تیز ترک گامزن

فریدہ فرحت آغازئی  پير 2 جنوری 2017

پاکستان کے تعلقات چین کے ساتھ ہمیشہ سے ہی اچھے رہے اور پاک چین دوستی زندہ باد کا نعرہ ہم بچپن سے سن سن کر بڑے ہوئے اور ہمارے کچے پکے ذہنوں میں چین ایک دوست ملک کی حیثیت سے رہا اور ہر موقعے پر یہ رنگ گہرا ہوتا گیا۔ سچ بتاؤں تو مجھے چائنا جانے اور وہاں کی ترقی اور معاشرت کو دیکھنے کا ایک شوق بھی برسوں سے ہے۔ اﷲ کا حکم ہوا تو ایسا مستقبل میں متوقع ہے۔

2010ء میں جب US کے وفد نے چین کا دورہ کیا اور جس کا مقصد چین کی غیر مصالحانہ یا غیر مشروط Uncompromising مدد اور Support جو پاکستان کے لیے ہے، پر بات کی جائے تو چین نے دو ٹوک کہا کہ تھا پاکستان ہمارا اسرائیل ہے۔

پاکستان کے لیے چین کا رویہ چونکہ ایک دوست ہمسائے کا رہا جب کہ ہماری سرحدیں دو مسلم ممالک سے ملتی ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ جب 2002ء میں گوادر کی تعمیر نو اور گوادر پورٹ پر معاملات میں پیش رفت ہوئی تب ملک کے طول و عرض پر کوئی تشویش اور Insecurity نہیں تھی۔ (قبل ازیں 1964ء میں گوادر کو بندرگاہ کے لیے موزوں قرار دیا گیا) کچھ معاملات سامنے آئے جو کہ وقت کا تقاضا تھے، لیکن سب چلتا رہا اور 2013ء میں 5 جولائی کو پاکستان اور چائنا نے Approve کیا ایک ڈیل کو، جس کو چائنا پاکستان اکنامک کوریڈور یعنی سی پیک CPEC کا نام دیا گیا جس پر باقاعدہ دستخط ہوئے۔

8 نومبر 2014ء کو لاہور میں جس میں چین نے گارنٹی دی ہے کہ تمام انویسٹمنٹ چین کی ہو گی جو کہ 42 بلین ڈالر لکھی گئی جب کہ پاکستان نے گارنٹی دی ہے کہ وہ چائنا کا بھرپور ساتھ دے گا۔ ان کی اس لڑائی میں جو Xinjiang Conflict کے عنوان سے 1960ء سے خانہ جنگی کا شاخسانہ بنی ہوئی ہے اس بات پر پاکستان نے دستخط کیے ہیں جو کہ صرف الفاظ نہیں ہیں بلکہ اس کے لیے کچھ عملی اقدامات بھی اٹھائے گئے ہوںگے اور اپنی عسکری طاقت کو اس Conflict یا تنازع کے لیے تیار بھی کیا گیا ہو گا۔

اب اس تنازع میں کون کون سے ملک اپنا کردار ادا کر رہے ہیں اور کون کس کے ساتھ ہے یہ بہت طویل اور پر مغز بحث ہو جائے گی۔ آج جس نازک دور سے کرۂ ارض گزر رہا ہے اس میں تکلیف دہ پہلو یہ ہے کہ امت مسلمہ آپس میں برسر پیکار ہے۔ بہرحال CPEC منصوبے پر کام ہو رہا ہے اور خوب ہو رہا ہے۔ یہ کوریڈور چائنا سے گوادر تک جاتا ہے اور راستے میں آنے والے ہر پڑاؤ پر کوئی نہ کوئی کام دیکھنے اور مشاہدے میں آ رہا ہے جیسے کہ لاہور میں میٹرو بس اور ٹرین اور مزید ترقیاتی کام وغیرہ۔

اب سوال یہ اٹھتا ہے کہ آیا CEPC منصوبے بلوچستان میں بھی اتنے ہی مقبولیت کے حامل ہیں؟ وہاں کے لوگوں کی رائے میں اسے ابھی تک قبول کیا گیا ہے؟ یا نہیں؟

جیسا کہ شروع میں ہوا وہاں ملا جلا رد عمل سامنے آیا جس سے کہیں تو یہ تاثر ملتا تھا کہ وہاں کے عوام کسی بھی تبدیلی کو قبول کرنے کو تیار ہیں یا وہاں کے امرا اور کرتا دھرتا لوگ اپنی راج دہانی میں کوئی بھی تبدیلی نہیں چاہتے اور بلوچستان کو پاکستان کا حصہ ہی نہیں سمجھتے اور بھی بہت سی قیاس آرائیاں ہیں لیکن جب بھی کبھی کسی عام بلوچی عوام میں سے کسی کو بھی اپنی آواز اٹھانے کا موقع ملا انھوں نے یہی کہاکہ ہمیں پانی اور تعلیم کی بنیادی ضروریات کی محرومی کا گلہ ہے جو ہماری ترقی کی راہ کی سب سے بڑی رکاوٹ ہے۔ بہر حال اس صوبے کے لوگوں کی بھی آواز ہے اور اسے وفاق کو سننا ہے ہو گا تا کہ ان کے مسائل کے حل کی طرف بھی قدم بڑھائے جائیں اور نہ صرف چائنا بلکہ پاکستانی حکومت بھی ان کے لیے اور ان کے علاقے کے لیے اپنی کوششیں شروع کرے۔

یہ بھی حقیقت ہے کہ بلوچستان میں ملک کی 7 فی صد آبادی رہتی ہے لیکن بہتری کو پورا پاکستان کا مقصد بننا چاہیے مگر بد قسمتی سے بلوچستان اور سندھ کے صوبے انصاف کے منتظر ہی ہیں نہ جانے کب سے اور نہ جانے کب تک جب کہ سندھ وہ صوبہ ہے جہاں آبادی بھی زیادہ ہے اور معدنی ذخائر اور اﷲ کی نعمتوں سے تو مالا مال ہے ہی بلکہ اس صوبے کے لوگوں کو اقتدار کے بھی بیشتر مواقعے ملتے رہے مگر اﷲ ان مقتدر حضرات کو ہدایت دے کہ وہ ان صوبوں کے لیے بھی کچھ بہتری کے اقدامات کریں۔ لوگوں کی دنیا اور اپنی آخرت سنوار لیں۔

گوادر کی اپنی ایک تاریخ ہے جو پاکستان کے حوالے سے نہایت اہم معلومات ہیں جو سبھی کو معلوم ہونی چاہیے۔ گوادر ایران کی سرحد کے ساتھ بحیرۂ عرب کے جنوبی ساحل پر واقع ہے، پہلے یہ علاقہ خان آف قلات کی آزاد ریاست ہوا کرتا تھا۔ 1781ء میں مسقط کے شہزادے نے یہاں پناہ لی، قلات کے حکمران نے اسے یہ جزیرہ بخش دیا تھا۔ جب وہ شہزادہ مسقط کا حکمران بن گیا تب اپنے ملک واپس لوٹ گیا تو گوادر مسقط کا حصہ بن گیا اور قیام پاکستان تک مسقط کا حصہ ہی رہا۔ مختصر یہ کہ قیام پاکستان کے 10 سال بعد 1957ء میں حکومت پاکستان نے مسقط سے خرید کر اسے پاکستان کا حصہ بنا لیا۔

چینی حکام اسلام آباد سے چین تک شاہراہ قراقرم کے منصوبے کو وسیع کرنا چاہتے ہیں، اسے گوادر سے منسلک کریں گے لیکن بھارت خطے میں چین کی موجودگی سے خوفزدہ ہے۔ اس نے ملک کو Proxy War کی بھینٹ چڑھادیا اور گوادر میں چائنا کا قدم 2002ء سے ہونے کے باوجود کئی سال جمود سا طاری رہا۔ اب جب سے CPEC کے معاہدے پر دستخط ہوئے تب سے معاملات بہتری کی طرف جاتے ہوئے نظر آ رہے ہیں۔ ایک امیدکی کرن جگمگائی تو ہے اور قوی امید ہے کہ اب تیزی سے سارے ادھورے منصوبے پایہ تکمیل کو پہنچیںگے اور میرے وطن میں بھی ترقی ہو گی اور اس ملک کی عوام سکھ کا سانس لیں گے۔

منزلِ ما دور نسیت

تیز ترک گامزن

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔