بک ریویو؛ ’’محبت راستے میں ہے‘‘

عارف عزیز  بدھ 11 جنوری 2017
ہر دور میں شعراء نے نظم اور غزل دونوں اصنافِ سخن میں رومانوی جذبات کا اظہار کیا، لیکن جب شعراء نے محبوب کے روایتی تصور سے جان چھڑائی اور لب و لہجہ بدلا تو رومانوی شاعری میں بھی نئے امکانات نے جنم لیا۔

ہر دور میں شعراء نے نظم اور غزل دونوں اصنافِ سخن میں رومانوی جذبات کا اظہار کیا، لیکن جب شعراء نے محبوب کے روایتی تصور سے جان چھڑائی اور لب و لہجہ بدلا تو رومانوی شاعری میں بھی نئے امکانات نے جنم لیا۔

وجیہ ثانیؔ اُن شعراء میں سے ہیں، جو غزل کی روایت اور تقاضوں سے نہ صرف واقف ہیں، بلکہ اِنہیں محبوب بھی رکھتے ہیں، لیکن اپنی شاعری میں نئے الفاظ برتنے اور خیال کو نئے ڈھب سے باندھنے میں بھی کوئی جھجک محسوس نہیں کرتے۔ اُنہوں نے نئی علامتوں، تشبیہات، استعاروں اور اشاروں سے اپنی شاعری کو مرصع کرنے کی کوشش کی ہے، جو کسی بھی شاعر کے کلام کی انفرادیت کا باعث بنتا ہے۔

وجیہ ثانیؔ کے اکثر اشعار میں نئے پن اور بے ساختگی کا احساس ہوتا ہے۔ پیشِ نظر مجموعۂ کلام کے مطالعے سے آپ پر کُھلے گا کہ شاعر کی زندگی پر غمِ جاناں حاوی ہے۔ نظم اور غزل دونوں اصناف میں وجیہ کے ہاں عشقیہ مضامین غالب نظر آئیں گے۔

اِس شاعری پر مزید بات کرنے سے پہلے شاعر کا دو سطری تعارف اور اپنی ایک کوتاہی کا اعتراف بھی کرنا چاہتا ہوں۔ ٹیلی ویژن ایک اہم اور مؤثر ذریعۂ ابلاغ ہے اور وجیہ اِسی سے منسلک ہے۔ اِس نوجوان نے الیکٹرانک میڈیا کی دنیا میں قدم رکھا تو خبر خوانی کا شعبہ اپنایا، شاعری شروع کی تو جلد ہی ادبی حلقوں میں پہچانا گیا اور آج صاحبِ کتاب ہے۔ اعتراف یہ کرنا تھا کہ اِس مجموعۂ کلام پر تبصرہ کرنے میں مجھ سے غیر ضروری اور بے جا تاخیر ہوئی۔

شاید، اِس عرصے میں وہ محبت جو راستے میں تھی، اپنی منزل تک پہنچ چکی ہوگی۔ بہرحال، ہوئی تاخیر تو کچھ باعثِ تاخیر بھی تھا۔ اب وجیہ کی شاعری پر بات کرتے ہیں۔

عشقیہ مضامین، اردو شاعری کی بنیاد ہیں۔ ہر دور میں شعراء نے نظم اور غزل دونوں اصنافِ سخن میں رومانوی جذبات کا اظہار کیا، لیکن جب شعراء نے محبوب کے روایتی تصور سے جان چھڑائی اور لب و لہجہ بدلا تو رومانوی شاعری میں بھی نئے امکانات نے جنم لیا۔ وجیہ کی شاعری اِسی کا تسلسل ہے۔ اُس کے ہاں جذبات کی فراوانی اور کیفیات میں شدت ہے۔ سادہ اور رواں طرزِ بیاں اُس کی شاعری کا نمایاں وصف ہے۔ مختصر بحروں کے ساتھ بعض اشعار میں نامانوس قوافی وجیہ کے کلام کا حُسن بڑھاتے ہیں، اور اُن کا منفرد برتاؤ نظر آتا ہے۔ اِس مجموعۂ کلام پر سرسری نظر ڈالنے والا بھی یہ جان سکتا ہے کہ شاعر روایتی تقاضوں کی تکمیل کے جھنجھٹ میں پڑے بغیر اپنی بات کہنے کا عادی ہے۔ وہ تصنع سے دور ہے، اُس کا لہجہ بناوٹی نہیں۔ سیدھے سادے انداز میں اپنے دل کی بات کرنے والا یہ شاعر جب اپنے محبوب سے مخاطب ہوتا ہے تو لہجے سے بے تکلفی اور وارفتگی جھلکتی ہے جس سے ایک غیر متوقع احساس جنم لیتا ہے۔ وجیہ کے مجموعۂ کلام سے چند اشعار نقل کررہا ہوں۔ دو خوب صورت اشعار:

ترے غم کو سمیٹا جب تو دیکھا
اداسی صحن میں بکھری پڑی ہے
لکیریں ہجر کا دکھ رو پڑیں یا۔۔۔
تمہارے ہاتھ میں مہندی رچی ہے

اور یہاں وہ اپنے محبوب سے مخاطب ہیں:

آپ ناراض ہیں مگر جانی
آپ کی بات کب نہیں مانی
خوش نصیبی تو دیکھیے اپنی
آپ پر مر مٹے وجیہ ثانیؔ

یہ شعر ملاحظہ کیجیے:

انگلیاں اُس کی جگمگا اٹھیں!
میری آنکھوں پہ ہاتھ رکھنے سے

اور شاعر کا یہ رومانوی انداز:

بس ایک معافی، ہماری توبہ کبھی جو ایسے ستائیں تم کو
لو ہاتھ جوڑے، لو کان پکڑے، اب اور کیسے منائیں تم کو
جو سچ کہیں تو، تمھیں تو غصے نے اور دل کش بنا دیا ہے
ہمارے مَن کو تو سوجھتا ہے، اب اور غصہ دلائیں تم کو

وجیہ نے اپنی ایک نظم کا مصرع اس کتاب کا عنوان کیا ہے:

ہمارے رابطے میں ہے
محبت راستے میں ہے

یہ وجیہ کا پہلا مجموعۂ کلام ہے، جس میں وہ رومانوی موضوعات تک محدود ہے۔ ماہ و سال کی گردش نے غمِ دوراں کی طرف متوجہ کیا تو جہاں فکر و نظر کے نئے زاویے ہمارے سامنے آئیں گے، وہیں اردو ادب میں وجیہ کے مقام و مرتبے کا تعین کرنے میں بھی آسانی ہوگی۔

یہ شعری مجموعہ سامیہ پبلیکشنز نے شایع کیا ہے۔ 208 صفحات پر مشتمل اِس کتاب کی قیمت 400 روپے ہے۔ آرٹ پیپر کے ساتھ اِس کتاب کی طباعت اور اشاعت نہایت عمدہ اور معیاری ہے جس پر پبلشر بھی مبارک باد کا مستحق ہے۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

اگر آپ بھی ہمارے لئے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کےساتھ [email protected] پر ای میل کریں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔