منی لانڈرنگ یا منی پارکنگ

ایاز خان  جمعرات 5 جنوری 2017
ayazkhan@express.com.pk

[email protected]

پانامہ کے ہنگامے میں وقفہ آیا تو لگتا تھا ملک کے سارے مسائل حل ہو گئے ہیں۔ اس دوران اگر کچھ ہو رہا تھا تو وہ صرف ’’ترقی‘‘تھی۔ ہم آگے ہی آگے بڑھتے جا رہے تھے۔ کچھ لوگ شاید یہ سمجھ رہے تھے کہ یہ مسئلہ ہمیشہ کے لیے ختم ہو گیا۔ سپریم کورٹ میں پانامہ کا کیس شروع ہوا تو وزیراعظم نواز شریف کے مخالفین کو امید تھی کہ یہ محض ٹی ٹوئنٹی میچ ثابت ہو گا۔

کچھ کے خیال میں یہ محدود اوورز کا ون ڈے میچ تھا۔ پھر یوں ہوا کہ اپنی ریٹائرمنٹ سے21 روز قبل سابق چیف جسٹس انور ظہیرجمالی نے اچانک اعلان کر دیا کہ وہ چونکہ ریٹائر ہونے والے ہیں اس لیے سماعت جاری نہیں رکھ سکتے۔ انھوں نے کیس کو ’’ان سنا‘‘ قرار دے کر ذمے داری نئے چیف جسٹس پر ڈال دی۔ نئے چیف جسٹس پاکستان ثاقب نثار نے حلف اٹھاتے ہی نیا 5رکنی لارجر بنچ تشکیل دے دیا۔ سابق چیف جسٹس نے 9دسمبر کو جب مزید سماعت سے معذرت کر لی تو لوگوں کو پتہ چل گیا کہ یہ ٹیسٹ میچ ہے۔ پرانے دور کے لوگ جانتے ہیں کہ 5روزہ میچ کے دوران ایک دن کا وقفہ ہوا کرتا تھا۔ تین دن کے کھیل کے بعد چوتھا دن آرام کا ہوتا تھا تاکہ کھلاڑی اپنی تھکن اتار لیں۔ کیا سست رفتار دور تھا۔

یہ تب کی بات ہے جب ون ڈے کرکٹ کی اہمیت محض ورلڈ کپ تک محدود تھی۔ آج تو ٹیسٹ میچ کو بھی 5 کے بجائے 4 دن کا کرنے پر بحث ہو رہی ہے۔ حیران ہوں کہ کرکٹ اتنی بدل گئی مگر ہماری سیاست اور ہمارے حکمران بالکل بھی نہیں بدلے۔ وہ اسی طرح عوام کی خدمت میں جتے ہوئے ہیں جیسے تین، چار دہائیاں پہلے جتے ہوئے تھے۔ ان کی بدقسمتی دیکھیں کہ اگر وہ خود نہیں بدلے تو ان کی اپوزیشن ہی بدل جاتی۔ مگر نہیں، اپوزیشن بھی ویسی کی ویسی ہے۔ اپوزیشن کے ایک دھڑے سے اگر جمہوریت کا کوئی میثاق وغیرہ ہو گیا ہے تو دوسرے دھڑے نے مصیبت کھڑی کی ہوئی ہے۔ حکومتی عمائدین کہتے ہیں کہ اس دھڑے کو ملک کی ترقی ہضم نہیں ہو رہی۔

دھرنوں سے صاف بچ جانے والی حکومت بالکل پرسکون ہو چکی تھی کہ بیٹرہ غرق ہو اس جرمن اخبار کا جس نے پانامہ لیکس کا پنڈورا باکس کھول دیا۔ ہمارے وزیراعظم بیمار ہو کر لندن پہنچ گئے۔ وہاں ایک اسپتال میں ان کے بائی پاس وغیرہ ہوئے اور وہ نئی توانائی کے ساتھ وطن واپس آگئے۔ اس دوران شور شرابا جاری رہا مگر کسی پر اس کا اثر نہیں ہوا۔ ٹی او آرز کی تیاری کا ڈرامہ بھی قوم بڑی دلچسپی سے دیکھتی رہی مگر اس ڈرامے کا دی اینڈ ہو گیا۔ حکومت مخالف دھڑے کے سربراہ عمران خان نے مایوس ہو کر اسلام آباد کو لاک ڈاؤن کرنے کا اعلان کر دیا۔ حکومت نے پوری فورس استعمال کر کے ان کا یہ منصوبہ ناکام بنا دیا۔ اس موقع پر سپریم کورٹ حرکت میں آئی اور اس نے پانامہ لیکس کا ازخود نوٹس لے لیا۔ باقی سب کچھ آپ کے علم میں ہے۔

نئے سال میں نیا بنچ اس کیس کی از سرنو سماعت کا آغاز کر چکا ہے۔ چیف جسٹس نے بے جا تنقید کی وجہ سے اس بنچ کا حصہ بننا مناسب نہیں سمجھا۔ پہلے دن کی کارروائی کے بعد بنچ نے فیصلہ کیا ہے کہ سماعت روزانہ کی بنیاد پر ہو گی۔ اب امید پیدا ہوئی ہے کہ فیصلہ ہونے میں زیادہ عرصہ نہیں لگے گا۔ عدالت عظمٰی کے کورٹ روم میں کارروائی کی تفصیلات وقفے وقفے سے ٹی وی اسکرینوں پر آتی رہتی ہیں۔ وکلا کے دلائل اور محترم جج صاحبان کے ریمارکس پتہ چلتے رہتے ہیں لیکن ایک سے زیادہ عدالتیں کورٹ روم سے باہر بھی لگتی ہیں۔

حکومتی عمائدین ہوں یا حزب مخالف کے زعماء وہ میڈیا سے بات کرنا اپنا فرض اولین سمجھتے ہیں۔ دونوں طرف اپنی اپنی بولیاں بولی جاتی ہیں۔ ایک کہتا ہے اس نے ثبوت عدالت کے سامنے رکھ دیے، دوسرا بولتا ہے ثبوتوں کے نام پر جعل سازی کی جا رہی ہے۔ ایک کے خیال میں وزیراعظم صادق اور امین نہیں رہے، دوسرے کے نزدیک تحریک انصاف کے سربراہ کا جھوٹ بے نقاب ہو گیا ہے۔ رونق لگی ہوئی ہے۔ اور شائقین لطف اندوز ہو رہے ہیں۔ بدھ کو بھی دونوں پارٹیوں نے میڈیا کے سامنے اپنا اپنا موقف رکھا جو براہ راست لوگوں تک پہنچ گیا۔ حکومتی ٹیم جب بات کر رہی تھی تو اتفاق سے میں بھی دیکھ رہا تھا۔ طارق فضل چوہدری کچھ پوائنٹس غالباً لکھ کر لائے ہوئے تھے اور انھیں پڑھتے جا رہے تھے۔

انھوں نے بڑے زور دار انداز میں کہا تحریک انصاف سیاسی جماعت نہیں ہے، اس میں مختلف پارٹیوں کے لوٹے شامل ہیں۔ وہ جب تحریک انصاف کو لوٹوں کی جماعت قرار دے رہے تھے، تب مجھے خیال آیا کہ وہ اگر یہ بات کرنے سے پہلے اپنے دائیں بائیں دیکھ لیتے تو شاید کچھ اور کہہ دیتے مگر یہ نہ کہتے۔ بڑی سیاسی جماعتوں میں کون سی پارٹی یہ دعویٰ کر سکتی ہے کہ وہ لوٹوں سے پاک ہے؟ الزام در الزام، ہماری سیاست کا یہی چلن ہے۔

سیاستدان بھی کیا کریں، ان میں سے کچھ کو ٹی وی اسکرینوں پر آنے کا شوق ہے اور کچھ اپنی پارٹی یا حکومت کا موقف بیان کرنے پر مجبور۔ میں نے ایک بار کسی سیاستدان سے پوچھا تھا کہ تمہیں جھوٹ بولنا مشکل نہیں لگتا۔ اس نے کہا، ہاں!اگر روزانہ بولنا پڑے۔ یعنی کبھی کبھار جھوٹ بولنے میں کوئی قباحت نہیں ہے۔ وزیراعظم کا وکیل جب عدالت میں کہے گا کہ اس کے موکل نے پارلیمنٹ کے فلور پر جو کچھ کہا وہ سیاسی بیان تھا تو پھر آپ خود ہی اندازہ لگا لیں کہ سیاست اور… خیر چھوڑیں۔

پہلے دن کی عدالتی کارروائی کے بعد میری سمجھ میں صرف یہ آیا ہے کہ قصہ رقم کے دبئی سے جدہ اور پھر قطر جانے کا ہے۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ پاکستان سے کوئی رقم باہر نہیں گئی۔ یہ الزام تو ہم کئی دہائیوں سے سن رہے ہیں کہ ملک سے دولت لوٹ کر باہر بھجوائی گئی ہے۔ اس طرح کے الزامات ہردورمیںلگتے رہے ہیں۔ پیپلز پارٹی کی حکومتوں میں ن لیگ یہ الزام لگاتی رہی اور پھر جب وہ خود حکومت میں آئی تو پیپلزپارٹی والے بھی اسی قسم کے الزامات لگاتے سنائی دیے۔ یا تو یہ دونوں جھوٹ بولتے رہے یا دونوں سچے تھے۔

اس جھوٹ اور سچ کا فیصلہ کیسے ہو، یہی مسئلہ ہے۔ پیسہ اگر ملک سے باہر گیا ہے اور کسی کے پاس اس کا ثبوت نہیں ہے تو پھر یہ سمجھا جائے کہ وہ منی لانڈرنگ نہیں تھی۔ کیا اس کو ’’منی پارکنگ‘‘کانام دیا جا سکتا ہے؟ اس ساری صورتحال میں مجھے ایک بزرگ کالم نگار کے چند سال پہلے لکھے گئے ایک کالم کے کچھ جملے یاد آرہے ہیں۔

یہ کالم نگار حکومت کی آنکھ کا تارا ہیں۔ پیپلزپارٹی کے دور حکومت میں وہ کسی عہدے پر فائز نہیں تھے، جیسے کہ وہ ن لیگ کے دور میں ہمیشہ ہو اکرتے ہیں۔ انھوں نے جو لکھا تھا وہ کچھ یوں تھا کہ آصف زرداری نے لوٹی ہوئی دولت باہر بھجوائی ہے جب کہ نوازشریف محنت کی کمائی باہر لے کر گئے ہیں۔ دونوں میں کیا فرق ہے، اس کا مجھے تو علم نہیں ہے۔ محنت کی کمائی بھی اگر جائز طریقے سے باہر نہیں گئی تو پھر کیا، وہ باہر جا کر پھر جائز ہو گئی۔ اس کا جواب تو کوئی ماہر قانون ہی دے سکتا ہے۔

ایک اگر ’’منی لانڈرنگ‘‘ہے تو دوسری کو شاید ’’منی پارکنگ‘‘ کہا جا سکتا ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔