بھٹو کی شخصیت کے دو خُفیہ گوشے 

تنویر قیصر شاہد  جمعـء 13 جنوری 2017
tanveer.qaisar@express.com.pk

[email protected]

مولانا محمد اسحاق بھٹی صاحب مرحوم و مغفور ہمارے عہد کے نامور عالمِ دین، محقق، سیرت نگار، براڈ کاسٹر، خاکہ نویس، صحافی اور مترجم تھے۔ ابھی پچھلے برس ہی ہم سے جدا ہو کر اپنے خالقِ حقیقی سے جا ملے ۔ آپ وقیع درجے کی حامل کوئی تین درجن کتابوں کے مصنف تھے۔ مجھے یہ اعزاز حاصل ہے کہ اُن کی ذہن کشا مجلس میں بیٹھنے، اُن کے محاضرات سننے، اُن کے  دولت خانے پر آراستہ دستر خوان پر بیٹھ کر جڑانوالہ سے آئے ساگ کھانے ، کئی بار کئی دینی معاملات سمجھنے اور تحریکِ پاکستان کے واقعات کی تفہیم کے لیے اُن کی خدمت میں حاضر ہونے کے کئی مواقع ملے۔

اگر یہ کہوں کہ مَیں نے مذہبی و سیاسی رواداری کا پہلا درس پاکستان کے اِس نامور ترین اہلِ حدیث عالمِ دین، جناب مولانا محمد اسحاق بھٹی، کی شخصیت سے سیکھا تو یہ کہنا مبالغہ نہ ہوگا۔انھی کے توسط سے ہمارے سامنے پاکستان کے پہلے منتخب وزیر اعظم جناب ذوالفقار علی بھٹو کی شخصیت کا ایک حیرت انگیز پہلو سامنے آیا ہے۔ بھٹی صاحب ایک زمانے تک لاہور کے مشہور علمی و تحقیقی مرکز، ادارہ ِ ثقافتِ اسلامیہ، سے بطور سینئر ریسرچ فیلو وابستہ رہے ۔ جنرل ایوب خان کے دَور میں جب اِس ادارے کے سربراہ پاکستان کے مشہور فلسفی جناب ایم ایم شریف تھے، اسحاق بھٹی صاحب اُس وقت بھی یہیں موجود تھے۔

جناب محمد اسحاق بھٹی کے لکھے گئے بائیس خاکوں پر مبنی نئی کتاب ’’ محفلِ دانشمنداں‘‘ چند دن پہلے ہی مارکیٹ میں آئی ہے۔ انھی میں ایک خاکہ ایم ایم شریف پر بھی ہے۔ محمد اسحاق بھٹی لکھتے ہیں:’’ ادارہ ثقافتِ اسلامیہ میں ایم ایم شریف (میاں محمد شریف)کا دَورِ نظامت وہی تھا جو ملک میں ایوب خان کا عہدِ صدارت تھا۔ ایوب خان ، ایم ایم شریف کے شاگرد تھے اور مسلم یونیورسٹی علی گڑھ میں جب میاں صاحب صدر شعبہ فلسفہ تھے، ایوب خان اُن سے پڑھتے رہے تھے۔ اِس تعلق کی بِنا پر وہ میاں صاحب کا بہت احترام کرتے تھے۔

ایک بار میاں صاحب نے ارادہ کیا کہ جنرل ایوب خان ادارہ ثقافتِ اسلامیہ کا دورہ کریں تو اُنھوں نے براہ راست ایوب خان کو فون کرکے اس دورے کی دعوت دی جسے فوری قبول کر لیا گیا۔‘‘ بھٹی صاحب مزید لکھتے ہیں:’’کچھ عرصے بعد صدر ایوب خان ادارہ ثقافتِ اسلامیہ آئے۔ مغربی پاکستان کے گورنر نواب امیر محمد خان اور وزیر خارجہ ذوالفقار علی بھٹو بھی اُن کے ساتھ تھے۔ جب صدر کو دفتر کے مختلف حصے دکھائے جا رہے تھے، تو صدر صاحب اور میاں صاحب آگے آگے تھے۔ اُن کے عملے کے لوگ، ادارے کے بورڈ آف ڈائریکٹرز کے ارکان ، جسٹس ایس اے رحمان اور رفقائے ادارہ اُن کے پیچھے چل رہے تھے۔ بھٹو صاحب نوجوان تھے۔

اگرچہ آتے ہی میاں صاحب سے اُن کا تعارف کروا دیا گیا تھا مگر میاں صاحب نے خاص توجہ سے اُن کو نہیں دیکھا تھا۔ لطیفہ یہ ہوا کہ جب بھٹو صاحب آگے بڑھتے اور صدر صاحب کے ساتھ چلنے کی کوشش کرتے تو میاں صاحب ہاتھ آگے بڑھاتے اور یہ الفاظ کہہ کر انھیں روک دیتے:’’ برخوردار، ذرا پیچھے رہو۔‘‘ ۔۔۔بھٹو صاحب مسکرا کر پیچھے ہٹ جاتے۔ دوسرے حضرات کے چہروں پر بھی مسکراہٹ آ جاتی۔ اوپر کی منزل میں رفقائے ادارہ کے کمرے دیکھنے گئے تو اُس وقت بھی ایسا ہی ہُوا۔

اسٹور میں کتابیں دیکھنے صدر صاحب گئے تو بھی میاں صاحب نے ’’بر خوردار، ذرا پیچھے رہو‘‘ کہہ کر بھٹو صاحب کو پیچھے ہٹا دیا۔ اب میاں صاحب سے کسی نے کان میں کہا :’’ یہ پاکستان کے وزیر خارجہ ذوالفقار علی بھٹو ہیں‘‘ تو میاں صاحب سُن کر چونکے اور بھٹو صاحب کو مخاطب کرکے بولے:’’ معاف کیجئے ، مَیں بوڑھا آدمی ہوں۔آپ کو پہچان نہیں سکا۔ یوں بھی ہمارے معاشرے میں بڑے اور بوڑھے آدمی نوجوانوں کے لیے خطاب کے وقت بیٹے یا برخوردار کے الفاظ ہی استعمال کرتے ہیںاور بعض مجلسوں میں شامل ہونے سے اُنھیں روک بھی دیتے ہیں۔ اِسے وہ اپنا بزرگانہ حق سمجھتے ہیںجو ہمارے معاشرے کی روائیت بن چکا ہے۔

عمر کے اعتبار سے آپ کو بیٹا یا برخوردار کہنا میرا حق ہے۔‘‘  جواباً بھٹو صاحب نے کہا:’’ میاں صاحب، مَیں نے اپنے بارے میں یہ اندازِ تخاطب طویل عرصے کے بعد سنا ہے۔ آپ نے مجھے یہ الفاظ کہے تو کئی سال پہلے کا زمانہ یاد آگیا اور مَیں انتہائی خوش ہُوا۔ مَیں بعض اوقات اس لیے بھی آگے بڑھتا تھا کہ آپ مجھے یہ الفاظ کہیں۔ جن صاحب نے بھی آپ کو یہ بتایا ہے کہ مَیں وزیر ہُوں ، انھوں نے میری خوشی کے وہ لمحات چھین لیے ہیں جب آپ مجھے مخاطب کرتے ہُوئے کہتے تھے:’’ برخوردار، ذرا پیچھے رہو۔‘‘

اب بھٹو صاحب ہی کی زندگی کا ایک منفرد پہلو اور ملاحظہ فرمائیے :ستیش کمار گجرال سابق بھارتی وزیر اعظم (اندر کمار گجرال) کے سگے بھائی ہیں۔ وہ پاکستان کے مشہور شہر، جہلم، میں 1925ء کو پیدا ہوئے اور یہیں جوان ہُوئے۔ انھوںنے لاہور کے معروف تعلیمی ادارے ’’میو اسکول آف آرٹس‘‘( جو اب نیشنل کالج آف آرٹس کہلاتاہے)  اور ممبئی کے ’’جے جے اسکول آف آرٹس‘‘سے تربیت حاصل کی۔ تقسیم کے بعد ممبئی میں پاؤں جمائے اور بھارت کے نامور مصوروں اور ماہرینِ تعمیرات میں شمار ہوئے ۔ قبل از تقسیمِ ہند، دورانِ تعلیم ممبئی میں اُن کی دوستی پیلو مودی سے ہوئی۔

پیلو صاحب جناب بھٹو کے گہرے دوست تھے( اُن کی بھٹو پر لکھی گئی معرکہ آرا کتاب  Zulfi My Friend قابلِ ذکر ہے)پیلو ہی کے توسط سے ستیش کمار بھی کئی بار بھٹو صاحب سے ممبئی میں ملے۔ ستیش کمار گجرال کی شاندار سوانح حیات( A Brush With Life)  میں بھٹو کا تذکرہ کئی جگہ ملتا ہے۔

ایک مقام پر بھٹو صاحب کا ذکر کرتے ہُوئے ستیش کمار گجرال یوں لکھتے ہیں:’’ ذوالفقار علی بھٹو ایک خوش لباس اور رنگین مزاج نوجوان کے طور پر نمایاں تھے۔ وہ ہمیشہ عمدہ سلے سُوٹ پہنتے اور میچنگ ٹائی میں ملبوس ہوتے۔ اُن میں سے خود اعتمادی کی شعائیں پُھوٹ رہی ہوتی تھیں۔ اُن دنوں پورا بمبئی شہر قتل کی ایک سنسنی خیز واردات سے گونج رہا تھا جس میں ایک نواب نے اپنی داشتہ کو ٹھکانے لگا دیا تھا۔ یہ واردات جس مکان میں ہُوئی تھی، وہ بھٹو خاندان کے گھر سے ذرا سے فاصلے پر تھا۔

ظاہر ہے، اس بارے میں زلفی( ذوالفقار علی بھٹو) کی کہی ہُوئی بات مستند سمجھی جاتی تھی۔ بھٹو ایک زبردست قصہ گو تھے اور کہانی کی چھوٹی چھوٹی تفصیلات کو دھیان میں رکھتے تھے۔ بھٹو نے اس قتل کے بارے میں پیلو کو جو کچھ بتایا، پیلو نے مجھے یوں بتایا کہ ساری بات میری سمجھ میں آگئی۔ چونکہ پیلو اور مَیں دونوں سیاست میں دلچسپی رکھتے تھے، اس لیے ہم بھٹو کی طرف کھنچتے چلے گئے۔ مَیں یقین سے نہیں کہہ سکتا کہ بھٹو واقعی محمد علی جناح کو ذاتی طور پر جانتے تھے یا یونہی نام لے کر رعب ڈالتے رہتے تھے۔ لیکن جناح کی کوٹھی بھٹو کے خاندانی گھر سے زیادہ دُور نہ تھی اور بھٹو کا خاندانی پس منظر اُن کی بات کو ایک طرح سے معتبر بنا دیتا تھا، اس لیے ہم اُن کے دعوؤں کو تسلیم کر لیتے تھے۔ وہ جناح کی باتیں یوںدہراتے جیسے جناح نے یہ سب بھٹو سے خود کہا ہو۔

جناح اور گاندھی کی باتیں ہم بھٹو سے مرعوب ہو کر سنتے۔‘‘ستیش کمار گجرال مزید لکھتے ہیں:’’کمیونسٹ پارٹی کے رکن کے طور پر مَیں اس خیال کا بھی پوری طرح حامی تھا کہ اگر مسلمان الگ ملک بنانا چاہتے ہیں تو انھیں اس کی آزادی ہونی چاہییے۔ اس بات پر زلفی کے ساتھ میرا کوئی اختلاف نہیں تھا۔ لیکن مَیں یہ محسوس کیے بغیر نہ رہ سکا کہ وہ اُس وقت کتنا اپنے حق پر ہونے کے غرور میں مبتلا اور عقل و شعور سے بیگانہ ہو جاتے تھے جب وہ اِس بات پر اصرار کرتے کہ ہندو اور مسلمان دو الگ الگ قومیتیں ہیں اور ایک ملک میں دونوں کا امن سے رہنا ممکن نہیں۔اُن کی بات کاٹنے کی کوئی جرات نہ کرتا تھا۔‘‘ ایک ممتاز اور معتبر ہندو کی یہ بات اِس امر کی بھی شہادت ہے کہ بھٹو صاحب دو قومی نظرئیے کے زبردست حامی تھے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔