فساد خلق سے چپ ہیں جو عقل و ہوش رکھتے ہیں  (2)

اوریا مقبول جان  پير 9 جنوری 2017
theharferaz@yahoo.com

[email protected]

ورلڈ ٹریڈ سینٹر پر حملے سے پہلے جنرل محمود کی ملاقاتیں امریکی انتظامیہ کی تیسرے درجے کی قیادت سے ہورہی تھیں۔ باوجود یکہ وہ امریکی سی آئی اے کے سربراہ جارج ٹینٹ کے مہمان تھے ۔ مگر افغان جنگ میں روس کو شکست دینے کے بعد امریکا نے اس علاقے سے ایسا منہ پھیرا تھا کہ ان کے نزدیک پاکستان کی افادیت ہی ختم ہوگئی تھی۔

ان ملاقاتوں میں تین اہم امور مستقل بحث کا موضوع تھے۔ (1 افغانستان میں طالبان کے مقابلے میں عوام کے جذبات کیسے ہیں۔ (2 آپ لوگ بھارت سے اپنے تعلقات درست کیوں نہیں کرتے اور (3 آپ اپنے نیوکلیئر پروگرام کو اس قدر شدت سے ترقی کیوں دے رہے ہو۔ افغانستان میں ملا محمد عمر کی حکومت کی مقبولیت سے بہت زیادہ خوفزدہ تھے۔ انھوں نے بارہا ذکر کیا کہ پندرہ سال پہلے ایران کا انقلاب آیا تھا، اگرچہ کہ یہ خلیج فارس میں ہمارے لیے بہت بڑادھچکا تھا لیکن ہمیں اندازہ تھا کہ یہ مزید آگے نہیں پھیل سکتا کیوں کہ ایران ایک شیعہ ریاست ہے اور اس کے اردگرد تمام ممالک سنی اکثریت کے ملک تھے لیکن ملا محمد عمر کے پڑوس میں آزاد ہونے والی روسی ریاستیں تاجکستان، ازبکستان، کرغزستان، قازاقستان، ترکمانستان اور آذربائیجان چونکہ سنی اکثریت کی ریاستیں تھیں، اس لیے یہ خطرہ تھا کہ طالبان کی عوام میں مقبولیت ان ممالک میں انقلاب کا پیش خیمہ نہ بن جائے۔

بھارت سے تعلقات کے بارے میں وہ زور دیتے رہے کہ دیکھو ہم روس سے دنیا بھر کے درجن بھر ممالک میں لڑ رہے تھے اور افغانستان میں تو ہم نے اسے مجبور کرکے رکھ دیا تھا لیکن پھر بھی ہم اس سے مسلسل مذاکرات کرتے تھے۔ آپ کو بھی ایسا ہی کرنا چاہیے۔ نیوکلیئر پروگرام کے بارے میں تو وہ بہت درشت تھے اور پریسلر ترمیم کی وجہ سے کوئی بات سننے کو تیار ہی نہ تھے۔ یہ تمام ملاقاتیں 7 ستمبر 2001ء کو ختم ہوچکی تھیں اور 10 ستمبر کو جنرل محمود احمد کی پاکستان واپسی کی فلائٹ تھی۔

اس دوران امریکا میں پاکستان کی سفیر ملیحہ لودھی نے کہا کہ دو سینیٹر بوب گراہم  (Bob Garaham) اور پیٹر گوس (Peter Goss) گزشتہ جولائی میں پاکستان گئے تھے جہاں آپ نے ان کی مہمانداری کی تھی تو وہ دونوں آپ کو کسی کھانے پر ملنا چاہتے ہیں۔ یوں گیارہ ستمبر صبح سات بجے ملاقات طے ہوئی۔ اس ملاقات میں جنرل محمود کے ساتھ ملیحہ لودھی، سفارت خانے سے ضمیر اکرم، ٹرانسفر ہونے والے ملٹری اتاشی بریگیڈیئر مجتبیٰ اور نئے آنے والے بریگیڈیئر مظہر الحق شریک تھے جب کہ دوسری جانب سے بھی تقریباً اتنے ہی لوگ موجود تھے۔  پیٹرگوس بعد میں امریکا کی تینوں خفیہ ایجنسیوں کو ملا کر جو اتحاد بنایا گیا، یہ اس کا سربراہ بنا دیا گیا۔

میٹنگ کے دوران اچانک کسی نے ایک چٹ لا کر دی جو تمام لوگوں نے باری باری پڑھی جس میں ورلڈ ٹریڈ سینٹر کے پہلے ٹاور سے طیارہ ٹکرانے کی بات تھی، اس کے فوراً بعد 8 بجکر چالیس منٹ پر میٹنگ ختم ہوگئی اور گاڑی انھیں لے کر ہوٹل روانہ ہوگئی۔ جنرل محمود کے بقول جب میں نے ٹیلی ویژن پر یہ منظر دیکھا تو پہلا خیال یہ آیا کہ یہ دوسرا پرل ہاربر ہے یعنی کسی بڑی جنگ میں کودنے کے لیے خود کروایا گیا ہے۔ پورے امریکا میں ایک سراسمیگی کی کیفیت تھی۔ انھوں نے مختلف جگہ اس واقعہ پر افسوس کے لیے ٹیلیفون کیے اور اپنے میزبان جارج ٹینٹ سے ملاقات کرنے کے لیے چلے گئے۔ یہ ملاقات بہت حیران کن تاثر چھوڑ گئی۔

سی آئی اے ہیڈکوارٹر کے دروازے پر استقبال کرتے ہوئے اس نے دیگر امریکیوں سے مختلف اور عام سرکاری رویے سے علیحدہ آگے بڑھ کر گلے لگایا اور اس کی آنکھوں سے آنسو بہنے لگے۔ ایسے لگتا تھا جیسے یہ شخص ٹوٹ چکا ہے۔ جنرل محمود کے نزدیک اگر یہ سازش کسی جگہ بنائی بھی گئی ہوگی تو جارج ٹینٹ کو اس سے بے خبر رکھا گیا تھا۔ گیارہ ستمبر ہوچکا تھا۔ اس واقعہ کے بعد جو تبدیلی آئی وہ یہ تھی کہ کل تک جو کشکول جنرل محمود کے ہاتھ میں تھا اب وہ امریکیوں کے ہاتھ میں آگیا تھا اور ان کا پہلا سوال یہ تھا کہ پاکستان ان کی کیسے مدد کرسکتا ہے۔

اس ضمن میں بارہ ستمبر کو صبح گیارہ بجے پہلی ملاقات رچرڈ آرمٹیج سے امریکی حکومت کی درخواست پر رکھی گئی۔ یہ ایک انتہائی خوشگوار ملاقات تھی جس میں کہا گیا کہ ہم پرانی غلطیوں کو تسلیم کرتے ہیں کہ ہم آپ کو چھوڑ گئے۔ ایک نیا آغاز کرتے ہیں، تاریخ کا ایک نیا سفر شروع کرتے ہیں، اس مرتبہ آپ کو امریکا کی مدد کا بہترین تجربہ ہوگا۔ اس کے جواب میں جنرل محمود نے امریکی بے وفائیوں کی داستان سنا دی کہ کیسے 1965ء کی جنگ میں ہمارا ساتھ چھوڑ دیا جب کہ ہم سیٹو اور سینٹو میں امریکا کے ساتھ دفاعی معاہدے میں تھے۔

1971ء کی جنگ اور پھر افغان جہاد کے بعد کیسے ہمیں اکیلے چھوڑ کر چلے گئے۔ جواب میں آرمٹیج تسلیاں دیتا رہا کہ آیندہ ایسا نہیں ہوگا، میٹنگ ختم ہوگئی۔ امریکی حلقوں میں یہ تاثر تھا کہ پاکستان کا رویہ بہت ہی درشت تھا۔ اس سلسلے میں امریکی حلقوں کے قریب پاکستانی نژاد تاجر سعید پراچہ نے سفارت خانے کے افراد کو بتا بھی دیا۔ جس صبح گیارہ ستمبر کا واقعہ ہوا اس رات ٹیلی ویژن پروگراموں میں ایک سینیٹر پاکستان کے خلاف خاصہ زہر اگل رہا تھا۔

جنرل محمود نے میٹنگ ختم ہونے کے بعد ملیحہ لودھی سے کہا کہ اگر اس سے ملاقات کا وقت مل جائے تو اس کے سامنے پاکستان کی پوزیشن تو واضح کی جائے۔ ملاقات کے لیے کہا گیا تو فوراً بلالیا گیا۔ یہ شخص جوبائڈن Joe Biden تھا۔ میٹنگ کے دوران وہ سخت غصے میں تھا اور افغانستان اورعراق کے بارے میں زہر افشانی کررہا تھا۔

جنرل محمود نے پاکستان کی پوزیشن واضح کرنا شروع کی تو ٹھنڈا پڑگیا اور اس کا سارا نزلہ افغانستان پر اترنے لگا۔ کہنے لگا آپ کو نہیں پتہ سینیٹ اور کانگریس کے ارکان 9/11 کے بعد اس قدر غصے میں ہیں کہ ”They Said to Use Nuclier against Them” ’’انھوں نے کہا کہ ان کے خلاف نیوکلیئر ہتھیار استعمال کرو‘‘ جنرل محمود نے کہا ’’یہ ان کون ہے‘‘ جوبائیڈن نے ایک دم کہا ’’Off Caerse Afghanistan‘‘ صاف ظاہر ہے افغانستان‘‘ یہ تھی وہ گفتگو جس کودنیا بھر کے میڈیا میں بڑھا چڑھا کر پیش کیا گیا کہ تم کو پتھر کے زمانے میں لے جائیں گے۔ یہاں تک کہ پرویز مشرف جو اس ساری گفتگو کے متن سے آگاہ تھا اس نے بھی امریکا کے سامنے مکمل جھکاؤ کے جواز کے لیے اسی جھوٹ کو بڑھا چڑھا کر بیان کیا جو میڈیا نے شایع کیا تھا کہ جوبائیڈن نے جنرل محمود کو دھمکایا ہے، حالانکہ ایسی کوئی بات نہیں ہوئی تھی۔

اگلے دن آرمٹیج سے دوبارہ ملاقات طے تھی۔ گزشتہ ملاقات میں اس کے سامنے پاکستان کے گلے شکوے رکھ دیے گئے تھے۔ اس لیے وہ دوسری ملاقات میں مزید نرم خو اور کسی حد تک خوشامدانہ تھا۔ میٹنگ شروع ہوتے ہی آرمٹیج نے ایک کاغذ جنرل محمود کے حوالے کیا جس میں بارہ ایسے کام لکھے ہوئے تھے جو امریکی چاہتے تھے کہ پاکستان ان کے لیے کرے۔

جنرل محمود کے مطابق ان میں سے کوئی ایک بھی بڑا کام نہ تھا۔ جیسے ہوائی اڈوں کی فراہمی، فلیٹ کا سمندری حدود کو استعمال کرنا وغیرہ۔لسٹ میں ایسے کام تھے جو پاکستان پہلے ہی سے امریکی حکومت کے لیے کررہا تھا۔ اس لیے جنرل محمود نے فوراً کہا میں اپنے صدر کو ذاتی طور پر جانتا ہوں۔ اس لیے آپ کے ان تمام مطالبات پر عملدرآمد ہوگا۔ یہ میٹنگ انتہائی خوشگوار ماحول میں ختم ہوگئی۔ اس کے بعد جنرل محمود فوج کے ہیڈکوارٹر پینٹاگون گئے تاکہ جنرل ابی زید سے ملاقات کی جاسکے۔

اس میٹنگ کے دوران جنرل ابی زید نے پوچھا کہ کیا آپ وہ جگہ دیکھنا چاہتے ہیں جہاں طیارہ پینٹاگون کی عمارت سے ٹکرایا تھا۔ میٹنگ مشرقی حصے میں ہورہی تھی، وہ جگہ مغربی حصے میں تھی، ایک میجر کی سربراہی میں وہاں پہنچے۔ جنرل محمود کے مطابق ابھی تک دھواں اٹھ رہا تھا اور فائر فائٹر کام کررہے تھے۔ لیکن سوراخ سے نہیں لگتا تھا کہ یہاں کوئی جہاز ٹکرایا ہے اور دوسری بات یہ کہ کسی جگہ بھی کوئی لوہے، دھات یا اسٹیل کا ٹکڑا بکھرا ہوا نہیں تھا۔

گیارہ ستمبر کے بعد تمام امریکی ہوائی اڈوں پر سے پروازیں بند کردی گئی تھیں۔ پہلا جہاز سی آئی اے کی اجازت سے سعودی عرب کے افراد کو لے کر امریکا سے روانہ ہوا، دوسرا جہاز بن لادن خاندان کو لے کر روانہ ہوا اور 14 ستمبر کو سی آئی اے نے جنرل محمود کو اپنا ایگزیکٹو جہاز گلف اسٹیم دیا جس میں وہ اور ان کی بیوی پاکستان آئے۔ پورا راستہ ان کی بیوی قرآن کی تلاوت اور وظائف کرتی رہی کہ کہیں اس جہاز میں بھیجنا سی آئی اے کی سازش نہ ہو۔ پاکستان واپسی کے بعد اگلا مرحلہ ملا محمد عمر، طالبان اور افغانستان کو اس امریکی حملے سے خبردار کرنے کا تھا جو ان کی طرف سے بڑھ رہا تھا۔     (جاری ہے)

نوٹ: گزشتہ کالم میں جارج ٹینٹ سی آئی اے چیف کی جگہ کولن پاؤل کا نام تحریر ہوگیا، معذرت خواہ ہوں۔

نوٹ: اہل نظر بارشوں کی آمد سے بہت خوفزدہ دکھائی دے رہے ہیں، درخواست کررہے ہیںکہ اللہ سے اجتماعی دعا کریں کہ ان بارشوں کو خیر میں بدل دے ہمیں معاف فرما دے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔