بہاول نگر کے جھنڈیکا گینگ کا خاتمہ

میاں سجاد حیدر وٹو  ہفتہ 29 دسمبر 2012
اشتہاری ملزموں کی گرفتاری اور جرائم میں کمی اولین ترجیح ہے،ڈپی پی او،حمید کھوسہ۔ فوٹو : فائل

اشتہاری ملزموں کی گرفتاری اور جرائم میں کمی اولین ترجیح ہے،ڈپی پی او،حمید کھوسہ۔ فوٹو : فائل

بہاولنگر:  دریائے ستلج کے کنارے واقع ضلع بہاول نگر عرصۂ دراز سے جرائم کا گڑھ بنا رہا ہے کیوں کہ دریائی پٹی جرائم پیشہ عناصر کے لیے ہمیشہ سے ایک محفوظ ٹھکانہ رہی ہے۔

کچھ عرصہ قبل قتل وغارت، چوری ڈکیتی کی وارداتیں یہاں کا معمول بن چکی تھیں۔ شہری جان و مال کے شدید عدم تحفظ کا شکار تھے کیوں کہ قانون نافذکرنے والے ادارے جرائم پیشہ عناصر کے سامنے بے بس نظر آتے تھے تاہم موجودہ ڈی پی او عبدالحمید کھوسہ کی بہاول نگر تعیناتی سے حالات بہت حد تک تبدیل ہونے لگے ہیں۔ عبدالحمید کھوسہ نے اپنی خدا داد صلاحیتوں کو بروئے کار لاتے ہوئے نامی گرامی اشتہاریوں کا قلع قمع کرنا شروع کیا اور ان کے لیے بہاول نگر کی زمین کو تنگ کردیا جس کا منہ بولتا ثبوت خوف و دہشت کی علامت سمجھا جانے والے جھنڈیکا گروپ کا صفایا ہے۔

عبدالحمید کھوسہ کی بہاول نگر تعیناتی سے قبل گروپ کاپہلا سرغنہ ’’گلابی جھنڈ یکا ‘‘ بہاول نگر اور پاک پتن پولیس کے مشترکہ آپریشن کے نتیجے میں اپنے انجام کو پہنچا تھا لیکن گلابی جھنڈ یکا کے جانشین اشتہاری ’’امتیازی جھنڈیکا ‘‘نے بربریت اور سفاکی کا بازار گرم کر رکھا تھا۔ جھنڈیکا گینگ کا مستقل اور محفوظ مسکن دریاکی پٹی تھا۔ جھنڈیکا گینگ کا دائرہ کار پنجاب اور سندھ تک وسیع تھا۔ گینگ کا پہلا سرغنہ گلابی جھنڈیکا قتل، ڈکیتی، راہ زنی اور دیگر گھناؤنے جرائم میں تین اضلاع کی پولیس کو مطلوب تھا ۔گلابی جھنڈیکا کی ہلاکت کے بعد امتیازی جھنڈیکا گینگ کا سرغنہ بن گیا جس نے جرائم کے ارتکاب میں اپنے پیش رو کے ریکارڈ توڑ دیے، ذرا تفصیل ملاحظہ ہو۔

پانچ جولائی 2011 کو تھانہ قبولہ کو اطلاع ملی کہ بدنام زمانہ ڈکیت امتیازی جھنڈیکا اپنے ساتھیوں کے ہم راہ فاضل جوئیہ کے گھر واقع موضع ہما میروکا موجود ہے۔ قبولہ پولیس نے سب انسپکٹر محمد سرور کی سربراہی میں ایک ریڈنگ ٹیم تشکیل دی جس میں ایلیٹ فورس کے جوان بھی شامل تھے، ریڈنگ پارٹی نے ساڑھے چار بجے دن ہمامیروکا میں فاضل جوئیہ کے گھر کا محاصرہ کیا، اسی اثنا میں گھر کے اندر موجود ملزمان امتیازی اوراس کے ساتھیوں نے پولیس پارٹی پر اندھا دھند فارئرنگ شروع کردی جس کی زد پر آکر دو پولیس اہل کار ہیڈ کانسٹیبل فیاض اختر اور کانسٹیبل راؤ گلزار شہید ہوگئے۔

جب کہ کانسٹیبل زاہد فاروق شدید زخمی ہوگیا۔ ملزم زبردست فائرنگ اور خوف وہراس پھیلاتے ہوئے فرار ہوگئے۔ 7 اگست 2011 کو امتیازی جھنڈیکا وغیرہ نے قبولہ کے رہائشی نوبہار ولد قاسم علی ماچھی کے گھر داخل ہو کر اہل خانہ کو گن پوائنٹ پر یرغمال بنایا، انہیں زدوکوب کیا اوررسیوں سے باندھ کر ان کے رہائشی کمرے سے پانچ تولے زیور، چاندی دس تولے اور آٹھ ہزار روپے نقد لے کر فرار ہوگئے۔6 اپریل 2012 کو امتیازی جھنڈیکا گینگ نے چک 18/KB میں غلام قادر نامی شخص کے گھر میں داخل ہو کر اہل خانہ کو گن پوائنٹ پر یر غمال بنایا اور اس کے گھر سے سات تولے زیور مالیتی چار لاکھ ساٹھ ہزار روپے نقد، تین لاکھ اسی ہزار روپے کی قیمتی گھڑی اور دیگر سامان چھینا، علاوہ ازیں ڈکیتی کے دوران مزاحمت کرنے پر ذاکر حسین اور علاول کو زخمی کردیا۔

30 جو ن 2012 کو عبدالحمید، حبیب احمد اور عبدالشکور ٹریکٹر ٹرالی پر ردی کا غذ اوکاڑہ میں فروخت کر کے واپس فورٹ عباس جارہے تھے کہ بھکاں پتن ہائی وے روڈ پر اچانک امتیازی جھنڈیکا گینگ نے آلیا اور ٹریکٹر ڈرائیور حبیب احمد پر سیدھا فائر کیا جو سیدھا اس کی پیشانی پر جا لگا، ٹریکٹر دائیں جانب سڑک سے نیچے گر گیا اور ڈرائیور موقع پر جاں بحق ہوگیا۔12 ستمبر 2012 ملزمان شہزاد عرف شیدی کمہار، امتیاز عرف امتیازی جھنڈیکا وغیرہ، اللہ دتہ نامی شخص کے گھر واقع موضع لال شاہ تھانہ قبولہ شریف میں جا گھسے اور گن پوائنٹ پر اہل خانہ کو کمرے میں بند کردیا، اللہ دتہ کے بیٹے مرید کو دوسرے کمرے میں لے جا کر بلیڈ اور استرے کی مدد سے اس کی ناک اور کان کاٹ دیے۔ ملزمان کا یہ شک تھا کہ مرید نے شہزاد عرف شدی کی بہن کو گائوں سے نکلوادیا تھا۔

3 جولائی 2012 کو فیضان طارق وغیرہ ٹریکٹر ٹرالی پر اینٹیں لینے قبولہ جارہے تھے کہ بھکاں پتن نورے والا بند کے قریب امتیازی جھنڈیکا گینگ نے ان سے گن پوائنٹ پر دس لاکھ روپے کی ٹریکٹر ٹرالی اور چالیس ہزار روپے نقد چھین لیے۔ 28 ستمبر 2012 کو ملزمان مدرسہ کے قریب بستی ٹیل میں ریٹائرڈ اسکول ٹیچر نذر محمد کے گھر ڈکیتی کی نیت سے داخل ہوئے، نذر محمد نے ایک ڈاکو کو پکڑنے کی کوشش کی جس پر مشتعل ہو کر ایک ملزم نے رائفل کا بٹ نذر محمد کے سرپر مارا جب کہ امتیازی جھنڈیکا نے رائفل کا برسٹ نذر محمد کے سینے میں اتار دیا جس سے وہ موقع پر ہی جاں بحق ہو گیا، واقعہ میں ایک سات سالہ بچی میمونہ بھی گولی لگنے سے شدید زخمی ہوئی۔ امتیازی جھنڈیکا اور اس کے ساتھی تعزیت کے بعد واپس آرہے تھے، بہاولنگر کے چھ سول ججوں کو دریائے ستلج کے بھکان پتن پوائنٹ پر لوٹ لیا تھا۔ امتیازی گینگ نے خواتین پر جنسی تشدد بھی کیا اور متعدد جہیز بھی لوٹے، شریف شہریوں کے گھروں میں ڈکیتی کے دوران خواتین کی بے حرمتی ان کا وتیرہ تھا۔

پانچ اور چھ اکتوبر کی درمیانی شب امتیازی جھنڈیکا نے اپنے ساتھوں کے ہم راہ تھانہ تخت محل کے علاقہ میں ایک موٹر سائیکل سوار کو لوٹا جس کی اطلاع ملنے پر ڈی پی او بہاول نگر عبدالحمید کھوسہ نے ایس ڈی پی او بہاولنگر رائو فاروق خاں اور رانا علی اکبر ایس ایچ او تھانہ صدر کی قیادت میں ایک ٹیم تشکیل دی جس نے امتیازی جھنڈیکا کا تعاقب شروع کیا اور چھ اکتوبر کی دوپہر کو پولیس پارٹی کا ٹاکرا ملزمان سے چک سرکاری کے قریب بہادرکا پتن کے دریائی بیلٹ میں ہوا جہاں امتیازی جھنڈیکا اور اس کے ساتھیوں نے پولیس پارٹی کو دیکھتے ہی اندھا دھند فائرنگ کردی۔

پولیس کی جوابی فائرنگ کے نتیجہ میں امتیازی جھنڈیکا اپنے دو ساتھیوں شہزاد عرف شدی اور امجد عرف امجدی میروکا کے ساتھ ہلاک ہوگیا تاہم اس کے چار ساتھی قریبی جنگل کا فائدہ اٹھاتے ہوئے فرار ہونے میں کامیاب ہوگئے۔ امتیازی جھنڈیکا کے خلاف تھانہ قبولہ ضلع پاک پتن میں قتل، ڈکیتی اور دہشت گردی کے د س مقدمات درج تھے جن میں یہ اشتہاری تھا۔ تھانہ صدر بہاول نگر کے دو مقدمات، تھانہ تخت محل کے پندرہ مقدمات، تھانہ مدرسہ بہاول نگر کے چھ مقدمات یا چالان ہوئے اور تھانہ کلیانہ کے ایک مقدمہ میں وہ اشتہاری تھا۔ ڈسٹرکٹ پولیس آفیسر بہاول نگر عبدالحمید کھوسہ نے کہا کہ ’’ان کی اولین ترجیح اشتہاری ملزموں کی گرفتاری اور کرائم ریٹ میں کمی ہے اور الحمداللہ بہاول نگر سے کئی بدنام زمانہ گینگ ختم کیے جا چکے ہیں اور ضلع میں پچھلے چند ماہ کے دوران اشتہاری مجرموں کے خلاف مہم میں 945 اشتہاری گرفتار ہوئے جن میں سے 486 کیٹیگری اے کے اشتہاری تھے، جو قتل، ڈکیتی، راہ زنی اور اغوا برائے تاوان جیسے سنگین مقدمات میں ملوث تھے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔