ثقلی موجوں سے لے کر سیاروں اور ستاروں تک؛ گزرے سال میں ہونے والی سائنسی دریافتیں

ندیم سبحان میو  اتوار 8 جنوری 2017
سائنس دانوں کو امید ہے کہ ان کی تحقیق ڈپریشن کی نئی ادویہ کی تیاری کا باعث بنے گی۔ فوٹو : فائل

سائنس دانوں کو امید ہے کہ ان کی تحقیق ڈپریشن کی نئی ادویہ کی تیاری کا باعث بنے گی۔ فوٹو : فائل

علم سائنس کی عمارت عمل دریافت کی بنیادوں پر کھڑی ہے۔ آج ہمارے اطراف جو ایجادات بکھری پڑی ہیں، ان کی بنیاد بالواسطہ یا بلاواسطہ، کسی نہ کسی دریافت پر ہے۔ ابتدائے آفرینش سے لے کر لمحۂ موجود تک انسان سمندر کی گہرائیوں، فضاؤں اور خلا کی وسعتوں میں ان گنت دریافتیں کرچکا ہے اور یہ سلسلہ ہنوز جاری ہے۔ 2016ء میں بھی کئی اہم دریافتیں ہوئیں، جن کا تذکرہ ذیل کی سطور میں کیا جارہا ہے۔

٭ جنوری: یوں تو علم سائنس کے ہر شعبے میں نت نئی باتیں سامنے آرہی ہیں مگر انتہائی طاقت وَر دوربینوں کی بدولت فلکیات میں دریافت کا عمل نسبتاً تیز ہوگیا ہے۔ گذشتہ برس کا آغاز بھی کہکشاؤں کے ایک جُھرمٹ کی دریافت سے ہوا۔ میساچوسیٹس انسٹیٹیوٹ آف ٹیکنالوجی، میسوری یونی ورسٹی اور فلوریڈا یونی ورسٹی کے ماہرین فلکیات کی مشترکہ کاوش کے نتیجے میں دریافت ہونے والا یہ کہکشانی جُھرمٹ زمین سے دس ارب نوری سال کی دوری پر ہے۔

٭ دریافتوں کی دوڑ میں ریاضی داں بھی سائنس دانوں سے پیچھے نہ رہے۔ انھوں نے ایک نیا مفرد عدد دریافت کرڈالا۔ یہ عدد 274,207,281 – 1 ہے۔ یعنی 2 کی طاقت 74,207,281 نفی 1 کے مساوی ہے۔ اب تک دریافت ہونے والا یہ سب سے بڑا مفرد عدد ہے۔ قبل ازیں 257,885,161 – 1 کو یہ اعزاز حاصل تھا۔ اس عدد کی دریافت کا سہرا سینٹرل میسوری یونی ورسٹی کے ریاضی دانوں کے سَر ہے، جنھوں نے کمپیوٹر کی مدد سے یہ عدد حاصل کیا۔

٭ فروری: ایک صدی قبل مشہور زمانہ ماہر فلکیات البرٹ آئن اسٹائن نے نظریۂ عمومی اضافیت میں ثقلی امواج کی موجودگی کا تصور پیش کیا تھا۔ سال گذشتہ میں یہ تصور اس وقت حقیقت بن گیا جب ایک ہزار سے زائد سائنس دانوں پر مشتمل بین الاقوامی گروپ نے زماں و مکاں کی چادر میں ان موجوں کا مشاہدہ کرلیا۔ امریکا میں واقع Laser Interferometer Gravitational Wave Observatory( LIGO) میں دنیا بھر سے آئے ہوئے سائنس دانوں نے ان موجوں کا ’نظارہ‘ کیا جو بلیک ہولز، ستاروں اور دوسرے جسیم اجرام فلکی کے ٹکراؤ سے وجود پاتی ہیں۔ یہ لہریں ستمبر 2015ء میں دریافت کرلی گئی تھیں مگر اعلان فروری 2016ء میں کیا گیا۔

٭سائنس داں زمین کی حدود سے پرے، خلائے بسیط میں حیات کے وجود کا سراغ لگانے کے لیے برسوں سے کوشاں ہیں۔ اس ضمن میں وہ مختلف سیاروں اور سیارچوں کا کھوج لگاتے ہوئے وہاں کی فضا کا خصوصی طور پر جائزہ لے رہے ہیں کہ آیا وہاں ماحول زندگی کے لیے سازگار ہے یا نہیں۔ ناسا کی ہبل دور بین کی مدد سے انھوں نے زمین سے مشابہ سیارے 55 Cancri e کا بہ غور جائزہ لیا۔ یہ پہلا موقع تھا جب زمین سے مشابہ کسی سیارے کی فضا کا تفصیلی تجزیہ کیا گیا ہو۔ تجزیے کے دوران سائنس دانوں نے اس سیارے کی فضا میں ہائیڈروجن اور ہیلیئم گیسوں کی موجودگی کا پتا چلایا، تاہم وہاں پانی کے وجود کے شواہد نہیں ملے۔

٭ لبلبے کا سرطان، سرطان کی ایک مہلک قسم ہے جس کا شکار ہونے والے افراد کی زندگی کے امکانات بہت کم رہ جاتے ہیں۔ گذشتہ برس لبلبے کے سرطان کی مزید چار اقسام دریافت ہوئیں۔ اس کے ساتھ ساتھ ان کے لاحق ہونے کی وجوہات اور علاج بھی دریافت کیا گیا۔

٭ مارچ: ماہرین فلکیات نے ہبل دوربین کی مدد سے بعیدترین کہکشاں کا سراغ لگایا۔ اس کہکشاںکو GN-z11 کا نام دیا گیا، جو زمین سے 13.4 ارب نوری سال کے فاصلے پر واقع ہے۔

٭ افریقی ملک نمیبیا کے گھاس سے ڈھکے میدانوں میں عجیب وغریب دائرے پائے جاتے ہیں، جن کی کوئی حتمی توجیہہ سائنس داں تاحال پیش نہیں کرسکے۔ ان میدانوں میں تھوڑے تھوڑے فاصلے پر گھاس ایک دائرے کی صورت میں غائب نظر آتی ہے۔ طائرانہ نظر ڈالنے پر یوں معلوم ہوتا ہے جیسے گھاس سے ڈھکے میدان میں دائروں کی صورت میں گھاس صاف کردی گئی ہو۔ ان دائروں کے حوالے سے مختلف داستانیں بھی بیان کی جاتی ہیں۔ خیال کیا جاتا تھا کہ یہ دائرے صرف نمیبیا کے میدانوں ہی سے مخصوص ہیں، تاہم گذشتہ سال مغربی آسٹریلیا کے میدانوں میں بھی اسی نوع کے پراسرار دائرے دریافت کرلیے گئے۔ اس دریافت نے بحث اور تحقیق کا نیا باب کھول دیا ہے۔

٭ کرۂ ارض پر لاکھوں سال قبل، حضرت انسان کی آمد سے پہلے قوی الجثہ جانور دندناتے تھے، جنھیں ڈائنوسار کہا جاتا ہے۔ عشروں سے سائنس داں ان پر تحقیق کررہے ہیں۔ ڈائنوسار کی مختلف اقسام پائی جاتی تھیں۔ ان میں گوشت اور سبزی خور چوپایوں کے علاوہ دیوقامت پرندے بھی شامل تھے۔ ماہرین رکازیات نے ڈائنوسار کا ایک اور رکاز دریافت کیا۔ یہ دریافت اس لحاظ سے منفرد تھی کہ یہ رکاز ایک حاملہ ڈائنوسار کا تھا۔ سائنس دانوں نے اس دریافت کو انتہائی اہم قرار دیتے ہوئے کہا کہ اس سے دیوقامت مخلوق کے مختلف ارتقائی پہلوؤں پر پڑا دبیز پردہ سرک جائے گا۔

٭ گذشتہ برس ایک انوکھے ستارے کی دریافت نے ماہرین فلکیات کو حیران کردیا۔ اس سیارے کی انفرادیت یہ ہے کہ اس کی فضا مکمل طور پر آکسیجن پر مشتمل ہے۔ دوسری گیسیں یہاں محض 0.1 فی صد ہیں۔

٭ اپریل: کوائنٹم کمپیوٹیشن، کمپیوٹنگ کی وہ شاخ ہے جس کا انحصار کوانٹم فزکس پر ہوتا ہے۔ ماہرین کوانٹم فزکس کے اصولوں پر کمپیوٹر بنانے کی کوشش کررہے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ کوانٹم کمپیوٹر، کمپیوٹنگ میں انقلاب ثابت ہوگا۔ کوانٹم کمپیوٹر انتہائی تیزرفتار ہوں گے اور بڑی سے بڑی کیلکولیشن چند سیکنڈوں میں مکمل کرلیں گے۔ اس ضمن میں کلیدی پیش رفت سال گذشتہ میں ہوئی جب گرافین جیسی خصوصیات رکھنے والے مقناطیسی مادّے RuCl3 میں نئی کوانٹم حالت دریافت کرلی گئی۔ سائنس دانوں کا کہنا تھا کہ یہ دریافت کوانٹم کمپیوٹیشن کے لیے موزوں میٹیریل تشکیل دینے میں معاون ثابت ہوگی۔

٭ بارش پیا سی زمین اور فصلوں کو تو سیراب کرتی ہی ہے مگر بہت جلد باران رحمت بجلی کی قلت دور کرنے میں بھی معاون ثابت ہوگی۔ چینی سائنس دانوں نے دریافت کیا کہ برستی بوندوں سے بجلی بھی بنائی جاسکتی ہے۔ سائنس دانوں نے تجربے کے دوران سولر سیل پر گرافین کی تہہ چڑھائی جس کی موٹائی صرف ایک ایٹم کے مساوی تھی۔ گرافین بجلی کا بہت اچھا موصل ہے۔ اس کی پرت سے جب قطرات آب ٹکرائے تو آزاد الیکٹران مثبت بار دار آیونوں سے جُڑ گئے، جس کے نتیجے میں برقی رَو بہنا شروع ہوگئی۔ یہ دریافت سولر پینلز کی افادیت میں اضافہ کرے گی۔

٭دریائے امیزون بہ لحاظ مقدار آب، دنیا کا سب سے بڑا دریا ہے۔ سمندروں میں شامل ہونے والے دریائی پانی کی 20 فی صد مقدار اس دریا سے ہوتی ہوئی بحر اوقیانوس میں گرتی ہے۔ پچھلے کئی برس سے سائنس دانوں کی ایک ٹیم تقریباً سات ہزار کلومیٹر طویل دریا پر تحقیق کررہی تھی۔ محققین نے دریافت کیا کہ دریائے امیزون کے نیچے چٹانی سلسلہ پھیلا ہوا ہے۔ مزید تحقیق پر یہ حیران کُن انکشاف ہوا کہ اس چٹانی سلسلے کا پھیلاؤ ساڑھے تین ہزار مربع میل ہے۔ سائنس دانوں کا کہنا تھا یہ دریافت اس دریا سے جُڑے ارضیاتی خواص کی تفہیم میں معاون ہوگی۔

٭ مئی : یورپین اسپیس آبزرویٹری سے وابستہ ماہرین فلکیات نے تین سیارے دریافت کیے۔ یہ سیارے ہماری زمین سے محض چالیس نوری سال کی دوری پر ایک بونے ستارے کے مدار میں محوگردش تھے۔ حیران کُن طور پر یہ ستارہ عام ستاروں کی نسبت بہت ٹھنڈا تھا۔ غالباً یہی وجہ ہے کہ اپنے سورج سے بے حد قریب ہونے کے باوجود نودریافت شدہ سیاروں کا درجۂ حرارت زہرہ اور زمین کے درجۂ حرارت جیسا تھا۔ چھوٹے اور مدھم ستارے کے مدار میں دریافت ہونے والے یہ اولین سیارے ہیں۔ کم درجۂ حرارت کی وجہ سے ان کا اپنے سورج سے فاصلہ اتنا ہے جو کسی بھی سیارے پر زندگی کے پنپنے کے لیے موزوں خیال کیا جاتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ماہرین فلکیات اس دریافت کے بعد بہت پُرجوش ہوگئے ہیں اور ان سیاروں میں خصوصی دل چسپی لے رہے ہیں۔

٭ خلائی مخلوق کی تلاش میں جو سیارہ کئی عشروں سے توجہ کا مرکز چلا آرہا ہے، وہ مریخ ہے۔ سرخ رنگت کی وجہ سے اس سیارے کو سُرخ سیارہ بھی کہا جاتا ہے۔ مریخ پر کئی خلائی تحقیقی گاڑیاں اتر چکی ہیں۔ اس کے مدار میں بھی کئی تحقیقی خلائی جہاز موجود ہیں۔ ان خلائی مشینوں نے زمین کے پڑوسی سیارے کے بارے میں قیمتی معلومات زمین پر ارسال کیں۔ ان معلومات کی بنیاد پر ہمیں علم ہوا کہ مریخ پر کسی زمانے میں سمندر ٹھاٹھیں مارتا تھا نیز اس کی سطح کے نیچے برف ٹھوس حالت میں اب بھی موجود ہے۔ گذشتہ برس مریخ کی فضا میں آکسیجن بھی دریافت ہوگئی۔ چار عشروں میں یہ پہلا موقع تھا جب اس سیارے کی فضا میں آکسیجن کا سراغ ملا ہو۔ اس دریافت نے مریخ پر حیات کے متلاشیوں کو نئی توانائی بخش دی۔

٭ نظام شمسی سے باہر اب تک سیکڑوں سیارے دریافت ہوچکے ہیں۔ ایسے مواقع بھی آئے جب بہ بیک وقت کئی سیارے دریافت ہوئے۔ گذشتہ برس مئی میں ناسا کے کیپلر مشن سے وابستہ ٹیم نے 1284 سیاروں کی دریافت کا اعلان کیا۔ تاریخ میں یہ پہلا موقع تھا جب ایک ساتھ اتنے سیارے دریافت ہوئے ہوں۔

٭ جون: ماہرین فلکیات نے ایک ایسی کہکشاں دریافت کرنے کا دعویٰ کیا جو، ان کے مطابق، پوری کی پوری ڈارک میٹر پر مشتمل ہے۔ Dragonfly 44نامی کہکشاں کا سراغ ہوائی میں واقع دنیا کی طاقت وَر دوربین کی مدد سے لگایا گیا۔ ماہرین فلکیات کے مطابق یہ اپنی نوعیت کی واحد کہکشاں ہے جو 99.99 فی صد ڈارک میٹر پر مشتمل ہے۔ واضح رہے کہ ڈارک میٹر کے وجود اور اس کی نوعیت کے بارے میں سائنس داں اب تک حتمی طور پر کچھ بھی کہنے سے قاصر ہیں۔ انھیں امید ہے کہ Dragonfly 44 سے انھیں ڈارک میٹر کے بارے میں جاننے میں مدد ملے گی۔

٭ جولائی: ’ خدائی ذرے ‘ ( گاڈ پارٹیکل ) کے وجود کا ثبوت حاصل کرنے اور بگ بینگ جیسے حالات پیدا کرنے کے لیے فرانس اور سوئزرلینڈ کی سرحد پر سائنسی تاریخ کی سب سے بڑی مشین نصب کی گئی۔ 27 کلومیٹر طویل مشین زیرزمین دنیا کی سب سے بڑی تجربہ گاہ میں نصب کی گئی۔ اس مشین کو لارج ہیڈرن کولائیڈر کا نام دیا گیا تھا۔ ایل ایچ سی میں کیے جانے والے تجربات کے نتیجے میں سائنس دانوں نے ’ خدائی ذرے‘ کے وجود کی تصدیق کردی تھی۔ ایل ایچ سی میں تجربات کا سلسلہ ہنوز جاری ہے۔ اس منصوبے سے وابستہ سائنس دانوں نے گذشتہ برس چار نئے ذرات کی دریافت کا اعلان کیا۔ محققین کا کہنا تھا کہ یہ بالکل نئی قسم کے ذرات ہیں جن پر روشنی ڈالنے سے طبیعیات کے موجودہ ماڈل قاصر ہیں۔

٭ اگست: ماہرین حیاتیات نے دنیا کا سب سے طویل العمرجان دار دریافت کیا۔ یہ جان دار گرین لینڈ میں پائی جانے والی شارک ہے۔ 13 سے 16فٹ تک طویل گرین لینڈ شارک کی اوسط عمر 272 سال ہے، جب کہ یہ زیادہ سے زیادہ 400 سال تک زندہ رہ سکتی ہے۔

٭ ماہرین رکازیات نے قدیم ترین رکاز دریافت کرلیا۔ 3.7 ارب سال پرانا رکاز جزیرہ گرین لینڈ میں دریافت کیا گیا اور ایک شارک مچھلی کا ہے۔

٭ ستمبر: ارجنٹائن میں دنیا کا دوسرا بڑا شہاب ثاقب دریافت کرلیا گیا۔ 30 ٹن وزنی یہ خلائی پتھر ایک چھوٹے سے قصبے گینسیڈو میں زمین کے سینے سے باہر نکالا گیا۔ ماہرین آثار قدیمہ کے مطابق ممکنہ طور پریہ پتھر چار ہزار سال پہلے زمین سے ٹکرایا تھا۔ تاہم یہ ایک بڑے پتھر کا حصہ تھا، جو ارضی مدار میں داخل ہونے کے بعد بکھر گیا تھا۔

٭ اکتوبر: جدید آلات اور طاقت وَر دوربینوں کی بدولت سیاروں کی دریافت کا عمل چند عشرے قبل کی نسبت تیزرفتار ہوگیا ہے۔ ہر کچھ عرصے کے بعد سیارے اور ستارے دریافت ہورہے ہیں۔ اکتوبر میں بھی ماہرین فلکیات نے سورج سے ساڑھے تیرہ ارب کلومیٹر کی دوری پر واقع ایک بونا سیارہ دریافت کیا۔

٭ نومبر : برطانیہ اور چین کے سائنس دانوں نے ایک مشترکہ تحقیق میں انسانی دماغ کے اندر ڈپریشن کی ’جائے قیام‘ ڈھونڈ نکالی۔ دراصل ماہرین نے دماغ کے ان حصوں کی نشان دہی کرلی جو ڈپریشن سے متأثر ہوتے ہیں۔ سائنس دانوں کو امید ہے کہ ان کی تحقیق ڈپریشن کی نئی ادویہ کی تیاری کا باعث بنے گی۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔