دہشت گردوں کیخلاف فوجی آپریشن کیا جائے، اے این پی

پیر محمد  ہفتہ 29 دسمبر 2012
حکومت انتخابات اور نیٹوکے انخلا کو مدنظر رکھتے ہوئے جامع حکمت عملی تیار کرے، تجزیہ نگار. فوٹو: فائل

حکومت انتخابات اور نیٹوکے انخلا کو مدنظر رکھتے ہوئے جامع حکمت عملی تیار کرے، تجزیہ نگار. فوٹو: فائل

اسلام آباد: عوامی نیشنل پارٹی عام انتخابات سے قبل دہشت گردوں کے ٹھکانوں کے خلاف فوجی آپریشن چاہتی ہے اور پارٹی کے صدر اسفند یار ولی جلد صدر زرداری سے ملاقات کرکے باضابطہ یہ مطالبہ پیش کریں گے۔

اے این پی کے سینیٹر حاجی عدیل نے ایکسپریس ٹربیون کے رابطے پر تصدیق کی کہ اسفند یار ولی صدر کی دورہ سندھ سے واپسی پر جلد ان سے ملاقات کریں گے۔ انہوں نے کہا کہ اے این پی عسکریت پسندی کا کافی عرصے سے شکار ہے، بشیر بلور اور 3ارکان اسمبلی سمیت ہمارے کئی رہنما اور کارکن خودکش حملوں میں ہلاک ہوچکے ہیں۔ اے این پی کی قیادت نے رواں ہفتے ایک اجلاس کے بعد دہشت گردوں کے ٹھکانوں کے خلاف فوجی آپریشن کیلئے قومی اتفاق رائے کا مطالبہ کیا تھا، اس اجلاس میں اسفند یار ولی کو سیاسی جماعتوں سے رابطے کی ذمہ داری بھی سونپی گئی، حاجی عدیل نے بتایا کہ ہم ان عناصر کو کھلی چھٹی نہیں دے سکتے جو حکومت کی رٹ چیلنج کررہے ہیں۔

اس ضمن میں ہمیں وفاقی حکومت اور دیگر سٹیک ہولڈروں کے تعاون کی ضرورت ہے۔ اے این پی کے ایک اور سنیئر رہنما نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ سوات آپریشن کی طرز پر خیبرپختونخوا کے بعض علاقوں میں فیصلہ کن کارروائی کی ضرورت ہے۔ ہماری پارٹی عسکریت پسندوں کی ہٹ لسٹ پر ہے۔ یہ لوگ اسلحے کے زور پر اپنی طرز کا اسلام مسلط کرنا چاہتے ہیں۔ کوئی بھی پارٹی ریاست کے اندر ریاست قبول نہیں کرسکتی ۔

6

دریں اثنا سابق سیکرٹری فاٹا بریگیڈئیر(ر)محمود شاہ سمیت عسکری تجزیہ نگاروں کا کہنا ہے کہ آپریشن جلدازجلد ہونا چاہیئے۔ حکومت کو آئندہ انتخابات اور افغانستان سے نیٹو افواج کے انخلا کو مدنظر رکھتے ہوئے انسداد دہشت گردی کی جامع حکمت عملی تیار کرنا ہوگی لیکن دہشت گردوں کا آخری ٹھکانا سمجھے جانے والے شمالی وزیرستان میں آپریشن سردیوں میں ممکن نہیں تاہم فوج ان علاقوں میں کارروائی کرسکتی ہے جہاں عسکریت پسند مہلک حملے کررہے ہیں ۔ انہوں نے کہا کہ پارلیمنٹ پہلے ہی حکومتی رٹ چیلنج کرنے والوں کے خلاف کارروائی کی قرارداد منظور کرچکی ہے اس لئے اس مسئلے پر کل جماعتی کانفرنس بلانا بیکار ہوگا بلکہ اس سے ایک نیا تنازع پیدا ہوسکتا۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔