عدالت ِعظمیٰ ہی قوم کو پاناما کے عذاب سے نجات دلاسکتی ہے

رحمت علی رازی  اتوار 8 جنوری 2017
rehmatraazi@hotmail.com

[email protected]

انتخابی دھاندلی کے بطن سے برآمد ہونے والا احتجاجوں کا ایک طویل سلسلہ، جوکبھی دھرنوں کی شکل میں توکبھی مقدموں کی شکل میں پاکستان کی سیاست کا محور بنا ہوا ہے‘ پاکستان تحریکِ انصاف کے علاوہ تمام سیاسی جغادری اپنے اپنے مفادات کی چادر اوڑھے حکومت کی بُکل کے چور بنے ہوئے ہیں‘ پانامالیکس کا اونٹ ہے کہ کسی کروٹ بیٹھنے کا نام ہی نہیں لے رہا‘ ایک چیف جسٹس کے بعد دوسرے چیف جسٹس کو بھی پاناما ہی پاناما درپیش ہے‘ پاکستان کے نئے چیف جسٹس میاں ثاقب نثار کی تقرری کی جونہی خبر شایع ہوئی۔

حسبِ روایت ان پرمعترض حلقوں نے لفظوں کا دھاوا بول دیا‘ قاضی القضاء کا عہدہ سنبھالتے ہی انھوں نے بہرکیف پہلا حکم یہی صادر کیا کہ پاناما کیس کی سماعت 4جنوری سے ہوگی‘ ساتھ ہی نیا پانچ رکنی بنچ بھی تشکیل دیدیا اور خود اس سے الگ رہے‘ یہ ان کا واقعی ججوں والا فیصلہ تھا جس کی عوام کی طرف سے زبردست توصیف کی گئی‘ تحریکِ انصاف کے چیئرمین عمران خان کی تمام ترسیاست اور مستقبل کا انحصار بھی اب قریں قریں پاناما کیس پرہی آگیا ہے‘ ان کی دانست کے مطابق تو عدالتِ عظمیٰ سے وہ یہ کیس جیت چکے ہیں اور وزیراعظم نوازشریف بھی اب نااہل ہوئے ہی چاہتے ہیں۔

قوم نہایت دلچسپی سے یہ ساری کارروائی دیکھ رہی ہے اور یہ بھی بڑی حیرت سے دیکھا گیا ہے کہ عمران خان کوجب اُمید کی کرن نظر آئی ہے تو وہ یہ کہہ اٹھے ہیںکہ وہ عدلیہ پر اعتماد رکھتے ہیں اور جو بھی فیصلہ ہو گا وہ اسے قبول کرینگے، لیکن اگر فیصلہ شریف فیملی کے حق میں آیا تو کیا تب بھی عمران خان اسے قبول کرینگے؟ اس بات کا یقین شاید اب ان کو بھی نہیں ہے۔ پیپلز پارٹی نے عدالت میں جانے کی مخالفت کی اور رائے دی تھی کہ پارلیمنٹ میں احتساب کیا جائے اور عوامی رائے ہموار کی جائے لیکن تحریکِ انصاف فیس سیونگ کے لیے سب سنی اَن سنی کرکے عدالت جا پہنچی۔

اس اہم کیس پر اعتراز احسن کا موقف ہے کہ کیس مضبوط اور بارِثبوت مدعا علیہان پر ہے تاہم وہ خود اس کیس میں وکیل نہیں ہیں‘ جہاں تک پیپلزپارٹی کا اپنا تعلق ہے تو آصف زرداری کی آمد کے بعد بلاول زرداری والی تیزتر پالیسی میں کافی حد تک تبدیلی آئی ہے‘ انھوں نے آتے ہی باپ بیٹے کے قومی اسمبلی میں جانے کا اعلان کردیا اور ایسا یقیناً ہو بھی جائے گا‘ عام تاثر یہی ہے کہ آصف زرداری زیادہ زمانہ شناس اور زیرک سیاستدان ہیں‘ ان کی پالیسیوں سے محسوس ہورہا ہے کہ پیپلزپارٹی کو قلیل عرصہ میں انتخابی میدان کے لیے تیار کرنے کی حکمتِ عملی پر کام شروع کردیا گیا ہے‘ وہ اپوزیشن کو متحد کرنے کی بھی بات کرتے ہیں لیکن بیانات کے تبادلے میں نہیں اُلجھ رہے جب کہ بلاول اس کے برعکس کررہے تھے اور کرپشن کے خلاف بھی انھوں نے محاذ کھڑا کررکھا تھا۔

عمران خان اور ان میں یہ ایک قدرِ مشترک پیدا ہوئی‘ پاناما کا اور کوئی فائدہ ہوا ہو یا نہ ہواہو، اتناضرور ہوا ہے کہ کرپشن کی بات سبھی کرنے لگ پڑے ہیں، حتیٰ کہ نیب کی پلی بارگیننگ کے حوالے سے تو پورا ایوان ایک ہی زبان بول رہا ہے‘ سپریم کورٹ نے پاناما لیکس کیس کی سماعت روزانہ کی بنیاد پر کرنے کا فیصلہ کیا ہے‘ اب عدالت کو یہ دیکھنا ہوگا کہ کیا سرکاری عہدے کا غلط استعمال تو نہیں ہوا‘ وزیراعظم نوازشریف کی خاندانی کاروبار پر تقاریر میں موقف کی تردید ان کے بچوں کے موقف سے سامنے آئی‘ اس منی ٹریل کا نہیں بتایا جارہا جب نواز شریف وزیرخزانہ، وزیراعلیٰ اور وزیراعظم رہے اورجب جب وہ ملک سے باہر گئے۔

وزیراعظم نے 1997ء میں کہا کہ بزنس سے الگ ہورہا ہوں، وہ سیاست بھی کرتے رہے اور بزنس بھی کرتے رہے‘ یہ سوال مفادات کے تضاد ہی کا تو ہے کہ جب جب نواز شریف نے عہدہ سنبھالا تب تب ان کے بزنس معاملات آگے بڑھے‘ وزیراعظم کے بچوں اور ان کے تحائف کے درمیان ٹیکس چوری تقریباً واضح ہوچکی ہے‘ فلیٹ نمبر17 اے 7مئی 1993ء کو خریدا گیاجو آف شور کمپنی نیسکول نے خریدا‘ کیا ایسی کوئی دستاویز ہے کہ 1993ء میں نیسکول کمپنی حسین نواز کی ملکیت تھی؟ ہاں بالکل! پورے کیس میں یہی توایک راز کی بات ہے جسے نعیم بخاری اس کیس کا اسمِ اعظم قرار دے رہے ہیں۔

عدالت کہتی ہے، نیلسن اور نیسکول آف شور کمپنیوں کی 2006ء سے پہلے کی ملکیت پی ٹی آئی نے ثابت کرنی ہے۔ پی ٹی آئی کے وکلاء کا موقف ہے کہ بارِثبوت مدعاعلیہان پر ہے کیونکہ مریم نواز آج بھی اپنے والد کے زیرکفالت ہیں‘ معزز عدلیہ نے فریقین کو یہ بھی باور کروایا ہے کہ کسی کوبینچ کی ساخت پر اعتراض نہیں تومیڈیا سے مخاطب ہونے کے بجائے عدالت سے مخاطب ہوا جائے‘ میڈیا ججوں کے ریمارکس، آبزرویشن اور سوالات کو ان کی ذاتی سوچ سے تعبیر نہ کرے‘ ججوں کے سوالات کا مقصد وکلاء سے اندر کی باتیں نکلوانے یا کیس کے مرکزی نکتے تک پہنچنے کے لیے ہوتے ہیں‘ ان کے سوالات کی بنیاد پر بحث ومباحثے نہیں ہونے چاہئیں‘ وہ کسی پرقدغن نہیں لگا سکتے‘ پروگرام ضرور ہوں لیکن ججوں کے سوالات اور آبزرویشن پر نہ ہوں‘ان کے سوالات اور آبزرویشن میڈیا پر ٹھاہ ٹھاہ کی آواز کے ساتھ سنائے جاتے ہیں تو وہ خود بھی سن کر ششدر رہ جاتے ہیں۔

عمران خان میڈیا پر آکر مقدمہ لڑنے پر اس لیے مجبور ہوگئے ہیں کہ جب جوڈیشل کمیشن بنا تھا تو ان کے خلاف حکومتی پلیٹ فارم استعمال ہوا تھا‘ اب وہ عدالت میں بھی یہ دلیل پیش کررہے ہیں کہ اسرائیلی وزیراعظم سے تو وہاں کی پولیس نے براہ راست پوچھ گچھ کی ہے، توپھر نوازشریف سے کیوں نہیں؟ وہ خم ٹھونک کر کہہ رہے ہیں کہ وہ تو الزام لگائیں گے‘ اپوزیشن نے تو الزام لگانے ہی ہوتے ہیں، انکوائری کرنے کے لیے ادارے موجود ہیں‘ عمران خان کے سیاسی مرشد شیخ رشید توعدالت سے یہ اصرار کر رہے ہیں کہ پاناماکیس پر 20کروڑ عوام کی نظریں لگی ہیں، اس کو کورٹ روم سے براہِ راست میڈیا کے ذریعے نشر ہونا چاہیے۔

خیر وہ توجو ہوگا، سو ہوگا لیکن اب یہ عدالت کی صوابدید ہے کہ وہ کیس بند کمرے میں چلاتی ہے یا براہِ راست نشر کرنے پر آمادہ ہوتی ہے‘پاناماکیس کے نئے بنچ نے اپنی پہلی ہی سماعت میں کئی سوالات بھی اُٹھا دیے ہیں‘ کچھ سوالات کے جواب شریف خاندان کو اور کچھ کے جواب تحریکِ انصاف کو دینا ہونگے‘ اہم بات یہ ہے کہ عدالت اب روزانہ کی بنیاد پرسماعت کریگی‘ عدالت نے فریقین کے سامنے چیلنج رکھا ہے۔

شریف خاندان کے سامنے چیلنج یہ ثابت کرنا ہے کہ 2006ء سے پہلے فلیٹس ان کے نہیں تھے‘ دوسری طرف تحریکِ انصاف پر یہ ثابت کرنے کی ذمے داری ہے کہ 2006ء سے پہلے یہ سب کچھ شریف خاندان کی ملکیت میں تھا‘ پی ٹی آئی اگریہ ثابت کردیتی ہے کہ لندن فلیٹس شریف خاندان کی ملکیت میں 2005ء سے پہلے کے تھے تو قطری خط بھی مشکوک ہوجائے گا اور شریف خاندان کے تمام دعوے بھی غلط ثابت ہوجائینگے‘ اسی بوکھلاہٹ میںنون لیگ کی قیادت تین دفعہ اپنے وکلاء تبدیل کرچکی ہے‘ وکیل بار بار تبدیل کرنے سے معاملہ ان سے حل نہیں ہوپارہا کیونکہ کوئی بھی وکیل گلف اسٹیل کی 12ملین ڈالر کی رقم ثابت کرنے سے گھبراتا ہے۔

گلف اسٹیل جب بیچی گئی تو 26ملین درہم کے نقصان میں تھی‘ تحریکِ انصاف نے جو دستاویزات دی ہیں ان کے مطابق لندن فلیٹس کی ملکیت نیلسن اور نیسکول کے پاس ہے اور ان دونوں کمپنیوں کی مالک منروا سروسز ہے جو مریم نوازشریف کے زیرِدستخطی ہے‘ ان دستاویزات میں 2004، 2005 کی دستاویزات ثابت کرتی ہیں کہ مریم نواز اس کی بینیفیشل اونر ہیں،مگر اسے غلط ثابت کرنا وکیلوں کے بس کی بات نظر نہیں آتی‘ نوازشریف اور ان کے اہلِ خانہ کو وکلاء کی ٹیم تبدیل کرنے کا پورا پورا حق حاصل ہے۔

سپریم کورٹ کا بینچ تبدیل ہوچکا ہے‘ نئے شواہد آگئے ہیں، اس کے مطابق وہ اپنی ٹیم بھی تبدیل کرسکتے ہیں‘ نیا بینچ اپنے طور طریقے متعین کریگا‘ وہ یہ بھی دیکھے گا کہ آئین کے آرٹیکل 184(3) کے تحت اس کے اختیارات کیا ہیں؟ وہ تمام شواہد کو بھی دیکھے گا‘ پہلا سوال تو یہ ہوگا کہ عدالت کرنا کیا چاہتی ہے؟ بینچ میں شامل تمام جج صاحبان معتبر ہیں، انھیں یقینا اس بات کا احساس ہوگا کہ کیا کارروائی کرنی ہے؟ کیا سپریم کورٹ کا بینچ آخری فیصلہ کردیگا؟ اگر ایسا ہوا تو ملزم اس کے خلاف اپیل کہاں کریگا؟ بینچ کو یہ تمام باتیں مدنظر رکھنا ہونگی کہ وہ کیا کررہا ہے‘ پہلے عدالت نے یہ تعین کرنا ہے کہ وہ کرنے کیا جارہی ہے اور اس کا طریقہ کار کیا ہوگا۔

پاناما بنچ کے فاضل جج صاحبان کے مطابق یہ عدلیہ کی تاریخ کا اہم ترین کیس ہوگا، شاید اسی لیے فاضل جج اسے عجلت میں نہیں سننا چاہتے مگر پی ٹی آئی اسے ہفتوں میں نمٹانا چاہتی ہے‘ عمران خان کے دستِ راست زلفی بخاری نے مکمل پاناما فائل حاصل کرلینے کا بھی دعویٰ کردیا ہے‘ اس فائل کے چند صفحات بطور ثبوت سپریم کورٹ میں پیش کردیے گئے ہیں‘ اس سے مبینہ طور پر ثابت ہوتا ہے کہ مریم نوازشریف کی حیثیت آف شور کمپنیوں (نیسکول اور نیلسن) سے فائدہ اٹھانے والے اونر کی ہے‘ دو فرانزک اکاؤنٹنسی اینڈ سرچ فرمز ’’ایریک‘‘ اور ’’کرول‘‘ کی خدمات گزشتہ 2ماہ میں زلفی اور ترین نے حاصل کی تھیں‘ ان فرمز نے اس معاملے میں ترین اور زلفی سے تقریباً 45ہزار مختلف دستاویزات شیئر کیں‘ فرمزکو ہزاروں پاؤنڈز کی ادائیگی کی گئی مگر حتمی فریم کے بارے میں نہیں بتایا گیا۔

پی ٹی آئی کے رہنما جہانگیرترین نے دسمبر 2016ء کے اختتام پر انگلینڈ میں ایک ہفتہ گزارا اور زلفی بخاری کے ہمراہ برٹش ورجن آئی لینڈ میں اپنے ایک ذریعہ سے فائل حاصل کرنے کے لیے مشترکہ طور پر کام کیا‘ یہ سمجھا جاتا ہے کہ زلفی بخاری اپنے تعلقات کے ذریعے پی وی آئی اور نیوجرسی آئی لینڈ سے ایسی فائلیں حاصل کرنے کی کوشش کررہے تھے جوکہ شریف فیملی کے ارکان کے لیے قانونی مشکلات کا سبب بن سکتی ہیں‘ زلفی بخاری خود بھی آف شور بزنس کے بارے میں بڑی تفصیلات سے آگاہ ہیں‘ قبل ازیں دستاویزات کو پرکھنے کے لیے پروفیشنل ایڈوائس نے پارٹی کی کافی مدد کی ہے اور عمران خان ای میلز کا تبادلہ دیکھ کر بہت خوش ہیں۔

انھوں نے ایک پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہا ہے کہ حالیہ شواہد پختہ ہیں مگرنون لیگ اسے غیرتصدیق شدہ سمجھتی ہے اور فوٹو کاپیاں قانون کی عدالت میں ثبوت کے طور پر زیرغور نہیں لائی جاسکتیں‘ آنیوالے دنوں میں چند صفحات کوئی تبدیلی لائینگے یا نہیں، تاہم پی ٹی آئی رہنماؤں کو یہ پیپرز حاصل کرنے کے بعد بہت خوش دیکھا گیا ہے۔

عمران خان کے ثبوتوں پر فیصلہ عدالت ہی کرسکتی ہے کہ یہ ثبوت قابلِ قبول ہیں یا نہیں ہیں، اگر عدالت پی ٹی آئی کے ثبوت قبول کرلیتی ہے تو دو دن میں فیصلہ کردیگی‘ جو اپنی بات کے حق میں ثبوت دیدے فیصلہ اسی کے حق میں ہوجائیگا‘ معزز جج صاحبان کسی بھی طرح اصلیت کو سامنے لانا چاہتے ہیں‘ ابھی واضح نہیں کہ پاناما کیس سپریم کورٹ کے بنچ کے ذریعے ہی چلانا ہے تو طریقہ کار کیا ہوگا‘ حسبِ معمول سپریم کورٹ کا بنچ کارروائی کریگا تو اپیل کورٹ کے نارمل قوانین اپلائی ہونگے کہ جس نے الزام لگایا وہی ثابت کریگا‘ اگر کمیشن بنتا ہے تو عدالت کمیشن کے لیے بنائے گئے قوانین کے تحت ہی آگے چلے گی۔

پی ٹی آئی سپریم کورٹ کے سامنے شرائط پیش نہیں کرسکتی‘ عمران خان ججوں سے وہ فیصلہ طلب کررہے ہیں جو وہ چاہتے ہیں، بدیں وجہ کچھ لوگ یہ تنقید کررہے ہیں کہ عمران خان انصاف نہیں وزیراعظم نوازشریف کی چھٹی کروانا چاہتے ہیں‘ سپریم کورٹ نے عمران خان کے کمیشن نہ ماننے پر کوئی ایکشن نہیں لیا، جسکا مطلب ہے، عمران خان کی طرف سے پاپولر دباؤ بہت زیادہ ہے۔

سپریم کورٹ میں پانامالیکس کیس کے دوبارہ آغازکے بعد پی ٹی آئی اور مسلم لیگ نون کے مابین لفظوں کی جنگ زور شور سے شروع ہوگئی ہے‘ ہماری سابقہ سیاسی روایات کے مطابق بالعموم سیاستدان عدالتوں میں زیرسماعت مقدمات پر کسی قسم کے تبصروں سے گریز کرتے تھے مگر اب جو سیاسی کلچر پروان چڑھ رہا ہے اس کے مطابق صبح کے وقت عدالتی کارروائی ہوتی ہے جس میں فاضل ججوں کے سامنے وکلاء پیش ہوتے ہیں جب کہ شام کو ہرٹی وی چینل پر میڈیا کی عدالتیں سج جاتی ہیں جہاں مختلف سیاسی پارٹیوں کے نمائندے ایک دوسرے کے خلاف الزام تراشی ہی نہیں، دشنام طرازی بھی کرتے سنائی دیتے ہیں‘ اگلے روز ان ہی ٹاک شوز کی چیختی چنگھاڑتی سرخیوں کے ساتھ اخبارات میں خبریں لگائی جاتی ہیں اور سوشل میڈیا پر تبصروں اور کارٹونوں کی صورت میں ایک ہنگامہ سامنے آتا ہے۔

اس ساری میڈیا کارروائی کے نتیجے میں سیاسی فضا مسموم ہورہی ہے‘ سیاستدانوں اور ان کے پیروکاروں کو اچھی طرح معلوم ہونا چاہیے کہ اعلیٰ عدالتوں کے واجب الاحترام ججوں پر اس طرح کی سیاسی کارروائیوں سے کوئی فرق نہیں پڑتا‘ ان کی اول وآخر کمٹمنٹ عدل وانصاف کے اعلیٰ ترین معیار کے ساتھ ہوتی ہے‘ ججز اور عدلیہ کے خلاف زہر اُگلا جارہا ہے‘ میڈیا پربے سروپا بیان بازی سے کم ازکم فریقین کو ضرور گریز کرنا چاہیے جو نہیں کیا جارہا‘ شاید یہی وجہ ہے کہ جسٹس آصف سعید کھوسہ نے عدالتِ عظمیٰ کے احاطے کی حد تک وہاں ہرطرح کی پریس کانفرنس پر پابندی عائد کردی ہے‘ تازہ ترین عدالتی صورتحال کی روشنی میں عدالتِ عظمیٰ نے پاناماکیس کی روزانہ کی بنیاد پر کرنے کا فیصلہ کرلیا ہے، نیز میڈیا پر بیان بازی کی بھی حوصلہ شکنی کی ہے۔

ضرورت اس اَمر کی ہے کہ عدالتِ عظمیٰ کو مکمل سکون واطمینان کے ساتھ اپنی کارروائی مکمل کرنے دی جائے اورابلاغی عدالتوں میں تندوتلخ تبصروں اور الزام تراشیوں سے اجتناب کیا جائے۔ پاناما کی لڑائی عدالت کے بجائے میڈیا میں لڑنے پرعدالت کو مکمل پابندی عائد کرنی چاہیے‘ پاناماکیس عدالت میں ہے، اس پر دونوں فریقین ہرپیشی سے پہلے اور پیشی کے بعد پریس کانفرنسیں کیوں کرتے ہیں؟عمران خان عدالت میں آجکل مسلسل تسبیح گھماتے نظر آتے ہیں‘ اس دوران ان کی آنکھوں میں ایک روحانی چمک بھی عودآتی ہے جس میں یہ واضح پیغام ہوتاہے کہ پاناماکیس کی وجہ سے 2018ء کے انتخابات میں مسلم لیگ نون کو مسائل کا سامنا ہوگا‘ وزیراعظم نوازشریف اور مریم نواز دونوں کے لیے مشکلات بڑھیں گی۔

نوازشریف کے لیے اس لیے مشکل ہوگی کہ وہ مریم نواز کو اپنے سیاسی وارث کے طور پر دیکھ رہے ہیں جن کا مستقبل روشن نظر نہیں آرہا‘ پاناماکیس کا فیصلہ جو بھی ہو یہ داغ اتنی آسانی سے نہیں دُھلے گا‘ اگر پی ٹی آئی کے نئے ثبوت بے معنی ہوتے تو نون لیگ والوں کی چیخیں نہیں سنائی دے رہی ہوتیں‘ ان کی چیخیں گواہ ہیں کہ ان کی دم پر پاؤں پورا پورا آگیا ہے‘ اگر باپ مصیبت میں ہو تو بیٹی اذیت میں ہوگی اور اگر بیٹی مصیبت میں ہوتو باپ اذیت میں ہوگا‘ حالات نے فیصلہ سنا دیا ہے کہ دونوں میں سے کوئی ایک مشکل میں ضرور ہوگا۔

سپریم کورٹ توشواہد کو دیکھ کر ہی فیصلہ کریگی مگر عوامی نظر میں وزیراعظم اپنی ساکھ کھو چکے ہیں‘ اگر وزیراعظم کو مشکل درپیش ہوئی تو مریم نواز کو بھی مشکل ہوگی‘ اسی طرح مریم نواز کو مشکل پیش آئی تو نوازشریف بھی مشکل میں ہونگے‘ پاناما کیس کا فیصلہ حق میں آئے یا خلاف آئے، دونوں ہی صورتوں میں نوازشریف کا ذاتی اور سیاسی نقصان ہے‘ پاناما کیس مریم یا حسین نواز کا نہیں صرف نوازشریف کا کیس ہے‘ پاناماکیس میں شریف خاندان کے خلاف فیصلہ ان کی فیملی کے سیاسی کیریئر کے خاتمے کا اعلان ہوگا۔ نوازشریف یا مریم نواز دونوں میں سے فیصلہ کسی کے خلاف بھی آئے، اس کا اثر پورے شریف خاندان پر پڑیگا۔

اب سچ کوعوام کے سامنے آنے سے کوئی نہیں روک پائے گا‘ اس قوم کی خوش قسمتی ہے کہ کرپٹ حکمرانوں کو شرمندہ کرنے کے لیے اللہ پاک نے ثبوت بیرون ملک سے پاکستان بھجوا دیے ہیں‘ 200ارب ڈالر کی رقم پاکستان سے بیرون ملک منتقل ہوئی ہے جس کو حکومت تسلیم بھی کرتی ہے‘ چار سو کیسز ایسے ہیں جن میں عوام کا پیسہ غیرقانونی طور پر ملک سے باہر منتقل ہوا ہے‘ عوام کی آنکھوں میں دھول جھونکنے کے لیے پیپلزپارٹی اور مسلم لیگ ایک دوسرے کے خلاف ریفرنس دائر کرتے ہیں مگر ان میں سے ابھی تک کسی کو سزا نہیں ہوئی، جسکا مطلب یہ ہے کہ ملک میں پارلیمانی نظام کاملاًو مطلقاًناکام ہوچکا ہے‘ اگر یہ کہا جائے کہ پاکستان کے پارلیمانی نظام کے ساتھ ساتھ عدالتی نظام بھی ڈھے چکا ہے تو بے جا نہ ہوگا۔

پاکستان کی عدلیہ کبھی بھی شاندار عدالتی روایات کی حامل نہیں رہی، اس کے فیصلے تاریخ کے صفحات پر آج بھی آہ وبکا کرتے نظر آتے ہیں‘ ہمارے فاضل ججوں نے جو غیر آئینی روایات قائم کی ہیں ان کا تذکرہ بھی اکثر وبیشتر زبان زدِعام رہتا ہے‘ سپریم کورٹ کے نئے چیف جسٹس عوام کی آخری اُمید بن کر عدالتی اُفق پر نمودار ہوئے ہیں‘ بشمول ہمارے ہرخاص وعام کے دل میں رِجاء کی کرن بیدار ہوئی ہے، ساتھ ہی یہ اُمید بھی لگی ہے کہ شاید اب عدلیہ ہی اس ملکِ خداداد کی طاغوتی طاقتوں کو لگام دے اور عشروں سے اذیت میں مبتلا پاکستانی قوم کوسیاسی مافیا سے نجات دلائے۔ ہم سمجھتے ہیں کہ عدلیہ کے اس نیک سفر کا پہلا قدم پانامالیکس کی شکل میں ناپا جاچکا ہے جسکے فیصلے کا پاکستان بھر کے عوام کو بے صبری سے انتظار ہے۔

اب ایک دستی خط پیش ہے جو حسن ناصر نے اپنی فریاد متعلقہ حکام تک پہنچانے کے لیے ہمیں بھیجا ہے: جناب رحمت علی رازی صاحب! السلام علیکم! میری آپ سے کچھ عرصہ پہلے عابد حسن منٹو صاحب کے ریفرنس سے ملاقات ہوئی تھی‘ میرے والد صاحب غلام دستگیر ساڑھے 4سال سے پولیس کے جھوٹے کیس میں جیل میں ہیں اور ابھی تک کچھ فیصلہ نہیں ہوا‘ آپ نے کہا تھا کہ تفصیلات بھیجیں۔

تفصیلات کچھ یوں ہیں: 16مئی 2012 کو دوپہر کے وقت ڈیرہ سہگل فارم کے مکین مزارعوں پر اعلیٰ افسران کی قیادت میںپولیس کی بھاری تعدادنے حملہ کیا‘ مردوں، عورتوں اور بچوں پر بدترین تشدد، چار افراد کو گرفتار کرکے ان پر ڈکیتی کا جھوٹا مقدمہ درج کردیا ‘ مقدمہ کا ٹرائل سول کورٹ میں مکمل ہوا تو چار افراد کی بریت نے پولیس کے مبینہ جھوٹ کا پردہ فاش کردیا‘ اس حملے کا مقصد زمین کا قبضہ غیرقانونی طور پر حکومتی مشینری کی مدد سے جبراً حاصل کرنا تھا جو مزارعین چالیس سال سے زائد عرصہ سے کاشت کرتے چلے آرہے ہیں‘ ان موروثی مزارعین کو قانونی یا عدالتی طور پر بے دخل کرنے میں ناکامی کے بعد قبضہ گروپ/لینڈ مافیا کے پسندیدہ اعلیٰ افسران کی تعیناتی اور غیرقانونی طور پر قبضہ حاصل کرنے کی کوشش کی خاطر یہ ایکشن پلان کیا گیا‘ اسی طرح کی کوششیں پہلے بھی کی جاچکی تھیں۔

قبل ازیں بھی یکم مئی 2011 کو اسی بستی پر پولیس سحری کے وقت حملہ آور ہوئی تھی‘ مردوں، عورتوں اور بچوں پر بدترین تشدد کے بعد آٹھ افراد کو گرفتار کرکے لے گئے، جس پر مزارعین نے پولیس کے مظالم اور گرفتاریوں کے خلاف مظاہرہ کیا‘ یہ پہلا موقع تھا جب پولیس کے کہنے پر غلام دستگیر محبوب نے مصالحت کا کردار ادا کیا اور معاملہ گرفتار افراد کی رہائی اور احتجاج ختم کیے جانے پر منتج ہوا‘ اس ناکامی کے بعد قبضہ گروپ نے ڈی پی او سمیت دیگر پسندیدہ عملہ کو اپنے اثرورسوخ سے تعینات کروایا تاکہ مطلوبہ نتائج حاصل کیے جااس کیں‘ اس طرح اس ایکشن ڈرامہ کا اسکرپٹ تیار ہوا اور یہ سب لوگ لینڈمافیا کی ہدایت اور وسائل کی مدد سے 16مئی 2012 کا ایکشن کرنے کے لیے تیار ہوئے‘ اس غیرقانونی اور غیراخلاقی اقدام پر مزارعین نے علاقہ کی کسان اور مزدور تنظیموں کے ہمراہ احتجاج کیا اور غیرقانونی طور پر گرفتار افراد کی رہائی کا مطالبہ کیا۔

احتجاج کے باعث جی ٹی روڈ پر سڑک بلاک ہوگئی‘ حسبِ سابق غلام دستگیر کی مصالحت کار کے طور پر موجودگی میں مظاہرین کی ٹیم اور ڈی ایس پی   کی قیادت میںپولیس پارٹی کے ساتھ مذاکرات ہوئے جو نتیجہ خیز ہونے سے پہلے ہی پولیس نے اعلیٰ افسر کی کال پر بے تحاشہ لاٹھی چارج، فائرنگ اور آنسوگیس کا استعمال شروع کردیا‘ اسی دوران ایکشن پلان کے مطابق لینڈ مافیا کے کرائے کے غنڈوں نے پتھراؤ شروع کردیا‘ جس کا جواب مظاہرین نے سڑک کنارے پڑے پتھروں سے دیا‘ پتھراؤ کی وجہ سے کئی پولیس والے اور مزارعین زخمی ہوگئے جن میں اے ایس آئی جان محمد بھی شامل تھا جو پتھر لگنے سے شدید زخمی ہوگیا اور تیرہ روز بعد جان کی بازی ہار گیا۔

بلاک ٹریفک کے اندر ہی کوٹ موکھل ڈسکہ کا تین بھائیوں سمیت ایک خاندان تھا جو لاہور سے مال مویشی کا کاروبار کرنے کے بعد واپس جارہے تھے، ان میں سے ایک بھائی محمدعارف ولد غلام رسول رفع حاجت کے لیے ٹرک سے اترا اور ٹرک کی طرف واپس آتے ہوئے پولیس کے ہتھے چڑھ گیا‘ مظاہرین اور اپنے بھائیوں کے دیکھتے دیکھتے پولیس کے تشدد اور ان کی گولی کا شکار ہوگیا‘ جیساکہ منقولہ (عارف ولد غلام رسول) کے بھائیوں کے 164کے بیانات میں بتایا گیا ہے جو وقوعہ کے چند روز بعد عدالت میں ریکارڈ کیے گئے۔

ظالم پولیس نے اپنے ہاتھوں قتل کیے گئے مقتول عارف کے قتل کا الزام 72سالہ (موجودہ عمر 76سال) غلام دستگیر محبوب پر لگادیا جو عوامی ورکرز پارٹی کے مقامی رہنما ہونے کی وجہ سے موقع پر موجود تھا‘مقتول عارف کے بھائیوں (جن کی موجودگی میں پولیس نے فائر کرکے ان کے بھائی کو قتل کیا) نے 12ماہ سے زائد اپنے بھائی کے قتل کی ایف آئی آر پولیس کے خلاف کرانے کی جدوجہد کی اور پھر ہائیکورٹ کے فیصلے کے مطابق استغاثہ دائر کردیا جس میں عرصہ ہوا تین پولیس افسروں (ڈی ایس پی شاہد نیاز گجر، ایس ایچ او شوکت علی اور ایک اے ایس آئی) پر فردِجرم عائد ہوچکی ہے۔

ہائیکورٹ کے فیصلے کی روشنی میں دوسرا استغاثہ مظلوم مزارعین کی جانب سے دائر کیا گیا جس میں پولیس افسران اور لینڈمافیا کے سرغنہ سمیت 7ملزمان ڈی پی او ڈاکٹر حیدر اشرف ، مہرمحمدشفیع، ڈی ایس پی شاہد نیاز گجر، ایس ایچ او شوکت علی، سہگل برادران وغیرہ) کو سمن ہوئے مگر اس استغاثہ کے مدعی وارث رضا سے روایتی دباؤ، دھونس دھمکیوں اور جھوٹے وعدوں کی مدد سے استغاثہ واپس کروا کے عدالت کی چاردیواری میں انگوٹھے لگوا لیے گئے‘ اس میں مقامی ایم پی اے کے والد کی مدد حاصل کی گئی جو مسئلہ حل کروانے کا وعدہ کرکے بعد میں بھول گئے۔

اے ٹی سی میں دائر کیا گیا استغاثہ اور کیس آج بھی بغیر کسی نتیجے کے چل رہے ہیں اور غلام دستگیر 4سال سے زائد عرصہ سے جیل کی چاردیواری میں قید ناکردہ گناہ کی سزا بھگت رہا ہے‘ عدالت میں لینڈ مافیا اپنے اثرورسوخ سے تاخیری حربے استعمال کررہی ہے تاکہ مقدمہ منطقی انجام تک پہنچنے سے پہلے ہی 76سالہ غلام دستگیر ٹوٹ کر پولیس اور لینڈ مافیا کے سامنے دوزانو ہوجائے‘ ان چار سال اور سات ماہ میں مختلف ذرائع سے انصاف کے حصول میں مدد کے لیے کی گئی کوششیں بارآور ثابت نہ ہوسکیں جن میں مقتول کے بھائیوں کی طرف سے دائر استغاثہ، پنجاب حکومت کی کھلی کچہریوں میں فریاد، ایچ آرسی پی کی طرف سے شائع کردہ پولیس ناانصافی کی رپورٹ، انگلینڈ میں موجود پاکستانی وکلاء کی تنظیم کی طرف سے چیف جسٹس سپریم کورٹ، پاکستانی حکومت کے اربابِ اختیار کو لکھا گیا خط، پنجاب اسمبلی میں پیش کی گئی قرارداد اور مختلف اخبارات کی خبریں اور کالم شامل ہیں مگر لینڈمافیا اور پولیس کے گٹھ جوڑ کی مدد سے معاملہ گمبھیر ہوتا جارہا ہے۔

ہمارا قانون کے رکھوالوں اور انصاف کے محلّفوں سے سوال ہے کہ محکمہ پولیس جب ازخود غیرقانونی کام کرے، قبضے دلوائے، دہشت گردوں کی حمایت اور دہشت گردی کی نرسریاں تعمیر کرنے میں مددگار ہو تو لاقانونیت اور دہشت گردی اس ملک سے کیسے ختم ہوگی؟ ملک کی سپریم عدالت بھی یہی کہہ رہی ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔