دراڑیں

کشور زہرا  اتوار 8 جنوری 2017

لفظ ہجرت پاکستان کی تحریک اور تاریخ سے اس طرح منسلک نظر آتا ہے کہ اس کو الگ کرنا ناممکن ہے، کیونکہ علیحدہ خطہ زمین کے لیے اٹھنے والی آواز موجودہ خطہ پاکستان سے نہیں اٹھی تھی، بلکہ اس کی بازگشت ان اقلیتی علاقوں سے سنائی دیتی ہے جن میں خصوصی طور پر علی گڑھ، دہلی، آگرہ، لکھنو، حیدرآباد دکن، گجرات، الٰہ آباد کے علاوہ اور بہت سے ایسے مقامات، جو اس وقت موجودہ ہندوستان کا حصہ یا بنگلہ دیش میں شامل ہیں، جہاں زیادہ تر مسلمان اقلیت میں آباد تھے۔

یہ آواز اس وقت ان کی زندگی اور موت کا درماں بن گئی تھی۔ اب یہاں سے اور پیچھے چلتے ہیں کہ جب برصغیر کے مقامی لوگوں نے مل کر انگریزوں کی غلامی سے آزادی حاصل کرنے کی جہت شروع کی تو انھوں نے اپنے خلاف ان کی آپس میں بڑھی ہوئی ہم آہنگی اور یکجہتی کو پارہ پارہ کرنے کے لیے مذہب کو بنیاد بناکر فسادات کی چنگاری بھڑکا دی اور یوں ’لڑاؤ اور حکومت کرو‘ کی پالیسی متعارف ہوئی جو چند بڑی طاقتوں نے آج بھی جاری و ساری رکھی ہوئی ہے۔

اگر دنیا پہ نظر ڈالیں تو ایک طرف خلیجی ممالک جہاں ایران، عراق، کویت، شام، یمن، سعودیہ عرب میں بسنے والے مسلمان ایک دوسرے کے خون کے پیاسے ہیں، جب کہ سب کے لہو میں کلمہ طیبہ کی صدا دوڑ رہی ہے، تو دوسری طرف مشرق بعید جہاں ایک جیسی شکل و صورت، بوٹا سا قد و قامت اور ملتے جلتے رنگ و نسل کی قومیں، جو اپنی تعلیم و تربیت اور ذہن کی بلوغت کے سبب بیشتر ٹیکنالوجی میں مغربی طاقتوں کو بھی پیچھے چھوڑ گئیں، وہ خواہ جاپان ہو یا چین، کوریا ہو یا تائیوان باہم ایک دوسرے سے تناؤ کا شکار ہیں۔

ایسی ہی سازشوں کا خمیازہ برصغیر ہندوستان کے مسلمانوں کو بھی بھگتنا پڑا کہ ہندو اور مسلم آپس میں لڑوا دیے گئے، ورنہ تو مسلمانوں کی طویل حکومت کو ہندوؤں نے سر تسلیم خم کیے ہوئے ہی قبول کیا ہوا تھا۔ ان ہی دنوں مسلمانوں میں بھی شیعہ سنی کے درمیان تفریق بڑھانے کی سازشوں کا سلسلہ بھی شروع کیا گیا، جس کا ابتدائیہ انگریز نے تیار کیا اور اس کی ڈور ان مسلمانوں کے ہاتھوں میں تھما دی جنھوں نیدوسرے کے خلاف فتوے جاری کرنا شروع کردیے اور یہ فتنہ پرور فکر پاکستان بنتے ہی یہاں در آئی، جس کی موشگافیاں آج بھی جاری ہیں۔

اس کی رو سے انسان کے رتبے کے لیے اس کی تعلیم و تربیت، بالغ النظری کوئی معنی نہیں رکھتی، بلکہ خاندانی اجارہ داری اس کے مستقبل کا تعین کرتی ہے، مثلاً حال ہی میں یونیورسٹی کے ایک گوشے کو دنیا کے نامور فزکس کے پروفیسر ڈاکٹر عبدالسلام سے موسوم کیا گیا تو اس پر فکری اختلافات کے باعث مخالفت میں آج بھی سرخیاں اخبارات کی زینت بنی ہوئی ہیں۔

بات ہورہی ہے ’لڑاؤ اور حکومت کرو‘ کی۔ سو جب برصغیر کے مسلمانوں نے اپنی جان اور مال و متاع کی قربانیاں دے کر اس کو حاصل کرلیا، جس کا نام پاکستان رکھا گیا اور دل و جان سے اس زمین پہ ماتھے ٹیک دیے، ان میں اکثریت ان کی تھی جو لٹ پٹ کر آئے تھے، لیکن ساتھ ہی وہ ہستیاں بھی تھیں جن میں سر آدم جی، حبیب فیملی، سیٹھ ولیکا، راجہ صاحب محمودآباد، سر آغا خان، ہارون فیملی، سردار عبدالرب نشتر، لیاقت علی خان و دیگر ایسے زیرک لوگ شامل تھے جنھوں نے ابتدا میں پاکستان کی معاشی تعمیر و ترقی میں بہترین کردار ادا کیا۔

مہاجروں نے پاکستان بننے کے بعد پہلی دہائی میں ہی اس بات کا اندازہ لگالیا تھا کہ کراچی اور اندرون سندھ کے شہروں میں ہجرت کرکے آنے والوں کو وہ حقوق نہیں مل رہے تھے جو ایک معاہدے کے تحت اقوام متحدہ کے پرچم تلے طے پائے تھے کہ وہ ہندو جو ہجرت کرکے ہندوستان جارہے تھے انھیں اپنی زرعی زمینیں نہ فروخت کرنے کا اختیار تھا اور نہ کسی کو تحفتاً دینے کا، جب کہ 50 فیصد زرعی زمینیں ان کی ملکیت تھیں اور 30 فیصد ان کے پاس رہن موجود تھیں اور یہ تمام 80 فیصد زمینیں ہندوستان سے ہجرت کرکے آنے والے مسلمانوں کے لیے مختص کی گئی تھیں، جب کہ یہاں ہجرت کرکے آنے والوں کو اس کا 8 فیصد بھی نہ مل سکا۔

اس کے برعکس یہی قانون پاکستان سے جانے والے ہندوؤں کے لیے بھی بنایا گیا تھا کہ جو جائیدادیں مسلمان وہاں چھوڑ کر جا رہے ہیں انھیں مل جائیں گی اور ایسا ہی ہوا۔ ایسی تمام تر صورتحال کو دیکھتے ہوئے پہلی دہائی کے مہاجر بزرگ انصاف کے متقاضی ہوئے، جن میں رئیس امروہوی، محمود الحق عثمانی (یوپی)، اختر رضوی(لکھنو)، احمد الطاف (گوالیار) اور کئی ایک نامور ہستیاں اس عمل میں پیش پیش رہیں، لیکن ان کے تدبر اور صبر سے کسی میٹھے پھل کی نوید ملنے کے بجائے پوری قوم محرومیوں کے جنگل میں ہی بے یار و مددگار کھڑی رہی۔

اس صورتحال کے ردعمل کے نتیجے میں کراچی یونیورسٹی کے نوجوان طالب علموں نے اس درد کو محسوس کیا اور اس کا مداوا کرنے کے لیے لفظ مہاجر کو ہی اپنی شناخت قرار دیا۔ ان تمام کے آباؤ اجداد کا تعلق یوپی، سی پی، راجستھان، بنگال، بہار، اودھ اور دیگر علاقوں سے تھا، لیکن نئے ہوں یا پرانے سب کی کہانی وہی احساس محرومی تھی، جس نے سب کو جوڑ دیا تھا اور یہی وجہ تھی کہ یہ ایک اور ایک گیارہ کی مصداق اپنی تعلیم و آگہی سے ایک منظم طاقت کے طور پر عوام کے سامنے آئے اور پھر اس نظام کو للکارا جو سیاہ اور سفید کا مالک بنا بیٹھا تھا۔

تاہم دوسری طرف وہ طبقہ جو تہی داماں تھا، کے بنیادی حقوق کے ساتھ سماجی، معاشی اور سیاسی میدان میں انھیں اس زمین کا باشندہ ہی تسلیم نہیں کیا جا رہا تھا، جب کہ ہجرت کرکے آنے والوں کی اولاد جو جوان ہو رہی تھی اور اس فلسفے پر یقین رکھتی تھی کہ جس نے پیدا ہوکر اس سرزمین پر قدم رکھا، وہ اسی مٹی کے سپوت ہیں۔ لیکن انھیں مقدر میں صرف نشیب اور پھسلن ہی نظر آرہی تھی، تب ان حالات میں مہاجر طلبا کا اتحاد ایک طاقتور آواز کے طور پر ابھرا اور منفی طاقتوں کے لیے چیلنج بن گیا۔

بدقسمتی سے سازشی عناصر نے موقع کا فائدہ کبھی ہاتھ سے جانے نہ دیا، لہٰذا روز اول سے ہی اس کو توڑنے اور بکھیرنے کے لیے نیلے پیلے لوگوں کی شمولیت کروادی گئی۔ اس وقت کی قیادت کو کمزور کرنے کے لیے جب کارکنوں کے سمندر کے درمیان سے پاکستان سے اٹھا کر ایک قطرے کی مانند لندن میں تنہا بٹھا دیا گیا، یہ پہلی دراڑ اور تقسیم کی سازش تھی۔ بات یہیں ختم نہیں ہوئی، ان کے گرد چند ایسے عناصر کا حصار باندھا گیا جنھوں نے صرف اپنے مفادات کو ہی ترجیح دی۔

یہ دوسری تقسیم تھی، جب کہ پاکستان میں چاروں طرف پھیلے ہوئے عوام اور کارکنان جو زمینی حقائق کو بہت قریب سے دیکھ رہے تھے اور بھگت بھی رہے تھے اور بہت کچھ کہنا بھی چاہتے تھے لیکن ایسے لوگوں کا قیادت سے تعلق منقطع کرنے کی کوشش مسلسل جاری رہی اور ان کے علم میں لائے بغیر پاکستان کی جڑوں میں بسنے والے کارکنان کو چارے کے طور پر استعمال کرنے کی بھی کوششیں کی جاتی رہیں اور یوں محب وطن افراد کے سامنے ریاستی اداروں سے تصادم کے راستے وا کرنے کے امکانات کو فروغ دیا گیا۔ یہ تھی تیسری تقسیم۔ جب بات اس سے بھی نہ بنی تو تقسیم کے پراسرار طریقے اختیار کیے گئے۔

مہاجروں کے اس کٹھن سفر میں کچھ کی زندگیوں نے وفا نہ کی، شہادتیں بھی پائیں، روپوشیاں بھی کاٹیں اور آج بھی ایک بڑی تعداد لاپتہ ہے اور ان سے بڑی تعداد ناکردہ گناہوں کی سزا کے طور پر قید و بند کی صعوبتیں بھگت رہی ہے۔ اگرچہ قانون کے مطابق جرم ثابت ہوتا ہے تو وہ لازمی سزا کے مستحق ہیں اور اگر ان کے سیاسی، آئینی و قانونی مطالبات ہیں تو انھیں پاکستانی شہری تسلیم کرتے ہوئے انصاف فراہم کیا جائے۔

پاکستان بننے کے بعد ہندوستان سے ہجرت کرکے آنے والوں نے درختوں کی شاخوں سے قلم بنا کر کام کی ابتدا کی اور اپنی محنت سے کلاچی کو ایک بڑا شہر کراچی بنادیا، یہ ان ہی کی نسلیں ہیں جو ایک بار پھر اعتماد اور یقین سے رشتہ استوار کرکے اس بکھرے ملبے کو سمیٹ کر ستون بنانے کی کوششوں میں مصروف ہیں۔ وہ ستون جو پاکستان کو مضبوط و محفوظ اور مستحکم بنانے میں معاون اور مددگار ثابت ہوگا۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔