جسٹس سعید الزماں۔۔۔ ہمیں معاف کر دیجیے گا!

رضوان طاہر مبین  جمعرات 12 جنوری 2017
کسی نے عامیانہ انداز میں چوٹ کسی کہ انہیں تو ’نام وَری کا شوق‘ چڑھ گیا ہے۔ لیکن اگر انہیں عہدہ اتنا ہی پیارا ہوتا تو جنوری 2000ء میں وہ جنرل پرویز مشرف کو ’ناں‘ کیوں کرتے؟ فوٹو: فائل

کسی نے عامیانہ انداز میں چوٹ کسی کہ انہیں تو ’نام وَری کا شوق‘ چڑھ گیا ہے۔ لیکن اگر انہیں عہدہ اتنا ہی پیارا ہوتا تو جنوری 2000ء میں وہ جنرل پرویز مشرف کو ’ناں‘ کیوں کرتے؟ فوٹو: فائل

اخلاقیات کو ’عقل‘ کے بعد انسان کو حیوان سے منفرد کرنے والی نمایاں ترین خصوصیت قرار دیا جاسکتا ہے۔ جب ہم ہوش سنبھالتے ہیں تو ہمارے بڑوں کی کوشش ہوتی ہے کہ ہمیں اخلاقیات اور ادب و آداب سے روشناس کرایا جائے۔ ہمیں نشست و برخاست کی خبر ہو اور اپنی بات دوسرے تک پہنچانے کا ڈھنگ بھی آئے۔ سامنے والے سے اختلاف کرنا ہو تو اُس کا ڈھب بھی پتا چلے اور ہم یہ بھی جانیں کہ اختلاف ہوتا کیا ہے اور کون سی چیزیں ایسی ہیں، جن پر ہم تنقید نہیں کرسکتے۔

بڑوں کا احترام تو واجب ہے۔ احترامِ انسانیت کیا ہوتا ہے؟ ’بڑائی‘ فقط زندگی کے زیادہ پل بِتانے کے سبب ہی نہیں ہوتی بلکہ اِس کے کچھ مراتب اِس کے سوا بھی ہوتے ہیں۔ بڑائی کے کچھ پیمانے علم اور اخلاق و کردار سے بھی ہوکر گزرتے ہیں۔ اگر اِس بڑے پن میں بزرگی بھی شامل ہو تو پھر تو مزید خیال کرلینا چاہیے۔

اب اختلاف کرتے ہوئے اُس شخص کے دھرم، مسلک، نظریے کو ذرا خود سے پرے کرنا پڑے گا۔ ہوسکتا ہے کہ اُن میں سے کسی چیز سے ہمیں شدید اختلاف ہو۔ ہم کسی موقعے کے اختلاف پر اِس مذہبی، مسلکی اور نظری اختلاف کی بنیاد پر اگر جانب داری دکھائیں گے تو متعصب کہلائیں گے۔ کسی بھی شخص کے کردار اور افعال پر بالکل کھل کر بات ہوسکتی ہے، مگر اِس احتیاط کے ساتھ کہ لفظوں میں شائستگی اور لہجے میں توازن رہے۔ دراصل یہی تو ہماری بچپن سے اب تک کی رسمی اور غیر رسمی تعلیم کا اصل امتحان ہوتا ہے۔

گزشتہ برس نومبر میں جسٹس (ر) سعید الزماں صدیقی کو گورنر سندھ بنانے کا فیصلہ ہوا۔ اُنہیں نواز لیگ سے قریب سمجھے جانے کے باوجود یکساں طور پر وہ عزت و احترام حاصل ہے، جو گنتی کے لوگوں کے ہی حصے میں آتا ہے۔ نواز لیگ کے جھکاو کا سبب اُن کے بطور جج 1993ء میں نوازحکومت کی بحالی اور 1997ء میں اُس وقت کے چیف جسٹس سجاد علی شاہ کے ایک فیصلے کی منسوخی کو گردانا جاتا ہے۔ اُن فیصلوں میں دیگر جج بھی شامل تھے۔ کچھ لوگ اُسے اتفاق اور کچھ جسٹس سعید کی جانب داری قرار دیتے ہیں۔ ٹھیک ہے، اِس پر نکتہ چینی ضرور کیجیے کہ اِسے ہی آزادی اظہار کہتے ہیں۔

دوسری طرف جسٹس (ر) سعید الزماں کو گورنر نام زَد کیے جانے کے بعد سے سماجی ذرائع اِبلاغ (سوشل میڈیا) میں اُن کی خرابی صحت کے حوالے سے جس رویے کا مظاہرہ کیا جاتا رہا، وہ حد درجہ افسوس ناک ہے۔ فیس بک سے لے کر ٹوئٹر اور واٹس ایپ وغیرہ تک، براہِ راست اُن کی پیرانہ سالی اور بزرگی پر بھپتیاں کسی گئیں، اُن کی صحت کے حوالے سے انتہائی غیر مناسب بلکہ بعض اوقات تو گھٹیا پن تک کے مظاہرے کیے گئے۔ اُن کی تصاویر کے ساتھ نازیبا کلمات اور طنزیہ فقرے لکھے گئے۔ اُن کی ویڈیوز پر مختلف گانے لگا کر اُن کی تضحیک کی مذموم کوششیں بھی کی گئیں اور یہ سب کوئی اَن پڑھ، گنوار یا بے چارے شعور سے عاری لوگ نہیں بلکہ ہم سب کے جانے مانے پڑھے لکھے، باشعور، متحمل مزاج اور اچھے خاصے بردبار اشخاص بھی کر رہے تھے۔ وہی لوگ جو اکثر ذاتی و نجی معاملات اور عقائد اور ذاتیات پر بات بنانے والوں کو احترامِ انسانیت کا درس دیتے نہیں تھکتے۔

ایسے کچھ لوگوں کو ٹہوکا بھی دیا کہ ’ارے صاحب، یہ آپ کہاں بہک گئے؟ ذاتیات پر بات کرنا تو انتہائی بُری بات ہے‘ تو بہت سوں نے ’’شکوہ‘‘ کیا کہ ’انہیں اِس عمر میں گورنری سنبھالنے کی کیا پڑی تھی!‘

چلیے مان لیتے ہیں، آپ کو اپنی یہ رائے دینے میں بھی آزادی ہے کہ اُنہیں اپنی خرابیٔ صحت کی بنا پر گورنر کا عہدہ سنبھالنے سے معذرت کرلینی چاہیے تھی، لیکن اگر انہوں نے ایسا نہیں کیا، تو جس طرح آپ کو اپنی رائے دینے کی آزادی ہے، تو یہ آزادی انہیں بھی تھی، آپ سعید الزماں سے اُن کی زندگی کا کوئی فیصلہ کرنے کا حق کیوں کر چھیننے پر تلے ہیں؟ عہدۂ گورنری سنبھالتے ہوئے ہوسکتا ہے کہ جسٹس سعید الزماں کے ذہن میں کوئی ایسا اچھا کام ہو، جو وہ اُس مسند پر بیٹھ کر کرسکتے ہوں۔

کسی نے عامیانہ انداز میں چوٹ کسی کہ انہیں تو ’نام وَری کا شوق‘ چڑھ گیا ہے۔ لیکن اگر ایسے لوگ یہ بات نہیں سمجھتے کہ اُنہیں عہدہ اتنا ہی پیارا ہوتا تو جنوری 2000ء میں وہ جنرل پرویز مشرف کو ’ناں‘ کیوں کرتے؟ یہ وہ وقت تھا جب کسی کی جرأت اور ہمت نہ تھی کہ جسٹس سعید الزماں کے لیے اُس انکار پر جلوس نکالے، جس طرح جسٹس افتخار چوہدری کے لیے 2007ء میں نکالے گئے۔ وہی افتخار چوہدری جو 2000ء کے ’عبوری حکم‘ کے سامنے ڈھے گئے تھے اور جسٹس سعید الزماں خم ٹھونک کر کھڑے ہوگئے تھے۔

پھر کل شام جسٹس سعید الزماں صدیقی کا انتقال ہوگیا، حد یہ ہوئی کہ تضحیک کا یہ سلسلہ اِس کے بعد بھی جاری رہا، کسی نے کہا

گورنر بن کر وہ موت کے فرشتوں کی نظروں میں آگئے

تو کسی نے کہا

حکومت نے نئے گورنر کے لیے وینٹی لیٹر پر موجود افراد کی فہرست طلب کرلی!

کسی سے اتفاق، اختلاف اپنی جگہ، مگر جس سماج میں ایک باکردار اور معمر شخص کی ذاتیات کو نشانہ بنایا جائے، اُس سماج کے بارے میں اندازہ لگا لینا چاہیے کہ اُس کو کس قدر اخلاقی تربیت کی ضرورت ہے۔ اِس کا اندازہ بخوبی لگایا جاسکتا ہے۔ آخر میں جسٹس (ر) سعید الزماں کی دعائے مغفرت کے ساتھ ہم سب کو بااخلاق اور اُن جیسی ایمانداری کے راستے پر چلنے کی دعا ہے، ساتھ ہی جسٹس (ر) سعید الزماں صدیقی سے کہنا چاہتا ہوں، کہ

’جسٹس صاحب آپ ہمیں معاف کر دیجیے گا۔‘‘

جسٹس (ر) سعید الزماں کے بارے میں بیان کیے گئے نکات سے کیا آپ اتفاق کرتے ہیں؟

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

اگر آپ بھی ہمارے لئے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کےساتھ [email protected] پر ای میل کریں
Rizwan Tahir Mubeen

رضوان طاہر مبین

بلاگر اِبلاغ عامہ کے طالب علم ہیں، برصغیر، اردو، کراچی اور مطبوعہ ذرایع اِبلاغ دل چسپی کے خاص میدان ہیں، روزنامہ ایکسپریس کے شعبہ میگزین سے بطور سینئر سب ایڈیٹر وابستہ ہیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔