پاناما کیس میں عمران خان کے وکیل نعیم بخاری کے دلائل مکمل

ویب ڈیسک  بدھ 11 جنوری 2017
عدالت میں موجود لوگ سنجیدہ ہوں،ورنہ عدالت خود سنجیدہ کرے گی،جسٹس شیخ عظمت فوٹو: فائل

عدالت میں موجود لوگ سنجیدہ ہوں،ورنہ عدالت خود سنجیدہ کرے گی،جسٹس شیخ عظمت فوٹو: فائل

 اسلام آباد: پاناما کیس میں عمران خان کے وکیل نعیم بخاری نے اپنے دلائل مکمل کرلیے ہیں جب کہ عوامی مسلم لیگ کے سربراہ شیخ رشید نے اپنے دلائل میں موقف اختیارکیا ہے کہ قطری خط کی حیثیت ٹشو پیپر سے زیادہ نہیں کیونکہ یہ بیان حلفی کے بغیر اور سْنی سنائی باتوں پر مبنی ہے اور سنی سنائی بات کی کوئی قانونی حیثیت نہیں ہوتی۔

سپریم کورٹ میں پاناما کیس کی سماعت کے دوران عمران خان کے وکیل نعیم بخاری نے اپنے دلائل جاری رکھتے ہوئے کہا کہ نوازشریف اور ان کے بچوں کےبیانات میں تضاد ہے، کمپنی کا بیریئر سرٹیفکیٹ پرائز بانڈ نہیں ہوتا کہ جس کے پاس ہو آف شور کمپنی اس کی ہوگی، قانون کے مطابق بیریئر سرٹیفکیٹ سے متعلق آگاہ کرنا ضروری ہے،قانون کے اطلاق سے فلیٹس کے ملکیت کی منتقلی تک بیریئر کا ریکارڈ دینا ہو گا۔ رجسٹریشن کے نئے قانون کا اطلاق سب پر ہوتا ہے، شریف خاندان کےبقول 2006 سےقبل بیریئر سرٹیفکیٹ قطری خاندان کے پاس تھے، اس لئے شریف خاندان کو بھی سرٹیفکیٹ کا قطری خاندان کے پاس ہونے کا ثبوت دینا ہوگا۔

نعیم بخاری نے کہا کہ بلیک لاءڈکشنری کے مطابق زیرکفالت وہ ہوتا ہے جس کےاخراجات کوئی دوسرا شخص برداشت کرے، نوازشریف نے مریم کو کروڑوں روپے بطور تحفہ دیے، مریم نواز کے پاس آف شور کمپنیوں کے لیے پیسا نہیں تھا،آف شور کمپنیوں کے لیے مریم کو رقم نوازشریف نے دی۔ ہر شخص چاہتا ہے کہ اس کی بیٹی کی شادی کے بعد کفالت اس کا شوہر کرے جب کہ ریکارڈ کے مطابق کیپٹن ریٹائرڈ صفدر کی کوئی آمدن نہیں تھی۔

جسٹس شیخ عظمت نے استفسار کیا کہ اگر آپ کی تعریف مان لیں تو کیا مریم حسین نواز کے زیر کفالت ہیں، ابھی بھی یہ تعین ہونا باقی ہے کہ فلیٹس کب خریدے گئے۔ آپ کے بقول شریف خاندان نے یہ فلیٹس 1993 اور 1996 کے درمیان خریدے جب کہ شریف فیملی کے بقول انھیں فلیٹس 2006 میں منتقل ہوئے، جسٹس اعجاز افضل نے سوال کیا کہ کیا والد کے ساتھ رہنے والا زیرکفالت ہوتا ہے۔ جسٹس آصف سعید کھوسہ نے کہا کہ یہ باتیں پہلے بھی ہو چکی ہیں کوئی نیا نکتہ بیان کریں۔

عمران خان کے وکیل نے اپنے دلائل مکمل کرتے ہوئے عدالت سے استدعا کی کہ ہم عدالت سے وزیراعظم کی نا اہلی کا فیصلہ چاہتے ہیں۔ جس پر جسٹس آصف سعید کھوسہ نے کہا کہ آپ نے عدالت کی بہترین معاونت کی ہے۔

نعیم بخاری کے بعد عوامی مسلم لیگ کے سربراہ شیخ رشید نے اپنے دلائل میں کہا کہ وہ نعیم بخاری کی جانب سے دیئے گئے تمام دلائل سے متفق ہیں۔ میرا کوئی بچہ یا فیملی نہیں لیکن یہ قوم ہی میری فیملی ہے، یہ ایک خاندان بامقابلہ بیس کروڑ عوام کا کیس ہے، عدالت سب کچھ جانتی ہے ہم صرف معاونت کے لیے آتے ہیں، ایک طرف مریم کہتی ہیں کہ ان کی آمدن نہیں دوسری طرف وہ امیر ترین خاتون ہیں۔

شیخ رشید نے کہا کہ ہر روز ایک ارب چالیس کروڑ روپے چھپائے جارہے ہیں ، ان رقوم کو چھپانے کے لیے ماہر افراد کی خدمات لی جاتی ہیں، انہیں ساڑھے 7 ارب ڈالرز بیرون منتقل کرنے کی بات سن کر افسوس ہوا، یہ پیسہ ملک کا ہے، اسحاق ڈار نے اربوں روپے دبئی منتقل کرنے کا اعتراف کیا، نواز شریف پاناما کیس میں براہ راست ملوث ہیں، قطری شہزادہ مین آف دی میچ ہے اور شریف خاندان قطری خط کے پیچھے چھپ رہا ہے، قطری خط رضیہ بٹ کا ناول ہے، قطری شہزادہ نواز شریف کے لیے ریسکیو 1122 ہے۔ سب سے پہلے ہم نے قطری نام ہیلی کاپٹر کیس میں سنا۔

عوامی مسلم لیگ کے سربراہ کا کہنا تھا کہ نواز شریف نے دو افراد کو زیر کفالت ظاہر کیا، وہ دو افراد ان کی اہلیہ اور مریم نواز ہیں، قطری خط کی حیثیت ٹشو پیپر سے زیادہ نہیں، یہ بیان حلفی کے بغیر اور سْنی سنائی باتوں پر مبنی ہے، سنی سنائی بات کا کوئی ثبوت نہیں ہوتا، قانون کے مطابق زبانی ثبوت براہ راست ہونا چاہیے۔ اس خط کے پیچھے اصل چہرہ سیف الرحمن کا ہے، پورٹ قاسم پاور پلانٹ سیف الرحمن کو دیا گیا،ایل این جی کا ٹھیکہ بھی سیف الرحمن کی کمپنی کو دیا گیا۔

شیخ رشید کے دلائل پر عدالت میں قہقہے گونج اٹھے جس پر جسٹس عظمت سعید شیخ نے برہمی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ عدالت میں موجود لوگ سنجیدہ ہوں ورنہ عدالت خود سنجیدہ کرے گی۔

عوامی مسلم لیگ کے سربراہ نے کہا کہ فروری 2006 کو مریم نواز نے ٹرسٹ ڈیڈ پر لندن میں دستخط کیے، ڈیڈ پر بطور گواہ کیپٹن ریٹائرڈ صفدر جب کہ وقار احمد کے دستخط ہیں، حسن نواز نے 4 فروری 2006کو ڈیڈ پر دستخط کیے۔ جسٹس آصف سعید کھوسہ نے ریمارکس دییے کہ ٹرسٹ ڈیڈ کی سفارتخانے سے تصدیق نہیں ہوئی، جس پر شیخ رشید نے کہا کہ جب ایک فرد لندن دوسرا جدہ میں ہو تو تصدیق کیسے ہوسکتی ہے۔ جسٹس شیخ عظمت نے ریمارکس دیئے کہ جس ٹرسٹ ڈیڈ کا آپ ذکر کررہے ہیں وہ نیلسن اور نیسکول کی نہیں، لگتا ہے کومبر گروپ کی ٹرسٹ ڈیڈ غلطی سے جمع کرائی گئی، نیلسن اور نیسکول والی ٹرسٹ ڈیڈ بعد میں جمع کروائی گئی، کیا پنڈی میں کوئی جائیداد بغیر رجسٹری بیچی جا سکتی ہے۔ جس پر شیخ رشید نے کہا کہ پنڈی میں گواہ نہ ہوں تو ایک سائیکل بھی نہیں بکتی، اللہ تعالی نئے راستے دکھانے کے لیے غلطیاں بھی کرواتا ہے۔

جسٹس آصف سعید کھوسہ نے استفسار کیا کہ اگر دونوں دستخط کرنے والے ٹرسٹ ڈیڈ کو تسلیم کریں تو پھر کیا صورتحال ہو گی۔ جس پر شیخ رشید نے کہا کہ میرا ایمان ہے آپ کو دستاویزات کی حقیقت کا علم ہے، جج صاحب آپ نے کیس پڑھا ہوا ہے، دوسرے فریق نے نہیں۔ ہمیں وقار احمد کے دستخطوں پر بھی اعتراض ہے۔ مریم نواز کے بینیفیشل مالک ہونے کی دستاویز کسی نے چیلنج نہیں کی، 19 سال کی عمر میں ہمارے بچوں کا شناختی کارڈ نہیں بنتا، شریف خاندان کے بچے ارب پتی بن جاتے ہیں، طارق شفیع نے بیان حلفی میں کہا بارہ ملین درہم لے کر دے دئیے، شریف خاندان بتائے کہ 1980 سے 2006 تک یہ پیسے کہاں رہے، یہ کہنا درست نہیں کہ دوبئی میں کاروبار گدھوں پر ہوتا تھا، 1980 میں دوبئی میں 31 بینک تھے بتایا جائے کہ کس کے ذریعے رقم منتقل ہوئی۔ برطانیہ میں الزام لگ جائے تو ساری جائیداد بک جانے پر بھی جان نہیں چھوٹتی۔ شریف خاندان شروع سے ہی حقائق چھپاتا رہا ہے۔ شریف خاندان جدہ مل میں کام کرنے والے کسی مسلمان کا نام ہی بتا دے۔

جسٹس عظمت سعید شیخ نے ریمارکس دیئے کہ آپ صادق و امین کے جس کیس کا حوالہ دے رہے ہیں وہ جعلی ڈگری سے متعلق ہے، جس پر مستری اور مزدور طبقے نے ملک کو نقصان نہیں پہنچایا، طاقتور لوگوں نے ہی ملک کی جڑیں کاٹی ہیں۔  بڑے لوگوں کی اولاد ملک کی تباہی کا باعث بنتی ہے۔ ڈگری جعلی ہونا چھوٹا اور ٹیکس چوری کرنا بڑا جرم ہے۔ اسرائیلی وزیر اعظم کو تحائف ڈکلئیر نہ کرنے پر ہزیمت کا سامنا کرنا پڑا ہمارے ہاں گنگا ہی الٹا بہہ رہی ہے، کوئی ادارہ بھی کام نہیں کر رہا۔

جسٹس آصف سعید کھوسہ نے ریمارکس دیئے کہ  صادق و امین کا ایشو اس عدالت میں مختلف مقدمات میں آیا، کچھ مقدمات میں شہادتیں ریکارڈ بھی ہوئیں، یہ  کیس باقی مقدمات سے مختلف ہے، ہم یہ مقدمہ دفعہ 184 کے تحت سن رہے ہیں۔ بڑے چھوٹے کی بات نہ کریں ہماری نظر میں سب برابر ہیں۔ کیس سن رہے ہیں تو فیصلہ بھی کریں گے۔ سیاسی مخالفین تقسیم ہوں تو انصاف وہی لگتا ہے جو حق میں ہو، مرضی کا فیصلہ نہ آئے تو ناانصافی لگتا ہے۔

شیخ رشید نے کہا کہ اصل مسئلہ غلط بیانی کا ہے۔ شریف خاندان کل گاندھی کا خط مودی سے تصدیق کروا کر لے آئیں گے سپریم کورٹ ہی عوام کی آخری امید ہے، سپریم کورٹ نواز شریف کو طلب کرے، نوازشریف وزیرخزانہ، وزیراعلیٰ پنجاب اور وزیراعظم بھی رہے۔ وہ قوم کے امین ہیں لیکن حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے بڑے نہیں، ایک انٹرویو میں حسین نواز نے کہا میری والدہ کلثوم نواز کے نام پر اور بھی کمپنیاں ہیں۔ سوال پوچھنے پر یہ کہہ دینا کہ مذاق کررہا تھا یاسیاسی بیان تھا، کافی نہیں۔ عدالت میں بیٹھے بعض لوگوں کو شاید انصاف کی امید نہ ہو لیکن مجھے انصاف کی پوری توقع ہے۔

شیخ رشید کے دلائل مکمل ہونے اور جماعت اسلامی کے وکیل کی جانب سے درخواست واپس لینے کے بعد وزیراعظم کے وکیل مخدوم علی خان نے اپنے دلائل شروع کیے، انہوں نے موقف اختیار کیا کہ وزیر اعظم، اسحاق ڈار اور کیپٹن صفدر کو نااہل قرار دینے، وزیراعظم اور ان کا اہل خانہ کے نام ای سی ایل میں شامل کرنے اور جواب دہندگان سے ٹیکس وصولی کی عمومی استدعا کی گئی لیکن ٹیکس وصولی کس شخص سے کرنی ہے یہ بھی نہیں بتایا گیا ، پی ٹی آئی وکیل نے اپنے دلائل میں ای سی ایل کا ذکر کہیں نہیں کیا گیا، جس استدعا پرزور نہ دیا جائے وہ خود ہی ختم ہو جاتا ہے، جس پر جسٹس آصف سعید کھوسہ نے کہا کہ ہم نے پی ٹی آئی کو لندن فلیٹس تک محدود رہنے کا کہا تھا، ہم کسی کی پوری زندگی کی چھان بین نہیں کرسکتے، آپ کیس کا حصہ تاخیر سے بنے اس لیے شائد آپ کو علم نہیں ہوا۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔