دوسروں کا بھی احساس کیجیے

عابد محمود عزام  منگل 3 جنوری 2017

معلوم ہوتا ہے کہ دوسروں کے معاملات میں بلاوجہ ٹانگ اڑانا بحیثیت مجموعی پاکستانی قوم کا محبوب ترین مشغلہ بن چکا ہے۔ زندگی کا کوئی شعبہ ایسا نہیں جہاں ہم لوگ بلاوجہ اور بلاضرورت دوسروں کے کاموں پر تنقیدکرتے، اپنی رائے دیتے، دوسروں کی رائے کو مستردکرتے، نت نئے مشورے دیتے، ان مشوروں پر عمل درآمد کی تلقین کرتے اور دوسروں کی رائے پر اپنی رائے مسلط کر کے دوسروں کے احساسات وجذبات کا خون کرتے نظر نہ آتے ہوں۔ روزمرہ کے امور سے لے کر زندگی کے اہم فیصلوں تک کسی دوسرے کے معاملات میں مداخلت کرنا شاید مجموعی طور پر ہماری عادت بن چکی ہے۔ ہم چاہتے ہیں کہ ہر کوئی ہماری پسندکے مطابق اپنی شخصیت کو بنائے، قطع نظر اس سے کہ ان کے احساسات وجذبات کیا ہیں اور انھیں کیا بات اچھی لگتی ہیں اور کیا بری لگتی ہے، ہم مسلسل اپنی بات منوانے پر تلے رہتے ہیں۔

ہر شخص کے سینے میں ایک دل اور سر میں دماغ ہے، ہر شخص اپنے فیصلے اور اچھے برے میں تمیز کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ ہر انسان کے اپنے احساسات وجذبات اور اپنی ترجیحات ہوتی ہیں، لیکن ہم ہر موقعے پر ہمیشہ اپنی رائے کو دوسروں پر مسلط کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔

ہم چاہتے ہیں کہ دنیا میں کوئی بھی شخص کسی بھی شعبے میں کوئی بھی کام کر رہا ہو، لیکن اس کو چاہیے کہ وہ ہم سے ضرور پوچھے، جس طرح ہم چاہیں، اس طرح عمل کرے۔ اگر ہم کسی چیزکو ٹھیک نہیں سمجھتے تو اسے ہرگز وہ کام نہیں کرنا چاہیے اور اگر ہم اس کے ٹھیک ہونے کی تصدیق کردیں تو وہ کام کرنا فرض کا درجہ رکھتا ہے اور دوسروں کو تکلیف دینے کے بعد ہم صرف یہ کہہ کر جان چھڑا لیتے ہیں کہ کوئی بات نہیں ، لیکن ہمیں یہ احساس نہیں ہوتا کہ اگر ہمارے نزدیک کوئی بات نہیں تو یہ ضروری تو نہیں کہ دوسرے کے نزدیک بھی کوئی بات نہ ہو، ممکن ہے دوسرے کے نزدیک بہت بڑی بات ہو۔ جو چیز ہمارے نزدیک غیر اہم ہے، ضروری تو نہیں کہ وہ دوسرے کے نزدیک بھی غیر اہم ہو۔ جس چیزکو ہم بالکل فضول سمجھ رہے ہیں، وہ دوسرے کے نزدیک انتہائی اہم بھی تو ہوسکتی ہے اور ہم اپنی جو رائے دوسرے پر مسلط کرنا چاہتے ہیں،کیا معلوم وہ دوسرے کے نزدیک انتہائی ناپسندیدہ ہو۔

ممکن ہے ہمارا مزاج، ہمارا ماحول، ہماری سوچ اور ہماری پسند، ناپسند اس شخص سے بالکل مختلف ہو جس پر ہم اپنی رائے کو مسلط کرنا چاہتے ہیں۔ ہم کسی بھی بات کو دوسرے کے حالات اور مزاج کو سامنے رکھ کر نہیں سوچتے، بلکہ جو بات ہمارے دماغ میں آگئی، اس پر عمل کروانا ہی ضروری سمجھتے ہیں۔ جب دوست آپس میں ایک دوسرے کو کوئی کام کرنے پر مجبورکرتے ہیں تو اس دوران وہ یہ بالکل بھول جاتے ہیں کہ جس کو ہم مجبورکررہے ہیں، ممکن ہے ہمارے مجبورکرنے کی وجہ سے اس کو فیملی میں مشکلات کا سامنا کرنا پڑرہا ہو۔جب والدین اپنی اولاد کوکسی بات کا حکم دیتے ہیں تو اس وقت وہ یہ بالکل بھی نہیں سوچتے کہ اولاد کی عمر، حالات اورترجیحات کا تقاضا کیاہے۔

جب اولاد اپنے والدین کے سخت رویے،ان کی ڈانٹ ڈپٹ پر تنقید کرتی ہے تو اس وقت وہ یہ بالکل نہیں سوچ رہی ہوتی کہ والدین کی عمر اور مرتبے کا تقاضا اس سے بالکل مختلف ہے جو اولاد اپنے دماغ میں سوچ رہی ہوتی ہے۔ والدین اولاد سے اپنی رائے پر عمل درآمدکروانے پر بضد ہوتے ہیں، والدین کو اس بات سے کوئی غرض نہیں ہوتی کہ اولاد کی بھی کچھ مجبوریاں ہوسکتی ہیں، اولاد کے بھی کچھ احساسات اور جذبات ہوتے ہیں۔اس کی بھی کچھ ترجیحات ہوتی ہیں، جن پر عمل کرنا اس کا حق ہے، لیکن والدین سمجھتے ہیں کہ ہم چونکہ بڑے ہیں، اس لیے جو بات ہم نے کہی ہے، صرف وہی ٹھیک ہے۔ بعض اوقات والدین اپنی انا اور ضد کے سامنے شکست کھا کر اولاد کے احساسات اور جذبات کو اپنے پاؤں تلے روند دیتے ہیں۔ ہمارے معاشرے میں لڑکیوں کے ساتھ عموماً رشتے کے معاملے میں ایسا ہوتا ہے۔

جہاں والدین چاہتے ہیں رشتہ کردیتے ہیں، ان کو اس سے کوئی غرض نہیں ہوتی کہ اس رشتے سے متعلق لڑکی کے احساسات وجذبات اور ترجیحات کیا ہیں اور اگر کسی طرح لڑکی کی ترجیحات معلوم ہو بھی جائیں، تب بھی اس کی ترجیح کو کوئی اہمیت نہیں دی جاتی۔ لڑکی والدین کی عزت کی خاطر ہاں تو کردیتی ہے، لیکن بعض اوقات اس کے احساسات و جذبات ٹوٹ کر کر کرچی کرچی ہوجاتے ہیں، وہ کرچیاں زندگی بھر اسے چبھتی رہتی ہیں، چبھن کی یہ تکلیف وہ اکیلی ہی برداشت کرتی ہے، کسی کے سامنے اس چبھن کا اظہار بھی نہیں کرسکتی، لیکن والدین تو اپنے تئیں رشتہ کر کے اپنا فرض ادا کرچکے ہوتے ہیں۔

میاں بیوی میں لڑائی جھگڑے بھی اکثروبیشتر ایک دوسرے کے احساسات وجذبات کا خیال نہ رکھنے کی وجہ سے ہوتے ہیں۔ شوہر حاکمیت کے نشے میں یہ بھول جاتا ہے کہ بیوی کے بھی کچھ احساسات وجذبات ہیں، اس کو بھی اسی طرح تکلیف ہوتی ہے جس طرح شوہرکو ہوتی ہے، جب کہ دوسری جانب بیوی انا کے خول میں بند ہوکر شوہر کے مقام ومرتبے کو بھی روندنے لگ جاتی ہے، جس سے شوہرکا اشتعال میں آنا فطری امر ہے۔ اس کو اس سے کوئی غرض نہیں ہوتی کہ وہ شوہر کے احساسات و جذبات کو پامال کر رہی ہے۔

جب نوبت دونوں کے درمیان یہاں تک آن پہنچے تو معاملات لڑائی اور پھر طلاق تک جاپہنچتے ہیں۔ احساس کتنی بڑی دولت ہے، اس بارے میں اگر یہ کہا جائے تو بے جا نہ ہوگا کہ احساس ہی زندگی ہے۔ یہ نہ ہو تو انسانیت زندہ نہ رہے۔ احساس انسان کو انسانی آلائشوں، خطاؤں، لغزشوں، غلطیوں اورگمراہیوں سے نکال کر نیکیوں جود و سخا،حلم، تقویٰ، غنا، فقر، تصوف، عبادت، جہاد، خوف خدا، محبت، اخوت اور حصول علم کی لگن کی طرف مائل کرتا ہے، لیکن جب یہ مفقود ہو جائے تو انسان قاتل، ڈاکو، لٹیرا، ظالم وجابر، منافق، جھوٹا، دھوکا باز اور خود غرض ہو جاتا ہے۔ بہ اعتبار ساخت تمام انسان یکساں ہیں، لیکن فرق احساس کا ہے۔

جذبات اور احساسات کیا ہوتے ہیں، یہ صرف وہی جانتا ہے جو اس کیفیت سے گزرتا ہے۔ ہم سب اپنی اپنی زندگی کی الجھنوں سے تو واقف ہوتے ہیں، لیکن کسی دوسرے کے دْکھ درد سے نظریں بچا کر نکل جانے میں ہی عافیت سمجھتے ہیں۔اپنے زخموں کی تکلیف تو ہرکوئی محسوس کرتا ہے، دوسروں کے زخموں کو دیکھ کرکسی کا درد محسوس کرنا ہی احساس ہے۔ ہم اگر کسی کو کوئی بات کہیں تو صرف ایک لمحے کے لیے خود کو اس کی جگہ پر رکھ کر سوچیں کہ اگر میں اس کی جگہ ہوتا تو کیسا محسوس کرتا، اگر میں اس کی عمر، اس کے مزاج، اس کے حالات سے گزر رہا ہوتا تو کیا محسوس کرتا، لیکن ہم میں سے شاید کوئی بھی اس بات کو نہیں سوچتا، بلکہ جو بات ہمارے ذہن میں آجائے اسی کو دوسرے پر مسلط کرنا ضروری سمجھتے ہیں۔

اگر ہم دل اور دماغ رکھتے ہیں، ہمیں دکھ اور درد محسوس ہوتا ہے تو کیا دوسرے لوگ پتھر کے بنے ہوئے ہیں، جن کو کوئی تکلیف محسوس نہیں ہوتی؟وہ بھی دکھ اور در محسوس کرتے ہیں۔ اگر ہم نہیں چاہتے کہ کوئی دوسرا ہم پر اپنی رائے مسلط کرے تو خود کیوں دوسروں پر اپنی رائے مسلط کرنا ضروری گردانتے ہیں؟بات صرف احساس کی ہے۔ اگر ہم اپنے اندر احساس پیدا کرلیں تو شاید ہماری وجہ سے کسی کو کوئی دکھ نہ پہنچے، اگر ہم دوسروں کی مجبوریوں کو سمجھنے کی کوشش کریں، دوسروں کی تکالیف کو بھی محسوس کریں۔ خود کو دوسروں کی جگہ رکھ کر دیکھیں تو معاشرہ جنت نظیر بن سکتا ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔