پلی بارگیننگ یا کالا دھن سفید کرنے کا قانونی طریقہ؟

سید بابر علی  اتوار 8 جنوری 2017
پاکستان اور دیگر ممالک میں پلی بارگیننگ کے قانون کا ایک جائزہ۔ فوٹو : فائل

پاکستان اور دیگر ممالک میں پلی بارگیننگ کے قانون کا ایک جائزہ۔ فوٹو : فائل

پلی بارگیننگ کیا ہے اس کے فائدے کیا اور نقصانات کیا ہیں؟ ان سب سوالوں سے بالاتر ہوکر اگر سوچا جائے تو دنیا کے دیگر ممالک میں اس قانون کا مثبت انداز میں صرف مالی نہیں بل کہ دیگر معمولی نوعیت کے جرائم میں بھی مثبت استعمال کیا جارہا ہے۔ تاہم اس قانون پر سوالیہ نشان موجود ہے۔ پاکستان میں جہاں کوئی موبائل چوری، سائیکل چوری کرنے اور جیب کاٹنے والا پکڑا جائے تو اس پر عام آدمی سے لے کر پولیس اہل کار تک اپنا ہاتھ صاف کرتے ہیں۔

اس سب کے باوجود اگر وہ بچ جائے تو جیل کی کال کوٹھری اس کی منتظر ہوتی ہے۔ لیکن جب بات کروڑوں اور اربوں روپے کی کرپشن، چوری کرنے والے سرکاری ملازمین، بیوروکریٹس، سیاست دانوں اور صنعت کاروں کی ہو تو عام آدمی سے لے کر خواص تک سب کو سانپ سونگھ جاتا ہے۔ قوم کا پیسہ کھانے والے ’دوران حراست‘ بھی تمام تر پروٹوکول اور شاہانہ طرز زندگی سے لطف اندوز ہوتے ہیں، آزادی کا دل چاہے تو لوٹی گئی رقم میں سے ’کچھ‘ رقم واپس کرکے ’باعزت‘ بری ہوجاتے ہیں۔

قومی احتساب بیورو اگر کسی کرپٹ شخص کو پلی بارگین کرکے رہا کردے تو اس ادارے کے کردار پر انگلی اٹھائی جاتی ہے، لیکن نیب تو محض ایک ادارہ ہے جس کا کام مکھی پر مکھی مارنا ہے۔ اس قانون کے بنانے پر تو قوم کے تمام ’شریف‘ اور ’ایمان دار‘ سیاست دانوں، بیورو کریٹس کو خوشی سے بغلیں بجانی چاہییں اور بیرون ملک سے خصوصاً درآمد کیے گئے سابق وزیراعظم شوکت عزیز کو پلی بارگین جیسے ’مفید‘ قانون پر جھولی پھیلا کر دعائیں دینی چاہییں، جس کی بدولت طے پایا ہے کہ زیادہ دو، تھوڑا واپس کرو اور بقیہ دولت سے دل کھول کر بیوی بچوں سمیت عیاشی کرو۔ ایسا ہی کچھ پاکستان کے غریب ترین صوبے بلوچستان کے امیر ترین سیکریٹری خزانہ (سابق) مشتاق رئیسانی نے کیا۔

6مئی 2016 کو نیب کے اعلیٰ افسران نے سیکریٹری خزانہ بلوچستان کے گھر پر چھاپا مار کر ملکی اور غیرملکی کرنسی سے بھرے 12بیگ برآمد کیے، جن کی مجموعی مالیت 63کروڑ روپے سے زاید بتائی گئی، جب کہ سونا اور ملک کے دیگر شہروں میں موجود جائیدادوں کی دستاویزات بھی اپنی تحویل میں لے لیں۔ گرفتاری کے وقت مشتاق رئیسانی پر ڈیڑھ ارب روپے کی کرپشن کا الزام عاید کیا گیا، لیکن گرفتار ی کے تقریباً چھے ماہ بعد ہی انہوں نے نیب سے دو ارب روپے میں پلی بارگیننگ کرلی۔

نیب کے ڈائریکٹر آپریشنز ظاہر شاہ کے مطابق پلی بارگیینگ کے تحت مشتاق رئیسانی کے مکان سے برآمد ہونے والی 65 کروڑ 32 لاکھ روپے کی نقدی، ایک کروڑ 35 لاکھ روپے مالیت کا تین کلو سونا، کراچی کے پوش علاقے ڈیفنس میں سات کروڑ روپے مالیت کی جائیدادیں، کوئٹہ میں 6 کروڑ روپے مالیت کا مکان نیب کے حوالے کیا گیا ہے، جب کہ اس جائیداد اور نقدی کے علاوہ اسی لاکھ روپے مالیت کی دو بیش قیمت کاریں، دورانِ تفتیش ظاہر ہونے والی 11 جائیدادیں بھی نیب نے لے لی ہیں جن کی قیمت تقریباً ایک ارب 25 کروڑ روپے ہے۔

پلی بارگیننگ کیا ہے اور کن ممالک میں رائج ہے۔ درج ذیل مضمون میں اس کا احاطہ کیا گیا ہے:
٭پلی بارگیننگ کیا ہے؟
پلی بارگیننگ پراسیکیوٹر (استغاثہ) اور ڈیفینڈینٹ (ملزم) کے درمیان ہونے والا ایک معاہد ہ ہے جس میں ملزم اقبال جرم کرتا ہے جس کے جواب میں اسے استغاثہ کچھ رعایت دے دیتا ہے۔ یعنی ملز م کم سنگین نوعیت کی فرد جرم عائد کرنے اور دیگر الزامات کو خارج کرنے کی درخواست کرتا ہے، تاکہ اسے کم سے کم سزا ملے۔ پلی بارگیننگ کا طریقہ دونوں فریقین کو طویل عدالتی کارروائی سے بچاتے ہوئے ملزم پر عدالت کی جانب سے زیادہ سنگین الزامات عاید ہونے کے خطرات بھی کم کرتا ہے۔ مثال کے طور پر؛

امریکا کے نظام قانون میں چوری کی سنگین فرد جرم کے نتیجے میں ریاستی جیل میں سزا ہوتی ہے۔ لیکن پلی بارگیننگ میں ملزم پر چوری کی کم سنگین فرد جرم عاید ہوتی ہے جس میں ہوسکتا ہے کہ اسے قید کی سزا نہ ملے۔

٭ پلی بارگیننگ کتنی طرح کی ہوتی ہے؟
پلی بارگیننگ عموماً چار طرح کی ہوتی ہے:

٭چارج بارگیننگ
یہ پلی بارگیننگ کی سب سے عام قسم ہے، اس میں ملزم پر خود پر عاید کیے گئے حقیقی جرم کے بجائے کم سنگین نوعیت کے جرم میں فرد جرم عاید کرنے کی درخواست کرتا ہے۔

٭کاؤنٹ بارگیننگ
پلی بارگیننگ کی اس قسم میں ملزم خود پر عاید کیے گئے مختلف حقیقی جرائم میں تخفیف کی درخواست کرتا ہے ۔

٭سینٹینس بارگیننگ
یہ چارج بارگیننگ کی نسبت غیرمعروف اور زیادہ سخت ہے، اس میں دونوں فریقوں کے درمیان پیشگی معاہدہ ہوجاتا ہے کہ سزا کیا دی جائے گی۔ تاہم اس سزا کو جج کی جانب سے مسترد کیا جاسکتا ہے۔

٭فیکٹ بارگیننگ
یہ پلی بارگیننگ کی سب سے غیرمعروف شکل ہے۔ اس میں ملزم درخواست تو دائر کرتا ہے لیکن استغاثہ پر اس شرط پر متفق ہوتا ہے کہ وہ کیسے فرد جرم کی گائیڈ لائن کے تحت ملزم کی سزا پر اثر انداز ہوگا۔

٭ پاکستان اور دنیا کے دیگر ممالک میں پلی بارگیننگ اور اس کا طریقۂ کار
دنیا بھر کے بیشتر ممالک میں پلی بارگینگ دو طرح سے رائج ہے۔
اول: ایسے ممالک جہاں کامن لا (ججز، عدالتوں اور ٹریبیونلز پر مشتمل نظام انصاف) مستعمل ہے ان ممالک میں امریکا، کینیڈا، برطانیہ، بھارت اور پاکستان شامل ہیں۔
دویم: ایسے ممالک جہاں سول لا (پرانے رومن قوانین پر مبنی قانونی نظام جس کا آغاز یورپ سے ہوا) رائج ہے، ان ممالک میں وسطی افریقی جمہوریہ، ایسٹونیا، فرانس، جارجیا، جرمنی، اٹلی، پولینڈ اور جاپان شامل ہیں۔

٭ پاکستان: پاکستان میں پلی بارگیننگ کو قومی احتساب بیورو آرڈینینس 1999 کے تحت متعارف کرایا گیا۔ اس قانون کے تحت ملزم اقبال جرم کرکے اور تفتیش کاروں اور استغاثہ کی جانب سے متعین کی گئی رقم واپس کرکے پلی بارگین کر سکتا ہے ۔
پاکستان میں پلی بارگیننگ کا طریقۂ کار کچھ اس طرح ہے:
جرم کا مرتکب فرد قومی احتساب آرڈینینس 1999کے ایکٹ 25(ب) کے تحت چیئرمین نیب سے پلی بارگین کی درخواست کرتا ہے، ا گر چیئرمین نیب اس درخواست کو منظور کرلے تو یہ درخواست منظوری کے لیے احتساب عدالت کو بھیج دی جاتی ہے، جہاں اسے منظور یا مسترد کرنے کا فیصلہ کیا جاتا ہے۔ اگر عدالت کی جانب سے پلی بارگیننگ کی درخواست منظور کرلی جائے تو ملزم سزایافتہ تو رہتا ہے لیکن اسے کوئی سزا نہیں دی جاتی۔

پلی بارگیننگ کرنے والا فرد دس سال تک انتخابات میں حصہ لینے، کسی سرکاری عہدے پر فائز ہونے اور کسی بینک یا مالیاتی ادارے سے قرض لینے کے لیے نااہل ہوجاتا ہے۔ سرکاری ملازم ہونے کی صورت میں اسے ملازمت سے برخواست کردیا جاتا ہے۔ پاکستان میں کرپشن کے علاوہ دیگر کیسوں میں پلی بارگیننگ محدود ہے، لیکن استغاثہ کے پاس یہ اختیار ہے کہ کسی کیس کو خارج کردے، چارج کرے یا کم سنگین نوعیت کے چارج لگائے۔ نیب قانون کی پلی بارگین شِق کے تحت ملزم کو خُردبُرد کی گئی رقم کے ساتھ 15فی صد اضافی جرمانہ بھی دینا پڑتا ہے۔

٭امریکا: پلی بارگیننگ امریکا کے کریمنل جسٹس سسٹم کا نمایاں جُز ہے۔ امریکا میں نوے فی صد مجرمانہ مقدمات جیوری ٹرائل کے بجائے پلی بارگیننگ سے نمٹائے جاتے ہیں۔ تاہم یہ عمل عدالت کی اجازت سے مشروط ہے۔ ہر ریاست اور حلقۂ عدلیہ (Jurisdiction) کے اصول الگ ہیں۔

٭کینیڈا: کینیڈا میں پلی بارگیننگ کرمنل جسٹس سسٹم کا منظور شدہ حصہ ہے، اس کے باوجود اکثر و بیشتر ججز اور کراؤن اٹارنیز اس میں تذبذب کا شکار رہتے ہیں۔

٭برطانیہ: برطانیہ میں صرف مجسٹریٹ کورٹس ٹرائلز میں مشروط پلی بارگیننگ کی اجازت ہے، اگر استغاثہ ملزم کی پلی بارگیننگ کی درخواست پر کچھ چارجز لگانے اور بقیہ کیسز ختم کرنے پر راضی ہو اور دفاع اس سے متفق تو پلی بارگیننگ ہوجاتی ہے۔

٭بھارت : بھارت میں پلی بارگیننگ کو ایکٹ 2005 کے کرمنل لا (ترمیم شدہ) کے ذریعے متعارف کرایا گیا۔ اس قانون میں کوڈ آف کریمنل پروسیجر میں ترمیم کرتے ہوئے ایک نئے باب (XXI) الف کا اضافہ کرکے 5جولائی 2006سے نافذ کیا گیا۔ یہ قانون مختلف کیسز میں پلی بارگیننگ کی اجازت دیتا ہے جس میں زیادہ سے زیادہ سات سال قید کی سزا بھی ہوسکتی ہے، تاہم 14سال سے کم عمر بچوں اور خواتین کے خلاف ہونے والے جرائم میں پلی بارگیننگ نہیں ہوسکتی۔

٭سول لا والے ممالک میں پلی بارگیننگ
ایسے ممالک جہاں ’سول لا‘ (پرانے رومن قوانین پر مبنی قانونی نظام جس کا آغاز یورپ سے ہوا) رائج ہے، وہاں کے حلقۂ عدلیہ میں پلی بارگیننگ بہت مشکل عمل ہے، کیوں کہ سول لا میں ’پلی‘ (درخواست) کرنے کا کوئی تصور نہیں ہے۔ ملزم اقرار جرم کرتا ہے، اس اعتراف کی بنیاد پر شواہد اکٹھے کیے جاتے ہیں، لیکن استغاثہ مکمل کیس پیش کرنے کی ڈیوٹی سے بری الذمہ نہیں ہے ۔ ملزم کے مکمل اعترافی بیان کے باوجود بھی عدالت ملزم کے بے گناہ ہونے کا فیصلہ کرسکتی ہے۔

٭ وسطی افریقہ جمہوریہ : وسطی افریقہ جمہوریہ میں جادو کرنے پر سنگین جرائم کی فرد جرم عاید کی جاتی ہے، لیکن ملزم پلی پارگیننگ کے ذریعے اعتراف کرکے اپنی سزا کم سنگین الزامات میں تبدیل کروا سکتا ہے۔

٭ایسٹونیا: ایسٹونیا میں پلی بارگیننگ کو نوے کے دہائی میں متعارف کرایا گیا، جس کے تحت ملزم کے اعتراف جُرم کی صورت میں سزا میں تخفیف کے ساتھ بہت سی عدالتی کارروائیوں سے بچا جاسکتا ہے۔ تاہم پلی بارگیننگ کی درخواست صرف ایسے جرائم میں کی جاسکتی ہے جن کی سزا چار سال قید سے زاید نہ ہو، ایسٹونیا میں پلی بارگیننگ کی صورت میں دی جانے والی سزا میں 25 فی صد تک کمی کی جاتی ہے۔

٭فرانس : فرانس میں2004میں پلی بارگیننگ کو محدود شکل میں متعارف کرایا گیا۔ اس نظام میں استغاثہ معمولی جرائم میں ملوث فرد کو ایک سال سے زاید قید کی فرد جرم عاید نہ کرنے کی تجویز پیش کر سکتا ہے، تاہم اس کی منظوری جج کی اجازت سے مشروط ہے۔
فرانس میں یہ قانون بہت متنازعہ رہا۔ وکلا اور بائیں بازو کی سیاسی جماعتوں نے اس قانون کو دفاع کے حق میں خلل، پولیس حراست میں متشبہ افراد کے حقوق اور شفاف عدالتی کارروائی کے خلاف قرار دیا۔

اس قانون کی مخالفت کرنے والوں کا کہنا تھا کہ پلی بارگیننگ عوامی استغاثہ کو بہت زیادہ طاقت دے دے گا اور اس سے ملزم، مشتبہ فرد کی عدالتی کارروائی کے نتیجے میں بڑی سزا ملنے کے خطرے کے پیش نظر معمولی جرائم میں اعتراف جرم کی حوصلہ افزائی ہوگی اور ہوسکتا ہے کہ اس سے یہ معمولی جرم بھی سرزد نہ ہوا ہو۔

٭جارجیا: جارجیا میں کرمنل پروسیجر کوڈ کے آرٹیکل 209کے تحت پلی بارگیننگ کو 2004 میں متعارف کرایا گیا۔ یہ قانون امریکا اور دیگر ’کامن لا‘ والے ممالک سے مشابہہ ہے۔

٭جرمنی اور اٹلی: جرمنی اور اٹلی میں پلی بارگیننگ کا قانون محدود شکل میں موجود ہے جس میں پلی بارگیننگ کی درخواست کرنے والے فرد کی سزا میں ایک تہائی تک کمی کردی جاتی ہے۔

٭پولینڈ: پولینڈ میں پلی بارگیننگ کا قانون صرف معمولی جرائم کے لیے استعمال کیا جاسکتا ہے اور اس کے لیے استغاثہ، ملزم، اور عدالت کا متفق ہونا ضروری ہے۔

٭جاپان: جاپان میں پلی بارگیننگ قانوناً تو ممنوع ہے، لیکن وہاں استغاثہ غیرقانونی طریقے سے اعتراف جرم کی صورت میں ملزم کو پلی بارگیننگ کی پیش کش کرتا ہے۔

٭ پلی بارگیننگ کیوں کی جاتی ہے؟
پلی بارگیننگ کی جانی چاہیے یا نہیں؟ اس کے حق اور مخالفت میں بہت سے جواز موجود ہیں تاہم ماہرین قانون کے نزدیک پلی بارگیننگ کرنے کے چند اہم اسباب درج ذیل ہیں:

٭ عدالتوں میں بہت زیادہ کیسز کا ہونا
ماہرین کا کہنا ہے کہ اگر پلی بارگیننگ کی اجازت نہ دی جائے تو پھر یقیناً یہ کیسز عدالتوں میں جائیں گے اور کیسز کی تعداد زیادہ ہونے کی وجہ سے عدالتیں سنگین نوعیت کے اُن کیسوں پر توجہ نہیں دے پائیں گی، جن کا فیصلہ صرف عدالتوں ہی میں ہوسکتا ہے، جب کہ پلی بارگیننگ کی صورت میں نہ صرف عدالتوں، وکلا، استغاثہ کا قیمتی وقت ضایع ہونے سے بچتا ہے، بل کہ عدالتی کارروائی میں اپنا دفاع نہ کرنے کی صورت میں (ملزم) کا بھی وقت اور پیسا بچتا ہے، جب کہ اس معاہدے میں دونوں فریقین (استغاثہ اور ملزم) کی جانب سے معاہدے کی خلاف ورزی کا امکان بھی نہایت کم ہوتا ہے، اگر دونوں میں سے کوئی ایک فریق معاہدے کی کسی شق کی خلاف ورزی کرتا ہے تو عدالت اس کی سزا میں کی گئی کمی کے فیصلے کو ختم کرسکتی ہے۔

٭ پلی بارگیننگ کے تحت 20ارب روپے کی وصولی
قومی احتساب بیورو کی جانب سے سپریم کورٹ میں جمع کرائی جانے والی رپورٹ کے اعداد و شمار بتاتے ہیں کہ نیب نے پلی بارگیننگ کی مد میں دس سال (2006 سے 2016) کے دوران بیس ارب روپے وصول کیے، جن میں سے8 ارب سترہ کروڑ روپے وفاقی اور صوبائی حکومتوں میں تقسیم کردیے گئے، جب کہ بقیہ رقم بھی مختلف کیسز کی تفتیش مکمل ہونے کے بعد تقسیم کردی جائے گی۔ رپورٹ کے مطابق وفاق کو ایک ارب روپے، سندھ حکومت کو 5 ارب دس کروڑ، خیبر پختونخوا کو 68 کروڑ 50 لاکھ، پنجاب کو 78 کروڑ 90 لاکھ اور بلوچستان کو 25 کروڑ 10 لاکھ دیے گئے، جب کہ 80 لاکھ روپے گلگت بلتستان کی حکومت کے حوالے کردیے گئے ہیں۔

نیب نے یہ رپورٹ 24 اکتوبر کو چیف جسٹس آف پاکستان انور ظہیر جمالی کی سربراہی میں تین رکنی بینج کی جانب سے پلی بارگیننگ اسکیم پر ہونے والی سماعت کے بعد جمع کروائی تھی۔ اس سماعت میں قومی احتساب بیورو کو گذشتہ دس سال میں پلی بارگیینگ اور رضاکارانہ اسکیم کے تحت جمع کی جانے والی رقوم کی تفصیلات پیش کرنے کی ہدایت کی تھی۔ واضح رہے کہ سپریم کورٹ نے کیس کا فیصلہ ہونے تک نیب کے چیئرمین قمر زمان چوہدری کو رضاکارانہ واپسی کے کسی معاملے کی منظوری دینے سے بھی روک دیا تھا۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔