تیشۂ کوہ کن

رفیع الزمان زبیری  اتوار 8 جنوری 2017

سید مسعود عالم رضوی ایکسپورٹ پروموشن بیورو کے وائس چیئرمین تھے۔ ایک دن انھوں نے محمد محسن سے کہا ’’آپ جس طرح کام کرتے ہیں، کسی سے پوچھتے نہیں، کسی کی سنتے نہیں۔ اپنے لیول پر بڑے سے بڑا فیصلہ بغیر کسی افسر سے پوچھے جاری کردیتے ہیں، میرے خیال میں تو آپ کو نوکری سے چار پانچ مرتبہ ڈس مس ہوجانا چاہیے تھا۔ Did you ever land into any big problem?۔‘‘

’’سر! نوکری سے نکالے جانا تو چھوٹی بات ہے، مجھے تو جیل بھی ہوسکتی تھی لیکن کبھی کسی ایسی مشکل میں نہیں پڑا۔‘‘

رضوی صاحب نے پوچھا کیوں؟ محسن نے جواب دیا ’’میں نے تمام عمر سرکاری نوکری اپنی مرضی اور شان سے کی ہے لیکن جتنے بھی کام کیے ہیں ان میں کبھی بھی میرا ذاتی فائدہ نہیں ہوتا تھا اور نہ نیت خراب ہوتی تھی۔‘‘

یہ لب لباب ہے محمد محسن کی زندگی کی داستان کا جو انھوں نے اپنی کتاب ’’تیشۂ کوہ کَن‘‘ میں بیان کی ہے ۔ وہ لکھتے ہیں ’’اس کتاب میں کچھ حکایاتانہ، کچھ فلسفیانہ، کچھ گستاخانہ اور کچھ غیر شریفانہ باتیں ملیں گی۔ کچھ سفر کے حالات، کچھ زندگی کے تلخ و شیریں تجربات، کچھ نصیحتیں، کچھ فرمودات اور بونگیاں۔ موجودہ ملکی حالات کے بارے میں میرے تجربات اور شاید ناقابل برداشت طرز تحریر۔‘‘

اس سے بہتر محمد محسن کی کتاب کا کوئی تعارف نہیں ہوسکتا تھا اور نہ ان کی شخصیت کا۔ وہ فرماتے ہیں ’’زندگی کی ابتدا متوسط طبقے سے تعلق رکھنے والے باپ کے بیٹے سے شروع کی اور اللہ نے شہرت، عزت، دولت، مرتبہ اور اولاد در اولاد سب کچھ دے دیا۔‘‘

محمد محسن نے معمولی اسکول میں تعلیم شروع کی۔ نویں کلاس میں آئے تو والد نے کہا کہ تمہیں اپنے دادا کی طرح ڈاکٹر بننا ہے، سائنس لے لو۔ ان کا رجحان کچھ اور تھا، آرٹس میں داخلہ لیا، بی اے کیا، پھر اکنامکس میں ایم اے۔ اس کے ساتھ ہی ایل ایل بی کرلیا۔ نوکری نہیں مل رہی تھی تو کالا کوٹ پہن کر وکالت شروع کردی۔ شمشاد  لاری ان کے استاد تھے۔

ایکسپورٹ پروموشن بیورو کا ریجنل آفس کراچی میں تھا۔ ملازمت کے لیے درخواست دی، پبلک سروس کمیشن کے سامنے پیش ہوئے، انٹرویو کامیاب ہوا اور میرٹ کوٹے پر دوسری پوزیشن لے کر منتخب ہوگئے۔ گریڈ 16 کے افسر بن کر ریجنل آفس میں گئے۔ سرکاری نوکری جیسے تیسے بڑی شان سے کی، اسی لیے گاہے بگاہے ٹرانسفر ہوجاتا تھا۔ ایک نئے ڈائریکٹر جنرل آئے تو انھوں نے ان سے پوچھا کہ آپ کے سروس ریکارڈ کے مطابق آپ کے بار بار تبادلے ہوئے ہیں کیا وجہ ہے؟ محسن نے جواب دیا ’’کبھی مجھے افسر پسند نہیں کرتا تھا اور کبھی میں افسر کو پسند نہیں کرتا تھا، بس ٹرانسفر ہوجاتا تھا۔‘‘

محسن کا واسطہ ایک ایسے افسر سے پڑا جو انتہائی قابل، شریف اور ایمان دار تھے۔ یہ محمد یوسف تھے جو ایکسپورٹ پروموشن بیورو کے ڈائریکٹر جنرل تھے اور پھر وائس چیئرمین ہوگئے۔ ان سے محسن کی نہیں بنی اور انھوں نے تیرہ سال تک ان کا پروموشن نہیں ہونے دیا، چنانچہ یہ گریڈ 16 میں ہی رہے۔ نوکری کے آخری دور میں رجسٹرار ٹریڈ مارک کی حیثیت سے ان کی تعیناتی ہوئی جو گریڈ 19 میں ایک بڑا اور بہ اعتبار اختیارات اہم عہدہ تھا۔ اس عہدے پر رہتے ہوئے انھوں نے کئی معرکۃ الآرا فیصلے کیے۔ بعض ایسے فیصلے بھی تھے کہ جن پر خود انھیں حیرت ہوئی۔ لکھتے ہیں ’’ابا جی کی طرف سے سخت احکامات تھے کہ جھوٹ نہیں بولنا، غلط کام نہیں کرنا اور محنت کرنی ہے، جس پر میں زندگی بھر کاربند رہا اور ایک نہایت کامیاب زندگی گزاری۔‘‘

محمد محسن ساڑھے تین سال ٹریڈ مارک رجسٹری میں رہے پھر ڈپٹی ڈائریکٹر ہوکر واپس ایکسپورٹ پروموشن بیورو میں آگئے اور ٹیکسٹائل کوٹا سیکشن میں لگا دیے گئے۔ ان کی صاف گوئی اور بدلحاظی کے باوجود ان کی قابلیت اور ایمان داری اور فرض شناسی کے باعث ان کے افسران ان پر بھروسہ کرتے تھے اور وہ سارے مشکل کام جو کوئی اور نہیں کرتا تھا، انھیں سونپ دیے جاتے تھے۔ وزارت تجارت میں اہم میٹنگوں میں یہ اپنے بیورو کی نمائندگی کرتے تھے۔

محسن نے بہت سے ملکوں کے دورے کیے، تاجروں کے وفد لے کر گئے اور کامیاب ہوکر آئے۔ ان کا پہلا دورہ تھائی لینڈ، سنگاپور، ہانگ کانگ، جاپان اور جنوبی کوریا کا تھا جو انھوں نے پاکستان کے سرکاری تجارتی وفد کے ممبر اور سیکریٹری کی حیثیت سے کیا۔ یہ چین بھی گئے، لیبیا، مالٹا، یمن اور اسپین بھی گئے۔ ان کو یوسف صاحب نے ہی نامزد کیا حالانکہ ان سے ان کے تعلقات اچھے نہ تھے۔ اسپین محسن کے خوابوں کی سرزمین تھا۔ وہ غرناطہ گئے اور قرطبہ بھی گئے، الحمرا کی سیر کی۔ اسپین کے بعد وہ برطانیہ گئے۔ لندن میں چار پانچ دن رہے۔ ایک بار انھیں جرمنی میں میونخ میں اسپورٹس گڈز کی نمائش کا انچارج بناکر بھیجا گیا۔

ہالینڈ کے ایک مطالعاتی دورے پر بھی گئے۔ نیپال، برما اور ویتنام بھی تجارتی وفد لے کر گئے۔ برما میں آخری مغل تاجدار بہادرشاہ ظفر کے مزار پر بھی ہو آئے۔ اشک آباد، ترکمانستان میں پاکستانی مصنوعات کی نمائش کا انتظام کیا جس کا افتتاح وزیراعظم بے نظیر بھٹو نے ترکمانستان کے قومی دن کے موقع پر کیا۔ محسن نے افریقہ کے کئی ملکوں کا بھی تجارتی وفدوں کے ساتھ دورہ کیا۔ ان میں جبوتی، کینیا، ایتھوپیا، یوگنڈا، تنزانیہ، سینگال، زیمبیا، گھانا شامل تھے۔ وہ بھوٹان بھی گئے۔ یہ اس وفد میں بھی شامل تھے جو ایران اور پاکستان کی سرحدوں پر کامن بارڈر مارکیٹوں کے قیام کا جائزہ لینے کے لیے ایران بھیجا گیا تھا۔ محسن عراق بھی گئے اور مقدس مقامات کی زیارت کی۔ بابل کے کھنڈرات بھی دیکھے۔

امریکا میں لاس ویگاس کی آٹومکینک نمائش میں پاکستانی پویلین کا ڈائریکٹر بناکر ان کو بھیجا گیا۔ محسن کا آخری دورہ آسٹریلیا میں سڈنی کا تھا جہاں یہ انٹلیکچوئل پراپرٹی کے سیمینار میں پاکستان کی نمائندگی کرنے گئے۔ اس طرح انھوں نے اپنے ملک کی خدمت کی اور سیر و سیاحت کا لطف بھی اٹھایا۔ اور سب سے بڑھ کر یہ کہ ہر بیرونی دورے سے واپسی پر عمرہ کرکے آتے تھے۔ اس طرح اللہ تعالیٰ نے ان کو اتنے عمرے کرائے کہ انھوں نے ان کا شمار کرنا ہی چھوڑ دیا۔ یہ اپنے بیوی بچوں کو ساتھ لے کر حج پر بھی گئے۔ لکھتے ہیں ’’دوران حج میں نے جتنی دعائیں مانگیں سب قبول ہوئیں اور اللہ سے جو بھی مانگا مل گیا۔‘‘

محمد محسن نے اپنے کچھ افسروں، ساتھیوں اور دوستوں کے خاکے بھی اپنی کتاب میں شامل کیے ہیں۔ ان میں یوسف صاحب بھی ہیں جنھوں نے ان کی گستاخیوں کے باوجود ان کو کوئی نقصان نہیں پہنچایا بلکہ ان سے بڑے بڑے کام لیے۔ جسٹس ربانی کو بھی یاد کیا ہے جو ان کے نہایت شفیق اور لائق استاد تھے، ایک اور شفیق استاد اور پھر دوست میر حامد علی ہیں، ساتھیوں میں اسلم بھٹی، امیر جان، نصرت اقبال اور اعظم محمد اور سید مسعود رضوی ہیں جو ان کے لائق افسر اور مہربان ہیں۔ ان سب شخصیتوں کے خاکوں میں خود ان کی شخصیت جھلکتی ہے۔

محمد محسن کی کتاب میں اور بھی کچھ ہے، کچھ اشعار ہیں، کچھ ایسے ہیں جو محسن کی پسند ہیں اور وہ چاہتے ہیں کہ دوسرے بھی پسند کریں، کچھ رکشاؤں اور بسوں اور ٹرکوں پر لکھے جانے والے شعر ہیں۔ آخر میں ایک جدید اردو لغت بھی ہے۔ کتاب اس مصرعے پر ختم ہوتی ہے:

جوئے شیر و تیشۂ سنگ گراں ہے زندگی

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔