سانپ گزر جانے کے بعد…

شیریں حیدر  اتوار 30 دسمبر 2012
 Shireenhaider65@hotmail.com

[email protected]

کسی سہیلی کی سالگرہ کا تحفہ خریدنا تھا، کچھ سمجھ میں نہ آ رہا تھا تو ایک اور سہیلی سے مشورہ کیا تو اس نے بتایا کہ اسلام آباد میں جگہ جگہ گھروں میں دکان نما کاروبار چل رہے ہیں جن میں مختلف ڈیزائنرز اپنے اپنے سامان بیچنے کے لیے رکھواتے ہیں… اچھا مگر اس سے ان ’’ دکان داروں کو کیا فائدہ ہوتا ہے؟ ’’ میں نے اس نئی قسم کے کاروبار سے آگاہی حاصل کرنے کا سوچا۔ بھئی وہ کمیشن لیتے ہی یا کرایہ… مجھے اس سے اس وقت اس سے زیادہ کوئی غرض نہ تھی سو اس سے پتا پوچھا اور ایف سکس کے علاقے کا رخ کیا جہاں اس نے بتایا کہ ایک سڑک پر لگ بھگ پانچ چھ کاروبار ساتھ ساتھ کے گھروں میں ہیں… وہاں پہنچی تو پہلے گھر پر ایک زنجیر سے بندھا پڑا سا تالا بتا رہا تھا کہ وہ بند تھا، اس سے اگلے، اس سے اگلے کے پاس جا کر بھی ایسے ہی تالوں سے ’’ملاقات‘‘ ہوئی، وہاں کھڑے ایک گارڈ سے پوچھا کہ کیا سب لوگ دن گزر جانے تک بھی کاروبار شروع نہیں کرتے…

’’نہیں بی بی… یہ سب کاروبار ایک سرکاری حکم پر بند کر دیے گئے ہیں… ‘‘

’’اچھا، مگر کیوں ؟ ‘‘ میں نے حیرت سے پوچھا۔

’’جی عدالت نے کہا ہے کہ یہ سب غیر قانونی طور پر گھروں میں کاروبار چلا رہے ہیں… ‘‘ اس نے بتایا، ’’ آپ اس رجسٹر پر اپنا نام اور ٹیلی فون نمبر لکھ دیں، جب دکان کھلے گی تو آپ کو اطلاع کر دیں گے… ‘‘ اگرچہ دوبارہ آنے کا کوئی ارادہ نہ تھا مگر اس تجسس کے تحت کہ کب تک یہ کاروبار بند رہیں گے، جاننے کو میں نے اپنا نمبر وہاں لکھ دیا۔ اتوار کا دن گزرا اور پیر کو مجھے وہاں سے کال آ گئی کہ ہماری دکان کھل گئی ہے…

’’اچھا کیسے… ‘‘

’’بس وہ ایک چھوٹا سا مقدمہ چل رہا تھا، کسی نے غلط ملط شکایت کر دی تھی، مگر اب عدالت نے ہمارے حق میں فیصلہ دے دیا ہے… ‘‘ فون بند ہوا تو مجھے اندازہ ہوا کہ کتنے خوش قسمت لوگ ہیں جن کے مقدمے کا فیصلہ یوں جھٹ پٹ ہو گیا ہے اور ان کے کاروبار طویل عرصے کے لیے متاثر ہونے سے بچ گئے ہیں۔ مگر کیا اتنی سی بات کو سچ مان لیا جائے ؟ عقل سلیم اس معاملے کو اتنا سادہ نہیں سمجھ سکتی… میری ناقص معلومات کے مطابق اسلام آباد میں سی ڈی اے کی حدود میں ماسوائے ڈاکٹروں کے ( جو کہ اپنے گھر کا کچھ فیصد حصہ اپنے ذاتی کلینک کے لیے استعمال کر سکتے ہیں) گھروں میں کاروبار کرنے کی قانونی طور پر ممانعت ہے۔ تو پھر ایسا کیسے ہو جاتا ہے کہ سیکڑوںاور ہزاروں کے حساب سے قانونی خلاف ورزیاں سی ڈی اے کی ناک تلے ہوتی رہتی ہیں اور انھیں اس وقت ہونے دیا جاتا ہے، پھر کسی مقام پر شاید کسی کو خیال آتا ہے کہ اسے روکا جائے۔ مگر تا بکہ… دو دن، چار دن؟ اس کے بعد تو سی ڈی اے یا بے بس ہو جاتا ہے یا کوئی مک مکا ہو جاتا ہے۔ کسی بھی ایسے غیر قانونی کام کی مثال اس جنگلی بیل جیسی ہے جو باغات کی خوبصورتی کو چاٹ لیتی ہے اور اگر اس بیل کی کاٹ چھانٹ کی جائے تو بھی یہ عمل جاری رہتا ہے جب تک کہ اسے جڑوں سے نہ ختم کر دیا جائے۔ شروع میں ہر غلطی سے چشم کوشی کی جاتی ہے، اسے خوب پروان چڑھنے دیا جاتا ہے اور پھر وقت آتا ہے جس وقت بد نیتوں اور کرپٹ لوگوں کو اپنا حصہ ملنا ہوتا ہے، پھر یہ سب غیر قانونی دھندے ان کی سرکاری سرپرستی میں چلتے ہیں اور اس وقت تک چلتے رہتے ہیں جب تک کہ ان کا منہ بند کیا جاتا رہتا ہے، ذرا سے اختلاف پر حساب و کتاب کے گوشوارے کھل جاتے ہیں اور ان کے حصے کے حجم میں اضافہ پھر سے ان غیر قانونی کاموں کی گاڑی کو چلا دیتا ہے۔

یہ صرف انھی کاروباروں پر موقوف نہیں بلکہ ان میں بیوٹی پارلرز شامل ہیں، چپے چپے پر کھلے ہوئے ’’ گھریلو‘‘ اسکول ہیں، جو چار پانچ کمروں پر مشتمل ہیں اور بچوں کو بھیڑ بکریوں کی طرح بھر رکھا ہے، کوئی کھیل کا میدان ہے نہ تفریح کی جگہ مگر یہ سب اسکول چل رہے ہیں۔ تعلیم کے نام کی دھجیاں اڑاتے ہوئے، ایف ٹین سیکٹر اسلام آباد کی ناظم الدین روڈ پر سوا کلومیٹر کے فاصلے میں، گیارہ پرائیویٹ اسکول ہیں جو صبح اور شام کے وقت اس اہم ترین شاہراہ کو مکمل طور پر ٹریفک کے لیے بند کر دیتے ہیں کیونکہ یہاں بچوں کو پک اور ڈراپ کرنے والی گاڑیاں مین سڑک پر ہی کھڑی ہوتی ہیں۔ یہ اسکول کوئی گمنام ہیں نہ ہی چوری چھپے چل رہے ہیں، سی ڈی اے کے قوانین کی سر عام دھجیاں اڑاتے، ان کی بے حسی، بے بسی یا غالباً ان کی کرپشن کا کھلے عام ثبوت دیتے ہوئے… دوسروں کی مشکلات میں اضافہ کرتے ہوئے…

یوں تو میرا معمول کا راستہ اسلام آباد ہائی وے کا ہے مگر یونہی اتفاقاً جو گزشتہ ہفتے جی ٹی روڈ کی طرف نکلی تو اس طرف کھمبیوں کی طرح اگتے ہوئے پلازے اور دکانیں دیکھ کر چند لمحوں کو ششدر رہ گئی، وہ ایک کھوکا سا تنور جہاں سے ہم سال بھر قبل کبھی روٹیاں لینے جایا کرتے تھے اب ایک ہوٹل میں تبدیل ہو چکا ہے اور باقی دکانیں اس وقت مری روڈ کا نقشہ پیش کر رہی تھیں … چند سال میں یہاں راجہ بازار بن جائے گا اور شہ رگ جیسی اہم سڑک سمٹ کر آدھی بھی نہیں رہے گی۔ اسلام آباد مستقبل میں اسی طرف کو پھیل رہا ہو گا اور یہ سڑک جو کہ ابھی بھی نا کافی لگتی ہے اگر اس وقت اس کے کنارے جمتے ہوئے کاروبار روک کر اس سڑک کو وسیع کرنے کے منصوبے تیار نہ کیے گئے تو وہ دن دور نہیں جب ہم اپنی ایک اور کوتاہ نظری کا رونا رو رہے ہوں گے… مگر یہ کون سا ہمارے لیے نئی بات ہو گی۔

اس ملک کو چلایا بھی تو مزدوروں کی طرح جا رہا ہے، جو دیہاڑی لگاتے ہیں اور اسی رات کے کھانے کی بابت سوچتے ہیں، انھیں اس بات پر بھی شک ہوتا ہے کہ کل مزدوری ملے گی اور وہ گھر چلا سکیں گے۔ کوئی ٹاؤن پلاننگ کا تصور ہمارے ہاں نہیں ہے، ہر بڑی سے بڑی ہاؤسنگ سوسائٹی اس طرح وجود میں آتی ہے جیسے اچانک کوئی قدرتی آفت آ جاتی ہے جس میں ہماری عقل اور سوچ کام کرنا چھوڑ دیتی ہے۔ بعد ازاں ہمیں علم ہوتا ہے کہ ہم سڑکیں بنانا بھول گئے، بجلی کے کھمبے لگانا یاد نہ رہا، یہ اندازہ نہ ہوا کہ اتنے لوگوں کے لیے پانی کی ضروریات کیسے پوری ہوں گی، گیس کے کنکشن ناکافی ہو گئے… اور کئی اسی طرح کے مسائل۔

ملکی مسائل اس لیے بھی بڑھتے جا رہے ہیں کہ ہم ہر مسئلے کے حل کی توقع حکومت سے کرتے ہیں، یہ جانے بغیر کہ حکومت کو ’’اور بھی غم ہیں ( ہماری ) محبت کے سوا…‘‘ اور ہم یہ کیوں بھول جاتے ہیں کہ

خدا نے آج تک اس قوم کی حالت نہیں بدلی!!
نہ ہو جس کو خیال آپ اپنی حالت کے بدلنے کا

المیہ یہ ہے کہ ہم اپنے ساتھ خود ہی مخلص نہیں ہیں… اپنے لیے ہم اپنے حکمران منتخب کرتے وقت اپنے ووٹ ہزار پانچ سو روپے کے عوض بیچ دیتے ہیں یا الیکشن کے دن جو ہمیں اچھی بریانی کی پلیٹ کھلا دیتا ہے ہم اسی کے ہو جاتے ہیں۔ شعور ہمیں ہے نہیں اور ہو بھی کس طرح سکتا ہے، جس ملک میں خواندگی کی شرح خطرناک حد تک کم ہو، اور جو شرح بتائی جاتی ہے اس میں وہ لوگ بھی شامل ہیں جو تعلیم کے ’’ بوجھ ‘‘ کو اسی طرح اٹھائے ہوئے ہیں جس طرح کوئی گدھا کتابیں ڈھو لے۔ ز ندگی ایک جہد مسلسل کی سی ہو گئی ہے جہاں ہم سب ہر روز ایک دن کا آغاز کرتے ہیں اور چند گھنٹوں میں انجام ہو جاتا ہے… بغیر اس یقین کے کہ ہم نے کچھ مثبت کیا، اس سوچ کے کہ کچھ سیکھا ، اس احساس کے بغیر کہ ہم اپنے یا اپنے ملک کے ساتھ مخلص رہے ، اپنے لیے کچھ کیا یا کسی کے لیے اس سوچ کے ساتھ کہ اس کا اجر اس سے متوقع نہ ہوتا… مجھے کامل یقین ہے کہ عوام ہونے کی حیثیت سے یہ فقط ہماری سوچ ہی نہیں ہے بلکہ یہی سوچ اور ہر روز کا نتیجہ ہمارے حکمران بھی اخذ کرتے ہوں گے… یہی ہو رہا ہے۔
اس وقت ہم تاریخ کے جس خطرناک عہد میں جی رہے ہیںاس کا سامنا اسی لیے ہے کہ ہم انفرادی مفادات کے لیے لڑ رہے ہیں اور من حیث القوم زوال کا شکار ہیں۔ ایسے حکمرانوں اور ایسے عوام کے ملک کا اللہ ہی حافظ ہے!!!!

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔