وقت کی قدر و اہمیت

ربِ غفور انسان کو جسمانی صحت اور فراغتِ اوقات کی انمول نعمتوں سے نوازتا ہے۔ فوٹو: فائل

ربِ غفور انسان کو جسمانی صحت اور فراغتِ اوقات کی انمول نعمتوں سے نوازتا ہے۔ فوٹو: فائل

ربِ قدوس کی عطا کردہ زندگی میں، گھڑیاں، دن، ماہ و سال اور صدیاں وقت کے تابع ہیں کہ جوں جوں وقت گزرتا ہے، تو گزرنے کے اِس عمل سے دن، ہفتے، ماہ و سال اور صدیاں جنم لیتی ہیں اور وقت کو کون روک سکا ہے۔

مگر ہاں! انسان اگر چاہے تو اپنے نیک مقاصد کو پیشِ نظر رکھتے ہوئے اپنی منزل کا تعین کرسکتا ہے۔ یہ ٹھیک ہے کہ انسان کلی بااختیار نہیں ہے، مگر اتنا بھی نہیں کہ وہ اپنے وقت کو اپنی مرضی سے مصرف میں نہ لاسکے۔ لیکن یہ اُس وقت ممکن ہوتا ہے کہ جب انسان وقت کی قدر و اہمیت سے واقف ہو۔ وقت کی قدر جاننے کے لیے ہمیں بس تھوڑی سی محنت کرنا ہوگی۔ اس کے لیے دل کے کسی گوشے میں وقت کی قدر جاننے کے لیے تھوڑی سی تڑپ ہونی چاہیے۔

قرآن کریم میں ﷲ کے نبی خاتم اور دنیا کے سب سے عظیم راہ بر اور محسنِ انسانیت صلی اﷲ علیہ وآلہٖ وسلم کے فرامینِ مقدس کی روشنی میں وقت کی قدر و اہمیت کا پتا اور اس کے گزارنے کے روشن اصول ملتے ہیں۔ دنیا میں سب سے بڑی حقیقت اور سچائی یہی ہے کہ خالقِ کائنات سے بڑھ کر کوئی ذات نہیں اور لباسِ بشریت میں ملبوس راہ بر کائنات صلی ﷲ علیہ وآلہٖ وسلم سے بڑھ کر کوئی ہادی برحق نہیں۔ ایسی صورت میں یہ کیسے ممکن ہے کہ اﷲ کسی کم تر چیز کی قسم بارہا کھائے۔ پروردگارِ عالم نے کئی مقامات پر مختلف ’’اوقات‘‘ کی قسم کھائی ہے۔

سورۃ الفجر میں، وقتِ فجر اور عشر ذوالحجہ کی قسم کھائی ہے: ’’فجر کے وقت کی قسم (جس سے ظلمتِ شب چھٹ گئی) اور دس (مبارک) راتوں کی قسم۔‘‘

پھر ایک مقام پر ربِ قدوس نے رات اور دن کی قسم بھی کھائی: ’’رات کی قسم جب وہ چھا جائے ( اور ہر چیز کو اپنی تاریکی میں چھپالے ) اور دن کی قسم جب وہ چمک اُٹھے۔‘‘

اسی طرح سورۃ الضحیٰ میں ربِ کائنات نے وقت چاشت کی قسم کھاتے ہوئے ارشاد فرمایا: ’’ قسم ہے وقتِ چاشت کی (جب آفتاب بلند ہوکر اپنا نور پھیلاتا ہے) اور قسم ہے رات کے وقت کی جب وہ چھا جائے۔‘‘

پھر ایک جگہ خدائے واحد نے سورۃ العصر میں زمانے کی قسم کھائی ہے۔ اکثر لوگ نادانی اور کم علمی کی وجہ سے زمانے کو برا کہتے ہیں، تو یہ سخت گناہ ہے کیوں کہ اﷲ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ ’’ زمانہ ‘‘ میں خود ہوں۔ العصر میں ارشاد ہوتا ہے : ’’ زمانے کی قسم (جس کی گردش انسانی حالات پر شاہد ہے ) بے شک انسان خسارے میں ہے (کیوں کہ وہ اپنی عمرِ عزیز گنوا رہا ہے)۔‘‘

حضور ِ اقدس صلی اﷲ علیہ وآلہٖ وسلم نے ارشاد فرمایا : (مفہوم) ’’ صحت اور فراغت اﷲ کی طرف سے یہ دو ایسی نعمتیں ہیں کہ جس کے بارے میں لوگ اکثر خسارے میں رہتے ہیں۔‘‘

ربِ غفور انسان کو جسمانی صحت اور فراغتِ اوقات کی انمول نعمتوں سے نوازتا ہے، تو اُن میں سے اکثر نادان انسان یہ سمجھ بیٹھتے ہیں کہ یہ نعمتیں ہمیشہ ساتھ رہیں گی اور انہیں کبھی زوال نہ ہوگا۔ حقیقت یہ ہے یہ صرف شیطانی چال اور وسوسہ ہوتا ہے، جس کی بِنا پر انسان اِدھر اُدھر کے فضول اور بے سود کاموں میں اپنے آپ کو مصروف کر بیٹھتا ہے۔ جس کا نہ کوئی دنیا میں فائدہ اور نہ آخرت کا سامان۔

حضور سیدِ عالم صلی اﷲ علیہ وآلہٖ وسلم کا فرمانِ مقدس ہے : ’’ قیامت کے دن بندہ اُس وقت تک (بارگاہِ الہٰی میں) کھڑا رہے گا کہ جب تک اس سے چار چیزوں کے متعلق پوچھ نہ لیا جائے گا۔ زندگی کیسے گزاری، جو علم حاصل کیا اس پر کتنا عمل کیا، مال کہاں سے کمایا اور کہاں خرچ کیا اور جسم کس کام میں کھپائے رکھا۔‘‘

اسی طرح کا ایک اور فرمانِ رسول ﷺ جس کے راوی حضرت عبداﷲ بن عباسؓ ہیں ۔ آپ صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وآلہٖ وسلم ارشاد فرماتے ہیں : ’’پانچ چیزوں کو پانچ چیزوں سے پہلے غنیمت جانو۔ بڑھاپے سے پہلے جوانی، بیماری سے پہلے صحت، محتاجی سے پہلے تونگری، مصروفیت سے پہلے فراغت اور موت سے پہلے زندگی کو۔‘‘

اگر ہم اپنی زندگی کے گزرنے والے شب و روز، درج بالا سطور کے تناظر میں دیکھیں تو کیا ہم خود کو مطمین پائیں گے۔۔۔۔ ؟ یقینا نہیں! ہم تو اپنی زندگی کا بیشتر حصہ فضولیات اور ایک دوسرے پر الزام تراشی اور اپنے ہی مسلمان بھائیوں کے دل دکھانے میں صرف کردیتے ہیں۔ یوں گزرنے والے دن، رات اور ماہ و سال ماضی کا ایک تلخ حصہ بن جاتے ہیں۔

یہ حقیقت ہے کہ گزرا وقت واپس نہیں آتا مگر آنے والا ہر لمحہ اور ہر صبح کو طلوع ہونے والے سورج کی کرنوں سے پھوٹنے والی روشنی امید کا پیغام ضرور دیتی ہے۔ یہی ایک امید ہی تو ہے کہ جس پر یہ دنیا قائم ہے۔

ہم وقت کی قدر کرتے ہوئے امیدوں کے اس شجر سے وابستہ رہ کر نئی امنگوں اور جذبوں کے ستاروں کو اپنے آنگن میں اتارتے ہوئے اسلام اور وطن عزیز پاکستان کے مکار دشمنوں کے ناپاک عزائم کو اپنے اتفاق و اتحاد، خلوص و پیار، ایثار، ملی یک جہتی، جذبۂ حب الوطنی اور صبر و رضا سے ناکام بنا سکتے ہیں۔

ﷲ کریم ہم سب کو اپنے حبیب صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وآلہٖ وسلم کے صدقے عمل کی توفیق و ہمت عطا فرمائے۔ آمین

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔