- ویمنز ٹیم کی سابق کپتان بسمہ معروف نے ریٹائرمنٹ کا اعلان کردیا
- امریکی یونیورسٹیز میں ہونے والے مظاہروں پر اسرائیلی وزیراعظم کی چیخیں نکل گئیں
- پولیس یونیفارم پہننے پر مریم نواز کیخلاف کارروائی ہونی چاہیے، یاسمین راشد
- قصور ویڈیو اسکینڈل میں سزا پانے والے 2 ملزمان بری کردیے گئے
- سپریم کورٹ نے اسپیکر بلوچستان اسمبلی عبدالخالق اچکزئی کو بحال کر دیا
- مرغی کی قیمت میں کمی کیلیے اقدامات کر رہے ہیں، وزیر خوراک پنجاب
- عوام کو کچھ نہیں مل رہا، سارا پیسہ سرکاری تنخواہوں میں دیتے رہیں گے؟ چیف جسٹس
- وزیراعلیٰ بننے کیلئے خود کو ثابت کرنا پڑا، آگ کے دریا سے گزر کر پہنچی ہوں، مریم نواز
- کلین سوئپ شکست؛ ویمنز ٹیم کی سلیکشن کمیٹی میں بڑی تبدیلیاں
- قومی اسمبلی کمیٹیاں؛ حکومت اور اپوزیشن میں پاور شیئرنگ کا فریم ورک تیار
- ٹرین میں تاریں کاٹ کر تانبہ چوری کرنے والا شخص پکڑا گیا
- غزہ کے اسپتالوں میں اجتماعی قبریں، امریکا نے اسرائیل سے جواب طلب کرلیا
- وزارتِ صنعت و پیداوار نے یوریا کھاد درآمد کرنے کی سفارش کردی
- ٹی20 ورلڈکپ؛ 8 بار کے اولمپک گولڈ میڈلسٹ یوسین بولٹ سفیر نامزد
- کہوٹہ؛ بس میں ڈکیتی کے دوران ڈاکو کی فائرنگ سے سرکاری اہلکار جاں بحق
- نوجوان نسل قوم کا سرمایہ
- اسلام آباد میں روٹی کی قیمت میں کمی کا نوٹیفکیشن معطل
- کیا رضوان آئرلینڈ کیخلاف سیریز میں اسکواڈ کا حصہ ہوں گے؟ بابر نے بتادیا
- ویمنز کوالیفائر؛ آئی سی سی نے ثنامیر کو ’’برانڈ ایمبیسڈر‘‘ مقرر کردیا
- پی او بی ٹرسٹ عالمی سطح پر ساڑھے 3لاکھ افراد کی بینائی ضائع ہونے سے بچا چکا ہے
ڈرون طیارے آبی حیات کے غیرقانونی شکار کی روک تھام کریں گے
مچھلی، جھینگے اور دوسری آبی حیات کے غیرقانونی شکار سے ماہی گیری کی عالمی صنعت کو اربوں ڈالرکا نقصان پہنچتا ہے۔ اس عمل میں بڑے بڑے فشنگ ٹرالر ملوث ہوتے ہیں جو عام طور پر گہرے پانیوں میں اور ممنوعہ حدود کے اندر رہتے ہوئے شکار کرتے ہیں۔ ان کے اس عمل سے ماہی گیری کی صنعت کو تو نقصان پہنچتا ہی ہے مگر عام مچھیروں کو ملنے والے شکار میں کمی آجاتی ہے۔ سب سے بڑھ کر یہ کہ غیرقانونی ماہی گیری آبی حیات کی بقا کے لیے خطرناک ہے۔
آبی حیات کے غیرقانونی شکار کا راستہ روکنے کے لیے اس کی وجوہات کے سدباب سے لے کر آبی مصنوعات کی مارکیٹ میں فروخت روکنے تک مختلف مراحل پر اقدامات درکار ہوتے ہیں۔ سمندری حیات کے غیر قانونی شکاریوں کے خلاف کارروائی کے لیے اب جدید ٹیکنالوجی سے کام لیا جارہا ہے۔ کچھ عرصہ قبل فشنگ ٹرالروں کی مصنوعی سیارے کے ذریعے نگرانی کا منصوبہ شروع کیا گیا تھا۔ اس منصوبے کے تحت تمام فشنگ ٹرالرز کے لیے خودکار شناختی نظام ( Automatic Identification System) کی تنصیب لازمی قرار دی گئی تھی۔
اس نظام کا رابطہ مصنوعی سیارے سے رہتا ہے اور اس کی مدد سے ہر ٹرالر کی موجودگی کا مقام معلوم کیا جاسکتا ہے، نیز یہ بھی کہ ٹرالر شکارکررہا ہے یا نہیں۔ مجرمانہ دماغ رکھنے والوں نے اس سسٹم کا توڑ بھی ڈھونڈ لیا ہے۔ سمندر میں روانگی کے بعد اے آئی ایس کو بند ( آف ) کردیا جاتا ہے جس کے نتیجے میں ٹرالر مانیٹرنگ اسکرین سے غائب ہوجاتا ہے۔ اس نوع کے واقعات سامنے آنے کے بعد اب ماہی گیری کے عالمی قوانین میں ترامیم کے ساتھ اے آئی ایس کو بہتر بنانے پر غور کیا جارہا ہے۔
غیرقانونی ماہی گیری کا سدباب کرنے کے لیے اب ڈرون ٹیکنالوجی کا استعمال بھی شروع کردیا گیا ہے۔ یہ منصوبہ برطانوی حکومت نے شروع کیا ہے۔ اسے Eyes of the Seas کا نام دیا گیا ہے۔ یہ منصوبہ دراصل کئی ٹیکنالوجیز کا مجموعہ ہے۔ اس میں ویسل مانیٹرنگ سسٹم ( VMS )، سنتھیٹک اپرچر راڈار (SAR)، آپٹیکل سیٹیلائٹ سینسر، اے آئی ایس اور ڈرون ٹیکنالوجیکا استعمال کیا گیا ہے۔
ان ٹیکنالوجیز کی مدد سے مشکوک نظر آنے والے فشنگ ٹرالرز کی نشان دہی کرلی جاتی ہے، اور پھر مخصوص آلات بشمول ویڈیو کیمرے، سے لیس ڈرون ان پر نگاہ رکھنے کے لیے اڑادیے جاتے ہیں۔ ڈرونز کا استعمال نگراں بحری جہازوں اور طیاروں کے مقابلے میں نہ صرف کم خرچ ہے بلکہ یہ زیادہ مؤثر بھی ہیں۔ بحری جہازوں اور طیاروں کی دور ہی سے نشان دہی ہوسکتی ہے مگر ڈرون کا پتا اسی وقت چلتا ہے جب یہ مشکوک فشنگ ٹرالرز کے اوپر پہنچ جاتا ہے۔
ان مخصوص نگراں ڈرونز کا استعمال برطانیہ، جمیکا، کوسٹاریکا کے علاوہ کئی ممالک کی حکومتیں کررہی ہیں۔ اس کے علاوہ آبی حیات کے تحفظ کے لیے کام کرنے والے کئی غیرسرکاری اداروں ( این جی اوز ) نے بھی ان سے استفادہ شروع کردیا ہے۔
ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔