ایسی پارلیمنٹ اور ایسے ارکانِ پارلیمنٹ کا بھلا کیا فائدہ؟

انعم احسن  منگل 10 جنوری 2017
عدالت کے ریمارکس ہماری اجتماعی سوچ کی عکاسی ہے۔ سراج الحق واحد شخص نہیں ہیں بلکہ ایسے لاکھوں افراد وطن عزیز میں موجود ہیں، لیکن وہ اقتدار کے ایوانوں میں اس لیے نہیں کیونکہ ہم انہیں پہنچانا ہی نہیں چاہتے۔

عدالت کے ریمارکس ہماری اجتماعی سوچ کی عکاسی ہے۔ سراج الحق واحد شخص نہیں ہیں بلکہ ایسے لاکھوں افراد وطن عزیز میں موجود ہیں، لیکن وہ اقتدار کے ایوانوں میں اس لیے نہیں کیونکہ ہم انہیں پہنچانا ہی نہیں چاہتے۔

ایک لمحے کو شہرِ خموشاں کے باسیوں کی مانند سوچنے کا جی کر رہا ہے۔ خیال آتا ہے کہ میں بھی ایک شہرِ خموشاں ہی کی باسی ہوں جس کی مرقد پر بلڈوزر چلائے جارہے ہیں اور میں کچھ کہہ نہیں سکتی۔ خود کو بے بس لاچار اور مجبور تصور کر رہی ہوں۔ خود کو اُن لوگوں کے بیچ میں دیکھ رہی ہوں جو طاقت ہونے کے باوجود کچھ کر نہیں سکتے، ملنے والے مواقع کو ضائع کرکے حالات کا رونا روتے ہیں یا تقدیر کا لکھا تصور کرکے صبر کا درس دیتے ہیں۔

میری یہ حالت گزشتہ روز سپریم کورٹ میں پانامہ کیس کے دوران عدالت کی جانب سے دئیے جانے والے ریمارکس کے بعد ہوئی ہے۔ عدالت کا کہنا تھا کہ آئین کے آرٹیکل 62 اور 63 پر عمل درآمد کیا گیا تو پارلیمنٹ میں موجود تمام اراکین میں سے صرف سراج الحق ہی بچ پائیں گے۔ یعنی آئین پاکستان کے اِن دو آرٹیکل پر 342  ممبران میں سے صرف ایک ہی پورا اُترتا ہے۔

سوچنے کی بات تو یہ ہے کہ آخر آئین کی یہ کون سے آرٹیکل ہیں، جن پر پارلیمنٹ کے ممبران کا پورا اترنا اِس قدر مشکل کام بن گیا ہے؟ اِس حوالے سے آئیے کچھ جاننے کی کوشش کرتے ہیں۔

آرٹیکل 62 کے مطابق صرف وہی شخص مجلس شوریٰ یا پارلیمنٹ کا حصہ بن سکتا ہے جو،

  • اچھے کردار کا حامل ہو اور عام طور پر احکامِ اسلامی سے انحراف میں مشہور نہ ہو۔
  • اِسی آرٹیکل کی شِق (ہ) کے تحت وہ اسلامی تعلیمات کا خاطر خواہ علم رکھتا ہو اور اسلام کے منشور کردہ فرائض کا پابند ہو، نیز کبیرہ گناہ سے اجتناب کرتا ہو
  • جبکہ شق (و) کے مطابق وہ سمجھدار ہو، پارسا ہو، ایماندار اور امین ہو اور کسی عدالت کا فیصلہ اِس کے برعکس نہ ہو۔

لیکن افسوس صد افسوس کہ پانامہ کیس اور بیرون ملک اثاثے اِس بات کے شاہد ہیں کہ اراکین پارلیمنٹ اِس شق پر کتنا پورا اترتے ہیں۔

آرٹیکل 63 اراکین پارلیمنٹ کی نااہلیت کو بیان کرتا ہے، کوئی بھی شخص قومی اسمبلی سے نااہل ہوجائے گا جب،

  • (الف) وہ فاتر العقل ہو اور کسی مجاز عدالت کی جانب سے ایسا قرار دیا گیا ہو۔ (اِس حوالے سے قارئین بہتر فیصلہ کرسکتے ہیں)۔
  • اسی آرٹیکل کی ذیلی شق (ب) کے مطابق وہ غیر بریت یافتہ دیوالیہ ہو۔ (ملک کا کاروبار چلانے والے اور اہم عہدوں پر براجمان ممبران سے باآسانی اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ کون سا فرد کس اہم کام پر معمور ہے اور اس کی صلاحیت و تربیت کیسی ہے)۔
  • اسی آرٹیکل کی شق (ج) خاصی قابلِ توجہ ہے جس کے مطابق ممبران اسمبلی اگر پاکستان کا شہری نہ رہے یا کسی بیرونی ریاست کی شہریت حاصل کرے تو وہ نااہل تصور ہوگا۔
  • اراکینِ پارلیمنٹ کی اکثریت تو ذیلی شق (ر) سے منحرف ہو رہی ہے جس کے مطابق ایسا شخص اسمبلی سے نااہل تصور ہوگا جب اُسے کسی عدالتِ مجاز سے ایسی رائے کی تشہیر یا کسی ایسے طریقے پر عمل کرنا ہو جو پاکستان کے نظریہ، اقتدار اعلیٰ، سالمیت یا سلامتی یا اخلاقیات یا امنِ عامہ کے قیام یا پاکستان کی عدلیہ کی دیانتداری یا آزادی کے لئے مضر ہو یا جو پاکستان کی مسلح افواج یا عدلیہ کو بدنام کرے یا اُس کی تضحیک کا باعث ہو۔ (اِس حوالے سے سیاست دانوں کے میڈیا پر دئیے جانے والے بیانات ہی کو اٹھا کر دیکھ لیجئیے، اگر اُن بیانات کی روشنی میں کارروائی کا آغاز کیا جائے تو نصف سے زیادہ پارلیمنٹ خالی ہوجائے گی)۔
  • اب آتے ہیں ذیلی شق (ع) کی جانب جس کے مطابق رکن پارلیمنٹ اُس وقت نااہل ہوجائے گا کہ اگر اُس نے دو ملین روپیہ یا 20 لاکھ روپے سے زیادہ قرضہ لیا ہو۔ کسی بینک، مالیاتی ادارے، کو آپریٹو سوسائٹی یا کو آپریٹو باڈی سے، اپنے نام پر یا اپنی بیوی، خاوند یا بچوں کے نام پر لیا ہو اور پھر ایک سال تک اُس کی ادائیگی ممکن نہ ہوسکی ہو، یا اُس قرضہ کو معاف کروایا گیا ہو۔ (مگر جناب پانامہ کیس، بینکوں سے قرضوں کی معافی یا قرضوں کی ادائیگی نہ کرنا تو یہاں کی سیاست کا مزاج ہے)۔

عدالت کے ریمارکس کے بعد میں سوچنے لگی کہ یہ اراکین تو ہم نے خود ہی پارلیمنٹ میں بھیجے ہیں اپنے ووٹوں سے منتخب کرکے، نعرے لگا کر، چندہ دے کر، وقت دے کر، انتخابی مہم چلا کر، وسائل بھی انہیں ہم نے خود ہی فراہم کئے تاکہ پارلیمنٹ میں جا کر ہمارے مسائل حل کریں۔ لیکن اہم سوال یہ ہے کہ کبھی وسائل دینے سے پہلے ہم نے اپنے نمائندے کے بارے میں سوچا ہے کہ وہ کس کردار کا حامل ہے؟ ہم تو ایسے لیڈر پر فخر کرتے ہیں جو جیل کی ہوا کھا کر آئے، ایسا لیڈر ہمارے لئے باعثِ تقلید سمجھا جاتا ہے جو بیرون ملک میں سرمایہ لگا کر دولت کما رہا ہو، وہ نمائندہ زیادہ مہذب سمجھا جاتا ہے جو قرض معاف کروا کر علاقے کا نامی بدمعاش ہو، اُس کی دولت ہی اُس کی خامیوں پر پردہ ڈال دیتی ہے۔ جبکہ دوسری طرف نسبتاً سنجیدہ، محب وطن، دیانت دار اور مڈل کلاس سے تعلق رکھنے والا فرد صرف اِس بنیاد پر ہم نظر انداز کردیتے ہیں کہ اِس نے کون سا جیت جانا ہے؟ اِس نے تو ممبر اسمبلی بننا نہیں ہے تو ہم اپنا ووٹ ضائع کیوں کریں؟ ہماری اسی سوچ نے آج عدالت کو ایسے ریمارکس دینے پر مجبور کیا۔

یہ ریمارکس ایک کیس پر دئیے جانے والے ریمارکس نہیں بلکہ ہماری اجتماعی سوچ کی عکاسی ہے۔ سراج الحق بھی اسی پارلیمنٹ کا حصہ ہیں، یہ بھی آسمان سے اتری ہوئی کوئی مخلوق نہیں، اور نہ یہ کوئی واحد شخص ہیں۔ ایسے ہزاروں نہیں لاکھوں افراد وطن عزیز میں موجود ہیں، لیکن وہ محض اِس لیے اقتدار کے ایوانوں تک نہیں پہنچ پاتے کیونکہ ہم انہیں پہنچانا ہی نہیں چاہتے۔ اس لئے ہمیں اپنی اجتماعی سوچ کو بدلنے کی ضرورت ہے۔ ملک اور قوم کی تقدیر سیاست دانوں نے نہیں بلکہ ہم نے خود بدلنی ہے۔ اپنے ووٹ کے حق کے ذریعے، اپنے وسائل اور نعروں کے ذریعے، ایسے نمائندے منتخب کرکے جو آئین کے آرٹیکل 62 اور 63 پر پورا اُترتے ہیں۔

شہرِ خموشاں کے بند دریچوں سے نکل کر معاشرے، ملک اور قوم کو بدلنے کے لئے تبدیلی اپنے اندر لائیں تاکہ اِس ملک کے ماتھے پر مایوسیوں کے اندھیروں کے بجائے اُمید اور خوشحالی کی روشنیاں جگمگا سکیں۔ اپنے دلوں پر تبدیلی کے قمقمے روشن کریں تو ارضِ وطن ترقی اور خوشحالی سے نکھر اٹھے۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

اگر آپ بھی ہمارے لئے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کےساتھ [email protected] پر ای میل کریں۔
انعم احسن

انعم احسن

بلاگر نے ادارہ علوم ابلاغیات جامعہ پنجاب سے ڈویلپمنٹ جرنلزم میں ماسٹر کیا ہوا ہے۔ قومی اخبارات میں "ادراک " کے نام سے قلم کے رنگ بکھیرنے کی کوشش کرتی ہیں۔ ادب، تعلیم ،ظلم نا انصافی اور معاشرتی مسائل پر تحریر کرنے کی سعی کرتی ہیں ۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔