پاکستان سے پہلے اور پاکستان بننے کے بعد

نسیم انجم  اتوار 30 دسمبر 2012
nasim.anjum27@gmail.com

[email protected]

یوم ولادت قائد اعظم آیا اورگزرگیا، پاکستان کی 65 سالہ تاریخ میں یہ دن اس انداز میں کبھی منایا گیا کہ شہر سنسان اور گولیوں کی ایسی بارش جس سے کلیجہ چھلنی ہوجائے، ایک نہیں بیس سے زائد انسانوں کے جسموں کو گولیوں سے چھلنی کیا گیا، بیس گھروں سے جنازے اٹھائے گئے، آپس کی رنجش کے باعث جو اموات ہوئیں وہ علیحدہ ہیں، ایک طرف گریہ و زاری تو دوسری طرف ٹی ٹوئنٹی کی کامیابی کا جشن۔ یہ جشن بھی ٹی وی اور گھروں تک ہی محدود رہا، چونکہ پورا شہر فائرنگ کی زد میں تھا اور اسپتال زخمیوں اور لاشوں سے اٹے پڑے تھے، کیا اسی طرح کامیابی وفتح کے دن کو منایا جاتا ہے؟

بے یارومددگار شہر اور اس کے مکین، ہر سو ویرانی کا راج اور عدم تحفظ کا احساس ہر شخص پر غالب رہا۔ خوف وہراس کا عرصہ سالہا سال پر محیط ہے ایک دن کی بات نہیں، ہر روز شہری لقمہ اجل بنتے ہیں، کوئی مددگار نہیں، قانون اور حکومت کے نام پر امن کا پرندہ مدتیں گزرگئیں اس شہر ہی سے نہیں بلکہ اس ملک سے پرواز کرچکا ہے۔

قائد اعظم کو خراج تحسین پیش کرنے کا انوکھا طریقہ ایجاد کیا گیا ہے۔ اس انداز سے قائد اعظم محمد علی جناح اور ان کے رفقاء کار کی روح خوش ہوگی کہ افسوس کرے گی؟ انھوں نے انتھک محنت اور لاکھوں جانوں کے نذرانے پیش کرکے پاکستان حاصل کیا تھا، اپنی املاک اور عزت و آبرو سے ہاتھ دھونے پڑے تھے، تب کہیں آزادی نصیب ہوئی تھی، اس آزادی سے قبل ہی نعروں کی شکل میں مصمم ارادہ کرلیا گیا تھا کہ پاکستان دنیا کے خطے پر مکمل آب وتاب کے ساتھ ضرور چمکے گا۔ ’’کٹ کے رہیں گے‘ مر کے رہیں گے‘ لے کے رہیں گے پاکستان‘‘۔

اور پھر وہی ہوا مسلمان گاجر مولی کی طرح کاٹے گئے، لیکن اس ظلم و تشدد کے بعد وہ ساعت آہی گئی، جس کی شہادت ٹیپو سلطان اور حضرت اسماعیل شہید نے دی تھی اور اسلام کے شیدائی آخر کار اس مقام پر پہنچ ہی گئے جن راہوں پر احمد شاہ ابدالی، سرسید اور مولانا محمد علی کارواں ملت کو اپنی رہنمائی میں لے کر سوئے منزل رواں دواں تھے، ایک جوش و جذبہ اور قوت ایمانی تھی جس کے تحت مجاہد اسلام کو اس بات پر یقین تھا کہ ’’بن کے رہے گا پاکستان‘‘ لیکن پاکستان بننے سے پہلے مجاہدین کے کیا جذبات و احساسات تھے اسے رقم کرنا موضوع کی مناسبت اور آج آزادی کی ناقدری کے بعد ضروری ہے کہ قائد کی ہر ادا اور ہر کام پر ان کے کارکنان جان دینے کو تیار تھے۔ جناب سید انصار ناصری کا مضمون ’’قائد اعظم اور اعلان آزادی‘‘ میری نگاہوں کے حصار میں ہے۔

’’3 جون 1947 کا دن ہماری جدوجہد آزادی کی تاریخ میں ایک ایسے درخشاں سنگ میل کی حیثیت رکھتا ہے جس کی تابناک یاد سے برصغیر کے مسلمانوں کے قلوب ہمیشہ حرارت تازہ پاتے رہیں گے۔‘‘

3 جون 1947 کا دن برصغیر کی نشریات کی تاریخ میں بھی یادگار ثابت ہوگا کہ اس دن آل انڈیا ریڈیو سے ہندوستان کے وائسرائے لارڈ ماؤنٹ بیٹن نے اپنی آخری نشری تقریر میں سرکار برطانیہ کی طرف سے حکومت کی منتقلی یعنی ہندوستان کی آزادی کا اعلان کیا۔ کانگریس کی طرف سے بھارت کے پہلے وزیر اعظم پنڈت جواہر لال نہرو کی تقریر نشر ہوئی اور مسلم لیگ کی طرف سے حضرت قائد اعظم محمد علی جناح نے پاکستان کے قیام کا اعلان بذریعہ تقریر کیا۔ آل انڈیا ریڈیو سے قائد اعظم کی یہ پہلی اور آخری تقریر تھی، اسے نشر کرنے کے لیے قائد اعظمؒ خود براڈ کاسٹنگ ہاؤس پارلیمنٹ اسٹریٹ تشریف لائے تھے، آفیسر انچارج کی حیثیت سے سید انصار ناصری ڈیوٹی کے فرائض انجام دے رہے تھے، ساتھ میں قائد اعظمؒ کی تقریر کا ترجمہ بھی انھیں ہی کرنا تھا۔

اسٹوڈیو کے تمام افراد اپنی اپنی ڈیوٹیاں خوش اسلوبی اور احسن طریقے سے انجام دے رہے تھے۔ قائد اعظم سے مسلمانوں کی عقیدت اور محبت فطری تھی، اسی عقیدت کے نتیجے میں رسالدار میر افضل خان نے اپنی ڈیوٹی حوالدار امریک سنگھ سے تبدیل کرلی تھی، دوران ڈیوٹی بینی بوشن اسٹوڈیو ایگزیکٹو نے انھیں جاپکڑا اور کڑک دار آواز میں پوچھا۔رسالدار صاحب ! تم اس وقت یہاں کیسے؟ جی میں اسٹوڈیو پر ہوں، لیکن تم تو اپنی ڈیوٹی کرچکے ہو، اس وقت تو حوالدار امریک سنگھ ہوتا ہے، ’’کیوشیٹ‘‘ پر میں نے خود اس کا نام لکھا تھا۔

بالکل صحیح، لیکن کیا کیا جائے کہ حوالدار کی طبیعت اچانک خراب ہوگئی اور انھوں نے اپنی ڈیوٹی مجھے دے دی، رسالدار نے سادگی سے جواب دیا۔ کافی دیر تک بحث و تکرار ہوتی رہی اور آخرکار رسالدار نے غصے میں کہا صاحب! تیز کیوں ہوتے ہو، آپ کہیں تو ابھی واپس چلا جاتا ہوں، آپ اپنا بندوبست کرلیں‘‘۔ بینی بھوشن اس بات سے اچھی طرح واقف تھا کہ اس وقت بندوبست کرنا ممکن نہیں ہوگا، لہٰذا نرم پڑ گیا اور ڈیوٹی کرنے کی اجازت دے دی، دوران گفتگو رسالدار میر افضل نے سید انصار ناصری صاحب سے کہا اجی! آپ کو معلوم نہیں ان سب کے تیور بگڑے ہوئے ہیں، آج میں نے للکار کر کہہ دیا ہے کہ بزدلو! کان کھول کر سن لو، اگر ذرا بھی اونچ نیچ ہوئی تو یاد رکھنا، ہم بریلی کے پٹھان ہیں۔ جناب مولا اور امام عالی مقام کے نام لیوا، اپنا سر ہتھیلی پر لیے پھرتے ہیں، کافروں کو جہنم رسید کرنا ہمارا خاندانی فرض ہے۔ سمجھ کیا رکھاہے انھوں نے۔ اپنے شہنشاہ کی حفاظت کے لیے ان کے نام پر سوار سولہ روپے میں آج کی ڈیوٹی خرید لی ہے۔

کیا کہا ڈیوٹی خرید لی ہے؟ آپ تو کہہ رہے تھے حوالدار امریک سنگھ بیمار ہوگیا تھا، سید صاحب کے پوچھنے پر اس نے بتایا ’’اجی! وہ منحوس کب بیمار ہوتے ہیں اور آپ سے بھلا کیا پردہ، میں خود سویرے سویرے اس کے گھر پہنچا، بستی نظام الدین اولیاء سے پالم جانا اور آنا کوئی اٹھارہ میل کا چکر پڑا، اور اس سے شام کی ڈیوٹی مانگی وہ نہ مانا تو ادّھے کے لیے سولہ روپے اس کی ہتھیلی پر رکھے، تب جاکر مانا، پرانا شرابی ہے، لیکن رسالدار صاحب! آپ کو بھلا کیا سوجھی تھی پیدل گئے اور آئے،اور پھر سولہ روپے بھی برباد کیے۔

لو بھئی! سید صاحب! آپ نے بھی حد کردی، پوچھتے ہیں مجھے کیا سوجھی، اور آج ہندوستان بھر کے مسلمانوں کو کیا سوجھی ہوئی ہے۔ آج ہمارا مدت کا خواب پورا ہونے کو ہے۔ یہ تو کل اٹھارہ میل تھے اگرچہ چونسٹھ میل بھی پیدل چلنا پڑتا اور سولہ روپے تو کیا، اپنی ساری تنخواہ بھی قربان کردینی پڑتی، زیور، برتن بھی گروی رکھنے پڑتے، تب بھی میں آج کی ڈیوٹی کسی دوسرے کو نہ کرنے دیتا۔ بھلا آپ سوچو تو سہی آج کے دن ہماری اسلامی سلطنت کے شہنشاہ حضرت قائد اعظم محمد علی جناح براڈ کاسٹنگ ہاؤس آئیں اور رسالدار میر افضل خان کے زندہ ہوتے کوئی اور چوڑا چمار ان کے لیے دروازہ کھولے، ڈوب نہ مرے، رسالدار میر افضل پھر کس دن کے لیے ہے۔‘‘

اس فکر انگیز گفتگو کے بعد سید صاحب اپنے کمرے میں آئے تو دیکھا، شہزادہ جہانگیر جوکہ مغل خاندان سے تھے الماری کے پیچھے کھڑے ہیں، ان کا قد دراز، گورا رنگ، بڑی بڑی خاص مغلئی آنکھیں جو جہانگیر کی آنکھوں سے مشابہ تھیں اسی مناسبت وہ شہزادہ جہانگیر کہلاتے تھے، لیکن ان کا اصل نام مرزا اسلام الدین تیموری تھا۔ خود بڑے متقی اور پرہیز گار تھے،

کہنے لگے کہ پاکستان عطیہ ربانی ہے، اگر ہم اس کے لیے کوئی استحقاق پید انھیں کرسکتے تو کم ازکم ضبط نفس سے اس کی قدر کریں، اگر کیف و سرور کے ساتھ پاکستان کی ابتداء کی گئی تو وہی ہوگا جو پہلے کئی بار ہوچکا ہے۔ کیا آپ کو یقین ہے پاکستان مل جائے گا؟ شہزادہ جہانگیر نے اطمینان کے ساتھ سید صاحب کے سوال کا جواب دیا۔ جی الحمداللہ! مجھے یقین واثق ہے، کامل بزرگان نے متفقہ فرمایا ہے کہ حکم صادر ہوچکا ہے، اپنے دس کروڑ امتیوںکے لیے ان کی مرادوں اور تمناؤں کے مطابق پاک وطن قائم کرنے کا حکم آقا و مولا علیہ الصلوٰۃ والسلام کی بارگاہ اقدس۔۔۔۔۔۔اس سے آگے وہ نہ بول سکے، ان کی موٹی موٹی آنکھوں سے آنسو بہہ نکلے تھے۔

قائد اعظم براڈ کاسٹنگ ہاؤس میں وقت مقررہ پر پہنچ گئے، قائد اعظم نے ہلکے سرمئی رنگ کا سوٹ زیب تن کیا ہوا تھا۔ رسالدار میر افضل نے اپنے سینے اور گلے کی پوری طاقت کے ساتھ نعرہ لگایا ’’پاکستان زندہ باد، قائد اعظم زندہ باد‘‘۔ قائد اعظم نے مسکرا کر اسے دیکھا اور رشید احمد صاحب سے اس کا نام پوچھا اور مصافحے کے لیے ہاتھ بڑھا دیا۔ اس عزت افزائی کی امید رسالدار کو نہیں تھی۔ لمحہ بھر میں جلد عسکری طمطراق کے ساتھ سیلوٹ کرنیوالا افضل خان عجز و انکسار کی تصویر بنا رکوع کی صورت میں دہرے ہوتے ہوئے قائد اعظم کا ہاتھ اپنے ہاتھ میں لے لیا، وہ بوسہ دیتا کہ قائد اعظم نے بے حد ملائمت کے ساتھ اپنا ہاتھ کھینچ لیا۔ ہندوستان کے 10کروڑ مسلمان جس مبارک ساعت کے منتظر تھے آخر وہ آگئی۔

مسلمانوں کے قائد اعظم آل انڈیا مسلم لیگ کے صدر محمد علی جناح کی گرج دار آواز ہندوستان کے طول وعرض میں ایک نئی آزاد خودمختار سلطنت پاکستان کے قیام کا اعلان کررہی تھی۔ قائد اعظم نے اپنی تقریر کے اختتام پر کہا ’’مجھے امید ہے کہ صوبہ سرحد میں استصواب رائے پرامن طریقے پر ہوگا، ہر شخص کو اس بات کی پوری پوری کوشش کرنی چاہیے کہ صوبہ سرحد کے عوام کی آزادانہ اور منصفانہ رائے حاصل کی جائے، میں دوبارہ تمام لوگوں سے امن و امان برقرار رکھنے کی پرزور اپیل کرتا ہوں، پاکستان زندہ باد!‘‘جس شبانہ روز کی محنت سے پاکستان وجود میں آیا۔ آج مفاد پرستوں نے اسے کس نہج پر پہنچادیا، اس تلخ حقیقت سے ہم سب واقف ہیں اور ایک نئے قائد کے منتظر جو بانی قائد اعظم اور مہاجرین کی جانی و مالی قربانی کو رائیگاں نہ ہونے دے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔