تھر کا کالا سونا

فریدہ فرحت آغازئی  بدھ 11 جنوری 2017

بہت پرانی بات تو نہیں ہے۔ یہی 2014ء کے اوائل میں سندھ فیسٹیول منعقد کیا گیا تھا، جس میں کروڑوں روپے پانی کی طرح بہائے گئے تھے اور جس کا مقصد صرف اور صرف ڈیموکریسی ڈانس ان ڈیزرٹ تھا۔ وہ آئے جن کا اس ملک اور اس کے چھوٹے بڑے شہروں کے چھوٹے بڑے مسائل سے دور دور تک کوئی واسطہ نہ تھا۔ انھیں یہ ادراک نہیں تھا کہ اپنے منورنجن کے لیے جن نئی جگہوں کا انتخاب وہ کررہے ہیں وہاں تو بھوک اور افلاس پہلے ہی سے رقص کررہی ہے، بغیر پانی اور بجلی اور کسی بھی طرح کی بنیادی ضروریات سے محروم ان نئی Locations پر تو خوشی اور سرمستی جیسی عیاشیاں ہونا صدیوں سے ہی خارج از امکان رہا ہے۔

غربت نے وہاں ڈیرے ڈال رکھے ہیں اور ایسے ساتھ دیتی ہے کہ کوئی قریبی دوست بھی کیا دے گا۔ یہی وجہ ہے کہ بیماریوں، تکلیفوں، بے روزگاریوں، بھوک، افلاس، ستم ظریفی، سبھی سے نسل در نسل رشتہ نہ صرف استوار رہا بلکہ گزرتے وقت کے ساتھ مضبوط تر ہوتا چلا گیا۔ دوسری طرف تو جلد بس لوکیشن ڈھونڈی گئی اور صحرا میں خوب خوب جشن طرب منایا گیا اور جو دوسری دنیا کے باسی تھے وہ اپنی منزل کو سدھارے۔ کسی نے یہ جاننے کی کوشش نہیں کی کہ اس سحر انگیز نئی اور یونیک لوکیشن پر کتنی زندگیوں نے بھوک، پیاس، افلاس سے دم توڑ دیا تھا۔

بعد میں میڈیا نے بہت شور مچایا اور اخبارات نے بھی خبریں شایع کیں، لیکن کچھ بھی نہ ہوا۔ بے حسی جو اب ارباب اقتدار کا اوڑھنا بچھونا بن گئی ہے۔ سو ان سے بھلائی کی امید رکھنا ہی غلط ہے، لیکن اس سب کا افسوسناک اور دردناک پہلو یہ ہے کہ جب ووٹ چاہیے ہوگا، تب یہی اندرون سندھ کے لوگ ان کے واپس اقتدار کے ایوانوں میں تخت نشین بن جانے کے ذمے دار بھی ہوںگے۔

ہوتا تو شہروں میں بھی یہی ہے، لیکن شہروں میں دھاندلی سے ہوتا ہے اور شہری عوام کی خاموشی ان کے لیے زہر قاتل بن جاتی ہے، لیکن دیہاتوں میں عوام اپنے نمایندوں کو خدا سمجھ کر منتخب کرتے ہیں، جس کا نتیجہ یہ ہے کہ ان کے خداؤں نے انھیں زیور تعلیم سے آراستہ ہونے نہیں دیا اور غلامی کی زنجیروں کو توڑنے کے لیے ان کے پاس قوت، اعتماد کی شدید قلت ہے۔ بہرحال 2017ء کی پہلی صبح جب ہم عازم سفر ہوئے تو دل اور دماغ میں ایک عجیب سی کشمکش چل رہی تھی، کیونکہ ہم جارہے تھے تھر پارکر۔ یہ وزٹ تھر کول پاور پلانٹ کا تھا جس کا موقع ہمیں پاکستان کونسل آف میڈیا ویمن کی بدولت مل رہا تھا۔ یہ گروپ ان خواتین نے بنایا ہے جوکہ میڈیا سے وابستہ خواتین کو ایک پلیٹ فارم پر لاکر نہ صرف ان کے حقوق کی پاسبانی کرتی ہیں بلکہ صحافتی تقاضوں کو بھی دل کی گہرائیوں سے نبھانے کے لیے بھی ہر گاہ کوشاں رہتی ہیں۔

خیر ہماری سواری ہمیں لے کر منزل کی جانب گامزن ہوئی۔ کراچی میں اور کراچی کے باہر تقریباً آدھا راستہ نہایت دشوار گزار اور ٹوٹ پھوٹ کا شکار تھا۔ لیکن پھر سجاول سے کافی پہلے سے اسلام کوٹ تک ہم نے جس سڑک پر سفر کیا وہ بہترین تھی اور لگ ہی نہیں رہا تھا کہ ہم سندھ کے پسماندہ علاقوں میں سفر کررہے ہیں۔ 9 گھنٹوں کا سفر کرکے ہم پہلے مٹھی اور پھر اسلام کوٹ پہنچے۔

راستے بھر اونچی نیچی پہاڑیوں کا سلسلہ چلتا رہا اور راستے کے دونوں طرف خود رو پودے، جھاڑیاں اور درختوں کا بھی ساتھ مسلسل رہا اور آپ یقین کریں کہ بہ یک وقت سبز رنگ کے اتنے شیڈز دیکھنے کو ملے کہ شاید پہلے میں نے نہیں دیکھے تھے۔ اس پر پہاڑیوں کے دامن میں کافی اونچائی پر کچھ آبادیاں تھوڑے تھوڑے فاصلے پر موجود وہاں انسانوں کی موجودگی کا ثبوت دے رہی تھیں۔ یہ گھر ایک نوک دار ٹوپی کی شکل کے گھاس پھونس کی بنی ہوئی اسٹائلش جھونپڑیاں تھیں جوکہ وہاں کی ثقافتی علامتوں میں نہ صرف شمار ہوتی ہے بلکہ وہاں کے لوگوں کو اتنی محبوب ہے کہ اگر پکے گھر بھی بن جائیں تو ایک طرف اس ثقافت کو زندہ رکھنا ضروری سمجھتے ہیں۔ یہ چورا یا چونرا کہلاتا ہے۔

خوشگوار سی کیفیت میں سفر کا اختتام ہوا اور ہم ریسٹ ہاؤس پہنچادیے گئے، لنچ کیا، فریش ہوئے اور پھر سفر شروع ہوا، ہمیں بلاک 2 کے آفس میں بریفنگ دی گئی۔

بریفنگ کی تفصیلات سے پہلے میں آپ کو بتاتی چلوں کہ تھر پارکر ڈسٹرکٹ، جس کا ایریا 19,638 کلومیٹر ہے اور آبادی 2,226,4653 ہے جس میں سے مسلم آبادی 61.4 فیصد اور ہندو 35.58 فیصد ہے۔ 1965ء میں 80 فیصد ہندوؤں اور 20 فیصد مسلمان آبادی ہوا کرتی تھی۔ اور زیادہ تر بزنس اور پیسہ بھی ہندوؤں کے ہی پاس تھا۔ مٹھی تھرپارکر کا کیپٹل ہے۔ اسلام کوٹ اور آس پاس کے علاقے کو 13 بلاکس میں تقسیم کیا گیا ہے اور سب سے پہلے ان کا کام بلاک 2 میں شروع ہوا۔ ہمیں بتایا گیا یہ کام شروع بلاک 2 سے ہوا ہے لیکن وقت اور کامیابی پورے 13 بلاکس کو فعال بنا دے گا، بس ایک مقررہ ٹائم درکار ہوگا۔

فروری 2016ء وہ تاریخ جس نے تاریخ میں جگہ بنالی ہے، سندھ اینگرو کول مائننگ کمپنی نے اس تاریخ کو باقاعدہ Coal Project کا آغاز کیا، جب کہ تیاریاں تو پہلے سے ہی جاری تھیں۔ چائنا کے ساتھ ایگریمنٹ، سندھ حکومت کا حیرت انگیز اور خوش آیند تعاون، اینگرو کی آسمانوں کو چھوتی ہوئی کاوشیں، جس کے نتیجے میں پاکستان ساتویں نمبر پر آگیا۔ کم و بیش 3 لاکھ ایکڑ پر کول نکلا، جوکہ 160 میٹر کی گہرائی میں پایا گیا۔

اس میگا پروجیکٹ میں سندھ گورنمنٹ 54.7 فیصد جب کہ 50 فیصد کی شیئر ہولڈر ہے اور گورنمنٹ آف سندھ بہت سنجیدگی سے اس معاملے کا ساتھ دے رہی ہے جوکہ نظر بھی آرہا ہے۔ ایئرپورٹ روڈ اور سہولیات جوکہ ابھی تک تھر کے عوام کو نہیں ملی ہیں اس طرح سے، لیکن چونکہ بڑا کام ہے وقت تو لے گا۔

جیساکہ SECMC کے انجینئر نے ابتدائی بریفنگ میں بتایا کہ تھر کا جو علاقہ SECMC پروجیکٹ کا حصہ ہے اس کو 13 بلاکس میں تقسیم کیا گیا ہے اور ابھی صرف بلاک 2 پر سارا کام ہو رہا ہے ، بلاک 2 میں بھی 6000 ایکڑ میں کام ہو رہا ہے جب کہ ٹوٹل 24000 ایکڑز ہیں۔ اور وقت اور محنت شامل حال رہی تو تمام 13 بلاکس سونا اگل رہے ہوں گے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔