سائبر کرائم…ذمے دار کون؟

رئیس فاطمہ  ہفتہ 29 دسمبر 2012

چند دن پہلے ایکسپریس میں لڑکیوں کو بلیک میل کر کے لاکھوں روپے بٹورنے والے گروہ کے متعلق ایک رپورٹ چھپی ہے،جس کے مطابق بعض کھاتے پیتے گھرانوں کے نوجوانوں نے ڈیفنس میں ایک فلیٹ کرائے پر لیا ہوا ہے، جس میں خفیہ کیمرے نصب ہیں، وہ اس فلیٹ میں متمول گھرانوں کی اور اعلیٰ ملازمتوں پر فائز لڑکیوں کو ورغلا کر لاتے ہیں اور پھر خفیہ کیمروں سے ان کی نازیبا تصاویر اورویڈیو بنالیتے ہیں، بعد میں بلیک میل کرکے روپیہ اینٹھتے رہتے ہیں، بصورت دیگر وہ تصاویر اور ویڈیو انٹرنیٹ کے ذریعے عام کردیتے ہیں۔

اس رپورٹ میں ایک اعلیٰ عہدے پر فائز خاتون اب تک ایک بلیک میلر کو دومرتبہ گاڑی خرید کر دے چکی ہیں جب کہ متعدد قیمتی تحفے اورنقد رقوم علیحدہ ہیں۔ وہ بلیک میلر کچھ تصاویر انٹرنیٹ پر اپ لوڈ بھی کرچکا ہے، اب وہ نئی گاڑی اور فلیٹ کا مطالبہ کر رہا ہے،کیونکہ مذکورہ خاتون ایک غیرملکی کمپنی میں ملازم ہیں اور وہ جانتا ہے کہ اپنی نجی تصاویر کے بدلے وہ سب کچھ کریں گی جو وہ بلیک میلر چاہے گا۔ تعجب کی بات یہ ہے کہ خاتون اعلیٰ تعلیم یافتہ اورکینیڈین شہری ہیں۔ ان خاتون کی والدہ نے جوکہ خود ڈیفنس کی رہائشی ہیں انھوں نے سائبر کرائم سرکل کو ایک درخواست دے کر تفصیلات بتائی ہیں کہ ایک شخص گزشتہ ایک سال سے ان کی بیٹی کو مختلف ہتھکنڈوں سے تنگ کرکے مسلسل رقوم حاصل کر رہا ہے، والدہ کے بقول وہ اب تک 50 لاکھ سے زائد رقم حاصل کرچکا ہے۔ ایف آئی اے سائبر کرائم نے انٹرنیٹ سروس پرووائڈر کی مدد سے گلستان جوہر سے ایک شخص کو گرفتار کیا ہے جو اپنے ساتھیوں کی مدد سے لڑکیوں کو گھیر گھار کر فلیٹ میں لاتے تھے۔ درخواست گزار خاتون کی ہونہار بیٹی نے ملزم کے مطالبات پورے کرنے کے لیے اپنی کمپنی کے اکاؤنٹ سے بھی خطیر رقم نکالی، جس کے بعد موصوفہ کو ملازمت سے ہاتھ دھونا پڑے۔

رپورٹ میں جو کچھ کہا گیا وہ سب درست ہے۔ میں نے تو پانچ سال پہلے اس عذاب کی نشاندہی کی تھی اور چشم دید واقعات کی بناء پر بتایا تھا کہ خالی فلیٹوں اور گھروں میں یہ وارداتیں بڑی مدت سے ہورہی ہیں۔ اس شرمناک سلسلے کو انٹرنیٹ نے فروغ دیا۔ انٹرنیٹ کیفے آج بھی مختلف علاقوں میں وہی کردار ادا کر رہے ہیں جو اکثر بیوٹی پارلرز، موبائل فون نے رابطوں میں آسانی پیدا کردی ہے، جس دن یہ رپورٹ شایع ہوئی ہے اسی دن ایکسپریس ٹی وی کے پروگرام ’’بات سے بات‘‘ میں جن گمبھیر مسائل کی نشاندہی کی گئی ہے، اس پر بھی میں نے کئی کالم بہت پہلے لکھے تھے جس کے جواب میں کئی والدین نے بات کرکے مزید ہولناک انکشافات کیے تھے۔

آج میرا مطمع نظر کچھ اور ہے۔ ان تمام قصوں میں مجرم بے شک لڑکے ٹھہرتے ہیں، لیکن میرا سوال یہ ہے کہ کیا لڑکیاں برابر کی قصوروار نہیں؟ جیساکہ پہلے واقعے میں تمام نزلہ متاثرہ لڑکی کی والدہ نے اس لڑکے پر ڈال دیا جس نے ان کی بیٹی کی قابل اعتراض اور’’انتہائی نجی‘‘ لمحات کی تصاویر اور ویڈیو خفیہ کیمروں سے بنائیں؟ سوال یہ ہے کہ پڑھی لکھی کینیڈین شہریت کی حامل اور غیرملکی کمپنی میں اعلیٰ عہدے پر فائز لڑکی یقیناً اس قصے میں برابر کی قصوروار ہوگی ۔

آخر وہ اس لڑکے کے چکر میں پھنس کر جب اس کے فلیٹ پر پہنچی تو اسے یہ تو پتہ نہیں تھا کہ کمرے میں خفیہ کیمرے نصب ہیں، لیکن اس کمرے میں جو کچھ ہوا وہ لڑکی کی رضا و رغبت کے بغیر ہوا ؟ سوچنے کی بات ہے۔ اسی لیے اس نے بعد میں اس لڑکے کے تمام مطالبات پورے کیے، کیونکہ وہ جانتی تھی کہ تصاویر اصلی ہیں۔ اگر ایسا نہ ہوتا تو وہ بہت پہلے پولیس میں ایف آئی آر درج کرواچکی ہوتی۔ دراصل ہمارے ہاں ایک بڑا غلط رویہ رواج پاگیا ہے اور وہ ہے کسی بھی معاملے میں صرف مردوں کو قصوروار ٹھہرانا اور عورتوں کو دودھ کا دھلا ثابت کرنا۔ جب کہ ایسا نہیں ہے۔ قصوروار دونوں ہیں۔ لڑکے لڑکیاں انٹر نیٹ کی آگ سے بچیں۔اپنی تعلیم پر توجہ دیں۔

موجودہ دور میں رشتوں کا حصول ایک بہت بڑا سماجی مسئلہ بن چکا ہے، عام طور پر اعلیٰ تعلیم یافتہ لڑکیاں اور ان کے والدین ہر لحاظ سے اپنے سے برتر رشتہ چاہتے ہیں، خاص کر وہ لڑکیاں جن کے پاس اعلیٰ ملازمت اور غیرملکی شہریت بھی ہو۔ اپنی پسند کے رشتے کے انتظار میں عمر ڈھلتی جاتی ہے اور رشتے آنا بند ہوجاتے ہیں تو غلطی کا احساس ہوتا ہے اور پھر لڑکیاں خود ادھر ادھر ہاتھ پاؤں مارنے لگتی ہیں۔ کچھ جرائم پیشہ عناصر ان کی اس کمزوری کا فائدہ اٹھاتے ہیں، انھیں شادی کا جھانسہ دے کر خالی فلیٹوں میں لے آتے ہیں اور پھر چونکہ وہ ان کے Would be Husband ہوتے ہیں اس لیے وہ بغیر چوں و چرا کیے ان کی ہر بات مان لیتی ہیں کہ اگر انکار کیا تو کہیں وہ ناراض نہ ہوجائے اور یوں مشکلوں سے ہاتھ آیا ایک رشتہ نہ نکل جائے۔

بس یہیں تربیت کی خامی نظر آتی ہے۔ اگر گھر کی تربیت صحیح ہو تو لڑکیاں یوں بے لگام نہیں ہوتیں، اگر مائیں ان کی مصروفیات اور ان کے حلقہ احباب کے بارے میں جان کاری رکھیں، ان کے آنے جانے کے اوقات نوٹ کریں اور انھیں بتائیں کہ بطور فیشن یا تفریحاً باہر گھومنا اور غیر مردوں سے دوستیاں کرنا مستقبل میں بہت بھاری پڑسکتا ہے، لیکن افسوس کہ اب اچھے گھرانوں میں تربیت کا کوئی تصور نہیں ہے، نوجوان لڑکے اور لڑکیاں کیا کر رہے ہیں، انٹرنیٹ کے ذریعے کیا ہورہا ہے، کالج اور یونیورسٹی میں کیا گل کھلائے جارہے ہیں، پریکٹیکل کا بہانہ کرکے وقت کہاں گزارا جارہا ہے؟

جہاں تک راتوں رات ناجائز طریقوں سے امیر بننے والے گھرانوں کا تعلق ہے تو ان کے لیے لڑکیوں اور لڑکوں کے ناجائز باہمی روابط پر کسی تشویش کا اظہار نہیں کیا جاتا، کیونکہ ان کے لیے ’’ماڈرن‘‘ کہلانے کے لیے بہت سی خرافات بے حد ضروری ہیں۔ ویسے ان خرافات کو فروغ دینے میں ہمارا الیکٹرانک میڈیا بھی اپنا کردار بھرپور طریقے سے ادا کر رہا ہے۔ جینز اور ٹی شرٹ کا آزادانہ استعمال، نیوز ریڈر اور اینکرز کا بغیر دوپٹہ اسکرین پر جلوہ آرائی اب معمول کی بات ہے۔

عجیب بات یہ ہے کہ جن مسائل کا ذکر ان دونوں رپورٹوں میں کیا گیا ہے ان میں 98% فیصد کھاتے پیتے گھرانوں کے لڑکے اور لڑکیاں شامل ہیں اور 2% فیصد وہ ہیں جو دوسروں کی دیکھا دیکھی اس لعنت کا شکار ہوئے۔ نشہ کرنا اب ایک عام بات ہے۔ میں ذاتی طور پر ایسے گھرانوں سے واقف ہوں جن کے بیٹے اور بیٹیاں رات رات بھر جاگتے ہیں، ظاہر ہے رات بھر جاگنے والے وظیفے تو نہیں پڑھتے ہوں گے۔وہ اپنا مستقبل اور گھر برباد کرتے ہیں۔ غیر تعلیم یافتہ والدین تو اولاد سے مرعوبیت کے سبب کچھ نہیں پوچھتے۔

لیکن پڑھے لکھے والدین کا بھی یہ کہنا ہوتا ہے کہ ’’شہر کے حالات خراب ہیں، تو بچے اور کیا کریں؟‘‘ جان بوجھ کر انجان بننا آج کل والدین کا پسندیدہ مشغلہ ہے۔ ہوش اس وقت آتا ہے جب پانی سر سے اونچا ہوجاتا ہے اور ڈوبنے کے آثار پیدا ہوجاتے ہیں، پھر صاحبزادی کی تصاویر موبائل اور انٹرنیٹ کی زینت بنتی ہیں اور ایک وقت ایسا بھی آتا ہے کہ تھک ہار کر پولیس اور ایف آئی اے سے مدد مانگنی پڑتی ہے۔ پولیس کا رویہ ایسی صورت حال میں کیا ہوتا ہے یہ تو سب ہی جانتے ہیں۔ لیکن اس بلیک میلنگ سے نکلنے کا ایک طریقہ ہے۔ وہ یہ کہ جونہی کسی خاتون کو یہ احساس ہو کہ وہ بلیک میلرز کے نرغے میں پھنس گئی ہے۔

اسے فوراً اپنے والدین کو اعتماد میں لے کر سب کچھ بتا دینا چاہیے۔ پھر والدین خود سائبر کرائم سرکل کو درخواست دیں، اس طرح لڑکیاں لٹنے سے بچ جائیں گی جو عزت گئی بدنامی ہوئی، وہ تو واپس نہیں آئے گی۔ لیکن گھر والوں سے خوفزدہ ہوکر کسی انجان آدمی کی ناجائز خواہشات کی بھینٹ چڑھنا اور خطیر رقوم دے کر اس کے حوصلے بلند کرنا کسی طرح بھی صحیح نہیں۔ کسی بھی مصیبت سے نکلنے کے لیے سب سے پہلے والدین کو اعتماد میں لینا ضروری ہے۔ وہ وقتی طور پر ڈانٹیں گے بھی اور ناراض بھی ہوں گے کہ یہ ان کا حق ہے، لیکن دوسروں کے سامنے رسوا ہونے سے بہتر ہے کہ ماں باپ کی ڈانٹ کھالی جائے کہ ماں باپ ہی بہترین دوست اور عزت کے محافظ ہوتے ہیں۔معاشرہ درندوں کے حوالے ہے ۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔