اسکول نہ جانے کے بہانے اور اُن کی وجوہات

مہوش کنول  ہفتہ 14 جنوری 2017
پڑھائی کے چور بچے بہانے کریں تو سمجھ آتا ہے لیکن جب اچھے اور پڑھنے والے بچے اسکول جانے سے کترانے لگیں تو سمجھ جائیں کے معاملہ سنجیدہ ہے۔ فوٹو: فائل

پڑھائی کے چور بچے بہانے کریں تو سمجھ آتا ہے لیکن جب اچھے اور پڑھنے والے بچے اسکول جانے سے کترانے لگیں تو سمجھ جائیں کے معاملہ سنجیدہ ہے۔ فوٹو: فائل

بچے اور اسکول دو ایسے لفظ ہیں جو ایک دوسرے کے لئے ہی بنے ہیں یا پھر یوں کہہ لیجئے کہ دونوں کا چولی دامن کا ساتھ ہے، کیونکہ نا تو کوئی اسکول بچوں کے بغیر چل سکتا ہے اور نا ہی بچے اسکول، مدرسے اور تعلیم کے بغیر پروان چڑھ سکتے ہیں۔

بڑے ہی خوش نصیب ہوتے ہیں وہ والدین جن کے بچے روزانہ ہنسی خوشی اسکول جاتے ہیں، اسکول اور پڑھائی کے معاملے میں کوئی چوں چاں نہیں کرتے، وہ اگر ایک دن اسکول نا جائیں تو انہیں لگتا ہے جیسے پتہ نہیں کتنے دن گزر گئے ہوں اور جب موسمِ گرما اور سرما کی چھٹیاں پڑجائیں تو وہ گھر میں رہ رہ کر ہی بور ہوجاتے ہیں۔

بچوں کی دوسری قسم وہ ہوتی ہے جو اسکول جانے کے معاملے میں انتہائی چور ہوتے ہیں، اُن کے پاس اسکول ناجانے کے ایسے ایسے بہانے ہوتے ہیں کہ والدین سر پکڑ کر بیٹھ جاتے ہیں۔ ایسے بچوں کی جانب سے کیے جانے والے بہانے پیشِ خدمت ہیں؛

  • صبح صبح اسکول کیوں جانا ہوتا ہے؟ میری تو نیند ہی پوری نہیں ہوتی۔
  • جان بوجھ کر دیر سے اُٹھتے ہیں تاکہ اسکول بس مس ہوجائے اور اگر گھر والے کسی طرح اسکول پہنچا بھی دیں تو خواہش اور دعا کرتے ہیں کہ دیر سے جانے پر اسکول کا دروازہ بند ملے۔
  • میری طبیعت ٹھیک نہیں ہے آج اسکول نہیں جانا۔
  • اسکول جانے کے وقت اچانک پیٹ میں درد شروع ہوجاتا ہے اور یہ درد اسکول کا ٹائم نکل جانے تک برقرار رہتا ہے۔
  • کچھ کا کہنا ہوتا ہے کہ مجھے میری ٹیچر اچھی نہیں لگتی اُن سے پڑھنے میں مزہ نہیں آتا، فلاں کی ٹیچر اچھی ہیں وہ اچھا پڑھاتی ہیں اگر وہ میری ٹیچر ہوتیں تو میں روز اسکول جاتا یا جاتی۔
  • صبح صبح اسکول کا ہوم ورک یاد آجاتا ہے کہ میرا تو ہوم ورک ہی مکمل نہیں ہے، ٹیچر ماریں گی یا پھر یہ کہ آج ٹیسٹ ہے اور میری تیاری نہیں ہے۔
  • ٹیچر نے کہا تھا کہ کل اسکول کی چھٹی ہے یا پھر یہ کہ ٹیچر نے کہا تھا کہ آج وہ نہیں آئیں گی۔
  • اسکول کی تیاری میں کچوے کی اسپیڈ کو بھی مات دے دیتے ہیں۔
  • گھڑی کے الارم کا وقت تبدیل کردیتے ہیں تاکہ والدین دیر سے اُٹھیں اور اسکول کی چھٹی ہوجائے۔
  • کوئی بہانا نہیں ہوتا تو اپنی اسکول کی کتابیں یا پورا بیگ ہی کہیں چھپا دیتے ہیں، کبھی کبھی تو اسکول یونیفارم کا کوئی حصہ کہیں چھپا دیتے ہیں تاکہ یونیفارم مکمل نا ہونے کی وجہ سے والدین اسکول کی چھٹی کروادیں۔

یہ تو تھے وہ بہانے جو بچے والدین کے سامنے بناتے ہیں، اب ایک نظر ان بہانوں پر بھی ڈالیں جو اسکول ناجانے پر اگلے دن وہ کلاس ٹیچر کے سامنے پیش کرتے ہیں؛

  • مس ہم پرسوں نانی کے گھر گئے تھے اور وہیں رُک گئے تھے اس لئے کل کی چھٹی ہوگئی۔
  • مس کل میری طبیعت خراب تھی۔
  • میرا یونیفارم گندا تھا اور امی کو ٹائم نہیں ملا تھا دھونے کا۔
  • میرا یونیفارم چوہے نے کھا لیا تھا اور ہم کل جا کر نیا یونیفارم لے کر آئے۔
  • میری میڈ نے صفائی کرتے ہوئے اسکول بیگ پتہ نہیں کہاں رکھ دیا تھا صبح ملا ہی نہیں۔
  • میری اسکول بس نہیں آئی تھی اور پاپا بھی گھر پر نہیں تھے۔
  • امی نے میرا ناشتہ اتنی دیر میں بنایا کہ اسکول کا ٹائم نکل گیا۔
  • مس آج ہمیں شادی میں جانا ہے تو کل ہم اسکول نہیں آئیں گے۔
  • والدین کے نام سے چھٹی کی ایک جھوٹی درخواست لکھ کر ٹیچر کو دے دیتے ہیں۔
  • مس ہماری خالہ بہت دورسے آئی ہوئی تھیں اس لئے چھٹی کی۔

اِن کے علاوہ بھی بچے ایسے ایسے جواز پیش کرتے ہیں کہ ٹیچر کو غصے کے ساتھ ساتھ اُن کی عقل پر حیرانی ہونے لگتی ہے۔ ایک طرف ٹیچرز تو دوسری طرف والدین بھی بچوں کے بہانوں سے اِس قدر تنگ ہوتے ہیں کہ ہر آنے جانے والے کے سامنے یہ دکھڑا سنانے بیٹھ جاتے ہیں اور سُننے والے بھی ایک سے بڑھ کر ایک مشورے دیتے ہیں۔

  • کوئی کہتا ہے کہ بچے کو فلاں عالم کو دکھاو، فلاں کا بچہ بھی اسکول نہیں جاتا تھا، جس کے بعد اُن عالم سے رجوع کیا اور اب وہ بچہ ہنسی خوشی اسکول جاتا ہے۔
  • کوئی کہتا ہے کہ اُس کے سامنے دوسرے بہن بھائیوں اور خاندان کے دوسرے بچوں کی تعریف کرو تو وہ شرمندہ ہوکر اسکول جانا شروع کردے گا۔ اس مشورے پر عمل کرنے سے بچے شرمندہ ہونا تو دور کی بات بلکہ اُلٹا ان بچوں کے لئے دل میں بغض رکھ کے بیٹھ جاتے ہیں۔
  • کوئی یہ مشورہ دیتا ہے کہ یہ آیت یا وہ سورت پڑھ کر بچے پر دم کیا جائے تو بچہ فرمانبردار ہوجائے گا اور اسکول بھیجنے میں کوئی دشواری پیش نہیں آئے گی، لیکن اب بھلا انہیں کون سمجھائے کہ جب بچے نے دل میں ٹھان لی ہے کہ وہ اسکول نہیں جائے گا تو سوائے خود اُس بچے کے چاہے کوئی ایڑھی چوٹی کا زور ہی کیوں نا لگا لے وہ اُس کی ناں کو ہاں میں نہیں بدل سکتا۔

پڑھائی کے چور بچے بہانے کریں تو سمجھ آتا ہے لیکن جب اچھے اور پڑھنے والے بچے اسکول جانے سے کترانے لگیں تو سمجھ جائیں کے معاملہ سنجیدہ ہے۔ اس کی کئی وجوہات ہو سکتی ہیں۔

  • استاد کا تمام بچوں کے ساتھ منصفانہ رویہ نا ہونا، کسی کے ساتھ ذاتی پسند کی بنا پر اچھا سلوک تو کسی کے ساتھ بُرا سلوک روا رکھنا۔
  • استاد کا پڑھانے میں کم دلچسپی لینا اور طلباء کے رویوں کو نا سمجھنا، اور سب کو ایک ہی طریقے سے سمجھانے کی کوشش کرنا جبکہ ہر بچے کی ذہنی استعداد مختلف ہوتی ہے، چند ایک بچے ایسے بھی ہوتے ہیں جو زیادہ توجہ مانگتے ہیں اور اگر اُنہیں وہ توجہ نہ ملے تو اُن کا دل پڑھائی سے ہٹنا شروع ہوجاتا ہے۔
  • اسکول یا کلاس کا ماحول خوشگوار نا ہونا۔ بچوں پر پڑھائی کے ساتھ ساتھ تعلیمی درسگاہ کا ماحول بھی اثر انداز ہوتا ہے، اکثر والدین بچوں کو اسکول میں داخل کرواتے وقت بچوں کا ذہن بنانے کے لئے اُن کے ذہن میں ایک بہت ہی خوبصورت نقشہ بنا دیتے ہیں اور جب اسکول کا ماحول اُس نقشے سے مطابقت نہیں رکھتا تو بچوں کا دل پڑھائی سے بھی اُچاٹ ہونا شروع ہوجاتا ہے۔
  • چھوٹی کلاسز میں پڑھائی کے علاوہ دوسری سرگرمیاں جیسے کھیل کود اور میوزک کے ساتھ ساتھ  دیگر غیر نصابی سرگرمیوں کا نا ہونا بھی انہیں سست بنا دیتا ہے۔ بالکل اسی طرح جیسے ہم روزانہ دفتر جاکر ایک ہی جیسے دفتری کاموں کی وجہ سے بیزاریت محسوس کرنے لگتے ہیں، ایسے ہی بچے بھی یکسانیت سے اُکتا جاتے ہیں، وہ ہر چیز کی طرح اسکول میں بھی ہر دن کچھ منفرد کرنا چاہتے ہیں۔
  • استاد کی شخصیت کا پُراثر نا ہونا۔ گلی محلوں میں کھلے ہوئے نام نہاد پرائیویٹ اسکولوں میں فیس تو اچھی خاصی لی جاتی ہے لیکن بچت کرنے کی خاطر کم عمر اور نا تجربہ کار اساتذہ کو کم تنخواہوں پر بھرتی کرلیا جاتا ہے جو بچوں کی نفسیات کو سمجھ نہیں پاتے اور اس طرح بچے پڑھائی اور استاد دونوں ہی سے دور ہوتے چلے جاتے ہیں۔ پھر ایک وقت ایسا آتا ہے کہ وہ اسکول جانے کے معاملے میں ضد اور ہٹ دھرمی سے کام لیتے ہوئے ہر بار اسکول جانے کے نام پر نفی میں جواب دیتے ہیں۔
  • ایسے بچے جو بیماری سے اُٹھے ہوں اور کافی دن تک اسکول سے غیر حاضر رہے ہوں، جب اُنہیں پھر سے اسکول بھیجا جاتا ہے تو وہ پڑھائی میں پہلے کی طرح دلچسپی نہیں لے پاتے۔ یہ وقفہ بس کچھ دن کے لئے آتا ہے، اگر اِس دوران استاد اور والدین، بچے کی کم دلچسپی کو محسوس کرکے اُسے زیادہ توجہ دیں تو بچہ بہت جلدی اپنے معمول پر آجاتا ہے لیکن اگر اُس کے برعکس استاد یا والدین، بچے کو دانٹ ڈپٹ کر پڑھائی کی جانب راغب کرنے کی کوشش کرتے ہیں تو وہ بچے ناکام ہی رہتے ہیں اور معمول پر لوٹنے میں زیادہ وقت لیتے ہیں۔
  • بچوں کا کسی چیز سے ڈر بھی اسکول نا جانے کی ایک وجہ بنتا ہے، اگر کوئی بچہ اسکول جانے کے نام سے ڈرتا ہو یا کوئی غیر معمولی حرکت انجام دے تو یہ والدین کے لئے ایک سگنل ہوتا ہے کہ وہ بچے سے ٹھنڈے ماحول میں بیٹھ کر وجہ جاننے کی کوشش کریں کیونکہ اُس کے پیچھے کوئی ایسی بات ہوسکتی ہے جو وہ والدین کو بتانے سے ڈرتا ہو، شاید اسکول یا کلاس کا کوئی بچہ شرارت کرتا ہو یا تنگ کرتا ہو جس کی موجودگی میں وہ اسکول جانے سے کتراتا ہو۔
  • زمانہ تبدیل ہوچکا ہے اور زندگی اتنی مصروف ہوگئی ہے کہ والدین چاہ کر بھی اولاد کو وہ وقت نہیں دے پاتے جیسے پہلے زمانے کے والدین دیا کرتے تھے۔ اب اگر بچے ضد کرتے ہیں تو اُنہیں سمجھانے کے بجائے فوراً موبائل، ٹیبلیٹ، ٹی وی کا ریموٹ دے کر ان کا دماغ دوسری طرف لگا دیا جاتا ہے تاکہ جب تک وہ اس مشغلے میں مصروف رہیں ہم اپنا کام نپٹا لیں۔ اِس دوران بچوں کو اُن چیزوں سے اتنی رغبت ہوجاتی ہے کہ وہ اسکول میں بھی ویڈیو گیمز کی کمی محسوس کرنے لگتے ہیں اور نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ وہ اسکول ناجانے کے لئے روز کوئی نا کوئی بہانا تلاشنے لگتے ہیں۔
  • کچھ بچوں کے پاس ہر طرح کی سہولیات ہوتی ہیں لیکن وہ لگن نہیں ہوتی جو انہیں پڑھائی کی جانب راغب کرسکے، لیکن ہمارے معاشرے میں بہت سے بچے ایسے بھی ہیں جو دل میں پڑھائی کی بھرپور لگن رکھتے ہوئے بھی اسکول نہیں جا پاتے، اور اِس وجہ وہ ساری آسائشات ہیں جن سے وہ اور اُن کے والدین محروم ہوتے ہیں۔ ایسے والدین کے پاس اتنے کم وسائل ہوتے ہیں کہ وہ سوچنے پر مجبور ہوجاتے ہیں کہ آیا اپنے بچوں کا پیٹ بھرنے کے لئے روٹی کا انتظام کریں یا اُنہیں اسکول بھیج کر فیس کا خرچہ اٹھائیں۔ اِن دونوں معاملات میں بچوں کی بھوک بازی لے جاتی ہے اور ماں باپ دل پر پتھر رکھ کر اولاد کا پیٹ بھرنے پر توجہ دیتے ہیں۔ پھر وہ بچے شدید چاہت کے باوجود بھی تعلیم سے محروم رہ جاتے ہیں۔ یہ بچے کبھی راہ چلتے ہوئے ہمیں پھول بیچتے دکھائی دیتے ہیں تو کبھی سگنل پر گاڑیاں صاف کرتے ہوئے نظر آتے ہیں، کبھی کسی چائے کے ہوٹل میں تو کبھی کسی گیراج میں کسی چھوٹے کا کردار نبھاتے ہوئے نظر آتے ہیں۔ وہ اپنی معصوم جانوں پر کام کا یہ بوجھ اِس لئے برداشت کر رہے ہوتے ہیں تاکہ اپنے والدین کا سہارا بن سکیں اور گھر والوں کو کم از کم دو وقت کی روٹی دینے میں باپ کا ہاتھ بٹاسکیں۔
  • ان بچوں کی تعلیم حاصل کرنے کی خواہش اگر وہ بچے جان لیں جو تمام وسائل رکھتے ہوئے بھی اسکول سے دور بھاگتے ہیں تو شاید نہیں بلکہ یقیناََ وہ پڑھائی کی اہمیت کو سمجھیں گے اور پڑھائی کی طرف راغب ہو سکیں گے۔ لیکن انہیں یہ سمجھانے کے لئے ماں باپ اپنا کردار ادا کرنے سے قاصر ہیں، وہ صرف انہیں پڑھائی نا کرنے پر مہنگے مہنگے کھلونے دلانے، بچوں کی من پسند ریستوران اور پارکوں کی سیر کروانے کی لالچ دے کر سمجھتے ہیں کہ اُن کا فرض پورا ہو گیا۔

ایسے والدین کی اطلاع کے لئے عرض ہے کہ آپ کے بچے ان چیزوں سے بہل کر اسکول تو چلے جائیں گے لیکن اِس حقیقت کو کبھی نہیں دیکھ پائیں گے جو اُن کی عملی زندگی کے لئے کار آمد ثابت ہو۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

اگر آپ بھی ہمارے لئے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کےساتھ [email protected] پر ای میل کریں
مہوش کنول

مہوش کنول

بلاگر جامعہ کراچی سے ایم اے ماس کمیونیکیشن کرنے کے بعد نجی چینل سے وابستہ ہیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔