مختلف ملکوں کی نظمیں، جن پر غاصب قوتیں بِھنّائی ہوئی ہیں

انوار فطرت  اتوار 8 جنوری 2017
فوٹو : فائلرنگ ہو یا ساز و آواز ہو، صورت گری ہو یا شاعری، یہ انسانی احتجاج و مزاحمت کی لطیف شکلیں ہیں۔ فوٹو : فائل

فوٹو : فائلرنگ ہو یا ساز و آواز ہو، صورت گری ہو یا شاعری، یہ انسانی احتجاج و مزاحمت کی لطیف شکلیں ہیں۔ فوٹو : فائل

پتھر کے عہد سے لے کر آج تک انسان اپنی ذات یا برادری کے حق کے لیے احتجاج اور اس سے آگے بڑھ کر مزاحمت کرتا آ رہا ہے۔ ایک طرح سے دیکھا جائے تو یہ انسان کی فطرت کا حصہ ہے بل کہ نظر کو تھوڑا کشادہ کرلیا جائے تو ہر موجود جان دار احتجاج یا مزاحمت کرتا دکھائی دیتا ہے۔

بچہ اپنی پیدائش کے پہلے لمحے ہی میں چیخ مار کر نئے ماحول کے خلاف احتجاج کرتا ہے تو ایک بیج منوں مٹی تلے سے مزاحمت کرتے کرتے پھوٹ کر برسرِ زمین اپنی نمائش کرتا ہے۔ زمین کے نیچے پگھلے ہوئے مادے ایک ہلکی سی تبدیلی پر پہاڑ کو پھاڑ کر باہر نکل آتے ہیں۔ خود انسان کا جسم اس کی سودائیت کے خلاف کھول اٹھتا ہے۔ اسی لیے آتش فشاں کے پھٹنے اور انسانی جلد پر فساد کے لیے لفظ Eruption استعمال کیا جاتا ہے۔

جن انواع میں احتجاج اور مزاحمت کی خو نہیں ہوتی، وہ بے شک ڈائنو سار جتنے عظیم الجثہ اور بے پناہ جسمانی قوت کے حامل ہوں، زمین کے ورق پر حرف غلط ہو جاتے ہیں اور فطرت انہیں مٹا ڈالتی ہے۔ جو نومولود اپنی پیدائش پر چیختا نہیں، اس کو چیخ مارنے پر مجبور کیا جاتا ہے اور وہ پھر بھی نہ چیخے تو سمجھیے کہ اس کی زندگی کی ضمانت نہیں دی جا سکتی۔ یہ ہی اصول اقوام پر بھی عاید ہوتا ہے۔ surviral of the fittest مزاحمت ہی کا عمل ہے۔ انسان نے اب تک جتنے فنون دریافت کیے یا بعضوں کے نزدیک اختراع کیے، وہ تمام مزاحمت یا احتجاج کی جلی یا خفی صورتیں ہیں۔ رنگ ہو یا ساز و آواز ہو، صورت گری ہو یا شاعری، یہ انسانی احتجاج و مزاحمت کی لطیف شکلیں ہیں۔

اردو شاعری کا بڑا حصہ آغاز سے اب تک، احتجاج و مزاحمت ہی پر مشتمل ہے اور یہ تسلسل جاری رہے گا۔ ہمارے جعفر زٹلی واحد ایسے شاعر ہیں، جنہیں ’’شہید احتجاج‘‘ قرار دیا جا سکتا ہے، فطرتاً ایسا مزاج پائے تھے کہ ان سے ظلم و زیادتی برداشت ذرہ بھر بھی برداشت نہیں ہوتی تھی اور بالآخر یہ شعر

سکہ زد برگندم و موٹھ و مٹر
بادشاہِ تسمہ کش فرخ سِیر

انہیں تختۂ دار پر لے گیا۔ یہ احتجاجِ جلی کی ایک صورت تھی۔ ہمارے ہاں حبیب جالب احتجاج جلی کی ایک اعلیٰ مثال ہیں۔ محمود درویش کا کہنا ہے “Every beautiful poem is an act of resistance”، سو یہاں دنیا کے مختلف ملکوں کے شاعروں کی نظموں کے تراجم پیش خدمت ہیں ۔

مزاحمت میرے لوگو، مزاحمت
(دارین طاطُور: (اسرائیل کی عرب شاعرہ ہیں۔ ذیل کی نظم لکھنے کی پاداش میں پہلے قید کاٹی، اب تل ابیب میں ایک اپارٹمنٹ میں نظر بند ہیں۔ ان کے حق میں دنیا بھر میں احتجاج کا سلسلہ جاری ہے۔)
مزاحمت میرے لوگو! مزاحمت
یروشلم میں، میں نے اپنے زخموں کی مرہم پٹی کرلی ہے اور اپنے غم پی لیے
اور اپنی روح اپنی ہتھیلی پر رکھ لی ہے
ایک عرب فلسطینی کے لیے۔
میں کسی ’’پرامن حل‘‘ کے حیلے میں نہیں آؤں گی
کبھی اپنا پرچم سرنگوں نہ ہونے دوں گی
جب تک انہیں اپنی سرزمین سے نکال نہ دوں۔
میں انہیں آنے والے کسی وقت کے لیے ڈال رکھوں گی
مزاحمت میرے لوگو! مزاحمت۔
مزاحمت کرو! ان آبادکاروں کی ڈکیتیوں کے خلاف
اور شہیدوں کے کارواں کی پیروی کرو۔
چیتھڑے اڑا دو اس توہین انگیز دستور کے،
جس نے ذلت و رسوائی مسلط کر رکھی ہے
اور ہمیں انصاف کی بحالی سے روکے ہوئے ہے۔
انہوں نے اُن بچوں کو جَلایا، جن کا کوئی گناہ نہ تھا؛
حادل بھرے بازار میں
دن دہاڑے ان کی گولی کا نشانہ بنی۔
مزاحمت، میرے لوگو! مزاحمت۔
ان نوآبادکاروں کے حملوں کی مزاحمت کرو۔
اپنے درمیان موجود ان کے گماشتوں کو گھاس مت ڈالو
جو ہمیں زنجیر کرتے ہیں امن کے فریب میں۔
مت ڈرو ان کی مشتبہ زبانوں سے؛
تمہارے دل کا صدق (ان سب سے) زیادہ مضبوط ہے،
جتنی دیر تک تم کسی سرزمین میں مزاحمت کرتے ہو
(اتنی ہی وہ) بالیدگی اور فتح سے سرشار رہتی ہے:
مزاحمت، میرے باغیو! مزاحمت۔
مجھے چوبِ اگر پر نثر کرو؛
میری باقیات کو جواب کے طور پر رکھو۔
مزاحمت میرے لوگو! مزاحمت،
مزاحمت میرے لوگو! مزاحمت۔

نسل پرستی
اُوڈگیرُو نُونَکّل Oodgeroo Noonuccal : (آسٹریلیا کی اصل باشندہ یعنی ابارجنی ہیں۔ پیدائشی نام کیتھلین جین میری رسکا ہے۔ آسٹریلیا میں شاعر و ادیب کے طور کا بہت احترام ہے۔)
زندگی کی راہداریاں چھانتے چھانتے
سیاہ، بے زار اذہان
چیختے ہیں رہائی کے لیے
واویلا کرتے عیسائی نسل پرستوں سے
وہ واویلا، جو کالی آزادی کو
غلام بناتا ہے
محتاط، اے گورے نسل پرستو!
کالے بھی نسل پرست ہوسکتے ہیں،
ایک متشدد جد و جہد پھوٹ سکتی ہے
اور نسل پرست موت سے دوچار ہو سکتے ہیں۔
رنگ تو فطرت کی سوغات ہے
نوع انساں کے لیے،
جو اس وقت جد و جہد کر رہی ہے۔
یہ کالی گوری نفرت تو
اس سڑے گلے گوشت پر پلتی ہے
جو کبھی انسان تھا
کولتّھی کی لڑکی
این ٹی راجکمار: (دلتوں کی ’کانیا ‘شاخ سے ہیں، جو جڑی بوٹیوں اور فلکیات کے ماہر سمجھے جاتے ہیں۔ این ٹی راجکمار تامل زبان میں لکھتے ہیں۔ ان کی شاعری ذات پات کے علاوہ دلت خواتین پرنام نہاد اونچی ذات کے ظلم و بربریت کے خلاف ہے۔ کولتھی کی لڑکی ان کی نئی نظم ہے۔)
اگلے جنم میں
مذہبی اہلیت حاصل کرنے کے لیے
انہوں نے ایک غریب کو پیٹ بھر چاول کھلائے
پھر جب کولتھی سے آئی ہوئی لڑکی نے
پچھواڑے میں
برتن دھونا شروع کیے تو
اسے ہم بستری پر مجبور کیا گیا
اور اس سے جی بھر گیا تو
برہمن نے وعدہ کیا
کہ وہ اس کے اگلے جنم میں بھی آئے گا
اس نے خود کو ہلاک کر لیا اوراب وہ آتی ہے
*کولنگٹو دیوی کے روپ میں،
دھاڑتی ہے انسانی قربانی کے لیے۔
زن و زر کی لوبھ کے بعد
اس نے جھوٹی محبت کا سوانگ رچا کر ایک رقاصہ سے شادی کر لی
اور پھر اس کو سنگسار کر دیا
خار زار کے بیچ
’’تو میری گواہ ہے‘‘ وہ چلائی۔
تھوہر کے کھیتوں کی گہری نیلی دیوی
لہو بھرے چاول مانگتی ہے،
آدھی رات کی ہیئت اختیار کر لیتی ہے
**ایسا کی دیوی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
*جنوبی ہندکی انسانی خون پینے والی ایک دیوی
** وباؤں کی دیوی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

میں شامی ہوں
یوسف ابو یحیٰ: (شام کو شاعروں کا ملک بھی کہا جاتا ہے۔ یوسف ابو یحیٰ کے بارے میں کچھ زیادہ معلومات نہیں مل سکیں۔ ان کے دستیاب کلام کو پڑھ کر محسوس ہوتا ہے کہ وہ ایک محبِ وطن اور انسان پرست شخصیت ہیں۔)
میں ایک شامی ہوں
جلاوطن، اپنے وطن میں بھی، باہر بھی
اور اپنے سوزش مارے پیروں سے چاقو کی دھار پر چل رہا ہوں
میں ایک شامی ہوں: شیعہ ہوں، دروزی، کرد، مسیحی،
علوی ہوں، سنی ہوں اور سرکاشیائی ہوں
شام میرا وطن ہے
شام میری پہچان ہے
میرا عقیدہ میرے وطن کی باس ہے
جیسے بارش کے بعد مٹی،
شام ہی میرا واحد مذہب ہے
میں اس سرزمین کا بیٹا ہوں، جیسے زیتون،
سیب، انار، چاکوری، ناگ پھنی، پودینہ، انگور، انجیر۔۔۔۔
تمہارے تخت و تاج کس کام کے
تمہاری عربیت،تمہاری نظمیں
اور تمہارے نوحے، تمہارے الفاظ؛
کیا یہ میرا گھر مجھے واپس دلا سکتے ہیں
اور جو مارے گئے
حادثاتی طور پر؟
کیا یہ میرے ان آنسوؤں کو مٹا سکتے ہیں جو میں نے اس خاک پر بہائے؟
میں اس سبز بہشت کا بیٹا ہوں
جو میرا آبائی شہر ہے
لیکن آج میں بھوک اور پیاس سے مر رہا ہوں۔
لبنان اور عمان کے اجاڑ خیمے میری مہاجرت ہیں،
لیکن سوائے میرے اپنے وطن کے
کوئی اناج مجھے نشو و نما دے سکتا ہے،
اور نہ ہی کائنات کا کوئی بادل
میری پیاس بجھا سکتا ہے

بغداد 2003
نک کولرسٹروم: (پورا نام نکولس کولرسٹروم، انگریزہیں۔ انہوں نے نازیوں کے ہاتھوں یہودیوں کے قتلِ عام پر تحقیق کی اور بتایا کہ دس لاکھ یہودی قتل کیے گئے تھے نہ کہ ساٹھ لاکھ؛ جیسا کہ یہودیوں کا دعویٰ ہے۔ اس تحقیق کی پاداش میں انہیں اعزازی فیلو شپ سے محروم کیا گیاہے۔)
The Vampire Elite* نے کنٹرول سنبھال لیا ہے
ہم تمہارا قدیم دارالحکومت بچانے کے لیے اس پر بہرحال بمباری کریںگے
ہم اپنے ٹینکوں کے ہمراہ لائے ہیں جمہوریت،
حملے سے پہلے ہم جہاں تک ہو سکا، تمہیں غیرمسلح کریںگے
اقوامِ متحدہ کے بھول بھلیاں پروٹوکول کی مدد سے
ہم بڑی سرعت کے ساتھ جنگ شروع کرنا چاہتے ہیں
کیونکہ تمہارے خلاف ہماراخفیہ کیمیائی ہتھیاروں والا مقدمہ ناکام ہونے کا خدشہ ہے
ہماری جعلی دستاویزات کا پول کھل چکا ہے
ہم تمہارے لیے* * Starbucksاور پورنوگرافی لا رہے ہیں
بغداد پر بارِ دگر بمباری کے لیے تمہیں ہمارا ممنون ہوناچاہیے
تمہارا تیل ہمارے ہاتھوں میں محفوظ رہے گا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
* اِنا آرگو کے ناول کی ایک خوںآشام مخلوق
** کافی کا ایک معروف برانڈ
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

لنڈے
کابل میں میرمن بہیر کے نام سے خواتین کی ایک خفیہ ادبی تنظیم ہے، جس کا انکشاف 2012 میں لندن میں منعقدہ شاعری کے بین الاقوامی تہوار کے موقع پر ہوا۔ اس تنظیم کی خواتین اکثر پشتو کی دو مصرعی صنف ’’لنڈے‘‘ (مختصر) میں شاعری کرتی ہیں۔ یہ خواتین بہت زیادہ بلند آہنگ ہیں اور خطرناک حد تک آزاد خیالی کا مظاہرہ کرتی ہیں۔
۰ یااللہ! طالبان کو تباہ کر، ان کی جنگیں ختم کر
انہوں نے افغان عورتوں کو بیوائیں اور فاحشائیںبنا دیا ہے
۰ اے میرے باپ! تونے مجھے ایک بوڑھے کے ہاتھ بیچ ڈالا
اللہ تیرا خانہ خراب کرے، میں تیری بیٹی تھی
۰ جب بہنیں مل بیٹھتی ہیںتو ہمیشہ بھائیوں کی تعریف کرتی ہیں
جب بھائی مل بیٹھتے ہیں تو بہنوں کو دوسروں کے ہاتھ بیچنے کی باتیں کرتے ہیں
٭٭٭

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔