فساد خلق سے چپ ہیں جو عقل ہوش رکھتے ہیں  (آخری قسط)

اوریا مقبول جان  جمعـء 13 جنوری 2017
theharferaz@yahoo.com

[email protected]

گیارہ ستمبر کے واقعے کے بعد امریکا اور مغربی دنیا میں ایک طوفان برپا تھا۔ ہر کوئی دنیا کے سب سے پسماندہ اور سہولیات سے عاری ملک افغانستان پر چڑھ دوڑنا چاہتا تھا۔ جنرل محمود کے مطابق اس کی بنیادی وجہ ورلڈ ٹریڈ سینٹر پر حملہ نہیں تھا بلکہ وہ اس خطے سے طالبان کی حکومت کو ختم کرنا چاہتے تھے۔

امریکا کے نزدیک ملا محمد عمرکی افغانستان میں ایک مقبول حکومت تھی جس کا اثرو رسوخ پورے افغانستان پر قائم تھا۔ انھوں نے افغانستان جیسے منقسم معاشرے میں جس طرح حکومتی رٹ قائم کی اس کی مثال تاریخ میں نہیں ملتی تھی۔ افغان عوام سے اسلحہ واپس لینا ایک ناممکن عمل تھا۔ افغان اپنے ہتھیار سے شدید محبت کرتے ہیں اور اسے ایک زیور سمجھتے ہیں لیکن جیسے ہی انھیں طالبان نے اپنے عمل سے یہ یقین دلایا کہ ہم تمہاری جان و مال کی حفاظت کے لیے موجود ہیں تو انھوں نے بخوشی اپنے ہتھیار طالبان کے حوالے کردیئے۔ اسی طرح دنیا بھر کی افیون کی کاشت کا نوے فیصد حصہ افغانستان میں ہوتا تھا۔

ملا محمد عمر کے ایک حکم سے یہ سب صفر تک آگیا۔ اس کے لیے کسی آپریشن کی ضرورت محسوس نہ ہوئی۔ پورے علاقے میں عدل و انصاف کے نظام سے لوگ مطمئن تھے۔ یہ تمام کامیابیاں امریکیوں کو حیرت میں بھی ڈالتی تھیں اور خوفزدہ بھی کرتی تھیں۔ جنرل محمود گزشتہ دو سال سے آئی ایس آئی کے سربراہ تھے۔ اس لیے وہ ان کے ساتھ اپنی اس کیفیت کا اظہار کرتے تھے۔ وہ سمجھتے تھے کہ طالبان کی کامیاب حکومت ایک ایسا انقلاب ہے جو وسط ایشیائی ریاستوں تک باآسانی پھیل سکتا ہے۔ جب کہ جنرل محمود کی رائے مختلف تھی۔ وہ سمجھتے تھے کہ ان ریاستوں میں روس کے کمیونسٹ انقلاب نے ایسی تبدیلیاں کردی ہیں کہ وہ اب ایک اسلامی انقلاب کی جانب بڑی مشکل سے بڑھ سکتے ہیں۔ لیکن پھر بھی امریکیوں کا خوف بہت زیادہ تھا۔

ان دو سالوں میں جنرل محمود کی ملا محمد عمر سے بے شمار ملاقاتیں ہوئیں۔ وہ تقریباً سترہ بار قندھار گئے۔ امریکی حکومت ان سے ہر بار یہ سوال کرتی کہ ایسے کون سے گروہ ہیں جو ملا محمد عمر یا طالبان کے خلاف منظم کیے جاسکتے ہیں۔ اسامہ بن لادن سے بھی ان کی ملاقات ہوئی جس کا علم ملا محمد عمر کو نہیں دیا گیا اور اس کا اہتمام خود القاعدہ نے کیا۔

یہ ملاقات اسامہ کے ہیڈکوارٹر قندھار شہر میں ہوئی جسے بڑی احتیاط سے منظم کیا گیا۔ ملاقات چونکہ صرف معلومات کے حصول کے لیے تھی اس لیے کوئی نتیجہ خیز نہ ہوئی۔ یوں تو طالبان حکومت پر امریکی دباؤ گیارہ ستمبر سے تین سال قبل ہی شروع ہوگیا تھا اور بل کلنٹن اپنے زمانے میں اسامہ بن لادن پر میزائلوں سے ایک ناکام حملہ بھی کرواچکا تھا اس لیے امریکی ایما پر بہت سے پاکستانی حکومتی وفد ملا محمد عمر سے ملنے اور انھیں قائل کرنے کی کوشش کرنے  لگے۔

گیارہ ستمبر کے بعد جنرل محمود 15 ستمبر کو ملا محمد عمر سے ملنے کے لیے قندھار گئے۔ مذاکرات بنیادی طور پر اس نکتہ پر تھے کہ کس طرح امریکی حملے کو ٹالا جاسکے، فوری طور پر دو اہم معاملات تھے۔ ایک اسامہ بن لادن اور دوسرا ڈیڑھ سو کے قریب وہ مغربی افراد جنھیں طالبان نے یرغمال بنا رکھا تھا۔ جنرل محمود اس دوران پانچ دفعہ افغانستان گئے۔ ملا محمد عمر نے کہا کہ اسامہ بن لادن کا معاملہ یوں ہے کہ اس نے شریعت کے مطابق ہماری بیعت کرلی ہے اور وہ ہماری پناہ میں ہے اور دوسری بات یہ کہ ایک پشتون کی حیثیت سے بھی ہم جس کو پناہ دے دیں اس کے لیے جان بھی دیتے ہیں۔

جنرل محمود نے چار اہم مذہبی سیاسی رہنماؤں کو قائل کیا کہ وہ جاکر ملا محمد عمر سے مذاکرات کریں۔ یہ چاروں مولانا فضل الرحمن، قاضی حسین احمد، مولانا شاہ احمد نورانی اور مولانا سمیع الحق تھے۔ ان چاروں نے وہاں جانے کا وعدہ کرلیا لیکن دو دن کے اندر اندر چاروں اصحاب نے پیغام پہنچایا کہ وہ نہیں جاسکتے۔ اس کے بعد تین علمائے کرام مولانا نظام الدین شامزئی، مفتی تقی عثمانی اور مولانا فضل الرحیم کو ملا محمد عمر کے پاس روانہ کیا گیا تاکہ وہ بحیثیت استاد ان کو سمجھائیں۔ یہ اصحاب بھی قندھار گئے لیکن ناکام واپس آئے۔

اس کے بعد جنرل محمود نے خود وہاں دوبارہ جانے کی ٹھانی۔ انھوں نے ملا محمد عمر سے ایک عام سی منطق میں بات کی۔ پوچھا نماز فرض ہے بلکہ بستر مرگ پر بھی فرض ہے۔ جواب دیا ہاں، کہا لیکن اگر ایک سانپ آجائے تو کیا حکم ہے۔ کہنے لگے پہلے سانپ کو مار دو پھر نماز پڑھو۔ جنرل محمود نے کہا کہ ایک بہت بڑا اژدھا آپ کی جانب بڑھ رہا ہے، آپ اس معاملے میں پوری افغان قوم کو نہیں بچائیں گے۔ انھوں نے کہا کہ آپ یہ سب باتیں میری شوریٰ کو بتائیں اور ان سے گفتگو کریں۔

جنرل محمود نے کہا کہ میں ان سے کیسے مل سکتا ہوں۔ ملا محمد عمر نے کہا کہ وہ کل کابل میں اکٹھے ہو رہے ہیں آپ وہاں چلے جائیں۔ اگلے دن جنرل محمود کابل گئے اور انھوں نے شوریٰ کے سامنے وہی گفتگو کی جو ملا محمد عمر کے ساتھ کی تھی۔ شوریٰ نے انتہائی غور سے سنی اور پھر اس پر بحث ہونے لگی۔ جنرل محمود واپس آگئے۔ اگلے دن شوریٰ نے یہ فیصلہ کرلیا تھا کوئی سے تین اسلامی ممالک کی مدد سے اسامہ بن لادن کو افغانستان سے کسی اور جگہ منتقل کیا جاسکتا ہے۔ لیکن اب امریکی سر پر آن پہنچے تھے۔ وہ مکمل تیاری میں تھے۔

دنیا بھر کے صحافی، کیمرہ مین اس تماشے کو دیکھنے کوئٹہ اور پشاور کے ہوٹلوں میں جمع تھے۔ امریکیوں کو اسامہ بن لادن سے کوئی غرض نہ تھی۔ وہ تو افغانستان سے طالبان اقتدار کا خاتمہ چاہتے تھے۔ ان تک یہ بات پہنچائی گئی لیکن انھوں نے سنی ان سنی کردی۔ جنرل محمود نے ایک دفعہ ملا محمد عمر سے پوچھا کہ امریکی آپ پر  حملہ آور ہونے والے ہیں، وہ تو آپ کو قندھار میں جا پکڑیں گے۔ ملا محمد عمر نے کہا جب وہ یہاں آئیں گے تو ہمیں نہیں پائیں گے۔

پانچ اکتوبر کو ٹونی بلیئر ایم آئی 6کے سربراہ کے ساتھ پاکستان خود آیا تاکہ جنگ کے آغاز کو دیکھ سکے۔ 6 اکتوبر کو جنرل محمود کے بیٹے کی سالگرہ تھی، وہ ایک ہوٹل میں موجود تھے جہاں لوگ ان کے بارے میں گفتگو کررہے تھے۔ ساری وہ باتیں جو مغرب نے پریس میں پھیلائی تھیں جن میں کوئی سچائی نہ تھی۔ سات اکتوبر اتوار کا دن تھا۔ کہتے ہیں کہ میں اپنا پستول صاف کررہا تھا کہ میری بیوی نے بتایا کہ جنرل عزیز کو چیئرمین جائنٹ اسٹاف کمیٹی اور جنرل یوسف کو جائنٹ چیف آف سٹاف لگادیا گیا ہے۔ چونکہ وہ ان سے جونیئر تھے اور فوج میں یہ روایت ہے کہ ایسا کرنے کے بعد سینئر مستعفی ہوجاتے ہیں، جنرل محمود نے فون اٹھایا اور ہیڈکوارٹر کو مطلع کیا کہ میرا استعفیٰ پہنچ رہا ہے۔

تھوڑی دیر بعد میجر جنرل جاوید عالم جو آئی ایس آئی میں ڈائریکٹر جنرل تھے، ان کا فون آیا کہ امریکی سفارتخانے کے بریگیڈیئر نے مطلع کیا ہے کہ آج رات امریکا افغانستان پر حملہ کرنے والا ہے۔ میں نے کہا کہ آپ جنرل فیض جیلانی قائم مقام ڈی جی کو بتادو، میں نے استعفیٰ دے دیا ہے اور فون رکھ دیا۔ ٹھیک رات 9:30 بجے امریکا نے افغانستان پر حملہ کردیا۔

ہوسکتا ہے اپنے استعفے کے بارے میں جنرل محمود کچھ بھی نہ چھپارہے ہوں، لیکن مجھے یقین نہیں آتا۔ ہوسکتا ہے اللہ نے انھیں افغان بھائیوں پر ظلم میں حصے دار ہونے سے بچالیا ہو۔ لیکن امریکا بھی تو ان کو وہاں نہیں چاہتا تھا۔ ایک طالبان کا خیرخواہ کیسے آئی ایس آئی میں برداشت ہوسکتا تھا۔ لیکن ہم یقین کرلیتے ہیں۔ لیکن پھر بھی ان کے نظریات کے حوالے سے ایک واقعہ سناتا چلوں۔ جنرل محمود اپنے شام کے دورے کے دوران بشارالاسد سے ملے۔ میٹنگ میں دو لوگ تھے، پیچھے ایک مترجم بیٹھی تھی۔ بات شروع ہوئی تو بشارالاسد نے اشارہ کیا، مترجم چلی گئی۔ بشارالاسد نے کہا

Seat of Leadership of Muslim Ummah is Vacant, Ask Musharaf to Occupy it.

امت مسلمہ کی قیادت کی نشست خالی ہے۔ مشرف سے کہیں وہ اسے سنبھال لیں۔ جنرل محمود کہتے ہیں کہ میں نے مشرف سے اس کا ذکر تک نہ کیا کیوں کہ میرے نزدیک یہ قیادت ایک صاحب ایمان متقی اور پرہیز گار شخص کا حق ہے۔سچ شاید اب بھی چھپا ہوا ہے جسے لوگ نہ جانے کس مصلحت سے چھپا رہے ہیں۔ عرصہ پہلے کہی گئی غزل کا شعر جس کا ایک مصرعہ اس کالم کا عنوان ہے اس کے اشعار پیش خدمت ہیں   ؎

یہ حبسِ مستقل ٹوٹے کسی صورت ہوا آئے
کہیں سے گنگ بستی میں کوئی سنگِ ندا آئے

فسادِخلق سے چپ ہیں جو عقل ہوش رکھتے ہیں
اب ایسی نیند میں کیا کام ان کے رت جگا آئے

اتار اک اسم ہونٹوں پر کہ جو شافی ہو کافی ہو
دعا ایسی کہ جس سے موسمِ ردّبلا آئے

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔