یہ میرا کام نہیں ہے 

شیریں حیدر  اتوار 8 جنوری 2017
Shireenhaider65@hotmail.com

[email protected]

دسمبر کا مہینہ شادیوں کے انعقاد کے لحاظ سے سب سے بھاری مہینہ بن چکا ہے اور کیلنڈر پر کوئی ایسی تاریخ نہیں بچتی جس کے گرد سبز دائرہ اس بات کا غماز نہ ہو کہ اس رات ایک شادی اٹینڈ کرنا ہے، غالبا اسی سلسلے کی گزشتہ برس کی آخری شادی تھی جسے یاد رکھنے کے کئی حوالے ذہن میں ہیں، ہرلحاظ سے ایک بہت بڑی شادی… رنگ و بو کا سیلاب تھا اور آنکھوں کو خیرہ کردینے والی روشنیوں نے زنانہ ملبوسات کی چمک کو چاند بنا رکھا تھا، جگر جگر کرتے قیمتی ملبوسات میں ملبوس خواتین اپنے شوہروں کی معیت میں اس ہال میں داخل ہوتیں تو کیمروں کی زد میں آتیں اور ساتھ ہی قریب اور دور کھڑے لوگوں کی نظریں اس جوڑے کا طواف شروع کر دیتیں۔

چند قدم چل کر آگے آتے تو باوردی بیرے پھلوں کے تازہ جوس کی ٹرے لے کر پہنچ جاتے، جس پر بلوریں طویل گلاسوں میں انار، سیب اور مالٹے کے جوس کی ورائٹی تھی…  کوئی اپنی من مرضی کا جوس اٹھا لیتا اور کوئی اسے شکریہ کہہ کر چلتا کرتا- عورتیں  ابھی اپنے میک اپ کا تاثر بگاڑ نہ سکتی تھیں- دور دور تک وہ لوگ نظر آ رہے تھے جنھیں ہم ملک کی اشرافیہ کا درجہ دیتے ہیں، دولت کے لحاظ سے نہیں بلکہ تعلیم اور رکھ رکھاؤ میں بھی کہ وہ لوگ ہیں جو ملک میں بیوروکریٹ ہیں اور اعلی عہدوں پر فائز ہیں-

تمام وقت ان کے ایٹی کیٹ اور تمیز کا مظاہرہ ہو رہا تھا، ’’خواتین و حضرات، براہِ مہربانی کھانے کے لیے ساتھ والے ہال میں تشریف لے چلیں! ‘‘ لگ بھگ ساڑھے دس بجے کھانے کا اعلان مائیک پر کیا گیا،  ہم نے تو ایسی ایسی شادیاں عام دیکھی ہیں جن میں بیرے ڈشوں کے اسٹیل کے ڈھکن آپس میں زور زور سے بجاتے ہیں، یہ گویا بگل ہوتا ہے اعلان جنگ کا اور اس کے بعد پلیٹوں کی چھینا جھپٹی سے لے کر کھانے کی ڈشوں پر یلغار تک کا منظر ہم سب کے اندر چھپا ہوا وحشی انسان سب کو دکھا دیتی ہے- یہاں بھی کئی بار کھانے کا اعلان ہوا، لیکن لوگوں کی آپس کی بات  چیت کھانے سے زیادہ اہم تھی پھر  لوگ دوسرے ہال کی طرف سرکنے لگے جوپہلے ہال سے بھی بڑا تھا، اس میں کھانے کی اشتہا انگیز خوشبو پھیلی ہوئی تھی، ہلکی موسیقی کی آواز کے ساتھ تازہ بنتے ہوئے بار بی کیو اور تنور کی خستہ روٹیوں کی مہک پھیلی ہوئی تھی- بیرے قطاروں میں کھڑے تھے اور اس ہال میں داخل ہوتے ہی ہاتھ میں پلیٹ پکڑا دیتے سو  پلیٹ کی تلاش کا مرحلہ وہاں درپیش نہ آیا، سلاد کی ورائٹی سے سجی میزیں، بے شمار میٹھے… بار بی کیو کے علاوہ انواع و اقسام کے کھانوں سے سجی میزیں مگر لوگ وہاں بھی قطاروںمیں آرام سے کھڑے تھے- ( اسلام آباد اور راولپنڈی میں بہت سی مارقی ( Morquee) ہیں جن پر ملک کے دیگر شہروں کی طرح شادی بیاہ پر حکومت کی طرف سے لاگو قوانین کا اطلاق نہیں ہوتا، نہ وقت کی پابندی کا اور نہ ون ڈش کی پابندی کا) –  کوشش کر رہا تھا نہ کوئی شور مچا رہا تھا، اپنی باری آنے پر تھوڑا سا نفاست سے اپنی پلیٹ میں کھانا ڈالا جاتا، اتنا ہی کہ جتنا وہ کھا اس کیں گے… بار بی کیو کے سامنے قطار طویل تھی کہ وہ کوشش کے باوجود تیزی سے نہ دے سکتے تھے کہ گوشت کچا رہ جاتا، وہاں انتظار میں کھڑے لوگ یوں بھی اس موسم میں آگ کی تپش سے محظوظ ہو رہے تھے… مرد قطارمیں تھے مگر جونہی کوئی خاتون آ جاتیں تو وہ لوگ ہٹ کر اسے پہلے کھانا لینے دیتے… اتنی منظم، اتنے سلیقے اور اتنے طریقے کی شادی شاید ہی کسی کو دیکھنا نصیب ہوتی ہو-

ہم سب سہیلیوں کا گروپ بھی حسب معمول تقریب کے دوران اپنی باتوں کے ساتھ ساتھ ان خواتین کے ملبوسات کی تعریف بھی کر رہا تھا جو کہ کسی نہ کسی لحاظ سے مختلف تھا، کوئی اتنی سردی میں بغیر بازؤں کی قمیض پہن کر ٹھٹھر رہی تھی تو کسی نے بیگانی شادی میں دیوانہ بنتے ہوئے اتنا بھاری لبا س پہن رکھا تھا کہ اسے سنبھالنا مشکل ہو رہا تھا، کوئی موقعے کے بر خلاف بہت ہی سادہ لباس میں تھی تو کوئی چیختے چنگھاڑتے میک اپ کے ساتھ مزاحیہ لگ رہی تھی … کسی کے لباس سے کسی کوکوئی غرض نہیں ہوتی مگر جب موضوعات ختم ہو جائیں تو ہم عورتیں ایسے ہی گھٹیا موضوعات پر باتیں کرنا شروع کر دیتی ہیں- مردوں کے لباس اس لیے موضوع گفتگو نہیں تھے کہ سب ایک جیسے لباس میں تھے… –

کھانے کے ساتھ جو نپکن پلیٹوںمیں رکھے گئے تھے… وہ انتہائی اعلی کوالٹی کے اورکافی بڑے تھے،ا ستعمال کے بعد اندازہ ہوا کہ وہ کپڑے کے نہیں بلکہ انتہائی اعلی کاغذ کے بنے ہوئے تھے، ان کو بھی سراہا گیا- کھانا ختم ہوا، ہم نے پلیٹیں رکھ کر واپسی کی راہ اختیار کرتے ہوئے ایک دوسرے کو اللہ حافظ کہنا شروع کیا، میں اپنی سہیلی کے ساتھ باتیں کرتے ہوئے چل رہی تھی کہ شوہر حضرات کو اس مجمعے میں کیسے تلاش کیا جائے… ہمارے آگے وہ خاتون چل رہی تھیں جس کی look اور لباس کو ہم سب نے اپنی گفتگومیں اے گریڈ دیا تھا، اب وہ ہمارے قریب تھی اور اس کے لباس کو اب ہم زیادہ غور سے دیکھ رہے تھے جو بظاہر تھا تو سادہ مگر انتہائی قیمتی کپڑے کا بنا ہوا اور اس کی تراش خراش بھی عمدہ تھی، اس خاتون کے با ذوق ہونے میں کوئی شک نہ تھا-

وہ بڑا سا سفیدنپکن جو کھانے کی میز پر استعمال کے لیے رکھا گیا تھا، اس خاتون کے ہاتھوںمیں نظر آیا، سالن کے داغوں سے پیلا ہوتا ہوا، انھوں نے اس کے ساتھ آخری بار ہاتھ پونچھے اوراپنے ہاتھوں سے گولہ سا بنا کر اس صاف ستھرے چمکدار فرش کی نذر کر دیا-

صرف ایک لمحہ لگتا ہے جب انسان کے اندر کی شخصیت اس کے خوب صورت چہرے، لباس اور حلیے کے خول کو توڑ کر باہر نکل آتی ہے… ’’ سنیے… ‘‘ میں نے اسے پکارا، اس نے مڑ کر حیرت سے دائیں بائیں اور پھر پیچھے دیکھا، ’’یہ آپ کے ہاتھ سے گر گیا ہے!!‘‘ میں نے اس کے متوجہ ہونے پر اس کاغذی نپکن کے گولے کی طرف اشارہ کیا-

’’ گرا نہیں، میں نے خود پھینکا ہے!! ‘‘ ادائے بے نیازی-

’’ آپ ایسا نہیں کر سکتیں!! ‘‘ میں نے تاسف سے کہا-

’’ کیوں ؟ ‘‘ انھوں نے چتون چڑھائے، ’’آپ کو کوئی پرابلم ہے کیا؟‘‘

’’ پرابلم … ہاں پرابلم ہی ہے… میں اٹھا دوں یہ نپکن؟ ‘‘ میں ذرا سا جھکی، ’’کام تو آپ کا ہے مگر میں کر دیتی ہوں!!‘‘

’’ یہ میرا کام نہیں… صفائی کرنے والوں کا کام ہے!!‘‘ کہہ کروہ مڑیں اور چل دیں، اپنی شخصیت کو بت پاش پاش کر کے- ہم خیال کرتے کہ ہمارا کچرا وہ اٹھائیں گے جنھیںا س کام پر مامور کر رکھا ہے کیونکہ ہم ٹیکس دیتے ہیں؟؟

ہماری شکل و صورت، وضع قطع اور لباس کے قیمتی ہونے کی اہمیت صفر ہے اگر ہم میں بات کرنے کی تمیز نہیں اور اپنی صفائی ہیچ ہے۔ … جن جھیلوں کی خوب صورت تصاویر تم انٹر نیٹ پر ہمیں دکھاتے تھے کہ جن کی صفائی اور شفافیت آئینے سے زیادہ ہے وہاںاب چپس اور جوس کے خالی ڈبے سطحء آب پر تیرتے ہیں!!‘‘

… ہم سب یہی تو کر رہے ہیں، آپ اور میں!! سوچیں کہ اس ملک کو آلودہ کرنے میں آپ کا اور میرا کتنا حصہ ہے، کیا فائدہ ہمارے گھر کی صفائی کا، جب ہم سب کا مشترکہ گھر، ہمارا ملک دنیا میں جس خوبصورتی کے لیے مشہور تھا اسے ہم نے گرہن لگا دیا ہے!!

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔