2012ء: ایک جانب خلائوں کی تسخیر، دوسری طرف زندگی سسکتی رہی

بشیر واثق / محمد اختر / رانا نسیم  اتوار 30 دسمبر 2012
فوٹو : فائل

فوٹو : فائل

 غزہ پر اسرائیلی حملہ 

اسرائیل کی جانب سے فلسطین کے علاقے غزہ پر خونریز حملہ کیا گیا جس کے نتیجے میں سیکڑوں کی تعداد میں فلسطینی شہید اور زخمی ہوئے اور سیکڑوں بے گھر ہوگئے۔

حملے کے نتیجے میں املاک کو ہونے والا نقصان بھی کروڑوں ڈالر میں تھا۔ یہ حملہ 14 نومبر کو کیا گیا اور اس کے بعد 21 نومبر تک حملوں کا یہ سلسلہ جاری رہا۔اسرائیل نے بے گناہ فلسطینیوں کے خلاف اس کارروائی کو ’’آپریشن پلر آف ڈیفنس‘‘Operation Pillar of Defense کا نام دیا تھا جس میں اس کا مرکزی ہدف غزہ میں حماس کے ملٹری ونگ کے سربراہ احمد جباری کو نشانہ بنانا تھا جس میں اسرائیل کامیاب رہا۔ اسرائیل کا موقف تھا کہ حملے کا مقصد غزہ کی پٹی سے اسرائیل کے خلاف ہونے والے حملوں کو روکنا اور فلسطینی جنگجوئوں کے خلاف کارروائی کرنا تھا۔

اسرائیل کا کہنا تھا کہ غزہ سے اسرائیلی فوجیوں اور شہریوں کے خلاف مسلسل راکٹ فائر کیے جارہے تھے جس کا جواب دینے کے لیے کارروائی کی گئی۔ان حملوں کے خلاف حماس کا موقف تھا کہ وہ جارح نہیں اور نہ ہی تشدد کو بڑھانا چاہتے ہیں۔حماس کے ڈپٹی وزیرخارجہ غازی احمد نے ایک بیان میں کہا کہ ہم اب بھی یہی کہتے ہیں کہ ہم اسرائیلی غاصبانہ قبضے کا نشانہ اور اس کاشکار ہیں۔ ان کا کہنا تھاکہ حماس کو حق ہے کہ وہ اپنے لوگوں کا دفاع کرے ، اس لیے وہ اسرائیلی حملے کا جواب دے گا ۔انھوں نے مزید کہا کہ اگر غزہ محفوظ نہیں تو اسرائیل کے قصبے بھی محفوظ نہیں رہیں گے۔

اسرائیل نے فوجی کارروائی کے دوران غزہ کی پٹی میں پندرہ سو سے زائد مقامات پر حملے کیے۔ان حملوں میں راکٹ لانچنگ پیڈز ، اسلحہ ذخائر ، حماس کی چوکیاں، حماس کی وزارت داخلہ اور دیگر سرکاری عمارتوں اوررہائشی علاقوں کو نشانہ بنایا گیا۔ اسرائیل کی اس وحشیانہ کارروائی میں 177 فلسطینی شہید ہوئے جن میں ایک بڑی تعداد جنگجوئوں کی بھی بتائی جاتی ہے۔اس کے علاوہ تیرہ سو سے زائد فلسطینی زخمی ہوئے اور سات سو کے قریب خاندان بے گھر ہوگئے۔ اسرائیلی میڈیا کی جانب سے الزام عائد کیا گیا کہ اسرائیلی حملے میں جباری کی شہادت کے بعد فلسطینی جنگجوئوں کے قسام بریگیڈ اور اسلامی جہاد کی جانب سے اسرائیل کے شہروں اور قصبوں پر راکٹ حملوں کو تیز کردیاگیا۔

امریکا میں ’’سینڈی‘‘ کی تباہی
اس سال امریکیوں کو ’’سینڈی‘‘ طوفان جیسی قدرتی آفت کا سامنا بھی کرنا پڑا۔طوفان کے نتیجے میں 96 افراد ہلاک اور اربوں ڈالر کا مالی نقصان ہوا۔ ایک اندازے کے مطابق کل 8کروڑ افراد اس سے متاثر ہوئے۔ 11ریاستوں میں ہنگامی حالت نافذ کرنا پڑی۔ ’’سینڈی‘‘ اس قدر طاقتور طوفان تھا کہ اسے سپرسٹارم یعنی ’’طوفان عظیم‘‘ بھی کہا گیا۔گزشتہ کئی دہائیوں میں سب سے زیادہ طاقتور قرار دیئے جانے والے اس طوفان کے باعث امریکا کے سب سے گنجان آباد مشرقی حصے میں وسیع پیمانے پر تباہی ہوئی۔ ملک کی سترہ ریاستوں میں45 لاکھ سے زائد لوگ بجلی سے محروم ہو گئے جبکہ نشیبی علاقوں کی سڑکیں سیلابی پانی میں ڈوب گئیں۔

سمندری طوفان ’’سینڈی‘‘ جب امریکا کے مشرقی ساحل سے ٹکرایا تو اس کے بعد وہاں کا پورا علاقہ موسلا دھار بارش، تیز ہواؤں اور شدید سیلاب کی زد میں آگیا اور امریکی صدر براک اوباما نے نیو یارک ریاست کو ’آفت زدہ‘ علاقہ قرار دے دیا۔ طوفان سے سب سے زیادہ جانی نقصان نیویارک میں ہوا جہاں 40 افراد ہلاک ہوئے۔ نیویارک میں خورد و نوش سمیت بنیادی اور ہنگامی اشیاء کی خریداری کے لیے طویل قطاریں دیکھی گئیں۔ طوفان کے باعث کسی ناخوشگوار واقعے سے نمٹنے کے لیے ٹرین اور بس سروس بند کردی گئی۔ نیویارک اور نیوجرسی کو ملک بھر سے آنے اور جانے والی ٹرینیں بندکردی گئیں۔ طوفان کے نتیجے میں نیویارک اسٹاک ایکسچینج دو دن بند رہا۔

1

اعدادوشمار کے مطابق ’’سینڈی‘‘ امریکا کی تاریخ کے ہولناک سمندری طوفانوں میں سے ایک ثابت ہوا جس نے مشرقی ساحل کے علاقوں کے باسیوں کی ایک بڑی تعداد کو مواصلات اور بجلی سے محروم کردیا۔اس طوفان کی جسامت ایک ہزار میل یا 1600 کلومیٹر تھی۔ بلند ترین سمندری لہریں نیویارک کے قریب ریکارڈ کی گئیں جو تقریبا 13.88فٹ اونچی تھیں۔ طوفان سے متاثرہ امریکی ریاستوں کی تعداد کم از کم 17ہے۔ اموات کی تعداد96، جائیدادوں کے نقصانات کا تخمینہ 30 ارب ڈالر، کاروباری نقصان 20 ارب ڈالرتھا۔ طوفانی جھکڑوں کی زیادہ سے زیادہ رفتار ماؤنٹ واشنگٹن اور نیو ہمپشائر پر رہی جو140 میل فی گھنٹہ تھی۔ 85 لاکھ سے زائد لوگ بجلی سے محروم ہوگئے۔ 18100 سے زائد پروازیں منسوخ ہوئیں۔ زیادہ سے زیادہ بارش ایسٹون، میری لینڈ میں 12.55 انچ ریکارڈ کی گئی۔سب سے زیادہ برفباری، 28 انچ، ریڈ ہاؤس، میری لینڈ میں ریکارڈ کی گئی۔400 میل پر پھیلے ساحلی علاقوں سے لوگوں کو محفوظ مقامات کی طرف منتقل کیا گیا۔

اوباما پھر امریکا کے صدر منتخب
اس سال 6نومبر کو ہونیوالے امریکی الیکشن کے نتیجے میں بارک اوباما دوسری مرتبہ امریکا کے صدر منتخب ہوگئے۔ اوباما کے مدمقابل مٹ رومنی کاتعلق ری پبلکن پارٹی سے تھا جو سرویز اور جائزوں کے عین مطابق شکست سے دوچار ہوئے۔پاک امریکا تعلقات کے حوالے سے مبصرین کی رائے میں کہا گیا تھا کہ اوباما یا رومنی میں سے کوئی بھی جیتے ، پاکستان کو کوئی فرق نہیں پڑے گا تاہم کچھ مبصرین کا کہنا تھا کہ اوباما کی کامیابی کی صورت میں پاکستان کے لیے مشکلات میں اضافہ ہوگا۔ایک جنوبی ایشین تجزیہ کار فرینک فیر کے مطابق اوباما نے اپنے پہلے چار سال میں پاکستان کے لیے خاصی نرمی دکھائی لیکن اب ایسا نہیں ہوگا کیونکہ امریکی حکام کے صبر کا پیمانہ لبریز ہورہا ہے۔

مبصرین کے مطابق تیسرے اور آخری مباحثے میں اوباما کی برتری اور دیگر کئی عوامل جیسے سیاہ فام اور ہسپانوی ووٹرز میں مقبولیت اور عالمی سطح پر مقبولیت کے باعث ان کی پوزیشن مضبوط ہوگئی تھی۔ جائزوں کے مطابق اوباما کو رومنی پر چار فیصد کی سبقت جبکہ خواتین ووٹرز میں انھیں رومنی پر اٹھارہ فیصد برتری حاصل تھی۔الیکشن کے ابتدائی جائزوں کے مطابق اوباما کی سفید فام ووٹروں میں مقبولیت میں کمی نے خطرے کی گھنٹی بجائی تھی لیکن آخرکار اوباما اپنی پوزیشن کو مستحکم کرنے میں کامیاب ہوگئے جس کی ایک بڑی وجہ تیسرے مباحثے میں ان کی اچھی کارکردگی بھی بیان کی جاتی ہے۔

ہر سال کی طرح اس بار بھی امریکی الیکشن میں ’’سوئنگ اسٹیٹس‘‘ (Swing States)یا states Key ، معیشت کے مسائل اور ہسپانوی ووٹوں نے بھی اہم کردار ادا کیا، امریکا میں ہسپانوی باشندوں کی تعداد پانچ کروڑ ہے اور ہرسال ان میں پچاس ہزار نئے ووٹوں کا اضافہ ہوتا ہے۔اس کے علاوہ خارجہ پالیسی کے معاملات بھی ووٹروں کو متاثر کرنے میں کامیاب رہے۔الیکشن کے دوران کہا گیا کہ خارجہ پالیسی کے معاملے پر اوباما کو نقصان ہوسکتا ہے لیکن ایسانہ ہوا اور وہ واضح اکثریت سے کامیاب ہوئے۔

انسائیکلوپیڈیا بریٹانیکا اور نیوز ویک کی اشاعت بند
آنے والے زمانے میں موٹی موٹی جلدوں اور دلکش چھپائی اور دنیا بھر کی معلومات سے بھرا انسائیکلوپیڈیا بریٹانیکا گھروں اور لائبریریوں میں دکھائی نہیں دے گا۔عظیم الشان انسائیکلوپیڈیا چھاپنے والے ادارے انسائیکلوپیڈیا بریٹانیکا ان کارپوریٹ نے 2012 ء سے اس کی اشاعت بند کرنے کا اعلان کردیا ہے۔کمپنی نے انسائیکلوپیڈیا کی پرنٹنگ بند کرنے کا اعلان کرتے ہوئے اس بات کو تسلیم کیاکہ ڈیجیٹل عہد کی حقیقتوں اور انٹرنیٹ پر مفت دستیاب جامع انسائیکلوپیڈیا ’’وکی پیڈیا‘‘ کی دستیابی کے بعد ان کے انسائیکلوپیڈیا کی اشاعت کے حالات باقی نہیں رہے۔اب انسائیکلوپیڈیا بریٹانیکا کمپنی زیادہ تر آن لائن انسائیکلوپیڈیا اورسکولوں کے تعلیمی نصاب کی اشاعت پر ہی توجہ دے گی۔مذکورہ انسائیکلوپیڈیا کا آخری 32 جلدوں پر مشتمل ایڈیشن 2010ء میں شائع ہوا جس میں کئی نئی معلومات بھی شائع کی گئی تھیں جیسے گلوبل وارننگ اور ہیومن جینوم پراجیکٹ وغیرہ۔

شکاگو میں واقع کمپنی کے صدر جورگ کاوز کا کہنا ہے کہ نئے عہد میں تبدیلیاں ناگزیر ہیں۔ بہت سے لوگ انسائیکلوپیڈیا بریٹانیکا کی بندش پر اداس ہوں گے اور اس حوالے سے ناسٹیلجیا کا شکار ہوں گے لیکن حقیقت یہ ہے کہ اب ہمارے پاس کاغذ والی چھپائی کے مقابلے میں بہتر ذرائع موجود ہیں۔ ویب سائٹس کو مسلسل اپ ڈیٹ کیا جاسکتا ہے۔ اس کا پھیلائو بھی بہت ہے اور یہ ملٹی میڈیا بھی ہے۔

پرانے زمانے میں لوگ انسائیکلوپیڈیا بریٹانیکا کو اپنے گھروں میں رکھنے پر فخر محسوس کرتے تھے۔اس کو رکھنے کے لیے خصوصی جگہیں تیار کی جاتی تھیں۔یہ ان کو اور ان کے بچوں کو علم و فکر کی تحریک دیتا تھا۔ اس وقت انسائیکلوپیڈیا کا ایک سیٹ خریدنا خاصا مہنگا سمجھا جاتا تھا اور بہت سے خاندان اس کو آسان قسطوں پر خریدا کرتے تھے لیکن موجودہ عہد میں حوالہ جات کے لیے اشاعتی مواد کی جگہ مکمل طور پر انٹرنیٹ اور اسی سے متعلقہ دیگر ذرائع نے لے لی ہے، جیسے خصوصی ویب سائٹس اور جامع اور مفت آن لائن انسائیکلوپیڈیا وکی پیڈیا سرفہرست ہیں۔وکی پیڈیا کا آغاز لگ بھگ گیارہ سال قبل ہوا اور اس نے بہت سی نئی چیزیں متعارف کرائیں۔ مثال کے طورپر پہلے انسائیکلوپیڈیا ماہرین تیار کرتے تھے لیکن وکی پیڈیا نے عوامی دانش کو بھی استعمال کیا۔اس وقت وکی پیڈیا کے لیے کام کرنے والے افراد کی تعداد لاکھوں میں ہے جو اسے ہمہ وقت اپ ڈیٹ اور ایڈٹ کرتے رہتے ہیں۔وکی پیڈیا اب بہت مقبول ہوچکا ہے اور عام آدمی سے لے کر اسکالرز تک سب اس کو درست تسلیم کرتے ہیں۔انسائیکلوپیڈیا بریٹانیکا کے علاوہ 2012 میں مشہور امریکی ہفت روزہ جریدے ’’نیوزویک‘‘کی اشاعت بھی بند کرنے کا اعلان کیا گیا یعنی اب نیوزویک لوگوں کے ہاتھ میں نہیں ہوگا اور نہ ہی ڈرائنگ رومز اور بڑے بڑے ہوٹلوں میں میزوں پر پڑا دکھائی دے گا۔اب لوگ صرف انٹرنیٹ پر اس کے مندرجات کو پڑھ سکیں گے۔

خلا بازی میں چین کی ایک اور چھلانگ
خلا بازی کے میدان میں 2012 میں چین نے ایک اور کامیابی حاصل کی۔ چین نے نہ صرف اپنے خلائی اسٹیشن کے قیام کے لیے تین خلابازوں پر مشتمل عملہ خلاء میں بھیجا بلکہ ان میں چین کی پہلی خاتون خلا باز بھی شامل تھی۔چین 2020 ء تک خلا میں اپنا اسٹیشن قائم کرنے کے منصوبے پر کام کررہا ہے۔ شن زو نائن خلائی جہاز کو جون 2012 میں لانگ مارچ ٹو ایف راکٹ کے ذریعے مغربی چین کے صحرائے گوبی میں واقع لانچنگ سینٹر سے خلا میں بھیجا گیا۔اس منظر کو سرکاری ٹی وی پر براہ راست دکھایا گیا۔خلا بازوں نے تیانگ گانگ ون خلائی لیبارٹری میں لگ بھگ بیس دن تک قیام کیا اور مختلف تجربات کیے۔یاد رہے کہ چین خلا بازی کے میدان میں امریکا اور روس کا مقابلہ کرنے کے لیے اربوں ڈالر خرچ کرچکا ہے اور اب آخرکار 2016ء تک چاند پر انسان بھیجنے کے منصوبے پر بھی کام کررہا ہے۔چین نے پہلی بار2003ء میں انسانی مشن خلا میں بھیجا تھا جبکہ 2008 ء میں ایک چینی خلاباز نے خلاء میں چہل قدمی کی تھی۔ خلابازی کے میدان میں ایک اور بڑی کامیابی امریکا کے مریخ مشن کی صورت میں دیکھنے میں آئی جب چھ اگست کو امریکی خلائی گاڑی ’’کیوراسٹی‘‘ کامیابی کے ساتھ مریخ کی زمین پر اتری۔’’کیوراسٹی‘‘ کے ذریعے مریخ پر اہم تجربے کیے گئے اور مریخ کی زمین سے اہم نمونے حاصل کیے گئے۔

حسنی مبارک کو عمر قید کی سزا
تیس سال تک مصر پر بادشاہ کی طرح حکومت کرنے والے صدر حسنی مبار ک کو جون میں عمر قید کی سزا سائی گئی ، اس طرح وہ عرب دنیا کے پہلے لیڈر بن گئے جنھیں ان کے ملک کے اپنے عوام نے کورٹ ٹرائل کے ذریعے انجام تک پہنچایا۔ حسنی مبار ک پر الزام تھا کہ انھوں نے فروری 2011ء میں حکومت کیخلاف مظاہرہ کرنے والے افراد پر گولی چلانے کا حکم دیا تھا ، مسلح افواج کی فائرنگ سے 850افراد جاں بحق اور سیکڑوں زخمی ہو گئے تھے،یہی سانحہ حسنی مبارک کے اقتدار کے خاتمے کا با عث بنا ۔ فائرنگ سے جاں بحق ہونے والے افراد نے انصاف کے لئے حسنی مبارک کو عدالت کے کٹہرے میں لا کھڑا کیا جو مشرق وسطیٰ کی تاریخ کا ایک اہم موڑ تھا جس سے عوام کی بیداری اور شعور کا اظہار ہو رہا تھا ۔ جج نے حسنی مبار ک کو سزا سناتے ہوئے اس کے تیس سالہ دور کو ملک کی تاریخ کا تاریک ترین دور قرار دیا ۔ حسنی مبارک کو 1975ء میںمصری صدر انور السادات نے نائب صدر مقرر کیا تھا، 1981ء میں انور السادات کے قتل کے بعد وہ مصر کے چوتھے صدر بن گئیٍ، مگر اس کے بعد انھوں نے مسلح افواج کی مدد سے مصری عوام کو ایک طویل عرصے تک دبائے رکھااور عوامی صدر ہونے کی بجائے بادشاہوں کی طرح حکومت کی ۔ ان کے دور اقتدار میں کرپشن ،بیروزگاری،مہنگائی اور اقرباء پروری کا بازار گرم رہا ۔ جس وقت انھیں اقتدار سے علیحدہ کیا گیا تو ان کے خاندان کے دولت کے انبار 70ارب امریکی ڈالر کو بھی پار کر چکے تھے۔

مارک گراسمین کا استعفیٰ
پاکستان اور افغانستان کے لئے امریکا کے خصوصی ایلچی مارک گراسمین نے28نومبر کواستعفیٰ دے دیا،انھیں امریکی صدر اوباما نے افغانستان میں امن عمل، پاکستان کے ساتھ تعلقات کی بہتری اور طالبان کے ساتھ بیک ڈور ڈپلومیسی کے لئے تعینات کیا تھا ،انھوں نے جنوری 2011ء کو رچرڈ ہالبروک کی وفات کے بعد یہ عہدہ سنبھالا تھا ، یو ں وہ تقریباًدوسال تک اس عہدے پر متمکن رہے ، مارک گراسمین نے افغانستان میں امن عمل کو تیز کرنے کے لئے بون،شکاگو،استنبول اور ٹوکیو میں کانفرنسز منعقد کرائیں۔

’’لو افیئر‘‘ سامنے آنے پر سی آئی اے چیف جنرل ڈیوڈ پیٹریاس کا استعفیٰ
امریکی خفیہ ایجنسی سی آئی اے چیف جنرل ڈیوڈ پیٹریاس نے سیکس سکینڈل منظر عام پر آنے پر اپنے عہدے سے استعفٰی دیا ۔ جنرل پیٹریاس کا کہنا تھا کہ 37سالہ ازدواجی زندگی گزارنے کے بعد ان کا اس طرح سے ایک خاتون کے ساتھ افیئر منظر عام پر آنا ان کے لئے شرمندگی کا باعث ہے اس لئے وہ اپنے عہدے سے مستعفی ہو رہے ہیں۔ نومبر میں امریکی الیکشن کے صرف تین روز بعد ہی ان کا استعفٰی کسی دھماکے سے کم نہیں تھا ۔ جنرل ڈیوڈ پیٹریاس اور پاولا براڈ ویل کی پہلی ملاقات ہاورڈ یونیورسٹی میں ہوئی تھی جہاں انھیں فوجی زندگی کے تجربات بیان کرنے کے لئے مدعو کیا گیا تھا ، پاولا نے پہلی ملاقات میں ان کے فوجی تجربات کو لکھنے کا ارادہ ظاہر کیا ، یوں ملاقاتوں کا ایک طویل سلسلہ شروع ہو گیا۔ سیکس سکینڈل اس وقت منظر عام پر آیا جب پاولا کی طرف سے بھیجی گئی کچھ ای میلز ایف بی آئی نے پکڑ لیں،ایف بی آئی کو شبہ ہوا کہ کہیں خفیہ معاملات کی لیکیج نہ ہو رہی ہو ،تفتیش کرنے پر سارا معاملہ سامنے آگیا۔

آٹھویں ڈی ایٹ کانفرنس کا انعقاد
آٹھویں ڈی ایٹ سربراہ اجلاس کا انعقاد 2012ء میں ملک کی سب سے اہم تقریب رہی، جس میں آٹھوں ممالک پاکستان، ایران ،ترکی، نائجیریا،بنگلہ دیش،انڈونیشیا،مصر اور ملائشیا کے صدور،وزرائے اعظم اور نمائندگان نے شرکت کی۔ صدر پاکستان آصف علی زرداری نے دو سال کے لئے تنظیم کی سربراہی سنبھال لی ۔ ڈی ایٹ سربراہ کانفرنس کے مشترکہ اعلامیے میںکہا گیا کہ اسلامی بینکاری،امن،رواداری اور جمہوریت کے فروغ،باہمی تجارت میں اضافے کے لئے نجی شعبے کی شمولیت،صنعتی شعبے میں مشترکہ منصوبہ بندی اور زراعت کو فروغ دیا جائے۔ تمام سربراہان نے اپنے خطاب میں جمہوریت کے فروغ کے لئے ڈی ایٹ کے پلیٹ فارم کو استعمال کرنے پر پاکستان کو مبارکباد دی ۔ اسی طرح گروپ 20،اسلامی تعاون تنظیم، عرب لیگ، اقتصادی تعاون تنظیم اور سارک ممالک سے تعلقات مضبوط بنانے پر زور دیا گیا۔

پاکستان،ایران گیس اور بجلی کا معاہدہ
پاکستان اور ایران گیس پائپ لائن اور بجلی کی فراہمی کا معاہدہ طے پا گیا، یہ دونوں منصوبے گزشتہ تین چار سال سے التوا کا شکار چلے آ رہے تھے، تاہم اس مرتبہ ایرانی صدر احمدی نژاد کی ڈی ایٹ کانفرنس میں شرکت مفید ثابت ہوئی اور دونوں معاہدے طے پا گئے جس کے تحت ایران پاکستان کو ایک ہزار میگا واٹ بجلی فراہم کرے گا، اسی طرح گیس پائپ لائن منصوبے کی تکمیل 2014ء تک ہونا طے پا ئی ہے ۔ نیوکلیر پروگرام کی وجہ سے ایران کو عالمی پابندیوں کا سامنا ہے جو اس کے تمام معاہدوں پر اثر انداز ہو تی ہیں ،کچھ یہی صورتحال پاکستان کے ساتھ کئے گئے معاہدوں کے ساتھ بھی پیش آ رہی ہے ، پہلے تو پاکستان کو امریکا کی طرف سے دبائو کا سامنا کرنا پڑرہا تھا جس کی وجہ سے یہ دونوں معاہد ے گفت و شنید سے آگے نہیں بڑھ پائے تھے، پھر برادر اسلامی ملک سعودی عرب نے بھی ایران پاکستان معاہدوں کو ختم کرنے کے لئے دبائو ڈالنا شروع کر دیا اور ایران کے علاوہ انرجی کے متبادل ذرائع پر غور کرنے کے لئے مذاکرات کی دعوت دیدی،جبکہ دوسری طرف ایران نے پاکستان کو طویل المدتی ادھار پر تیل دینے کی بھی پیش کش کی ہے ۔

سیاچن گیاری سیکٹر میں برف کاتودہ گرنے سے 140فوجی و شہری شہید
دنیاکے بلند ترین محاذ جنگ سیا چن گلیشیر، جہاں پاکستان اور ہندوستان کی فوجیں ایک طویل عرصے سے نبرد آزما ہیں، کے گیاری سیکٹر میں بڑا اندوہناک حادثہ پیش آیا، ایک مربع کلومیٹر چوڑا اور 80فٹ موٹائی کا برفانی تودہ گرنے سے لیفٹیننٹ کرنل ، میجر اور کیپٹن سمیت 129فوجی اور گیارہ شہری شہید ہوگئے،گیاری سیکٹر میں پاکستان کا گزشتہ بیس سال سے ملٹری بیس موجود ہے ۔ حادثے کے وقت 6 ناردرن لائٹ انفنٹری وہاں ٹھہری ہوئی تھی۔ یہ ملٹری بیس سطح سمندر سے پندرہ ہزار فٹ کی بلندی پر واقع ہے اور گلگت بلتستان کے ضلع کھانچے سے 100کلومیٹر دور ہے۔ اس علاقے میں پہلے بھی برفانی تودے گرتے رہتے ہیںمگر سیاچن کی تاریخ میں اس سے بڑا حادثہ آج تک پیش نہیں آیا۔

45ڈرون حملوں میں336افراد جاں بحق
گزشتہ سال کی طرح اس مرتبہ بھی ڈرون پاکستان کے قبائلی علاقوں پر منڈلاتے رہے تاہم گزشتہ دوسالوں کی نسبت اس مرتبہ ڈرون حملوں کی تعداد میں کمی آئی ہے۔2010 ء میں 122ڈرون حملے کئے گئے جن میں 1028افراد جاں بحق ہوئے۔ اسی طرح2011ء میں72ڈرون حملے کئے گئے جن میں599افراد جاں بحق ہوئے۔2012 ء میں45ڈرون حملے کئے گئے جن میں 336افراد جاں بحق ہوئے۔اگر ڈرون حملوں کی تازہ ترین صورتحال کا جائزہ لیا جائے تو پتہ چلتا ہے کہ دسمبر میں دو ڈرون حملے کئے گئے جن میں سے پہلا چھ دسمبر کو شمالی وزیر ستان کے علاقے میر علی میں کیا گیا جس میں چار افراد جاں بحق ہوئے۔دوسرا حملہ 9دسمبر کو شمالی وزیر ستان کے علاقے تیپی میں کیا گیا اس میں بھی چار افراد جاں بحق ہوئے۔ ڈرون حملوں کے خلاف پاکستان نے ہر سطح پر احتجاج ریکارڈ کرایا ہے مگر گزشتہ دس سال سے جاری یہ سلسلہ رکنے میں نہیں آ رہا ۔ حتٰی کہ افغانستان کے لئے سامان لے جانے والے کنٹینرز کی راہداری عارضی طور پر ختم کر دی گئی اور کئی مہینے تک معاملات ایسے ہی رہے مگر ڈرون حملے پھر بھی جاری رہے ، یہ کہا جا سکتا ہے کہ حکومت پاکستان کے بار بار احتجاج کرنے کی وجہ سے 2012 ء میںڈرون حملوں میں کمی آئی ہے۔

صدر پوٹن پاکستان نہ آسکے
افغان جنگ میں ایک دوسرے کے خون کے پیاسے بننے والے ممالک پاکستان اور روس نے بالآخر زمینی حقائق کا ادراک کرتے ہوئے دوریاں ختم کرنے کا فیصلہ کر لیا۔ اسی سلسلہ میں روسی صدر ولادی میرپیوٹن نے رواں برس 2 اکتوبر کو پہلی بار دو روز کے لئے پاکستان آنے کا اعلان کیا۔ پیوٹن وہ پہلے روسی صدر ہیں جنہوں نے پاکستان کا دورہ کرنا چاہا۔ لیکن بدقسمتی سے کوئی ٹھوس وجہ بتائے بغیر یہ دورہ اور اس کے نتیجہ میں ہونے والی چار ملکی کانفرنس (پاکستان، روس، تاجکستان اور افغانستان) بھی منسوخ ہوگئی۔ روسی صدر کے دورہ کی منسوخی کو بظاہر سکیورٹی خدشات سے جوڑا گیا، اس کے ساتھ ایک تاثر یہ بھی ہے کہ امریکا نے بھارت پر دبائو ڈال کر روسی صدر کا دورہ پاکستان منسوخ کرایا۔ لیکن دورہ منسوخی کی ایک اور بڑی وجہ پاکستان کی طرف سے بامقصد معاشی تعاون نہ ہونا بھی ہے۔

جس کا اظہار پاکستان اورافغانستان کیلئے روسی صدرکی مشیرضمیرکابلوف نے ایک انٹرویو میں بھی کیا، جس میں ان کا کہنا تھا کہ ’’روسی صدرکے دورہ پاکستان کی منسوخی کی بڑی وجہ دونوں ملکوں کے درمیان بامقصد تعاون میں اضافہ نہ ہونا ہے‘‘ اس کی ایک مثال کچھ یوں ہے کہ روس پاک ایران گیس پائپ لائن کا ٹھیکہ لینا چاہتا ہے، جس کے لئے پہلے تو حکومت پاکستان کی طرف سے امریکی پریشر کو بالائے طاق رکھتے ہوئے حامی بھر لی گئی لیکن بعدازاں پاکستانی حکام نے فیصلہ کن وقت پر بغیر بولی کے منصوبہ روس کی سرکاری کمپنی کو دینے سے یہ عذر پیش کرتے ہوئے معذرت کرلی کہ اس طرح تو پبلک پروکیورمنٹ ریگولیٹری اتھارٹی اور عالمی قواعد و ضوابط کی خلاف ورزی ہو جائے گی۔ حالانکہ سب جانتے ہیں پاکستان نے بغیر کسی بولی کے چین کی کمپنیوں کو متعدد منصوبے سونپے ہیں جس سے ملک کو بے پناہ فائدہ پہنچا۔ دورہ کی منسوخی سے ہونے والی ہلچل کوکم کرنے کے لئے روس کا فوری اپنے وزیرخارجہ کو پاکستان بھجوانا خوش آئند تھا۔ روسی وزیرخارجہ نے دورہ منسوخی کے حوالہ سے نہ صرف تمام افواہوں کی تردید کرتے ہوئے یہ وضاحت کی کہ روسی صدر کا دورہ خالصتاً مصروف شیڈول کے باعث ملتوی ہوا بلکہ انھوں نے پاکستان سے اس کے لئے معذرت بھی کی۔

پاک بھارت تجارتی حجم میں اضافہ
پاکستان اور بھارت دو ایسے ممالک ہیں، جن کے درمیان صدیوں سے جغرافیائی، تاریخی، سماجی اور ثقافتی قربت ہے، لیکن متعصب ذہن نے ان دونوں کو کبھی قریب نہیں آنے دیا۔ بہرحال دونوں ملکوں کے تعلقات بہت سی مشکلوں سے گزرتے ہوئے آج اس مقام پر پہنچ چکے ہیں، جہاں یہ کم از کم گزشتہ تین دہائیوں میں نہیں پہنچ سکے تھے۔ سیاسی سطح پر دونوں ملکوں کی قیادت ایک دوسرے پر پوری طرح اعتبار کر رہی ہے۔ اپنوں اور غیروں کی روایتی جارحانہ روش کے باوجود سیاسی، عسکری اور اقتصادی سطح پر معقولیت غالب آرہی ہے۔ پاکستان اور بھارت کو صرف اپنی انا اور لامتناہی نفرتوں کے باعث صدیوں سے بھاری مالی نقصانات کا سامنا رہا ہے۔ جو چیز پاکستان اور بھارت ایک دوسرے سے ایک روپے میں حاصل کر سکتے ہیں، وہی چیز وہ ہزاروں میل کی دوری پر موجود دیگر ممالک سے ایک ہزار روپے میں خریدنے کو ترجیح دیتے ہیں لیکن اب وقت اور ذہن بدل رہا ہے، ملکی مفاد اور بین الاقوامی تقاضوں کے پیش نظر اب دونوں ممالک ایک دوسرے سے تجارتی سرگرمیاں بڑھانے میں بھر پور دلچسپی لے رہے ہیں۔ بھارت کا موقف ہے کہ پاکستان سے اب دوستی ناگزیر ہو چکی ہے۔ اگست میں بھارت کی حکومت نے پاکستانی شہریوں اور اداروں کی جانب سے ان کے ملک میں براہ راست سرمایہ کاری کی اجازت دے دی۔ قبل ازیں بنگلہ دیش اور پاکستان ایسے دو ممالک تھے، جنہیں بھارت میں سرما یہ کاری کی اجازت نہیں تھی۔ بھارت کی طرف سے ایسے اقدامات کے بعد پاکستان نے بھی مثبت جواب دیا ہے۔ پاکستان نے بھارت کی متعدد مصنوعات کو پابندی کی فہرست سے نکال کر تجارت کی فہرست میں ڈال دیا ہے۔ دونوں ممالک کے درمیان اب تاجروں اور سرمایہ کاروں کے لئے ملٹی انٹری اور زیادہ شہروں کے لئے ویزے جاری کرنے اور نئے تجارتی راستے کھولنے پر اتفاق ہو گیا ہے۔ بھارت اور پاکستان ایک دوسرے کے ہاں بینک کی شاخیں کھولنے کے عمل کو بھی حتمی شکل دے چکے ہیں۔ تجارتی روابط بڑھانے سے قبل سرکاری طور پر دونوں ملکوں کی تجارت کا حجم تقریباً دو ارب ڈالر رہا ہے۔ کراچی کے انسٹی ٹیوٹ آف بزنس ایڈمنسٹریشن کے ایک مطالعے کے مطابق تجارتی تعلقات بہتر ہونے کی صورت میں دونوں ممالک میں تجارت کا یہ حجم فوری طور پر گیارہ ارب ڈالر تک پہنچ جائے گا۔

کراچی میں ٹارگیٹ کلنگ جاری رہی
پاکستان کے سب سے بڑے شہر کراچی میں ٹارگیٹ کلنگ کے نام پر انسانوںکا قتل عام جاری رہا۔ اس سال فرقہ ورانہ بنیادوں پر 54 افراد قتل ہوئے۔ایچ آر سی پی کی رپورٹ کے مطابق لیاری گینگ وار میں ہلاک ہونے والوں کی تعداد 105بتائی جاتی ہے۔692 غیرسیاسی ا فراد ٹارگیٹ کلنگ کا شکار ہوئے۔ ہلاک ہونے والے سیاسی ورکرز کی تعداد 313 بتائی جاتی ہے۔

الطاف حسین کو توہین عدالت کا نوٹس
سپریم کورٹ نے متحدہ قومی موومنٹ کے قائد الطاف حسین کو عدلیہ مخالف خطاب پر توہین عدالت کا نوٹس جاری کردیا اور سات جنوری کو عدالت میں پیش ہونے کا حکم دیا۔

صدر آصف علی زرداری کا دورہ بھارت
8 اپریل کو صدر پاکستان آصف علی زرداری نے 44 افراد کے ساتھ ایک وفد کی صورت میں بھارت کا ایک روزہ ’’نیم سرکاری‘‘ دورہ کیا۔ یہ گزشتہ 7 برس میں کسی بھی پاکستانی صدر کی جانب سے بھارت کا پہلا دورہ تھا۔ صدر کے اس نجی دورے کا مقصد تو خواجہ معین الدین چشتیؒ کے مزار پر حاضری دینا تھا، لیکن جب وزیراعظم من موہن سنگھ نے انھیں ظہرانے کی دعوت دی، تو یہ نجی دورہ نیم سرکاری بن گیا۔ دورہ کے دوران دونوں ممالک کے درمیان تعلقات کی بہتری کے ساتھ بلاول اور راہول گاندھی میں ملاقات سے، بھٹو اور گاندھی خاندانوں کا تعلق تیسری نسل میں منتقل بھی ہوا۔ صدر کے مختصر دورہ بھارت کو دونوں ممالک نے بڑی اہمیت دی اور خیرسگالی کا پیغام قرار دیتے ہوئے اسے دوطرفہ تعلقات میں بہتری کی جانب ایک مثبت پیش قدمی سے تشبیہہ دی۔

دہلی میں خاتون کیساتھ اجتماعی زیادتی کے بعد احتجاجی تحریک
بھارتی دارالحکومت دہلی میں چلتی بس میں خاتون کے ساتھ اجتماعی زیادتی کے خلاف ملک بھر میں احتجاجی تحریک زور پکڑ گئی،پولیس اور مظاہرین میں ٹکرائو سے 100 افراد زخمی ہوئے، مظاہرین نے بھی پولیس کو آڑے ہاتھوں لیا اور شدید پتھرائو کیا جس سے 70پولیس اہلکار زخمی ہوئے، مظاہرین ملزموں کی پھانسی کا مطالبہ کر رہے تھے ، بھارتی وزیر اعظم من موہن سنگھ کو عوام سے پرا من رہنے کی اپیل کرنا پڑی۔

اے این پی کے راہ نما بشیر بلورخودکش حملے میں شہید
22دسمبر کو پشاور میں اے این پی کے سینئر رہنما اور سینئر صوبائی وزیر بشیر بلور کو خودکش حملے میں شہید کر دیا گیا ، اس حملے میں ان کے ہمراہ آٹھ دیگر افراد بھی شہید ہوئے ،دہشت گردی کے خلاف اے این پی کی تاریخ قربانیوں سے بھری پڑی ہے، اس سے قبل بھی ان کے بہت سے کارکن دہشت گردی کے خلاف جدوجہد کرتے ہوئے شہید ہو چکے ہیں۔

عوامی تحرک کا کامیاب جلسہ
پاکستان کی سیاست میں یوں تو بہت سے اتار چڑھائو آتے رہتے ہیں مگر عوامی تحریک کے قائد، شیخ الاسلام علامہ طاہرالقادری کی جانب سے مینار پاکستان گرائونڈ لاہور میں ایک بڑے کامیاب جلسے نے پاکستانی سیاست میں ہلچل مچا دی ، ایک اندازے کے مطابق جلسے میں آٹھ سے دس لاکھ افراد نے شرکت کی، انھوں نے جلسے سے خطاب کرتے ہوئے حکومت کو تین ہفتوں کے اندر انتخابی اصلاحات کرنے اور بصورت دیگر اسلام آباد میں چار ملین کا جلسہ کرنے کا الٹی میٹم دے دیا ہے۔

 

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔