دیو کا سامنا

آفتاب احمد خانزادہ  بدھ 4 جنوری 2017

اگر خود آپ اپنے راستے میں حائل نہ ہوں تو اور کوئی چیز آپ کے ارادے میں رکاوٹ نہیں ڈال سکتی۔ پکوڈیلہ میرانڈولہ (1396ء تا 1459ء) نے انسان پر اپنے اعتماد کا اظہار ان مشہور الفاظ میں کیا ہے جو اس نے اپنی کتاب ’’انسان کی عظمت پر ایک خطبہ‘‘ میں خدا سے منسوب کیے ہیں۔

پکو کے الفاظ میں خدا آدم سے مخاطب ہو کر کہتا ہے ’’اے آدم میں نے تمہاری تقدیر نہ ہی پہلے سے طے کی ہے اور نہ ہی تمہیں خصوصی مراعات دی ہیں، میں چاہتا ہوں کہ تم خود اپنے فیصلے اور انتخاب کے ذریعے یہ سب کچھ حاصل کرو، تمہارے سوا میری تمام مخلوقات میرے طے کردہ قوانین کے مطابق زندگی بسر کرتی ہیں، ان کی فطرت ہی یہی ہے، لیکن تم اپنی فطرت کا تعین کسی رکاوٹ کے بغیر اس آزادی کے ذریعے خود ہی کرو گے جو میں نے تمہیں عطا کی ہے، میں نے تمہیں کائنات کے مرکز میں رکھ دیا ہے تاکہ اس مقام سے تم بہتر نظارہ کر سکو، تم نہ ہی آسمانی مخلوق ہو، نہ ہی محض اس دنیا کی۔ تم نہ فانی ہو اور نہ ہی لافانی، یہ اس لیے ہے کہ ایک آزاد اور خودمختار دستکار کی طرح تم اپنے آپ کو اپنی مرضی کے سانچے میں ڈھال سکو‘‘۔

آج پاکستان کے حالات بدترین سطح سے بھی نیچے آ چکے ہیں، اگر آج شاعر مشرق علامہ اقبال زندہ ہوتے تو ملک و قوم کی حالت زار دیکھ کر وہ ایک نہیں بلکہ ہزاروں شکوے لکھتے۔ لیکن حیرت انگیز بات یہ ہے کہ پاکستان کے عوام کو اپنی حالت زار پر خود رحم نہیں آ رہا ہے۔ آپ پاکستان کے لوگوں سے ملک کے حالات اور ان کے حالات زندگی پر ذرا سوال کر کے دیکھئے، تو آپ کو اپنی جان چھڑانا مشکل ہو جائے گا اور گھنٹوں بعد جب وہ اپنی بات ختم کر چکے ہوں تو آپ فوراً ان سے دوسرا سوال کر لیجئے کہ ان حالات سے نجات حاصل کرنے کے لیے آپ اپنا کردار کس طرح ادا کر رہے ہیں تو آپ دیکھیں گے کہ ان حضرات کے پاس آپ کے سوال کا کوئی جواب بھی نہ ہو گا، سوائے شرمندگی کے۔ یہاں ایک بالکل ہی سیدھا سادہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ اگر امریکا، فرانس، ایران، روس، چین اور دیگر تمام خوشحال اور ترقی یافتہ ممالک کے عوام ماضی میں اپنے اور ملکی حالات کے بارے میں یہی رویہ اور جواز رکھتے جو آج پاکستان کے عوام نے رکھا ہوا ہے تو کیا وہ اپنے عذابوں سے نجات حاصل کر سکتے تھے؟ کیا وہ ترقی یافتہ اور خوشحال بن سکتے تھے؟ ظاہر ہے آپ کا جواب نفی میں ہو گا اور یہ ہی وہ واحد نکتہ ہے جس کو پاکستان کے عوام نے سمجھنا ہے۔

ہارورڈ یونیورسٹی کے مشہور ماہر نفسیات ولیم جیمز نے کہا تھا ’’میری نسل کی عظیم ترین دریافت یہ ہے کہ انسان اپنے ذہنی رحجان کو بدل کر اپنی زندگیوں کو تبدیل کر سکتا ہے‘‘۔ ساڑھے تین سو سال پہلے جب انگریزی کا غیر فانی شاعر ملٹن اندھا ہوا تھا تو اس نے بھی یہی حقیقت معلوم کی تھی کہ ’’ذہن خود ہی اپنا مقام ہے اور خود ہی بنا سکتا ہے جنت سے جنہم اور جنہم سے جنت‘‘۔ عظیم فلسفی اپیکٹیٹس متنبہ کرتا ہے کہ ’’ہمیں اپنے جسم سے ورم، پھوڑے اور رسولیاں دور کرنے کی نسبت اپنے ذہن سے غلط خیالات خارج کرنے کی زیادہ فکر و کوشش کرنی چاہیے‘‘۔ اپیکٹیٹس نے یہ الفاظ انیس صدیاں قبل کہے تھے لیکن جدید طب اب بھی اس کی تائید کرتی ہے۔

ایک مشہور ادیب اپنی کتاب لکھنے کے دوران شکاگو یونیورسٹی گئے اور چانسلر رابرٹ مینارڈ ہیوچنز سے پوچھا ’’آپ پریشانیوں سے کیسے دور رہتے ہیں‘‘ تو انھوں نے جواب دیا: میں ہمیشہ اس چھوٹی سی نصیحت پر عمل کرنے کی کوشش کرتا ہوں جو مجھے سیزر روبک اینڈ کمپنی کے سابق صدر جولیس روزن والڈ نے کی تھی کہ ’’اگر تمہیں نیبو ملا ہو تو اس سے شربت بنا لو‘‘۔ ایک بڑے ماہر تعلیم کا تو یہ طریقہ تھا، لیکن ایک بیوقوف اس کے برعکس کرتا ہے، اگر وہ دیکھتا ہے کہ زندگی نے اسے کوئی نیبو دیا ہے تو وہ مایوس ہو جاتا ہے اور چلانے لگتا ہے، ہائے میں لٹ گیا، پٹ گیا، قسمت نے مجھے مار ڈالا، مجھے کوئی موقع نہ ملا۔ پھر وہ ساری دنیا کے خلاف شکایت کے دفتر کھول دیتا ہے اور خودترسی کی اذیت میں گرفتار ہو جاتا ہے۔

لیکن جب عقل مند انسان کو نیبو ملتا ہے تو وہ کہتا ہے میں اس مصیبت سے کیا سبق سیکھ سکتا ہوں، میں اپنی حالت کیسے سدھار سکتا ہوں، میں اس نیبو سے شربت کیسے بنا سکتا ہوں۔ زندگی بھر انسانوں اور ان کی قوتوں کے پوشیدہ سرچشموں کا مطالعہ کرنے کے بعد عظیم ماہر نفسیات الفریڈ ایڈلر نے اعلان کیا ’’انسان میں ایک تعجب خیز خوبی یہ ہے کہ اس کے پاس منفی کو مثبت میں بدل دینے کی قوت ہے‘‘۔

موجودہ صورتحال میں پاکستان کے لوگوں کے پاس دو واضح راستے موجود ہیں، ایک تو وہ بے وقوفوں کی طرح اپنی قسمت کو کوستے رہیں، چلاتے رہیں، ہائے وہ لٹ پٹ گئے، قسمت نے انھیں مار ڈالا اور ساتھ ساتھ ساری دنیا کو برا بھلا کہتے رہیں۔ یقین رکھیے آپ کو اس طرح رونے، کوسنے اور برا بھلا کہنے سے کوئی بھی نہیں روکے گا اور دوسرا راستہ عقل مندوں کا ہے کہ آپ ایک لمحے ٹھہریں، سوچیں، ارادہ کریں اور اپنی قسمت اور نصیب کو بدلنے کی جدوجہد کا آغاز کر دیں۔

لٹیروں، چوروں، ڈاکوؤں کے سامنے صف آرا ہو جائیں، ڈٹ جائیں، انھیں صاف صاف بتا دیں کہ بس بہت ہو چکا، اب کسی صورت تمہاری یہ لوٹ مار، کرپشن، ڈاکا زنی برداشت نہیں کی جائے گی۔ اب ہمیں اپنی بے اختیاری، اپنی غربت، اپنی ذلت، اپنی خواری، اپنی بے بسی، اپنی بیروزگاری سے نفرت ہو گئی ہے، ملک کے تمام اختیارات اور وسائل کے ہم مالک ہیں لیکن ان پر تمہارا جبراً قبضہ اب ہم اور برداشت نہیں کریں گے۔ اور اپنی اس آواز کے دیے سے دیا جلانا شروع کر دیں۔ پھر دیکھیں یہ چور، لٹیرے، بدکار، ڈاکو کس طرح تمہارے سامنے ہتھیار ڈالتے ہیں اور کس طرح اپنی زندگیوں کی بھیک تم سے مانگتے ہیں۔

یادر کھو عوام سے بڑی طاقت دنیا میں کوئی اور نہیں ہے۔ بس تمہاری للکار کی دیر ہے۔ تمہیں حضرت داؤد علیہ السلام اور گولائتھ کی لڑائی کا واقعہ یاد کرنا ہو گا۔ گولائتھ ایک دیو نما شخص تھا، ہر کوئی اس سے خوف کھاتا تھا، ایک دن پندرہ سالہ چرواہا بچہ اپنے بھائیوں سے ملنے آیا، اس بچے نے کہا تم اس دیو سے لڑنے کے لیے کیوں نہیں اٹھتے، اس کے بھائی گولائتھ سے خوفزدہ تھے، انھوں نے کہا تمہیں دکھائی نہیں دیتا کہ وہ اتنا لحیم شحیم ہے کہ اسے مارا نہیں جا سکتا۔ حضرت داؤد علیہ السلام نے کہا، نہیں وہ اتنا بڑا نہیں ہے کہ اسے مارا نہ جا سکے، اس کے لحیم شحیم ہونے کا فائدہ یہ ہے کہ ہمارا کوئی وار خالی نہیں جا سکتا۔ اور یہ ہی ہوا حضرت داؤ علیہ السلام نے اسے غلیل سے مار ڈالا۔ ہمیں بھی اشرافیہ کے دیو کا سامنا ہے۔ اس کے لحیم شحیم ہونے کا ہمیں بھی یہی فائدہ حاصل ہے کہ ہمارا کوئی بھی وار خالی نہیں جا سکتا ہے اور یقین ہی نہیں بلکہ ایمان ہے کہ ہم اس دیو کو غلیل سے ہی مار ڈالیں گے۔ بس ارادے کی دیر ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔