامی شہرت یافتہ آرٹسٹ۔

واقعے سنیے۔ دکن والوں نے سال نو کی تقریب میں راحت فتح علی خان سے پرفارم کرنے کی دخواست کی، مگر جب یکم جنوری کو وہ ہندوستان پہنچے، تو حیدرآباد ایئرپورٹ کے حکام نے بجائے اُن کی آؤ بھگت کرکے کے اُنھیں ڈی پورٹ کردیا۔ کہتے تھے: ’’آپ کے پاسپورٹ میں کچھ تیکنیکی خرابیاں ہیں، بھارت میں داخلے کی اجازت نہیں دے سکتے۔‘‘ ویسے خرابیاں تو بھارت کے سسٹم میں بھی کئی۔ گجرات میں خون کی ہولی کھیلنے والا وزیراعظم بن جاتا ہے۔ سال کے آغاز ہی میں پاکستانی آرٹسٹوں سے متعلق بھارت کا متعصبانہ رویہ عیاں ہوگیا۔ اِس تسلسل میں فواد خان، علی ظفر اور ماہرہ خان کو بھی شدید مشکلات کا سامنا کرنا پڑا۔

خیر، بے چارے راحت، مایوس، غم زدہ، چپ چاپ دبئی چلے گئے۔ یہ پہلا موقع نہیں، جب انھیں بھارتی میزبانوں کی وجہ سے تکلیف اٹھانی پڑی۔ 2011 میں بھی بڑی سنگین صورت حال پیدا ہوگئی تھی۔ آخر 15 لاکھ کا جرمانہ ادا کرنا پڑا تھا۔ ماضی کا تلخ تجربہ سامنے رکھا جائے، تو کہا جاسکتا ہے کہ اِس بار سستے میں چھوٹ گئے۔

٭ پٹھان کوٹ: غفلت تمھاری، مجرم ہم؟

واقعہ تو عجیب نہیں، مگر بھارتی قیادت کا ردعمل ضرور عجیب تھا۔

2 جنوری کو پٹھان کوٹ کی ایئر بیس پر عسکریت پسندوں نے دھاوا بول دیا۔ تین بھارتی سپاہی ہلاک ہوئے۔ جوابی کارروائی میں حملے آور بھی، جو فوجی یونیفارم میں تھے، جان سے گئے۔ 14گھنٹے بعد بھارتی فورسز نے علاقہ کلیئر کروانے کا دعویٰ کیا، مگر پھر خبر ملی کہ مزید حملہ آور اندر موجود ہیں۔ تین روز بعد جاکر کہیں ایئر بیس کو کلیئر کیا گیا۔ اب واقعہ تو یہ انوکھا نہیں، بل کہ متوقع ہے کیوں کہ بھارت میں علیحدگی پسندوں کی جانے کتنی تحاریک چل رہی ہیں۔ کشمیر کے مظالم کی تو سب کو خبر۔ (بعد میں ایک کشمیری گروہ ہی نے اس کی ذمے داری قبول کی!) ایسے میں اگر آپ کے اداروں پر حملہ ہوں، آپ کے سیکیوریٹی اہل کار نشانہ بنیں، تو حیرت کیسی۔ ہاں، یہ جو پاکستان پر الزام دھرا گیا، یہ عجیب ہے۔

تحقیق کیے بغیر، فقط اپنی سیکیوریٹی غفلت چھپانے کے لیے بھارت نے جو قدم اٹھایا، اس سے نہ صرف پاک بھارت تعلقات متاثر ہوئے، بل کہ بعد میں ہمارے پڑوسی ہی کی سبکی ہوئی کہ یہ اُن کی قومی تحقیقاتی رپورٹ میں تسلیم کیا گیا: ’’حملے میں پاکستانی حکومت یا کسی ایجنیسی کے ملوث ہونے کے شواہد نہیں ملے۔‘‘ مگر مودی جی، جنھوں نے اقتدار کے لیے قوم پرستی اور مذہبی انتہاپسندی کو ذریعہ بنایا، پاکستان کے خلاف زہر افشانی میں لگ گئے۔ سال کے آغاز میں جو رویہ اختیار کیا، اختتام تک اِسے برقرار رکھا گیا۔

٭علیم ڈار، ہمیں تم سے پیار ہے

سو کا ہندسہ کرکٹ میں بڑا اہم۔ کھلاڑی سینچری بنائے تو واہ واہ ہوتی ہے۔ کوئی بولر سو وکٹیں پوری کرلے، تو سینہ پھلا کر چلتا ہے۔ کوئی کھلاڑی سو میچز کھیل لے، تو اسے اپنے لیے اعزاز سمجھتا ہے۔ البتہ امپائرنگ کے لیے میدان میں سو کی نفیساتی ہند عبور کرنا آسان نہیں۔ کسی امپائر کے لیے سو ٹیسٹ میچز میں فیصلے صادر کرنا ایک ایسا بیش قیمت تمغہ، جو اس کی شبیہہ کو کرکٹ کے شائقین کے دلوں میں ثبت کر دیا۔ ہمارے علیم ڈار نے تین بار آئی سی سی بہترین امپائر کی ٹرافی اپنے نام کی، اور بھی کئی اعزازات بٹورے، پاکستان کا نام روشن کیا، مگر 2 جنوری کو 100 ویں ٹیسٹ میچز میں امپائرنگ کرکے جو اعزاز حاصل کیا، اس کی حیثیت عالمی۔ وہ اسٹیوبکنر اور روڈی کرٹنرن کے بعد تیسرے امپائر ہیں، جنھوں نے سو ٹیسٹ میچز میں فیصلے صادر کیے۔ ایشیا کے تو پہلے امپائر ہیں، جو اس بلندی تک پہنچا۔ چلیے، سب مل کر کہتے ہیں: علیم ڈار، ہمیں تم سے پیار ہے۔

٭ تہران، سعودی قونصل خانہ اور شعلے

اقبال کی خواہش تھی کہ مسلم نیل کے ساحل سے تابہ خاک کاشغر حرم کی پاسبانی کو ایک ہوجائیں۔ شومئی قسمت، یہ خواہش پوری نہ ہوسکی۔ امت مسلمہ آج جس طرح منقسم، ماضی میں اس کی مثال نہیں ملتی۔ جیسے سرد جنگ کے زمانے میں سوویت اور امریکی بلاک ہوا کرتے تھے، اب اِسی طرح مسلم دنیا ایرانی اور سعودی بلاک میں بٹ گئی ہے۔ ان اختلافات کے ہول ناک اثرات یمن، عراق اور شام سمیت ہر جگہ دکھائی دے رہے ہیں۔

حالات اُس وقت مزید بگڑ گئے، جب 3 جنوری کو تہران میں سعودی عرب کی جانب سے معروف شیعہ عالم، شیخ ال نمر کی سزائے موت کے خلاف مظاہرے شروع ہوئے، اور مشتعل افراد نے سعودی سفارت خانہ نذر آتش کردیا۔ اس واقعے سے مسلم دنیا میں سراسمیگی پھیل گئی۔ سعودی عرب نے ایران سے سفارتی تعلقات ختم کردیے، اور ایرانی سفیر کو ملک چھوڑنے کا حکم دے دیا۔ بعد میں بحرین اور سوڈان نے بھی ایران سے تعلقات توڑ لیے۔ پاکستان کو ثالثی کے لیے درمیان میں آنا پڑا، مگر تعلقات میں سردمہری ہنوز برقرار ہے۔

٭ زلزلہ یا ہائیڈوجن بم؟ شمالی کوریا سے ایک خبر

شمالی کوریا ایک بار پھر خبروں کا محور بن گیا، اور ایک بار پھر سبب ٹھہرا اس کا جوہری پروگرام۔ 6 جنوری کو شمالی کوریا کی جانب سے ہائیڈروجن بم کے کام یاب تجربہ کا دعویٰ سامنے آیا، تو پوری دنیا میں سنسنی پھیل گئی۔ امریکا بڑا آگ بگولا ہوا۔ جاپان اور جنوبی کوریا نے بھی شدید الفاظ میں مذمت کی۔ شمالی کوریا کا حلیف چین بھی ناراض دکھائی دیا۔ اس دھماکے کے ساتھ خطے میں آنے والے 5.1 شدت کے زلزلے نے بھی خبریں بٹوریں۔ جس مقام پر 2006 میں شمالی کوریا نے زیر زمین جوہری تجربات کیے تھے، یعنی پنجی ری، یہ تجربہ بھی اِسی مقام پر کیا گیا۔ ماہر ارضیات نے علاقے میں زلزلے کے جھٹکے ریکارڈ کیے۔ البتہ کچھ ماہرین نے اس تجربے کے دعویٰ پر شک کا بھی اظہار کیا گیا تھا۔

٭ ایم کیو ایم قائد کو پاکستان لانے کا فیصلہ

دنیا بھر کا سسپنس اور تھرلر ادب ’’مرڈر مسٹری‘‘ کے گرد گھومتا ہے۔ معروف شخصیات کے قتل کا کیس جتنا الجھتا جاتا ہے، اتنی اسے شہرت ملتی ہے۔ پھر عالمی شخصیات کی موت کے پیچھے ’’عالمی عوامل‘‘ کارفرما ہوتے ہیں، اِسی وجہ سے اُنھیں معما بنائے رکھنا مناسب سمجھا جاتا ہے۔ جیسے جون ایف کینیڈی اور محترمہ بے بھٹو کا قتل۔ ڈاکٹر عمران فاروق قتل کیس کو بھی اس فہرست میں شامل کرلیجیے، جو یوں بے احد اہم کہ یہ واقعہ لندن میں رونما ہوا، اور عالمی میڈیا کی توجہ کا مرکز بنا۔ البتہ اس میں پیش رفت کی رفتار بڑی سست رہی۔ 8 جنوری کو خبر آئی تھی کہ ایف آئی اے نے عمران فاروق قتل کیس میں ایم کیو ایم قائد سمیت تین ملزمان کو پاکستان لانے کا فیصلہ کیا ہے۔ انٹرپول کی مدد لی جانی تھی۔ اب اِس ضمن میں کیا اقدامات ہوئے، اس کی تو سب ہی کو خبر ہے۔

٭ ’’بچوں کی طرح لڑنا بند کرو!‘‘ چین کی ہدایت

پاک چین راہ داری کا جب سے اعلان ہوا ہے، یہ سڑک خبروں کی زینت بنی ہوئی ہے۔ مگر سبب فقط اس کی اقتصادی حیثیت نہیں، ہماری سیاست ہے۔ سندھ، بلوچستان اور خیبر پختون خوا کی صوبائی حکومتوں کو اس پر شدید تحفظات۔ اپوزیشن کہتی ہے: ن لیگ روڈ تبدیل کرکے اس کے ثمرات پنجاب تک محدود رکھنا چاہتی ہے۔ ادھر ن لیگ بھی اِسے ٹرمپ کارڈ سمجھتی ہے۔ عوام کی فلاح و بہبود کے میدان میں جہاں جہاں، جب جب کوئی غفلت ہوئی، اُس پر سڑک کا پردہ ڈال دیا۔ مخالفین نے احتجاج کیا، تو اسے ڈھال بنا کر کہہ دیا: یہ اقتصادی راہ داری اور پاکستان کی ترقی کے دشمن ہیں۔ بالآخر چین کا صبر جواب دے گا۔ 9 جنوری کو چینی سفارت خانے نے بیان جاری کیا کہ بھائی، یہ راہ داری پورے پاکستان کے لیے ہے، تمام شہری اس سے مستفید ہوں گے، برائے مہربانی سیاسی جماعتیں اختلافات ختم کریں، اور منصوبے کے لیے موافق حالات پیدا کریں۔ یعنی سمجھایا، بچوں کی طرح لڑنا بند کرو، کچھ عقل سے کام لو۔

صاحب، چین کی برداشت کو داد دیجیے، بھارت اور وہ حریف، ایسے میں پاکستان، جو قدم قدم پر لڑکھڑاتا ہے، اس کا فطری اتحادی ٹھہرا۔ چین بڑے بھائی کی طرح اسے سنبھالتا ہے، سمجھتا ہے۔ جانے ہم چینی بھائیوں کے مشوروں پر کب عمل کریں گے۔

٭ جب ورلڈ کپ ٹرافی آرمی پبلک اسکول پہنچی

سانحۂ آرمی پبلک اسکول پاکستانی تاریخ کا سیاہ ترین باب ہے، بے گناہ، معصوم بچوں کو بے دردی سے قتل کیا گیا۔ ظلم کی ایک ہول ناک داستان۔ پوری قوم لواحقین کے ساتھ جا کھڑی ہوئی۔ سانحے کے بعد اِس درس گاہ کی حیثیت یک سر بدل گئی۔ ملک میں جب کوئی خوشی کا موقع آیا، کوئی بڑا واقعہ ہوا، اِس ادارے کو، اِس کے شہدا کو یاد کیا گیا۔ ٹی 20 ورلڈ کپ کی ٹرافی پاکستان آئی، تو 11 جنوری کو اس کی رونمائی کے لیے آرمی پبلک اسکول کا انتخاب فطری تھا۔ اس تقریب میں پاکستانی کپتان، اظہر علی بھی موجود تھے۔ اس سے قبل عالمی شہرت یافتہ باکسر، عامر خان نے بھی آرمی پبلک اسکول کا دورہ کیا تھا، پاکستان ٹیم کے دیگر کھلاڑی بھی شہدا کے لواحقین سے یک جہتی کے لیے اس درس گاہ کا دورہ کر چکے ہیں۔

٭ترکی میں جرمن ہلاک

کبھی آپ اپنی ناقص پالیسیوں کا خمیازہ بھگتے ہیں، کبھی اوروں کی۔ پاکستان اِسی تلخ تجربہ سے گزر رہا ہے۔ ترکی بھی لگ بھگ اِسی صورت حال سے دوچار۔ 12 جنوری کو استبول میں ہونے والے خود کش حملے میں اُس ہول ناک صورت حال کی ابتدائی جھلک نظر آگئی تھی، جس کا اس برس ترکی کو سامنے کرنا تھا۔ متعدد حملے، سیکڑوں ہلاکتیں۔ مذکورہ واقعے میں 9 جرمن سیاح ہلاک ہوئے۔ ذمے داری داعش پر عاید کی گئی۔

٭ پولیو ورکرز پر ایک اور حملہ

پولیو ایک موذی مرض ہے، مگر اس سے نجات کے لیے جو رضاکار گھر گھر آکر قطرے پلاتے ہیں، وہ بھی ایک مہلک مرض کا شکار۔ اور یہ مرض ہے دہشت گردی۔ کتنی ہی بار ان نہتے، غریب رضاکاروں پر گولیاں برسائی گئیں۔ حکم رانوں نے مذمت کی، دہشت گردوں سے آہنی ہاتھ سے نمٹنے کا عزم دہرایا، سیکیوریٹی دینے کا وعدہ کیا، اور بھول گئے۔ یہ ہے اصل پاکستان۔

13 جنوری کو کوئٹہ میں انسداد پولیو مرکز کے باہر خود کش دھماکا ہوا۔ واقعے میں 13 پولیس اہل کاروں سمیت 15 افراد اپنی جان سے گئے۔ مرکز میں دو سو سے زاید رضاکار تھے۔ سیکیورٹی پر مامور پولیس اہل کاروں نے اپنی جانوں کی قربانی دی، ورنہ سانحے کی شدت کئی گنا زیادہ ہوتی۔ اور واقعے کے بعد کیا ہوا، مذمت، دہشت گردی کے خاتمے کا عزم، اور مرنے والوں کے لیے فی کس پانچ لاکھ روپے۔

(جس روز یہ سانحہ ہوا، اسی دن افغانستان میں پاکستانی قونصل خانے کے قریب ہونے والے خودکش دھماکے میں بارہ افراد اپنی جان سے گئے)

٭ داعش، اب انڈونیشیا میں!

اسلامی دنیا دہشت گردی کی لپیٹ میں ہے۔ اِس کا قصور فقط طاغوتی قوتوں پر دھرنا کافی نہیں، ہماری غفلتوں کی فہرست بھی طویل ہے صاحب۔ انڈونیشیا نے خود کو بڑی حد تک پرائے جھگڑوں سے دور رکھا، مگر جب دنیا گلوبل ولیج بن جائے، تو پڑوسی کی آگ کا آپ کے گھر تک پہنچنا یقینی۔ اس بار جکارتا نشانہ بنا۔ 14 جنوری کو شہر فائرنگ اور بم دھماکوں سے گونج اٹھا۔ اٹھارہ افراد جان سے گئے۔ متعدد زخمی ہوئے۔ واقعے کے بعد انڈونیشیا کی اسٹاک مارکیٹ کریش کر گئی۔ دہشت گردی کی ذمے داری اسی تنظیم نے قبول کی، جو تیزی سے عالمی سطح پر دہشت کی علامت بن گئی ہے، یعنی داعش۔

٭ افریقا اور دہشت کی تاریکی

افریقا میں غربت، بیماری اور افلاس کی تاریکی چھائی تھی۔ پھر دہشت گردی نے اس تاریکی کو مزید دبیز کر دیا۔ 16 جنوری کو مغربی افریقی ملک برکینا فاسو کے ایک ہوٹل میں عسکریت پسندوں کے حملے میں غیرملکیوں سمیت 26 افراد اپنی جان سے گئے۔

تاریکی مزید دبیز ہوگئی۔۔۔

٭ اور ’’یوٹیوب‘‘ کھل گئی۔۔۔

بھیا، اب چور دروازے سے انٹرٹیمنٹ کی دنیا میں داخل ہونے کی ضرورت نہیں۔ 18 جنوری بغلیں کو سرکار نے یوٹیوب بحال کردی۔ ہاں، ورژن پاکستانی ہے۔ شاید اتنا کھلا ڈلا نہ ہو، مگر بھاگتے چور کی لنگوٹی سہی۔ کسی طور تو یہ بیل منڈھے چڑھی۔

٭رعد، ایک کام یاب تجربہ!

ایک کام یاب تجربے کے پیچھے متعدد ناکام تجربات ہوتے ہیں۔ جیسے ایڈیسن نے بلب کی روشنی قبل سیکڑوں بار ناکامی کی تاریکی کا سامنا کیا۔ البتہ خبر ہمیشہ کام یاب تجربات ہی کی بنتی ہے۔ پاکستانی میزائل پروگرام بھی کئی مراحل سے گزرا ہوگا، ابتدا میں مشکلات پیش آئی ہوں گی، مگر اب ہمارے ایٹمی سائنس داں جو بھی تجربہ کرتے ہیں، وہ کام یابی ہی پر منتج ہوتا ہے۔ 19جنوری کو پاکستان کی جانب سے جدید ترین کروز میزائل، رعد کا کام یاب تجربہ کیا گیا، جو زمین اور سمندر میں 350 کلومیٹر کے علاقے میں اپنے ہدف پر ٹھیک ٹھیک نشانہ لگاتا ہے۔

٭چارسدہ کی وہ قاتل صبح

وہ ایک قاتل صبح تھا۔ شہر کی پرسکون فضا میں گولیاں گونجنے لگی۔ دھماکے ہوئے۔ سراسیمگی کا عالم تھا۔ فضا اندیشوں اور خون سے بوجھل ہوگئی۔۔۔

سانحۂ آرمی پبلک اسکول کے زخم ابھی بھرے نہیں تھے کہ 20 جنوری کو چارسدہ میں ایک اور قیامت ٹوٹ پڑی۔ دہشت گردوں نے باچا خان یونیورسٹی، چارسدہ پر حملہ کردیا، اور 30 مظلوموں کی جان لے لی۔ حملے کے وقت عدم تشدد کے علم بردار، عبدالغفار خان المعروف باچا خان کی یاد میں ایک مشاعرہ ہورہا تھا۔ حملہ آوروں کی تعداد چار تھی، جنھیں مقابلے میں ہلاک کر دیا گیا۔ اس واقعے نے پوری قوم کو غم زدہ کردیا۔

واقعے کی ذمے داری تحریک طالبان پاکستان کے اس گروپ نے قبول کی، جو ماضی میں سانحۂ آرمی پبلک اسکول کی ذمے داری قبول کرچکا ہے۔ البتہ طالبان کے ایک حصے کی جانب سے اُس کی مذمت کی گئی۔ چارسدہ یونیورسٹی کے پروفیسر ڈاکٹر حامد حسین ایک ہیرو کے طور پر ابھرے، جنھوں نے طلبا کو بچانے کے لیے دہشت گردوں سے باقاعدہ مقابلہ کیا۔ اپنے ذاتی پستول سے اُن پر فائرنگ کی۔ اُنھوں نے اپنی جان دے کر طلبا کی حفاظت کی۔ پاکستان نے الزام عاید کیا کہ اِس حملے میں افغانستان کی زمین استعمال ہوئی ہے۔ افغانستان کی جانب سے تردید کی گئی۔ آنے والے دنوں میں سہولت کار گرفتار کیے گئے۔ لواحقین اپنے پیاروں کو یاد کرکے روتے رہے۔

٭ شکریہ راحیل شریف

پاکستان میں شاید ہی جنرل راحیل شریف جتنا مقبول سپاہ سالار گزرا ہو۔ شہر شہر بینر، جگہ جگہ پوسٹرز، گاڑیوں کی ونڈ اسکرینز پر تصویریں۔ عوام اُن ہی کو حکم راں خیال کرتے تھے۔ الغرض ان کی شبیہہ Larger than Life تھی۔کئی حلقے عسکری پالیسیوں میں تسلسل کے لیے ان کی توسیع کے خواہش مند تھے۔ اس ضمن میں ملٹری اور سول قیادت میں تناؤ کی خبریں بھی آئیں، مگر 25 جنوری کو ایک ڈرامائی موڑ آیا۔ جنرل راحیل شریف نے اعلان کردیا کہ وہ توسیع پر یقین نہیں رکھتے، اس سے جڑی تمام افواہیں بے بنیاد ہیں، اور وہ وقت پر ریٹائر ہوجائیں گے۔

اِس بیان کے بعد ملک بھر میں بینر لگ گئے، جن میں اُن سے درخواست کی گئی: ’’جانے کی باتیں جانے دو!‘‘ کچھ میں تو مشورہ بھی تھا: ’’آب آجاؤ!‘‘ کراچی پریس کلب کے باہر ایک شخص تادم مرگ بھوک ہڑتال پر بیٹھ گیا۔ اینکر حضرات کو نیا موضوع مل گیا۔ جنرل راحیل شریف کی توسیع ایک ملک گیر معاملہ بن گیا۔

البتہ سال کے آخر میں یہ بحث تمام ہوئی، جب جنرل راحیل شریف نے باوقار لیڈر کی طرح کمان نئے آرمی چیف کے ہاتھ میں سونپ دی۔ یہ کہنا غلط نہیں ہوگا کہ انھوں نے فقط تین برس میں پاکستانی تاریخ پر ان مٹ نقوش چھوڑے، اور 25 جنوری کو جو کچھ کہا تھا، اس پر قائم رہے۔

٭ سعودی عرب اور دہشت گردی کا چنگل

29 جنوری کو سعودی عرب کے علاقے محاسن میں اہل تشیع مسلک کی ایک مسجد پر، نماز جمعہ کے وقت خودکش حملہ ہوا، جس میں چار نمازی اپنی جان سے ہاتھ دھو بیٹھے۔۔۔

واقعے کے بعد پہلا سوال یہی اٹھا: ’’کیا پاکستان اور ترکی کے بعد اب سعودی عرب بھی اپنی ناقص پالیسیوں کی لپیٹ میں آگیا ہے؟‘‘

آنے والے دونوں میں شیعہ آبادی کی مساجد میں مزید حملے کیے گئے، جن کی ذمے داری داعش نے قبول کی۔

٭ آخر عذیر بلوچ بھی گرفتار ہوا!

بالآخر، لیاری گینگ وار کے اہم ترین کردار، کراچی میں پی پی کی سیاست کے مرکزی مہرے، پیپلزامن کمیٹی کے سربراہ، عذیر بلوچ کو، سرکاری موقف کے مطابق 30 جنوری کو کراچی میں داخل ہوتے ہوئے گرفتار کرلیا گیا۔ گرفتاری کے فوراً بعد عدالت میں پیشی ہوئی، اور پھر 90 روزہ ریمانڈ پر رینجرز کے حوالے کردیا گیا۔ گرفتاری کی تصاویر بھی شایع ہوئیں۔ صاف ستھرا لباس، جوتوں پر پالش، چہرہ تازہ؛ ملزم خاصا ’’فریش‘‘ لگ رہا تھا۔ کچھ تجزیہ کاروں کا خیال تھا کہ عذیر پہلے سے سیکیوریٹی فورسز کی تحویل میں تھا۔ اگلے روز خبر آئی، عذیر نے بے نظیر قتل کیس کے اہم ترین گواہ، خالد شہنشاہ سمیت 400 افراد کے قتل کا اعتراف کرلیا ہے۔

٭شام، مقدس مقامات پھر نشانے پر۔۔۔

شام پر بدبختی کا سایہ ہے، وہاںخون بے وقعت ہوا، اور زمین یاس کی راکھ سے ڈھک گئی۔۔۔

31 جنوری کو دمشق میں نواسی رسول حضرت زینب کے مزار کے باہر تین خود کش دھماکے ہوئے، جن میں 60 افراد اپنی جان سے ہاتھ دھو بیٹھے۔ زخمیوں کی تعداد سو سے زاید تھی۔ حملے میں درجنوں گاڑیوں کا آگ لگ گیا۔ علاقہ جہنم کا منظر پیش کرنے لگا۔ ذمے داری داعش نے قبول کی۔

فروری 2016

٭پی آئی اے، نج کاری، احتجاج اور فائرنگ

پی آئی اے میں نجکاری کے اعلان نے ملازمین کو آگ بگولا کردیا۔ فیصلہ یہ وفاق کا تھا۔ ملک بھر میں احتجاج ہوا، مگر اصل مرکز تھا، کراچی! ن لیگ کا الزام تھا کہ اس احتجاج کو پی پی کی پشت پناہی حاصل رہی۔

2 جنوری کو حج ٹرمینل پر مظاہرین پر لاٹھی چارج ہوا، شیلنگ کی گئی، پانی پھینکا گیا، مگر صورت حال اس وقت گمبھیر شکل اختیار کر گئی، جب فائرنگ کے ایک پراسرار واقعے میں دو مظاہرین اپنی جان سے گئے۔ گولیاں کس نے چلائیں، کیوں چلائیں، یہ ایک معما تھا۔ بعد میں اس گتھی کو سلجھانے کوئی خاص کوشش نہیں کی گئی۔فضائی آپریشن کچھ روز بند رہا۔ عوام خوار ہوتے رہے۔ آخر 9 فروری کو، دو جانیں ضایع ہونے، ڈھائی ارب کے نقصان کے بعد، بنا کوئی مطالبات منوائے، پی آئی اے ملازمین نے ہڑتال ختم کرنے کا اعلان کر دیا۔

٭ کہانی کا گوتم

اردو کے عہد ساز ادیب، نام ور فکشن نگار، جناب انتظار حسین 2 فروری کو جہان فانی سے کوچ کر گئے۔ کہانی کا گوتم بدھ اپنی ’’بستی‘‘ چلا گیا، مگر کہانی جاری ہے۔ یہ اُس کا اِس سنسار کے لیے تحفہ تھا۔

٭کوئٹہ، پھر راکھ، پھر خون!

کوئٹہ کی فضا میں راکھ ہے، اِس کی خاموشی میں چیخوں کا شور ہے۔۔۔

6 فروری کو فورسز کے قافلے پر خودکش حملہ ہوا۔ واقعے میں گیارہ اہل کار شہید ہوگئے۔ تحریک طالبان نے ذمے داری قبول کرلی۔ حکم رانوں نے مذمت کی، اور کہانی ختم ہوئی۔

٭ ’’دیوتا‘‘ کا خالق چلا گیا!

اردو کے طویل ترین ناول ’’دیوتا‘‘ کے مصنف، پاپولر ادب میں نئے رجحانات متعارف کروانے والے، محی الدین نواب 6 فروری کو دنیا سے رخصت ہوئے۔ افسوس، ناقدین نے انھیں پڑھنے کی بھی ضرورت محسوس نہیں کی!

٭ ہماری تمھاری بجیا!

اُنھیں دیکھ کر سر عقیدت و احترام سے جھک جاتا۔۔۔مجسم محبت تھیں۔ روشنی سے بھری ہوئی۔ رجائیت پسند، بلند حوصلہ۔ وہ اپنے معتبر خاندان کے تاج کا سب سے بیش قیمت ہیرا تھیں۔ ایک زرخیز تہذیب کی علامت۔ اردو ڈراموں کو اُنھوں نے نیا روپ دیا۔ رواں برس 10 فروری کو وہ ہم سے جدا ہوئیں۔

بجیا۔۔۔ آپ کو ہمیشہ یاد رکھا جائے گا!

٭ حیدرآباد جیل، جسے توڑنے کی کوشش ناکام ہوئی

ایک حقیقی خبر۔ اِس بار سانحے سے پہلے ہی اسباب کا سدباب کر لیا گیا۔ 12 فرروری کو سیکیوریٹی فورسز نے حیدرآباد جیل پر حملے کا منصوبہ ناکام بنانے کا اعلان کیا۔ تین انتہائی مطلوب افراد سمیت 94 خطرناک دہشت گرد گرفتار کیے گئے۔ وہ 6 خودکش بمباروں بھی قانون کی گرفت میں آگئے۔

٭شرمین کی فلم وزیراعظم ہاؤس میں

کیا پاکستان کے ریاستی بیانیے میں تبدیلی آرہی ہے؟

ماہرین کے مطابق وہ ریاستی بیانیہ، جس کی تشکیل و ترویج کا آغاز ضیا دور میں ہوا، جسے پی پی کی تین حکومتیں تبدیل نہ کرسکیں، اسے میاں صاحب کی موجودہ حکومت دھیرے دھیرے ہی سہی، بدلنے کی کوشش کر رہی ہے۔ یہ موقف کتنا درست، اس کی تو خبر نہیں، مگر 15 فروری کو وزیراعظم کی جانب سے آسکر ایوارڈ یافتہ فلم میکر، شرمین عبید چنائے کی فلم A Girl In the River کا پریمیئر وزیراعظم ہاؤس میں منعقد کرنے کے اعلان سے یہ امید پیدا ہوئی تھی کہ اب اِس فرسودہ رسم کے خلاف ٹھوس اور جامع اقدامات ہوں گے۔

٭ انقرہ پھر نشانے پر۔۔۔

خون ہے، آگ ہے، رقص ابلیس ہے۔۔۔

ترکی پھر نشانے پر۔ 17 جنوری کو دارالحکومت انقرہ ہول نار کار بم دھماکے سے گونج اٹھا۔ واقعے میں 28 افراد ہلاک ہوئے۔ 60 سے زاید شدید زخمی۔ بم ایک گاڑی میں نصب تھا، نشانہ فوجی قافلہ تھا۔

٭ فاروق ستار اور علامتی بھوک ہڑتال

بدلتا ہے رنگ آسماں کیسے کیسے۔ وہی فاروق ستار، جو اب ایم کیو ایم قائد سے لاتعلقی ظاہر کر چکے ہیں، اُنھوں نے 19 فروری کو کراچی پریس کلب کے باہر چار روزہ علامتی بھوک ہڑتال کے کیمپ سے خطاب کرتے ہوئے متحدہ قائد کے بیانات اور تصاویر پر عاید پابندی فوری ہٹانے کا مطالبہ کیا، اور انسانی حقوق کی تنظیموں سے اِس ضمن میں آواز بلند کرنے کی درخواست کی۔ ایم کیو ایم کے معاملے میں 2016 میں واقعات اس قدر تیزی سے رونما ہوئے، اور اس عجیب ڈھب پر ہوئے کہ اب مڑ کر اِس خبر کو دیکھیں، تو حیرت ہوتی ہے کہ اچھا صاحب، ایسا بھی کوئی واقعہ ہوا تھا۔

٭جب مشرف کے وارنٹ جاری ہوئے

ایسے میں جب مشرف کیس کے تازہ ترین حالات آپ کے سامنے ہیں، 20 فروری کی اُس خبر کو یاد کرنا ایک پُرلطف تجربہ ہوگا، جب سیشن کورٹ نے لال مسجد آپریشن کیس میں پرویزمشرف کے ناقابل ضمانت وارنٹ جاری کردیے تھے۔ توقع کے عین مطابق انھیں گرفتار نہیں کیا گیا۔ یہی نہیں، ن لیگ کی حکومت، جو مشرف کے 12 اکتوبر کے اقدام سے براہ راست متاثر ہوئی تھی، سابق جنرل کو ملک سے باہر جانے سے بھی نہیں روک سکی۔ سال کے آخر میں پرویز مشرف نے یہ بیان دے کر خاصی سرخیاں بٹوریں کہ انھیں محفوظ راستے دینے میں جنرل راحیل شریف کا اہم کردار رہا، تو پرویز مشرف کے ناقابل ضمانٹ وارنٹ جاری ہوئے ہیں۔۔۔

٭ پٹھان کوٹ حملہ، پنجاب میں گرفتاریاں

پاکستانی خارجہ پالیسی تضادات کا مجموعہ ہے۔

جب پٹھان کوٹ حملہ ہوا، تو اعلان کیا گیا: ہمارا اس سے کوئی تعلق نہیں۔ جب وہاں کے ایک تحقیقاتی ادارے نے بھی کہا کہ اس معاملے میں پاکستانی ریاست شامل نہیں، تو اِسے ’’کلین چٹ‘‘ قرار دیا، مگر دوسری جانب خاموشی سے اس ضمن میں آپریشن بھی جاری رکھا۔ 22 فروری کو خبر آئی کہ پٹھان کوٹ حملے کے سلسلے میں سیکیورٹی اداروں نے پنجاب کے مختلف شہروں میں چھاپے مار کر متعدد افراد کو گرفتار کر لیا۔ واضح رہے کہ اس ضمن میں 14 جنوری کو مولانا مسعود اظہر کو پاکستانی سیکیوریٹی اداروں نے حفاظتی تحویل میں لے لیا تھا۔

٭پہلی سپر لیگ مصباح کے نام

پاکستان کی پہلی سپر لیگ 23 فروری اپنے اختتام کو پہنچی۔ مصباح الحق فاتح ٹھہرے۔ اسلام آباد نے ٹرافی اٹھائی۔ یہ سنسنی خیز اور دل چسپ ایونٹ کرکٹ متوالوں کے لیے خوش گوار یادیں چھوڑ گیا۔ میڈیا نے بھرپور کوریج کی۔ اسے پاکستان میں انٹرنیشنل کرکٹ کی بحالی کی جانب پہلا قدم گردانا گیا۔

٭ حبیب بھی چلے گئے!

چھے سو سے زاید فلموں میں جلوہ گر ہونے والے معروف فن کار، حبیب 25 فروری کو مختصر علالت کے بعد انتقال کرگئے۔ گوجرانوالا سے ابھرنے والے اس فن کار نے انگریزی، اردو اور فارسی میں ماسٹرز کیا تھا۔ اس زمانے فن کار تعلیمی سلسلے میں غفلت نہیں برتتے تھے۔

٭ڈاکٹر عاصم، قومی خزانہ اور 462 ارب روپے

سال کے آغاز میں جس کیس نے کھلبلی مچائی، اس کی بازگشت سال کے آخر تک سنائی دیتی رہی۔ سب سے ڈرامائی موڑ تو ڈاکٹر عاصم کی گرفتاری ہی تھا، مگر جب 25 فروری کو نیب نے ڈاکٹر عاصم سمیت چھے ملزمان پر قومی خزانے کو 462 ارب سے زاید کا نقصان پہنچانے کا الزام عاید کیا، چالیس صفحات پر مشتمل کرپشن ریفرنس احتساب عدالت میں دائر ہوا، تو تجزیوں، تبصروں کا نہ رکنے والا سلسلہ شروع ہوگیا۔ پی پی پر دباؤ بڑھنے لگے، جو اب تک قائم ہے۔

٭شمالی وزیرستان میں بڑی کارروائی

27 فروری کو شمالی وزیرستان میں فضائی اور زمینی کارروائی میں 34 دہشت گرد ہلاک اور متعدد زخمی ہوگئے۔ اِس دوران کیپٹن عمیر عباسی سمیت چار اہل کاروں نے جام شہادت نوش کیا۔ اِس کارروائی کو ضرب عضب کا آخری مرحلہ قرار دیا گیا۔

٭ بھارت پھر جیت گیا!

27 فروری کو بھارت نے ایشیا کپ میں پاکستان کو پانچ وکٹوں سے شکست دے دی۔ پاکستانی بلے باز فقط 83 رنز ہی بنا سکے۔ گو محمد عامر نے پہلے اوور میں تین وکٹیں اپنے نام کر کے سنسنی پھیلا دی تھی، مگر پھر ویرات کوہلی ٹک گئے۔

٭ اور آسکر شرمین کے نام ہوا

پاکستانی فلم میکر، شرمین عبید چنائے نے29 فروری کو منعقد ہونے والے 88 ویں آسکر میلے میں اپنی دستاویزی فلم A Girl In the River کے ایک اور آسکر اپنے نام کر لیا۔ فلم کا موضوع غیرت کے نام پر ہونے والے قتل کی فرسودہ روایت تھی۔

٭ ممتاز قادری کی پھانسی

سابق گورنر پنجاب، سلمان تاثر کے قتل کیس میں اُن کے گارڈ، ممتاز قادری کو 29 فروری کو پھانسی دے دی گئی۔ یہ کیس علما کے ایک حلقے کے موقف اور عوامی احتجاج کے باعث متنازعہ اور حساس شکل اختیار کر گیا تھا اور سزا پر عمل درآمد سے کئی اندیشے وابستہ ہوگئے تھے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔