مجھے نام نہاد لیڈروں سے بچاؤ

آفتاب احمد خانزادہ  ہفتہ 7 جنوری 2017

سعادت حسن منٹو نے تقسیم ہند سے قبل ایک مضمون تحریر کیا تھا، جس کا عنوان تھا ’’ہندوستان کو لیڈروں سے بچاؤ‘‘۔ وہ اس طرح سے تھا: ’’ہم ایک عرصے سے یہ شور سن رہے ہیں، ہندوستان کو اس چیز سے بچاؤ، اس چیزسے بچاؤ۔ مگر واقعہ یہ ہے کہ ہندوستان کو ان لوگوں سے بچانا چاہیے جو اس قسم کا شور پیدا کر رہے ہیں۔ یہ لوگ شور پیدا کرنے کے ماہر ہیں، اس میں کوئی شک نہیں، مگر ان کے دل اخلاص سے بالکل خالی ہیں۔ رات کو کسی جلسے میں گرماگرم تقریر کرنے کے بعد جب یہ لوگ اپنے پرتکلف بستروں میں سوتے ہیں تو ان کے دماغ بالکل خالی ہوتے ہیں۔

ان کی راتوں کا خفیف ترین حصہ بھی اس خیال میں نہیں گزرتا کہ ہندوستان کس مرض میں مبتلا ہے۔ دراصل وہ اپنے ذاتی مرض کے علاج معالجے میں اس قدر مصروف رہتے ہیں کہ انھیں اپنے وطن کے مرض کے بارے میں غور کرنے کا موقع ہی نہیں ملتا۔ یہ لوگ جو اپنے گھروں کا نظام درست نہیں کر سکتے، جن کا کریکٹر بے حد پست ہوتا ہے، سیاست کے میدان میں اپنے وطن کا نظام ٹھیک کرنے اور لوگوں کو اخلاقیات کا سبق دینے کے لیے نکلتے ہیں۔ کس قدر مضحکہ خیز چیز ہے۔ یہ لوگ جنھیں عرف عام میں لیڈر کہا جاتا ہے، سیاست اور مذہب کو وہ لنگڑا، لولا اور زخمی آدمی تصور کرتے ہیں۔

جس کی نمائش سے ہمارے یہاں گداگر عام طور پر بھیک مانگتے ہیں۔ سیاست اور مذہب کی لاش ہمارے یہ نام نہاد لیڈر اپنے کاندھوں پر اٹھائے پھرتے ہیں اور سیدھے سادے لوگوں کو، جو ہر وہ بات مان لینے کے عادی ہوتے ہیں جو اونچے سروں میں کہی جاتی ہے، یہ کہتے پھرتے ہیں کہ وہ اس لاش کو از سر نو زندگی بخش رہے ہیں۔ مذہب جیسا تھا ویسا ہی ہے اور ہمیشہ ایک جیسا رہے گا۔ مذہب کی روح ایک ٹھوس حقیقت ہے، جو کبھی تبدیل نہیں ہو سکتی۔ مذہب ایک ایسی چٹان ہے جس پر سمندر کی خشمناک لہریں بھی اثر نہیں کر سکتیں۔ یہ لیڈر جب آنسو بہا بہا کر لوگوں سے کہتے ہیں کہ مذہب خطرے میں ہے تو اس میں کوئی حقیقت نہیں ہوتی۔ مذہب ایسی چیز ہی نہیں کہ خطرے میں پڑ سکے۔

اگر کسی بات کا خطرہ ہے تو وہ ان لیڈروں کا ہے، جو اپنا الو سیدھا کرنے کے لیے مذہب کو خطر ے میں ڈالتے ہیں۔ ہندوستان کو ان لیڈروں سے بچاؤ جو ملک کی فضا بگاڑ رہے ہیں اور عوام کو گمراہ کر رہے ہیں۔ آپ نہیں جانتے مگر یہ حقیقت ہے کہ ہندوستان کے یہ نام نہاد لیڈر اپنی اپنی بغل میں ایک صندوقچی دبائے پھرتے ہیں۔ جس میں یہ لوگوں کی جیبیں کتر کر روپیہ جمع کرتے ہیں۔ ان کی زندگی ایک لمبی دوڑ ہے، سرمائے کے پیچھے۔ ان کی ہر سانس میں آپ ایک ریاکاری اور دغا بازی کا تعفن محسوس کر سکتے ہیں۔

لمبے لمبے جلوس نکال کر منوں بھاری ہاروں کے نیچے دب کر چوراہوں پر طویل طویل تقریروں کے کھوکھلے الفاظ بکھیر کر ہماری قوم کے یہ نام نہاد رہنما صرف اپنے لیے راستہ بناتے ہیں جو عیش و عشرت کی طرف جاتا ہے۔‘‘ منٹو لکھتا ہے ’’یہ چند لوگ اکٹھے کرتے ہیں، مگر کیا انھوں نے آج تک بیکاری کا حل پیش کیا ہے؟ یہ لوگ مذہب مذہب چلاتے ہیں مگر کیا انھوں نے خود کبھی مذہب کے احکام کی پیروی کی ہے؟

یہ لوگ جو خیرات میں دیے ہوئے مکانوں میں رہتے ہیں، چندوں سے اپنا پیٹ پالتے ہیں، جو مستعار اشیا پر جیتے ہیں، جن کی روح لنگڑی، دماغ اپاہج، زبان مفلوج اور ہاتھ پیر شل ہیں، ملک و ملت کی رہبری کیسے کر سکتے ہیں؟ ہندوستان کو بے شمار لیڈروں کی ضرورت نہیں، جو نئے سے نیا راگ الاپتے رہیں، ہمارے ملک کو صرف ایک لیڈر کی ضرورت ہے، جو حضرت عمرؓ کا سا اخلاص رکھتا ہو، جن کے سینے میں اتاترک کا سپاہیانہ جذبہ ہو، جو برہنہ پا اور گرسنہ شکم آگے بڑھے اور وطن کے بے لگام گھوڑے کے منہ میں باگیں ڈال کر اسے آزادی کے میدان میں ان کی طرف مردانہ وار لیے جائے۔ یاد رکھیے وطن کی خدمت شکم سیر لوگ کبھی نہیں کر سکیں گے۔

وزنی معدے کے ساتھ جو شخص وطن کی خدمت کے لیے آگے بڑھے، اسے لات مار کر باہر نکال دیجیے۔ حریر میں لپٹے ہوئے آدمی ان کی قیادت نہیں کر سکتے۔ اگر کوئی شخص ریشمی کپڑے پہن کر آپ کو غربت کا سدباب بتانے کی جرأت کرے تو اس کو اٹھا کر وہیں پھینک دیجئے جہاں سے نکل کر وہ آپ لوگوں میں آیا تھا۔ یہ لیڈر کھٹمل ہیں، جو وطن کی کھاٹ میں چولوں کے اندر گھسے ہوئے ہیں۔

ان کو نفرت کے ابلتے ہوئے پانی کے ذریعے باہر نکال دینا چاہیے۔ لیڈر جلسوں میں سرمائے اور سرمایہ داروں کے خلاف زہر اگلتے ہیں، صرف اس لیے کہ وہ خود سرمایہ اکٹھا کر سکیں۔ کیا یہ سرمایہ داروں سے بدتر نہیں۔ یہ چوروں کے چور ہیں۔ رہزنوں کے رہزن۔ اب وقت آگیا ہے کہ عوام ان پر اپنی بے اعتمادی ظاہر کردیں۔ ضرورت ہے کہ پھٹی ہوئی قمیضوں والے نوجوان اٹھیں اور عزم کو، خشم کو اپنی چوڑی چھاتیوں میں لے لیں۔

ان نام نہاد لیڈروں کو اس بلند مقام پر سے اٹھا کر نیچے پھینک دیں جہاں یہ ہماری اجازت کے بغیر چڑھ بیٹھے ہیں۔ ان کو ہمارے ساتھ، ہم غریبوں کے ساتھ ہمدردی کا کوئی حق حاصل نہیں۔ یاد رکھیے، غربت لعنت نہیں ہے، جو اسے لعنت ظاہر کرتے ہیں وہ خود ملعون ہیں۔ وہ غریب اس امیر سے لاکھ درجے بہتر ہے جو اپنی کشتی خود اپنے ہاتھوں سے کھینچتا ہے۔ اپنی کشتی کے کھویّا خود آپ بنیے۔ اپنا نفع نقصان خود آپ سوچیے اور پھر ان لیڈروں، ان نام نہاد رہنماؤں کا تماشا دیکھیے کہ وہ زندگی کے وسیع سمندر میں اپنی زندگی کا وزنی جہاز کس طرح چلاتے ہیں۔‘‘

برک کہتا ہے کہ ’’اقوام جن کی رہنمائی چھوٹے دماغوں، چھوٹے دلوں سے ہوتی ہے، انھیں اپنے آپ کو صدموں، آفتوں اور خاتمے کے لیے تیار رہنا چاہیے‘‘۔ اس وقت ملک کے ہر دوسرے آدمی کی یہ سوچ ہے کہ ہم مکمل تباہی کی جانب تیزی سے بڑھ رہے ہیں۔ کرپشن، دہشتگردی، لاقانونیت، بدامنی کی وجہ سے ہر آدمی سہما ہوا ہے۔ بیروزگاری اور مہنگائی کی وجہ سے لوگ فاقوں پر مجبور ہیں۔ آبادی میں خوفناک اضافہ کی طرف کوئی دھیان دینے کے لیے تیار نہیں۔ رشوت کے بغیر کوئی کام نہیں ہو رہا۔ ادارے کمزور سے کمزور تر ہوتے جا رہے ہیں۔ نفسانفسی، بے حسی ہمارے خون میں شامل ہو چکی ہے، ہم ایسی بھیڑ بن گئے ہیں جس کی کوئی منزل نہیں۔ حکمران جماعت کے وزیر کہہ رہے ہیں کہ پاکستان ایتھوپیا بننے جا رہا ہے۔

قوم مشکل میں ہے اور مشکل کشا بے نیاز و بے پروا ہیں۔ نام نہاد لیڈروں کا یہ حال ہے کہ وہ ملک اور قوم کے بجائے صرف اپنے آپ میں مست ہیں، ان کا نہ تو کوئی ویژن ہے، نہ کوئی فلسفہ اور نہ ہی کوئی نظریہ ہے۔ نام نہاد لیڈر بونوں میں تبدیل ہو گئے ہیں، ان کی نااہلی کی وجہ سے مسائل پہاڑوں میں تبدیل ہو گئے ہیں۔ ظاہر ہے بونے جن کا کیسے مقابلہ کر سکتے ہیں۔ ہر طرف کھینچاتانی، کرپشن، نااہلی کا دور دورہ ہے۔

آج ہمارے نام نہاد لیڈروں کا وہی حال ہے جو سعادت حسن منٹو نے اپنے مضمون میں ہندوستان کے لیڈروں کا حال رقم کیا تھا۔ تقسیم کے بعد بھی کچھ نہیں بدلا، بدلا تو صرف نام نہاد لیڈروں کا نصیب بدلا، جب کہ قوم کا نصیب وہی کا وہی رہا۔ لیکن آنسو بہانے سے کیا فائدہ، آنسو ہماری قسمت کو تو نہیں بدل سکتے۔ قوم کو نام نہاد قیادت اب نہیں چاہیے۔ خودغرض، نااہل، کرپٹ حکمران قوم کو اب قبول نہیں۔ قوم کو اب دلیر، ایماندار، جرأت مند، نڈر قیادت کی ضرورت ہے۔ تقدیر خود ہی نہیں بن جاتی بلکہ اس کا انتخاب کرنا پڑتا ہے اور نہ ہی تقدیر کے انتظار میں رہنا چاہیے بلکہ اسے حاصل کر لینا چاہیے۔ دہشتگردی، غربت، جہالت، بیماریاں، بیروزگاری، مہنگائی، فاقے، کرپشن، ہماری تقدیر نہیں ہیں۔ آئیں ہم مل کر، اٹھ کر، جاگ کر، اپنی تقدیر بدل ڈالیں۔‘‘

منٹو کی یہ تحریر آج بھی حقیقت کی درد انگیز تصویر کشی کرتی ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔