بیوروکریٹ اور وڈیرے کبھی یکساں تعلیمی نظام رائج نہیں ہونے دیں گے، ڈاکٹر قمر یوسف زئی

اقبال خورشید / اشرف میمن  جمعرات 5 جنوری 2017
چھے عشروں تک انگریزی پڑھانے والے معروف استاد، شاعر اور مترجم، ڈاکٹر قمر یوسف زئی کے شب و روز ۔  فوٹو : فائل

چھے عشروں تک انگریزی پڑھانے والے معروف استاد، شاعر اور مترجم، ڈاکٹر قمر یوسف زئی کے شب و روز ۔ فوٹو : فائل

شہر کے گرد ایک فصیل تھی۔
دریائے چمبل سے نکلنے والی نہر تحصیل کو اپنے حفاظتی حصار میں لیتی، اور واپس دریا میں اتر جاتی۔ دو پھاٹک تھے۔ اتنے بڑے کہ دو ہاتھی ساتھ گزر جائیں۔ یہ اُن کے آبائی وطن کوٹا بوندی کی ایک جھلک ہے، جس سے پچیس میل دُور، دریائے چمبل پر ہندوستان کا سب سے بڑا ڈیم تھا۔ ریاست کا راجا ہندو۔ اکثریت بھی ہندوؤں کی، مگر تعصب نہیں تھا۔ سب کے لیے یک ساں مواقع۔ گریجویشن تک تعلیم مفت تھی۔

ہاں، جنگ عظیم دوم کے زمانے میں ہندو مسلم فساد ہوا، مگر اس کے اسباب سیاسی نہ تھے۔ نہ تو وہاں مسلم لیگ کی کوئی شاخ تھی، نہ ہی آزادی کا نعرہ بلند ہوا۔ کوٹا بندی سمیت آس پاس کی تمام ریاستیں ہندوستان میں شامل ہوگئیں۔

مسلمانوں کا جما جمایا کاروبار تھا، ملازمتیں تھیں، انھوں نے بھی وہیں رہنا مناسب جانا۔ اور وہ بھی شاید وہیں بس جاتے کہ خاندان مالی اور سماجی طور پر مستحکم تھا۔ دادا، جو یوسف زئی قبیلے کے سردار تھے، 1890 میں بونیر سے چلے، اور جھلاواڑ میں آن بسے۔ والد، خان احمد خان یوسف زئی پولیس میں تھے۔ زمیں داری بھی تھی، مگر ددھیال ننھیال میں آگے پیچھے کئی اموات ہوئیں۔ جب والدین بھی داغ مفارقت دے گئے، تو مئی 50ء میں اپنے چھوٹے بھائی اور والدہ کی چچی کے ساتھ، کھوکھرا پار کے راستے پاکستان چلے آئے۔ حیدرآباد کا انتخاب کیا۔ اور یہاں۔۔۔ ایک نئی کہانی کا آغاز ہوا۔

ڈاکٹر قمر الزماں یوسف زئی کی تدریس سے وابستگی کا زمانہ نصف صدی کی حد پھلانگ چکا ہے۔ اِس مخلص استاد نے جانے کتنے ہیرے تراشے۔ حیدرآباد کی لگ بھگ تمام بڑی درس گاہوں پر اُن کے تجربے نے ان مٹ نقوش چھوڑے۔ الجزائر، نائیجیریا اور ابو ظہبی کی درس گاہوں میں اعلیٰ انتظامی ذمے داریاں سنبھالیں۔ مگر تدریس ان کا اکلوتا حوالہ نہیں۔ تحقیق کی سمت متوجہ ہوئے، تو امریکا سے نام ور انگریز شاعر، شیلے کے ادبی اور نفسیاتی پہلوؤں پر پی ایچ ڈی کی سند حاصل کی۔ اِسی تناظر میں غالب پر بھی قلم اٹھایا۔ تراجم بھی جم کر کیے۔ شعری سفر چھے دہائیوں پر محیط۔ تین مجموعے شایع ہوئے۔ 80 برس کے ہونے کو ہیں، مگر علمی اور تحقیقی سفر جاری و ساری ہے۔ ہاں،صحت اور مالی مسائل رکاوٹ بنتے ہیں۔

کسی زمانے میں ڈاکٹر قمر پی پی کے تھنک ٹینک کے سیکریٹری تھے۔ اس پلیٹ فورم سے تعلیمی، انتخابی اور پولیس اصلاحات کا خاکہ تیار کیا۔ اُنھیں محترمہ کی جانب سے سینیٹر بننے کی پیش کش ہوئی تھی، مگر اُنھوں نے یہ کہہ کر انکار کر دیا کہ لکھنے پڑھنے والا آدمی ہوں، سیاست سے میرا کیا تعلق۔ بس، یہ دُکھ ہے کہ ان کی سفارشات پر عمل نہیں کیا گیا۔ تعلیمی اصلاحات پر بات نکلی، تو کہنے لگے، ہمارے ہاں بنیادی طور پر پانچ اقسام کا تعلیمی نظام رائج ہے۔

اِن پانچوں کا فیس اسٹرکچر بھی الگ۔ نظام تعلیم میں بہتری کے لیے یک ساں تعلیمی نظام ضروری ہے، مگر بیوروکریٹ اور وڈیرے کبھی یہ نظام رائج نہیں ہونے دیں گے۔ انتخابی اصلاحات کا موضوع زیر بحث آیا، تو بولے،’’ہمارے ہاں ووٹرز ٹرن آؤٹ 50 فی صد رہتا ہے۔ جو امیدوار فاتح ٹھہرتا ہے، وہ حلقے کے 20 سے 25 فی صد ووٹ لے کر اسمبلی میں پہنچا ہوتا ہے۔ کیا اُسے عوام کا منتخب نمایندہ کہا جاسکتا ہے؟ اس سسٹم میں بہتری کی بہت گنجایش ہے۔‘‘ مردم شماری کی اہمیت کا بھی تذکرہ کیا۔ زور دیا کہ ریاست فوری طور پر مردم شماری کروائے، آبادی کے تناسب سے ملک بھر میں حلقہ بندیاں ہوں۔ ساتھ کچی بستیوں کا پھیلاؤ روک کر اُنھیں نظام کا حصہ بنایا جائے۔

ڈاکٹر قمر الزماں یوسف زئی نے 1938 میں آنکھ کھولی۔ ایک بہن، دو بھائیوں میں اُن کا نمبر دوسرا۔ دو بھائیوں کا کم سنی میں انتقال ہوگیا تھا، اِسی باعث اُن کی پیدایش کے سمے والدہ کوٹا بوندی چلی آئیں۔ ابتدائی پرورش نانا نانی نے کی۔ بڑی بہن شادی کے بعد حیدرآباد، سندھ میں آن بسی تھیں۔ ہجرت کے بعد کچھ روز تو اِدھر ٹھہرے، مگر بہن پر بوجھ بننے کے احساس نے بے چین رکھا۔ اتفاقاً والد کے ایک شناسا سے ملاقات ہوگئی، جو اُنھیں اپنے ہاں لے آئے۔ اُن صاحب کا خلوص اپنی جگہ، مگر غیرت نے وہاں بھی ٹک کر نہ بیٹھنے دیا۔

فقط بارہ برس کی عمر میں ایک ہینڈی کرافٹ اسکول میں، 50 روپے ماہ وار پر اسٹور کیپر ہوگئے۔ ساتھ تلک چاڑی کے جامعہ عربیہ ہائی اسکول میں داخلہ لے لیا۔ 52ء میں میٹرک کیا۔ پڑھائی اور ملازمت ساتھ ساتھ چلتے رہے۔ گریجویشن کے زمانے میں وہ ٹنڈوجام کے ایگری کلچرل کالج بلڈنگ کنسٹرکشن ڈویژن میں اسٹور کیپر تھے۔ حیدرآباد سے روزانہ ٹنڈوجام جاتے۔ 24 میل کا یہ سفر سائیکل پر طے ہوتا۔ ابھی ماسٹرز کے طالب علم تھے کہ مسلم کالج، حیدرآباد میں بی اے کے طلبا کو پڑھانے کی پیش کش ہوگئی۔

بعد میں سچل کالج میں بھی پڑھایا۔ 60ء میں سندھ یونیورسٹی سے پہلی پوزیشن کے ساتھ ایم اے کیا۔ اسی ادارے سے نفسیات میں بھی ماسٹرز کی سند لی۔ زمانۂ طالب علمی میں ہاکی اور ایتھلیٹکس میں یونیورسٹی کی نمایندگی کی۔ اب گورنمنٹ کالج حیدرآباد میں لیکچرر ہوگئے۔ 62ء میں گورنمنٹ ممتاز کالج، خیرپور تبادلہ ہوا، مگر وہ حیدرآباد چھوڑنا نہیں چاہتے تھے، سو سرکاری ملازمت سے استعفیٰ دے کر لوٹ آئے، اور پھر سچل کالج میں پڑھانے لگے۔

کیڈٹ کالج پٹارومیں اسامیوں کا اعلان ہوا، تو اُنھوں نے بھی قسمت آزمائی۔ معیار ایسا سخت کہ پاکستان بھر سے فقط 70 امیدوار امتحان میں بیٹھ سکے، انٹرویو ہوا صرف دس کا، کلاس روم ڈیمو کے لیے منتخب ہوئے تین، اور انتخاب ہوا قمرالزماں یوسف زئی کا۔ 67ء سے 75ء تک ادھر تھے۔ شعبۂ انگریزی کے سربراہ تھے۔ ڈیپوٹیشن پر ایک برس الجزائر میں بھی پڑھایا۔ نائیجیریا کی حکومت نے ریاست Kano میں ایک معیاری درس گاہ بنانے کی پیش کش کی، تو سامان باندھا، اور اجنبی زمینوں کی سمت چل پڑے۔ ادھر گورنمنٹ ٹیکنیکل کالج اینڈ سائنس سیکنڈری اسکول قائم کیا، اس کے پرنسپل رہے۔

یادیں بازیافت کرتے ہوئے کہتے ہیں،’’نائیجیریا میں تیل جو خوش حالی لایا تھا، اس نے نظام تعلیم پر گہرے اثرات مرتب کیے۔ تعلیم مفت تھی۔ جتنے عرصے وہاں رہے، ایک بھی بچہ سڑکوں پر محنت مزدوری کرتا نظر نہیں آیا۔‘‘ 82ء میں پاکستان لوٹے، تو پبلک اسکول حیدرآباد کا حصہ بن گئے۔ آرمی پبلک اسکول، حیدرآباد کے بانی پرنسپل رہے۔ اب ابوظہبی کا رخ کیا، جہاں اسلامک انگلش اسکولز اینڈ انٹرمیڈیٹ کالج کے پرنسپل ہوئے۔ 2000 میں کراچی شفٹ ہوگئے۔ نیوپورٹ یونیورسٹی کے ڈین کا عہدہ سنبھالا۔ عائشہ باوانی ٹرسٹ کا حصہ بنے۔ 2008 سے 2013 تک وفاقی اردو یونیورسٹی سے منسلک رہے۔ اس وقت بے نظیر بھٹو شہید یونیورسٹی، لیاری سے بہ طور وزیٹنگ فیکلٹی وابستہ ہیں۔

تعلیمی اور پیشہ ورانہ سفر کے بعد ادبی سفر زیر بحث آیا:
کی دہائی میں شعری سفر کا آغاز ہوا۔ اس سے پہلے یہ کہانی سن لیجیے کہ اردو اُنھوں نے کیسے سیکھی؟ آٹھویں جماعت راجپوتانہ سے پاس کی تھی۔ ادھر ہندی پڑھی۔ یہاں آنے کے بعد پہلی بار اردو خط سے پالا پڑا، جو یک سر اجنبی تھا۔ ہر مضمون میں چست تھے، یہ قطعی گوارا نہیں تھا کہ اردو میں اوروں سے پیچھے رہ جائیں۔ سیکھنے کی ٹھان لی۔ کلی توجہ اِس پر مرکوز کی۔ رسم الخط کی گتھی جلد سلجھ گئی۔ ڈیڑھ برس میں اس پر اتنی گرفت ہوگئی کہ میٹرک میں نہ صرف اردو، بلکہ فارسی کا امتحان بھی پاس کیا۔

شاعری کا آغاز بھی ہندی میں کیا تھا۔ لیاقت علی خان کے قتل پر جو نظم لکھی، وہ دیوناگری رسم الخط میں تھی، جسے اپنے کزن، اقبال حامد کی مدد سے اردو خط میں ڈھالا۔ یہ نظم اردو کے ایک موقر روزنامہ میں شایع ہوئی۔ جلد اِس عمل میں تسلسل آگیا۔ ادبی حلقوں میں اٹھنے بیٹھنے لگے۔ البتہ مشاعروں سے ہمیشہ دُور رہے۔ بعد میں تحقیق توجہ کا مرکز بن گئی۔ تراجم کا سلسلہ شروع ہوگیا۔

ڈاکٹر صاحب کی خوشیاں چھوٹی چھوٹی باتوں سے وابستہ ہیں۔ غم بھی کئی آئے۔ حیدرآباد سے کراچی پہنچے، تو پانچ چھے ہزار کتابیں ساتھ لائے تھے۔ 2008 میں ایک حادثے میں وہ خزانہ ضایع ہوگیا۔ ان میں احمد دیدات اور حکیم سعید جیسی شخصیات کے خطوط بھی شامل تھے۔ والدہ کے انتقال کے سمے بھی شدید کرب سے گزرے تھے۔

یہی معاملہ بیٹی کی موت کا ہے، جس کا امریکا میں انتقال ہوا۔ بہار کے موسم سے لطف اندوز ہونے والے ڈاکٹر قمر یوسف زئی کو آشا بھوسلے اور طلعت محمود کی آواز پسند۔ سبزی اور مرغی سے رغبت۔ لباس کے معاملے میں کسی جھنجھٹ میں نہیں پڑتے۔ دیوآنند کی صلاحیتوں کے معترف۔ پسندیدہ فلموں میں ’’مغل اعظم‘‘ سرفہرست۔ 65ء میں شادی ہوئی۔ خدا نے دو بیٹیوں سے نوازا، جنھوں نے اعلیٰ تعلیم حاصل کی، اور اپنے شعبوں میں نام کمایا۔

غالب: عظمت اور مسائل کے درمیان
(باتیں کتابوں کی)
ان کا شعری مجموعہ ’’حرف ہنر‘‘ 85ء میں شایع ہوا، جو انھوں نے اپنے استاد، افتخار احمد خان کے نام کیا۔ دوسرا مجموعہ ’’نالۂ گل‘‘ کا سن اشاعت 89ء، جو فیض صاحب کو منسوب کیا۔ ’’اوراق لخت دل‘‘ 2000 میں چھپا۔ اس کا انتساب غالب کے نام تھا۔ بعد میں تینوں مجموعے ایک کتاب کی صورت بھی منظر عام پر آئے۔ سوانح عمری لکھی، تو عنوان ’’آپ بپتا‘‘ رکھا۔ اردو مضامین ’’خیالات‘‘ اور انگریزی تحریریں Rambling Thoughts کے نام سے چھپیں۔

بہ طور مترجم بھی خاصے مصروف رہے۔ ڈاکٹر قاسم موٹالا کی دو کتابوں Christ, Mahdi and Antichrist اور A Precious gift کو اردو روپ دیا۔ مولانا شاہ احمد سعید فاروقی کی 1840 میں شایع ہونے والی معروف تصنیف ’’سعید البیان‘‘ کو پہلے سلیس اردو میں ڈھالا۔ پھر انگریزی اور سندھی میں اس کا ترجمہ کیا۔ ہر سال اسے شایع کروا کے مفت تقسیم کرتے ہیں۔ امتیاز علی تاج کے ڈرامے ’’انار کلی‘‘ کو انگریزی روپ دیا۔ ڈاکٹر غلام مصطفیٰ کی کتاب ’’مطالب القران‘‘ کے انگریزی ترجمے میں بھی مصروف ہیں۔

شیلے کے بعد انھوں نے غالب کا بھی ادبی اور نفسیاتی تجزیہ کیا۔ کتاب کی اشاعت جلد متوقع۔ غالب پر بات نکلی، تو اس کی کثیر الجہتی کا بالخصوص تذکرہ کیا۔ ’’اس کے ہاں تصوف بھی ہے، فلسفہ بھی ہے۔ خود بینی اور خودداری بھی ہے۔ کہیں کہیں خود ستائی کا پہلو بھی نکلتا ہے۔ ایک جانب اُسے اپنے قد کا اندازہ ہے، مگر دوسری جانب وہ معاشی مسائل میں الجھا ہوا ہے۔ بادشاہ سلامت کے لیے قصیدہ لکھتا ہے، پینشن کے لیے کلکتا تک کا سفر کرتا ہے۔ شاعری میں اُس کا کوئی موازنہ نہیں، مگر اصل زندگی میں وہ اتنا قدآور انسان دکھائی نہیں دیتا۔‘‘

ہیں سب سے مدھر وہ گیت جنھیں۔۔۔
(شیلے پر پی ایچ ڈی کا تذکرہ)
انگریزی کے مضمون میں جن افراد نے امریکا سے پی ایچ ڈی کی، ڈاکٹر قمر یوسف زئی ان میں سے ایک۔ بہ قول ان کے، گذشتہ 70 برس میں فقط نو افراد یہ مرحلہ طے کرسکے۔ 70 کی دہائی میں کولمبیا پیسیفک یونیورسٹی، کیلیفورنیا میں اپلائی کیا تھا۔ خبر تھی کہ 1925 میں شیلے پر Psychology of the Poet Shelley نامی، ڈیڑھ سو صفحات کی کتاب شایع ہوئی تھی، مگر پھر اس پہلو پر مزید ریسرچ نہیں ہوئی۔

انگریزی اور نفسیات، دونوں مضامین میں ماسٹرز کیا تھے، تو Shelley: A literary-cum-Psychological Study پر کام کرنے کی ٹھانی۔ پی ایچ ڈی میں چار برس لگے۔ دو سپروائزر تھے، ایک صاحب انگریزی ادب کے، ایک نفسیات کے۔ اول الذکر کی جانب سے تو پریشانی نہیں ہوئی، مگر دوسرے نے بڑا ستایا۔ 86ء میں ڈگری ملی۔ تھیسس زیر بحث آیا، تو کہنے لگے،’’شیلے انگریزی میں رومانوی شاعری کی دوسری نسل کا اہم ترین نمایندہ تھا۔ اس کے ہم عصر کیٹس اور بائرن بھی لاجواب شاعر تھے، مگر شیلے کے ہاں موسیقیت غالب تھی۔

Self-expression بہت نمایاں تھا۔ نفسیاتی پہلو بھی تھے، جیسے اُس کے ہاں مایوسی کا عنصر تھا۔ اس نے کہا تھا: Our sweetest songs are those that tell of saddest thought. ۔ طلعت محمود کا گانا ’ہیں سب سے مدھر وہ گیت جنھیں ہم درد کے سُر میں گاتے ہیں‘ شیلے کے اِسی خیال کا اردو روپ ہے۔ پھر خودکشی کا رجحان بھی پایا جاتا تھا۔‘‘ پی ایچ ڈی تھیسس جلد کتابی صورت میں شایع ہوگا۔ عنوان ہے: Flame in the Lark۔

فیض کی عظمت الفاظ میں بیان نہیں کرسکتا
قمر یوسف زئی کے کزن، اقبال حامد، جنھوں نے بعد میں صحافت میں نام کمایا، کچھ عرصے حیدرآباد جیل کے آفس سپرنٹنڈنٹ رہے۔ اُس زمانے میں راول پنڈی سازش کیس کے اسیر (فیض احمد فیض، سجاد ظہیر، ظفر اللہ پوشنی) حیدرآباد سینٹرل جیل میں تھے۔ نوجوان قمر یوسف زئی کو، اپنے کزن کے توسط، ان سے ملنے کا موقع ملا۔ اُن ہی دنوں پہلی نظم اخبار میں شایع ہوئی۔

اُس روز جیل گئے، تو کسی نے فیض صاحب سے اِس کا تذکرہ کیا۔ یادیں بازیافت کرتے ہوئے کہتے ہیں،’’مجھے فیض کا ایک تہائی کلام ازبر ہے۔ یہی معاملہ غالب کا ہے۔ میں نے فیض صاحب پر کئی لیکچرز دیے۔ وہ بہت بڑے آدمی تھے۔ میں اُن کی عظمت الفاظ میں بیان نہیں کرسکتا۔ جیل کے دنوں میں بھی میں نے اُنھیں مطمئن پایا۔ دیگر قیدی کبھی کبھار انتظامیہ سے شکوہ کرتے تھے، مگر فیض صاحب خاموش رہتے۔ جب آمد ہوتی، تو سگریٹ سلگا کر ٹہلنے لگتے، اور لکھتے رہتے۔‘‘

حیدرآباد میں 59ء سے 61ء تک تین سالانہ مشاعرے ہوئے۔ فیض صاحب آئے، تو میر رسول بخش تالپور کے گھر ٹھہرے۔ وہاں بھی اُن سے ملاقات رہی۔بتاتے ہیں، ’’اُن کے پاس ہر بات کا ایک ہی جواب تھا: مسکراہٹ۔ ایک ملاقات میں مَیں نے اُن کے مصرعے: ’اٹھ رہی ہے کہیں قربت سے تیری سانس کی آنچ‘ پر کچھ تنقید کی۔ ابھی میری عمر ہی کیا تھی۔ نوجوان تھا، مگر صاحب فیض صاحب کے ماتھے پر کوئی شکن نہیں آئی۔ اُنھوں نے مسکراہٹ قائم رکھی۔‘‘

شعیب ہاشمی سے بھی دوستی رہی۔ اُن کے ہاں بھی فیض صاحب کی صحبت سے فیض یاب ہوئے۔ پاکستانی ثقافت پر جمیل جالبی کی کتابوں کے معترف تھے، مگر جب ایک تقریب میں فیض صاحب کو پاکستانی ثقافت پر بولتے سنا، تو ان کی علمیت اور موضوع پر گرفت نے گرویدہ بنا لیا۔

قابل اجمیری: وادی مہران کی توانا ترین آواز
حیدرآباد کی ادبی شخصیات سے خاصا میل ملاپ رہا۔ شہر کے تین ممتاز شعرا، حمایت علی شاعر، محسن بھوپالی اور قابل اجمیری سے بھی خوب نبھتی تھی۔ اُن پر ’’وادی مہران کی تین آوازیں‘‘ کے عنوان سے ایک مضمون لکھا۔ محسن بھوپالی کو وہ ایک کھلے ڈلے آدمی کے طور پر یاد کرتے تھے۔

اُن کے ساتھ شکار کی مہمات کا بھی تذکرہ آیا۔ حمایت علی شاعر، اُن کے بہ قول، تھوڑے الگ تھلگ رہنے والے شخص تھے۔ قابل کو ٹی بی سے جوجھتے دیکھا۔ وہ ان کے بھائی، اقبال حامد سے ملنے گھر بھی آیا کرتے تھے۔ یادیں کھنگالتے ہوئے کہا،’’جگر مراد آبادی نے قابل کے سو اشعار کا کتابی صورت انتخاب کیا، تو اقبال بھائی ہی نے اسے ’فنانس‘ کیا تھا۔ اگر آپ وہ سو شعر سنیں، تو اش اش کر اٹھیں۔ اگر بات شاعری کی ہو، تو قابل کو میں پہلے نمبر پر رکھوں گا۔ وہ حیدرآباد کی توانا ترین آواز تھے۔ مشاعرے لوٹ لیا کرتے تھے۔ ان کے بیٹے نے اُن کا مکمل مجموعہ شایع کیا ہے۔‘‘

سابق صدر، سابق وزیر اعظم کے استاد
پچاس سال تدریس کو دیے۔ ان کے کئی طلبا نے فوج، بیوروکریسی اور سیاست میں نام پیدا کیا۔ کچھ ملکی سطح پر اعلیٰ عہدوں پر فائز ہوئے۔ سابق صدر، آصف علی زرداری بھی ان کے طالب علم رہے۔ ڈاکٹر عاصم اور ذوالفقا مرزا بھی اُسی ’’بیج‘‘ کا حصہ تھے۔ آصف علی زرداری کو گھڑ سواری میں دل چسپی رکھنے والے ایسے نوجوان کے طور پر یاد کرتے ہیں، جو یوں تو تیزطرار تھا، مگر اس ذہانت کا اثر امتحانی نتائج میں دکھائی نہ دیتا۔ ذوالفقار مرزا کی شبیہہ ایک شرارتی طالب علم کی ہے۔ ہاں، ڈاکٹر عاصم کو انھوں نے بہتر طالب علم پایا۔ کچھ ایسے طلبا بھی ہوتے ہیں، جن کا چہرہ ذہن سے محو ہوجاتا ہے۔ اُنھیں تو یاد نہیں، مگر لوگوں نے بتایا کہ سابق وزیر اعظم، راجا پرویز اشرف بھی کسی زمانے میں اُن کے اسٹوڈنٹ رہے تھے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔