چوہوں سے پھیلنے والا مرض ’لاسا بخار‘

ندیم سبحان میو  جمعرات 12 جنوری 2017
لاسا وائرس ایک ہلاکت خیز وائرس ہے۔ فوٹو: نیٹ

لاسا وائرس ایک ہلاکت خیز وائرس ہے۔ فوٹو: نیٹ

بخار کئی قسم کا ہوتا ہے مثلاً نزلہ زکام کی وجہ سے ہونے والا بخار، ٹائفائیڈ، موسمی بخار، ڈینگی، ملیریا اور کانگو وغیرہ۔ بخار کی ایک قسم لاسا کہلاتی ہے۔

ڈینگی اور کانگو کی طرح یہ بھی وائرل بخار ہے، یعنی وائرس کی وجہ سے ہوتا ہے۔ پہلی بار اس بخار کی تشخیص 1969ء میں نائجیریا کے ایک قصبے لاسا میں ہوئی تھی۔ اسی مناسبت سے اسے لاسا بخار کا نام دے دیا گیا۔ فی الوقت یہ بخار نائجیریا، لائبیریا، سیرالیون، گنی، گھانا اور مغربی افریقا کے دوسرے ممالک تک محدود ہے۔ سالانہ تین سے پانچ لاکھ افراد اس میں مبتلا ہوتے ہیں۔ ان میں سے اوسطاً پانچ ہزار زندگی کی بازی ہار جاتے ہیں۔ یوں لاسا وائرس ایک ہلاکت خیز وائرس ہے۔

اس بخار کا وائرس چوہوں میں پایا جاتا ہے۔ یہ ان چوہوں کو بیمار نہیں کرتا صرف ان کے جسم میں ٹھکانہ بناکر رہتا ہے۔ فضلے کے ساتھ یہ ان کے جسم سے خارج ہوجاتا ہے۔ لاسا بخار کی کوئی مخصوص علامات نہ ہونے کی وجہ سے اس کی تشخیص میں مشکل پیش آتی ہے۔ ابتدائی مراحل میں اسے عام بخار ہی سمجھا جاتا ہے۔

علامات

80 فی صد مریضوں میں لاسا کی کوئی مخصوص علامات ظاہر نہیں ہوتیں مگر بقیہ 20 فی صد میں یہ بہ تدریج پیچیدگیوں کا باعث بن جاتا ہے۔ ان مریضوں میں اس کی علامات6 سے 21 روز کے دوران ظاہر ہونے لگتی ہیں۔ ابتدائی علامات میں جسم کا درجۂ حرارت بڑھ جانا، کمزوری اور نقاہت، اور طبیعت میں بے چینی اور بے کیفی دَر آنا شامل ہیں۔ چند روز کے بعد سر میں درد شروع ہوجاتا ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ گلے، عضلات اور سینے میں تکلیف ہونے لگتی ہے۔ متلی اور قے شروع ہوجاتی ہے۔ کھانسی ہوتی ہے اور پیٹ میں بھی درد محسوس ہونے لگتا ہے۔   مرض کی شدت بڑھنے کی صورت میں چہرے پر سوجن آجاتی ہے۔ پھیپھڑوں میں پانی بھر جاتا ہے۔ منھ اور ناک سے خون آنے لگتا ہے۔ بلڈ پریشر بھی کم ہوسکتا ہے۔ ان علامات سے ظاہر ہے کہ لاسا وائرس جسم کے تمام اہم اعضا کو متأثرکرتا ہے۔

اگلے مرحلے میں مریض پر غشی کی کیفیت طاری ہوجاتی ہے۔ اسے دورے پڑ سکتے ہیں اور کومے میں بھی جاسکتا ہے۔ لاسا بخار سے شفایاب ہونے والے ایک چوتھائی مریض سماعت سے جزوی یا کُلی طور پر محروم ہوجاتے ہیں۔ ان میں سے نصف کی سماعت ایک سے تین ماہ کے دوران بحال ہوجاتی ہے۔

پیچیدہ کیسز میں لاسا بخار کی علامات ظاہر ہونے کے دو ہفتوں کے دوران مریض کی موت واقع ہوجاتی ہے۔ اس بخار میں مبتلا ہونے والی حاملہ خواتین میں اموات کی شرح سب سے بلند،   80 فی صد سے زائد ہے۔

وائرس کی منتقلی

متأثرہ چوہوں کے فضلے کے ساتھ اتصال انسانی جسم میں لاسا وائرس کی منتقلی کا سب سے اہم ذریعہ ہے۔ اس کے علاوہ یہ متأثرہ فرد کے خون، پیشاب، پاخانے یا جسم سے خارج ہونے والے دیگر مائعات کو چُھونے سے بھی صحت مند انسان کے جسم میں منتقل ہوجاتا ہے۔ واضح رہے کہ یہ وبائی مرض نہیں ہے اور صرف متأثرہ چوہوں یا متأثرہ افراد کے فضلے اور خارج شدہ مائعات سے اتصال کے ذریعے ہی پھیلتا ہے۔ اس کے علاوہ مراکز صحت میں جہاں لاسا بخار کے مریض زیرعلاج ہوں، وہاں لاسا وائرس سے آلودہ طبی آلات بھی اس وائرس کے انتقال کا ذریعہ بن سکتے ہیں۔

جنسی تعلقات بھی لاسا وائرس کی منتقلی کا باعث بنتے ہیں۔ یہ مرض بچوں، بوڑھوں، عورتوں ، مردوں سبھی کو لاحق ہوسکتا ہے۔ تاہم دیہی علاقوں میں رہنے والے افراد کے اس بخار میں مبتلا ہونے کے امکانات زیادہ ہوتے ہیں جہاں لاسا وائرس پھیلانے والے چوہے پائے جاتے ہیں۔

تشخیص

اس مرض کی علامات چوں کہ وائرل بخار کی دوسری اقسام کی علامات سے مشابہت رکھتی ہیں، اس لیے اکثروبیشتر، بالخصوص ابتدائی مرحلے میں اس کی تشخیص میں مشکلات پیش آتی ہیں۔ حتمی طور پر اس کی تشخیص صرف لیبارٹری میں درج ذیل اقسام کی طبی جانچ ( میڈیکل ٹیسٹ ) کے ذریعے ہی ہوسکتی ہے:

reverse transcriptase polymerase chain reaction (RT-PCR) assay antibody enzyme-linked immunosorbent assay (ELISA) antigen detection tests virus isolation by cell culture.

علاج

لاسا بخار سے بچاؤ کے لیے ابھی تک کوئی ویکسین نہیں بنائی جاسکی۔ البتہ اس کے علاج میں اینٹی وائرل ڈرگ ribavirin مؤثر ہوتی ہے بشرطے کہ ابتدائی مرحلے میں شروع کردی جائے۔

احتیاطی تدابیر اور تحفظ

چوہوں سے پاک صاف ستھرا ماحول اس مرض سے بچاؤ کی کلید ہے۔ غلّے اور دوسری اشیائے خوراک کو محفوظ ڈبوں میں رکھنے، کوڑا کرکٹ کو گھر سے دور ٹھکانے لگانے، گھر میں صفائی ستھرائی کا اہتمام کرنے اور بلّی پال لینے سے چوہے گھر سے دور رہیں گے۔ لاسا بخار کے مریض کی عیادت کرتے ہوئے اس امر کا خاص خیال رکھنا چاہیے کہ اس کے خون اور دیگر جسمانی مائعات جسم کے کسی حصے سے نہ چُھو جائیں۔ ان مریضوں کی دیکھ بھال پر مامور طبی عملے کے لیے ضروری ہے کہ ہمہ وقت گاؤن، ماسک اور دستانے پہن کر رکھے اور انفیکشن سے بچاؤ کے خصوصی اقدامات بروئے کار لائے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔