معاملہ صرف ایک طیبہ کا نہیں

عابد محمود عزام  جمعرات 12 جنوری 2017

معاملہ صرف ایک دس سالہ طیبہ اور اس پر تشدد کرنے والی جج کی اہلیہ کا نہیں، بلکہ کمزور اور طاقتور کا ہے، جن میں ایک ظالم اور دوسرا مظلوم ہے۔ کمسن طیبہ کے ہاتھ جلائے گئے اور چائے کی گرم ڈوئی مار کے آنکھ زخمی کی گئی، اگرچہ جج کی اہلیہ یہ ماننے کو تیار نہیں، لیکن طیبہ کے چہرے، آنکھوں اور ہونٹوں پر زخموں کے نشانات اس بات کی گواہی دے رہے ہیں کہ اس پر تشدد ہوا ہے، جو بعد میں میڈیکل رپورٹس نے بھی ثابت کردیا۔

مقدمہ درج ہوا تو طیبہ کے مبینہ والدین کو زور زبردستی کیس واپس لینے پر مجبور کیا گیا۔ کیس واپس لینے کی دیر تھی کہ نہ صرف بچی پر تشدد کرنے والی جج کی اہلیہ کو فوری طور پر بری کردیا گیا، بلکہ طیبہ بھی اپنے مبینہ والد سمیت لاپتہ ہوگئی، جو کئی دن بعد اسلام آباد سے ملی۔

ذرائع کے مطابق ایڈیشنل سیشن جج اور تشدد کا نشانہ بننے والی بچی کے والدین کے مابین طے پانے والے معاہدے میں خاموش رہنے کی شق شامل تھی۔ میڈیا کی مہربانی اور چیف جسٹس پاکستان کے ازخود نوٹس سے کمزور کو انصاف ملنے کی کچھ امید بندھی ہے، ورنہ اس ملک میں کمزور کو انصاف کم ہی ملا کرتا ہے۔ بااثر افراد کی جانب سے مجبور و لاچار لوگوں پر غیر انسانی تشدد کے واقعات پیش آتے رہتے ہیں، قانون تک رسائی کے پیچ و خم میں الجھ کر ان لاچاروں کی کہیں شنوائی نہیں ہوپاتی۔

یہ واقعہ اپنی نوعیت کا پہلا واقعہ نہیں، بااثر شخصیات کے گھروں میں گھریلو ملازمین خاص کر بچوں کے ساتھ غیر انسانی سلوک کی خبریں اخبارات کی زینت بنتی رہتی ہیں، لیکن اس حوالے سے کوئی ٹھوس اقدام نہیں کیے جاتے۔ غربت کے مارے بچے دوسروں کے گھرانوں میں انسانیت سوز حالات کا سامنا کرتے ہیں، لیکن انھیں آزاد کروانے والا کوئی نہیں، ان کی سسکیاں اشرافیہ کی کوٹھیوں کی اونچی دیواروں کے پیچھے دفن ہوکر رہ جاتی ہیں۔

طیبہ کا تعلق ان لاکھوں بچوں سے ہے، جن کا جرم صرف غریبی ہے جس کی پاداش میں ان کو غیر انسانی سلوک کا نشانہ بنایا جاتا ہے۔ غریب خاندان اپنے قرضوں کی ادائیگی کے عوض یا گھر کا خرچہ چلانے کے لیے اپنے معصوم بچوں کو متمول گھرانوں میں چھوڑ جاتے ہیں، جہاں بیشتر مالکان ان کے ساتھ انتہائی غیر مناسب رویہ روا رکھتے ہیں۔ محرومیوں کا شکار یہ بچے ہر طرح کی زیادتی کا سامنا کرتے ہیں، لیکن اپنے لیے آواز نہیں اٹھا پاتے۔

ظلم و جبر سہتی صرف ایک طیبہ تو میڈیا کی وجہ سے پوری قوم کی نظروں کے سامنے آگئی، لیکن ہزاروں طفلان قوم تو آج بھی کسی وکیل، کسی جج، کسی سول سرونٹ، کسی بزنس مین، کسی وڈیرے اور جاگیردار کے گھر میں اپنے مقدر پر آنسو بہا رہے ہیں۔ یہاں طاقتور و بااثر افراد کے ظلم اور کمزور و غریبوں کی مظلومیت کے واقعات رونما ہوتے رہتے ہیں۔ ہر واقعے کے بعد کچھ روز تو میڈیا کی وجہ سے شور شرابا ہوتا ہے، لیکن پھر سب کچھ بھلا دیا جاتا ہے۔

چائلڈ لیبر کے حوالے سے کئی قوانین موجود ہیں، اس کے باوجود بچوں سے جبری مشقت میں کمی کے بجائے اضافہ ہوتا جارہا ہے۔ اگر ہم میں سے ہر کوئی اپنے علاقے میں نظر دوڑائے تو یقیناً کمسن طیبہ پر تشدد کے مثل بہت سے واقعات دیکھنے کو مل جائیں گے۔ پاکستان میں اینٹوں کی صنعت سے لے کر قالین بافی، کوئلے کا کاروبار، کپاس کی چنائی، چوڑیاں بنانا، چمڑے کی صنعت، آلات جراحی بنانا، شوگر مل، گندم کی بوائی، کٹائی اور گوداموں میں پہنچانے اور دیگر کئی طرح کے کاموں میں بچوں سے مشقت کروائی جاتی ہے۔

کمزور اور غریب بچوں کو زبانی، ذہنی، جسمانی اور جنسی تشدد کا سامنا کرنا پڑتا ہے، ان کو بھوکا رکھا جاتا ہے، ان کی تنخواہ ہڑپ کرلی جاتی ہے، حتیٰ کہ ان کو قتل کرنے اور کتوں کے آگے پھینکنے کے متعدد واقعات بھی پاکستان میں پیش آچکے ہیں۔ چائلڈ لیبر سے متعلق قوانین موجود ہونے کے باوجود ان پر کہیں بھی عملدرآمد ہوتا نظر نہیں آتا۔ اس پر ستم یہ کہ جو لوگ ان قوانین کی عملداری کے ذمے دار ہیں، وہی ان کی دھجیاں اڑاتے نظر آ رہے ہیں۔ آج تک کسی حکومت نے ٹھوس بنیادوں پر کوئی حکمت عملی مرتب نہیں کی، جس سے چائلڈ لیبر کو روکا جا سکے اور نہ ہی معاشرے کے کسی طبقے کی طرف سے اس جانب کوئی پیشرفت سامنے آئی۔ بچوں سے ان کا بچپن چھین لینا چائلڈ لیبر ہے۔

یہ بھی حقیقت ہے کہ یہ بچے شوق سے تو کام نہیں کرتے، ان کی بھی مجبوریاں ہوتی ہیں۔ غربت یہ سب کچھ کرنے پر مجبور کرتی ہے۔ اگر والدین کے پاس زیادہ وسائل ہوں تو اپنی اولاد کو اچھی تعلیم دلوانے کا دل کس کا نہیں چاہتا؟ ہر ماں باپ کی خواہش ہوتی ہے کہ اس کی اولاد پڑھے لکھے اور اسے اچھا روزگار ملے۔ دنیا میں ایسا انسان نہیں ہوگا جو یہ چاہتا ہو کہ اس کی اولاد مشقت کی زندگی گزارے، اس کی اولاد دوسروں کے گھروں میں کام کرے، ان کی گالیاں سنے، لیکن کیا وجہ ہے کہ والدین اپنے معصوم بچوں کے ہاتھ سے قلم کتاب چھین کر ان کو دوسرں کی مزدوری پر مجبور کرتے ہیں، ایسا صرف غربت کی وجہ سے ہوتا ہے۔

آج بہت سے لوگ یہ کہہ دیتے ہیں کہ بچوں کی تعلیم سے محرومی اور ان پر ہونے والے تشدد کے ذمے دار والدین ہیں، کیونکہ بچوں کے ہاتھ سے قلم چھین کر اوزار مزدوری تو والدین ہی نے تھمائے ہیں، لیکن ایسے لوگ یہ بھول جاتے ہیں کہ جب گھر میں کھانے کے لیے کچھ نہ ہو، بیماری سے والدین تڑپ رہے ہوں اور دوا خریدنے کے لیے بھی پیسے نہ ہوں تو بتائیے بچے مزدوری نہیں کریں گے تو کیا کریں گے۔

ایک دن لاہور میں ایک پارک میں بیٹھا تھا۔ دس بارہ سال کا ایک بچہ میرے قریب آکر بیٹھ گیا۔ اس بچے کو کئی بار پہلے بھی اسی پارک میں دیکھا تھا۔ میں نے پوچھا آپ کون سی کلاس میں پڑھتے ہو؟ اس نے بتایا پڑھتا نہیں، یہاں قریب ہی ایک گھر میں کام کرتا ہوں۔ بچے نے بتایا کہ اس کا علاقہ قصور ہے، لیکن کسی نے لاہور میں کام پر رکھوایا ہوا ہے، ماہانہ تنخواہ پانچ ہزار روپے ہے۔ ایک اور بھائی بھی ہے، جو کسی اور کے گھر میں کام کرتا ہے۔ والدہ بھی کسی کے گھر میں کام کرتی ہے۔ والد کئی سال پہلے حادثے میں معذور ہوگیا تھا۔ گھر بھی اپنا نہیں۔ دونوں بھائی اور والدہ پیسے بچا کر مکان بنانا چاہتے ہیں۔

اب بتائیے ایسے حالات میں بچے محنت مزدوری نہیں کریں گے تو گھر کے اخراجات کون پورے کرے گا؟ ایسے حالات میں بچوں سے محنت مزدوری کروانے کے قصوروار والدین نہیں، بلکہ ریاست اور حکومت ہے، جس کے ذمے ملک کے ہر شہری کی ضروریات پورا کرنا ہے، آئین کے آرٹیکل 3، 25 اور 37 کے تحت مملکت پاکستان، استحصال کی تمام اقسام کا خاتمہ یقینی بنائے گی، پانچ سے 16 سال تک کی عمر کے بچوں لیے ریاست مفت تعلیم کا انتظام کرے گی۔ لیکن حکمرانوں کو اس بات سے کوئی غرض نہیں کہ کس کی کیا پریشانیاں ہیں، ان کو تو اپنے خزانے بھرنے سے غرض ہے، جو وہ بھر رہے ہیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔