کیا ملیر کو سسی کی بد دعا لگ گئی ہے ؟

شبیر احمد ارمان  منگل 10 جنوری 2017
shabbirarman@yahoo.com

[email protected]

ضلع ملیر کے علاقے کا ٹھور کے چالیس گوٹھ بنیادی سہولتوں سے محروم ہیں ، اسکول اور اسپتال بند پڑے ہیں ، پانی کی قلت ہے ، ترقیاتی منصوبے فائلوں میں مکمل دکھا کر کروڑوں روپے ہڑپ کرنے والے افسران ضلع کونسل کراچی کے اہم عہدوں پر فائز ہیں ، ملیر پی ایس 130کے حلقے کے علاقے کاٹھور ، بچوشیخ گوٹھ ،عبدالرحما ن گوٹھ ، لال بخش کا چھیلو گوٹھ ، دین محمد کاچھیلو گوٹھ ، مور فقیر گوٹھ ، غلام رسول گبول گوٹھ ، سنیاسی گبول گوٹھ ، حاجی دین محمد گوٹھ ، سفر کھوسو گوٹھ ، عثمان اللہ رکھیو گوٹھ ، امام بخش گبول گوٹھ ، ارباب گبول گوٹھ ، سومار گبول گوٹھ ، نور محمد گبول گوٹھ ، بجار گبول گوٹھ ، دریا کان گبول گوٹھ ، علی داد گبول گوٹھ ، کیر تھر گبول گوٹھ ،ادلو ما چھی گوٹھ ، عثمان مری گوٹھ ، مبارک بروہی گوٹھ ، مراد علی بلوچ گوٹھ ، حاجی ابراہیم گوٹھ ، سراج احمد گوٹھ ، سمیت 40گوٹھوں میں گزشتہ پندرہ سال سے ترقیاتی کام نہ ہونے کی وجہ سے ان علاقوں کے مکین تعلیم ، صحت ، سیوریج اور دیگر بنیادی سہولتوں سے محروم ہیں ، علاقے کے دس سے زائد اسکول اور سرکاری اسپتال میں تالے لگے ہوئے ہیں ۔

اسکول بند ہونے سے سیکڑوں طلبہ و طالبات تعلیم سے محروم ہیں ، سڑکیں ٹوٹ پھوٹ گئیں ہیں ، ڈرینج نظام نہ ہونے سے مکین سخت پریشان ہیں ، گوٹھوں کے مکینوں کو پینے کا پانی میسر نہیں ، لوگوں کا کہنا ہے کہ ہمارے گوٹھ تمام تر بنیادی سہولتوں سے محروم ہیں ، ہمارے علاقے میں قائم سرکاری اسپتال اور اسکول ویران ہیں ، کئی سالوں سے افسران ترقیاتی منصوبوں کی آ ڑ میں کروڑوں روپے ہڑپ کررہے ہیں ۔ (حوالہ رپورٹ ایکسپریس ، 8جنوری 2017ء )۔ واضح رہے کہ چند روز قبل کراچی کے علاقے ملیر میں پھیلنے والی بخار کی پراسرار بیماری کو چکن گنیا کے نام سے شناخت کرلیا جاچکا ہے ، جس سے متعدد لوگ مبتلا رہ چکے ہیں ۔ یہ بخار مخصوص مچھر کے کاٹنے سے لاحق ہوتا ہے ۔

شہر کراچی کے تمام اسپتالوں میں ایمر جنسی نافذ کرکے مریضوں کے لیے دوائیں اور ڈرپس فراہم کی گئی تھی ۔ یہ بیماری مچھر مار اسپرے نہ کرنے کی وجہ سے پھیلی تھی ۔ ملیر کو کراچی کا قدیم تاریخی اور تہذیبی شہرت حاصل ہے ، ملیر جو کبھی کھیت کھلیانوں، سر سبز باغات اور کراچی کی قدیم بلوچ اور سندھی باشندوں پر مشتمل آبادی کے حوالے سے شناخت رکھتا تھا ، شہر کراچی سے ملیر تقریبا تیرہ میل کے فاصلے پر آباد ہے، یہاں کی آب و ہوا اچھی ہے ، کبھی یہاں پیدا ہونے والی سبزیوں سے پورا کراچی شہر مستفید ہوتا تھا اور پھلوں اور سبزیوں کے حوالے سے ملیر کا ذکر زبان زد عام رہتا تھا ، بلخصوص ملیر کے جام ، ہری مرچ ، پپیتا ، بیر ، بادام ، سبزیاں اور جانوروں کے لیے سبز چارے کی یہاں وافر مقدار میں کاشت کی جاتی تھیں ، یہاں کھجور کے درختوں کی بہتات ہے ،الغرض کہ ملیر کا علاقہ بڑا زر خیز اور سر سبز رہا ہے ، ملیر کی سر سبز و شادابی سے متا ثر ہوکر حضرت شاہ عبداللطیف بھٹائی نے کئی شعر کہے ہیں ۔ ان دنوں بے شمار مسائل کا شکار ہے ۔

وقت کی ستم ظریفی اور اپنوں کی بے اعتنائی کے سبب اب ملیر کی وہ سر سبز و شاداب زمین جو کبھی ہرے بھرے کھیتوں اور پھلوں کے باغات سے لہلہاتی اور جھوم اٹھتی تھی ، وہ اب تقریبا بنجر ہوچکی ہے ، اس کی ایک بڑی وجہ ملیر ندی سے مسلسل ریتی بجری نکالنا ہے ، پہلے یہاں تیس سے چالیس فٹ کی گہرائی پر زیر زمین پانی وافر مقدار میں دستیاب تھا کیوں کہ ملیر ندی کی ریت میں جمع پانی کنووں کے سوتوں کو مسلسل سپلائی برقرار رکھتا تھا ، تقریبا ہر کھیت میں کم از کم ایک بڑا کنواں ضرور ہوتا تھا ، جو پانی کے مسئلے کو بڑی حد تک حل کرتا تھا ، ریتی بجری نکا لنے کی وجہ سے پانی کی زیر زمین سطح نیچے جانے لگی اور کنویں خشک ہونے لگے ،پانی نہ ملنے سے کھیت اور باغات بھی بنجر ہونے لگے ، معاشی طور پر خوشحال خاندان بد حالی کی تصویر بن گئے ، زمیندار اپنی زمینیںسستے داموں بیچنے پر مجبور ہوگئے ۔

کیوں کہ ان کی گزر بسر مشکل ہوگیا تھا ، اس طرح ملیر کی کھیت کھلیان بستیوں کی صورت اختیار کرگئی ، فلیٹ ، پلازے تعمیر ہوگئی ، اب ملیر میں کھیتوں اور باغات کی تعداد میں کمی ہوچکی ہے ، اگر اس علاقے پر توجہ دی جاتی تو یہ علاقہ سبزیوں اور پھلوں کے حوالے سے شہر کراچی کے لیے بڑی حد تک کفالت کا باعث بنتا ، بقول شاعر کے کہ ذرا نم ہوتو یہ مٹی بڑی زر خیز ہے ساقی ، مگر افسوس ! مفاد پرست، خود غرض مافیا نے چند ٹکوں کی خاطر اسے ویران کردیا ، اب بد قسمتی سے یہاں کی زمین پر کوڑے کچرے کے ڈھیر ، سیوریج کا گندا پانی، سیم و تھور کے سوا اور کچھ نظر نہیں آتا ۔ اگر اب بھی ملیر پر توجہ نہ د ی گئی تو بچا کچا ملیر کا کچھ زرعی علاقہ بھی بنجر اور بے آباد ہوکر رہ جائے گا ، ایسی صورت میں سوائے افسوس اور ندامت کے کچھ بھی حاصل نہ ہوگا ۔ ضلع ملیر دو حصوں ، شہری اور دیہی پر مشتمل ہے ۔

شہری حدود میں 13یونین کمیٹیز اور دیہی میں 32یونین کونسلیں ہیں یونین کمیٹی میں داود چورنگی ، مسلم آباد ، مظفر آباد ، مجید کالونی ،کیٹل کالونی ، خلد آباد ، قائد آباد ، معین آباد ، شرافی گوٹھ ، غازی داود بروہی ، جعفر طیار سو سائٹی ، غریب آباد اور بھٹائی آباد شامل ہیں جب کہ یونین کونسلوں میں موڈن ، گڈاپ ، کاٹھور ولیج ، چھور ، اللہ پھائی ، شاہ مرید ، کوغکر ، خا کھرو ، درسا نو چانو ، ملھ ، مراد میمن ، جام علی ، تھانو ، صالح محمد ، ولی محمد ، کو ٹیرو ، گھگھڑ ، چاند پرو ، پپری ، اسٹیل ٹاون ، جوروجی ، گلشن حدید فیز و ن اور فیز ٹو ،چوکنڈی ، رزاق آباد ، ابراہیم حیدری ، حیدر شاہ ، مورورے ، علی اکبر شاہ ، چشمہ، ریڑھی گوٹھ اور جمعہ جمیاتی شامل ہیں ۔ ضلع ملیر کی آبادی کے سر کاری اعداد و شمار دستیاب نہیں ۔ البتہ 5لاکھ 47ہزار207رجسٹرڈ ووٹرز ہیں جن میں سے 2لاکھ66ہزار 601ووٹرز نے حالیہ بلدیاتی انتخابات میں ووٹ ڈالے تھے یعنی کل ووٹ کا 49فیصد ۔ اس طرح 51فی صد ووٹرز نے اپنا حق رائے دہی استعمال نہیں کیا ۔ ضلع ملیر دیہی اور شہری زندگی کا خوب صورت امتزاج رکھتا ہے ۔

اس کے مشرقی علاقوں میں باغات واقع ہیں جہاں سبزیوں ، تر کاریوں کے علاوہ پھل بھی اگائے جاتے ہیں اور یہاں کی بیشتر آبادی کا ذریعہ معاش کھیتی باڑی رہا ہے ، تاہم اب خدمات اور کاروباری شعبوں کی جانب زیادہ دھیان دیا جارہا ہے ۔ ملیر کی یہ زرخیزی ملیر ندی کی مرہون منت ہے جو عموما بارش کے ایام ہی میں بہتی ہے گرمی میں پانی کی قلت کے باعث یہاں کے مکینوں نے اپنے گھروں میں بورنگ کرالی ہے ۔ میٹھے پانی کی قلت کے باعث پینے کا پانی خریدتے ہیں جب کہ غریب طبقہ کھارا پانی ہی پینے پر مجبور ہے جس سے وبائی امراض بھی جنم لیتے ہیں ۔ اب جب کہ ملیر کو صوبائی و قومی اور بلدیاتی منتخب نمائندے میسر ہیں تو امید کی جاسکتی ہے کہ ملیر کے بنیادی مسائل حل کیے جائینگے۔ لفظ ملیر سندھی زبان میں آبادی ، ہریالی اور خوشحالی کی علامت ہے ، تاریخ کے اوراق بتاتے ہیں کہ سندھ میں ملیر کے حوالے سے ماروی کی کہانی بہت مشہور ہے ۔

حضرت شاہ عبداللطیف بھٹائی نے اپنے اشعار میں ماروی کو محب وطن اور ملیر کو محبوب وطن قرار دیا ہے ،یعنی دونوں کو ایک دوسرے کے لیے لازم و ملزوم کہا ہے ۔ کئی مصنفین نے ماروی والے ملیر کو کراچی والے ملیر سے منسوب کیا ہے ، ملیرقدیم آ بادی ہے جہاں صدیوں سے انسان آباد چلے آرہے ہیں ، جوکھیہ ، خاصخیلی ، پالاری ، بارریجہ ، کلمتی ، جدگال ، گورگیج ، ہوت ، رند ، بروہی اور بارانی قبائل کے لوگ آباد ہیں ، یہاں ہندووں کی بنوائی ہوئی کئی عمارات ہیں، یہاں ایک مندر اور پارسیوں کی تعمیر کردہ صحت گاہ بھی واقع ہے ، یہاں عمارتوں میں سکنا مل بلڈنگ ، دولت رام بلڈنگ ، رام باڑی بلڈنگ ، گروگل پاٹھ شالہ اور شانتی کٹی کی کئی عمارات اب بھی قابل دید ہیں ۔ ملیر ندی کا نام اسی علاقے سے منسوب ہے ، جسے دریائے ملیر بھی کہتے ہیں ، اس ندی میں سال کے بارہ مہینے پانی بہتا تھا ، کسانوں نے اس سے براہ راست نالیاں کھود کر اپنے کھیتوں تک لانے کا انتظام کر رکھا تھا ، ملیر ندی کے بارے میں یہ روایت مشہور ہے کہ سسی نے ملیر ندی عبور کرتے ہوئے ملیر کو یہ بد دعا دی تھی کہ تو سر سبز رہے گا مگر سیر نہ ہوگا ۔ کیا ملیر کو سسی کی بد دعا لگ گئی ہے ؟

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔