وہ کراچی جو میں نے دیکھا

سالار سلیمان  جمعـء 13 جنوری 2017
ایک بات جو اہم ہے وہ یہ کہ میں نے اِس سارے سفر میں موبائل کا آزادی سے استعمال کیا۔ اللہ کے فضل سے کہیں بھی شائبہ بھی نہیں ہوا کہ کچھ ہونے والا ہے، یا کچھ ہوسکتا ہے۔ فوٹو: فائل

ایک بات جو اہم ہے وہ یہ کہ میں نے اِس سارے سفر میں موبائل کا آزادی سے استعمال کیا۔ اللہ کے فضل سے کہیں بھی شائبہ بھی نہیں ہوا کہ کچھ ہونے والا ہے، یا کچھ ہوسکتا ہے۔ فوٹو: فائل

جمعہ 6 جنوری کو ہماری لاہور سے روانگی تھی۔ یہاں ہم سے مراد راقم اور اس کے دفتر کے کچھ ساتھی ہیں۔ پرواز پی آئی اے کی تھی اور منزل کراچی کی تھی۔ لاہور میں رہنے والوں کے ذہنوں میں یہ بات بیٹھی ہوئی ہے کہ انسان کراچی جاتا تو جہاز پر ہے اور آتا اخبار میں ہے۔ پھر پی آئی اے کبھی حویلیاں کے نزدیک تباہ ہوکر جنت کے ٹکٹ تقسیم کر رہی ہے اور کبھی کھڑے طیارے میں ایسے ’وج‘ رہی ہے جیسے کوئی بھینسا کسی معصوم بچے میں ’وج‘ جاتا ہے اور کبھی وہ کسی پرواز کو کسی اور ہی منزل پر پہنچا رہی اور کبھی کراچی کی پرواز کو دیار غیر میں لینڈ کروا کر جگ ہنسائی کا باعث بن رہی ہے۔

تو ہمارے ذہنوں میں خدشات اِس رفتار سے آ رہے تھے جیسے آندھی میں دھول مٹی اور پرانے شاپر اڑتے ہوئے آتے ہیں۔ علاوہ ازیں صحافت کی دنیا میں قدم رکھتے ساتھ ہی راقم نے مختلف قسم کے پنگے لئے ہوئے تھے۔ ایک سیاسی جماعت کے عروج کے دنوں میں اُس کے خلاف تحقیقی کالم بھی لکھ مارا تھا، وہ ایک الگ بات ہے کہ اُس کالم کی اشاعت کے بعد دو قاتلانہ حملوں میں بال بال بچا بھی لیکن باز پھر بھی نہیں آیا۔ گھر والے الگ پریشان تھے کہ معلوم نہیں ایک پیس میں واپس آتا ہے یا کیسے واپس آتا ہے۔ میرا یقینِ کامل ہے کہ مارنے والے سے بچانے والا زیادہ بڑا ہے۔

خیر 6 جنوری کو صبح دس بج کر اٹھارہ منٹ اور اکتیس سیکنڈ پر میں ائیرپورٹ پہنچ چکا تھا۔ ائیرپورٹ پہنچانے کا ذمہ میرے بھائی نے لیا۔ وہ میری چھوٹی سی بھانجی کو اسکول چھوڑ کر گھر آیا تھا اور اب مجھے ایئرپورٹ اتار رہا تھا۔ لاہور رنگ روڈ سے ائیرپورٹ میں داخل ہوئے تو وقت صرف اتنا ہی تھا کہ تمباکو کی طلب کو پورا کیا جاسکے۔ اس کے بعد اپنا ٹکٹ دکھایا اور اندر چلے گئے۔

پہلے کاونٹر پر تلاشی دی، میں نے ائیرپورٹ کے عملے کو کہا کہ سامان نہیں چیک کریں گے؟ اِس سوال پر جواب ملا کہ آپ کا سامان چیک کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔ میں نے شکریہ ادا کیا اور بورڈنگ کے کاونٹر پر کھڑا ہوگیا۔ پی آئی اے کی ایک خاتون نے دل آویز مسکراہٹ سے پوچھا، ’’آپ کہا جا رہے ہیں؟‘‘ میں نے کہا کہ ارادہ تو کراچی کا ہے، آگے جہاز کے کپتان کی مرضی، وہ کراچی پہنچائے، دیارِ غیر پہنچائے یا پھر براستہ حادثہ جنت میں پہنچا دے۔ یہ سننا تھا کہ محترمہ کی مسکراہٹ غائب ہوگئی۔ ٹکٹ دیکھا، شناختی کارڈ دیکھا اور لگج کے سامان پر اسٹیکر لگا کر بورڈنگ مکمل کردی۔

میں سوچ رہا تھا کہ ناجانے جہاز کیسا ہوگا؟ ناجانے فلائٹ کیسی ہوگی؟ خیر اِسی اثناء میں جہاز میں جانے کا اعلان ہوا اور ہم جہاز کی جانب چل پڑے۔ ایک اور چیکنگ پوائنٹ سے گزرنے کے بعد پی آئی اے کے بوئنگ 777 میں بیٹھنے کے بعد میں نے موازنہ شروع کیا۔ اب آپ مانیں یا ناں مانیں، میں نے پی آئی اے کے اس طیارے کو دیگر کمپنیوں کے طیاروں سے بہتر پایا تھا۔ سیٹیں آرام دہ تھیں، عملہ خوش اخلاق کے ساتھ ساتھ معاون بھی تھا اور میں نے پی آئی اے کے بارے میں جو کچھ بھی سن رکھا تھا وہ سب کا سب میں تبدیل کرنے پر مجبور ہو رہا تھا۔ اپنی نشست سنبھال لینے کے بعد میں نے ائیر ہوسٹس سے فوراً ہی اخبار طلب کرلیا۔ ابھی ’سواریاں‘ بیٹھ رہی تھی اور وہ اللہ کی بندی ناجانے کہاں سے اخبار لے آئی۔ اُس نے مجھ سے پوچھا کہ سر کچھ اور تو نہیں چاہئے؟ جس پر میں نے مسکراتے ہوئے انکار کردیا۔

جیسے ہی سب نے اپنی نشستیں سنبھالیں، پائلٹ نے اُڑان کا اعلان کردیا۔ سچ پوچھیے تو پی آئی اے کے اِس طیارے کا ٹیک آف دیگر کی نسبت بہت ہی اچھا اور ہموار تھا۔ لکھے ہوئے وقت پر ٹیک آف نے مجھے حیران کردیا۔ دورانِ پرواز بھی عملہ انتہائی خندہ پیشانی سے پیش آتا رہا۔22 ہزار سے 25 ہزار فٹ کی بلندی پر پرواز کے بعد ہم نے جناح انٹرنیشنل ائیر پورٹ کراچی پر لینڈ کیا۔ سامان لے کر ہم باہر آئے اور اب ہمیں انتظار تھا کہ کب ہوٹل کا عملہ ہمیں ائیرپورٹ سے ہوٹل پہنچائے گا۔

خدا خدا کرکے ہم ائیرپورٹ سے ہوٹل پہنچے۔ وہاں جاکر قضا نمازیں ادا کیں اور اب پیٹ پوجا کی باری تھی۔ میں، عماد بھائی اور سعد بٹ نے فیصلہ کیا کہ کسی مقامی سے پوچھتے ہیں۔ اِس مقصد کے لیے موبائل ایپ کا استعمال کرتے ہوئے ہم نے ٹیکسی بلائی اور ڈرائیور سے کہا کہ بھائی لاہوریے ہیں، بھوک لگ رہی ہے، کہیں بھی ایسی جگہ لے جاؤ جہاں اچھا کھانا ملتا ہو۔ اُس نے پہلے ہمیں صدر پہنچایا اور اُس کے بعد راستے میں کہا کہ صدر میں تو شاید آپ کو زیادہ کچھ نہ ملے، اگر آپ کہیں تو میں آپ کو برنس روڈ لے جاتا ہوں۔ وہاں آپ کو بہت کچھ کھانے کا مل جائے گا۔ ہم نے حامی بھرلی۔ راستے میں پوچھا کہ کراچی کے حالات کیسے ہیں تو اُس نے کہا کہ اب تو اللہ کا شکر ہے کہ بہت زیادہ بہترہیں، ورنہ دن میں بھی لوگ موبائل لے کر باہر نکلنے کی غلطی نہیں کرتے تھے۔ رینجرز نے خاصی محنت کرکے جرائم پیشہ افراد کے خلاف کاروائی کی ہے۔ جو لوگ بچ گئے ہیں وہ اِن کارروائیوں کی وجہ سے اپنے بلوں میں دبک گئے ہیں۔

اسی اثناء میں ہماری منزل آگئی اور ہم پیسے دے کر اتر گئے۔ کراچی میں ایک عزیز کو فون کرکے معلوم کیا کہ اِس مقام پر کہاں پر اچھی بریانی ملتی ہے؟ اُس نے پہلے تو گلہ کیا کہ بتا کر کیوں نہیں آئے اور پھر جس جگہ کا بتایا، وہیں پر ہم موجود تھے۔ کھانا منگوایا تو پہلے نوالے نے ہی دل خوش کردیا۔ کراچی والوں کو اللہ نے ویسے ہی ذائقے سے کھیلنے ہنر عطا کیا ہے۔ لذیذ بریانی نوش کرکے ہم باہر آگئے۔ سامنے ہی پان کی دکان تھی۔ کراچی آئیں اور پان نہ چبائیں، یہ بھلا کیسے ممکن ہے۔ میٹھا پان لیا تو اُس کا بھی ایک عجب ہی لطف تھا۔ اب ہم نے پیدل چلنے کی ٹھانی کہ آس پاس کے علاقے دیکھتے جائیں گے۔ کراچی کو کس قدر دیکھنے کے لیے وہی ایک دن تھا کیوںکہ اگلے دن سے ہماری ایکسپو شروع ہو رہی تھی اور ہم نے وہاں مصروف ہوجانا تھا۔ مختلف بازاروں سے ہوتے ہوئے ہم نمکو والی مارکیٹ میں چلے گئے، وہاں سے گھر کیلئے اور خود کیلئے نمکو بھی لیا۔ کراچی کی مخصوص نمکو کا کوئی جوڑ نہیں ہے۔ اِس کے علاوہ سندھی مسلم سوسائٹی اور طارق روڈ کی سیر کی۔

جیسے اوپر بیان کیا کہ ایکسپو شروع ہوتے ہی ہمیں کچھ ہوش نہ رہا، لیکن جب دوسرے دن ایکسپو کے بعد رات 9 بجے فارغ ہوئے تو سوچا کہ کراچی میں آخری دن کو اچھے طریقے سے گزارتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ لوگوں کے مشورے پر عمل کرتے ہوئے ہم ساحل سمندر پر موجود دو دریا چلے گئے۔ یہ ایک شاندار جگہ ہے، جس میں آپ عین سمندر پر کھانے سے لطف لیتے ہیں اور آپ کے آس پاس سفید بگلے منڈلاتے ہیں۔ اوپر آسمان اور نیچے پانی ہوتا ہے۔ انشاءاللہ کسی دن اس جگہ آ کر ڈوبتے ہوئے سورج کا نظارہ بھی کرنا ہے۔ لیکن کراچی مین ہم نے جتنا بھی کھایا اُس کے بعد یہ تسلیم کرنے میں کم از کم مجھے تو کوئی مشکل نہیں کہ کراچی کے کھانے واقعی میں ذائقے دار اور شاندار ہیں۔

اس کے بعد آفس کے کاموں کی شدید مصروفیت نے ہمیں کراچی گھومنے کے لیے مزید وقت نہ دیا۔ ایک آدھ رشتہ دار کے علاوہ کسی دوست اور رشتہ دار سے ملاقات بھی نہ ہوسکی۔ فیض اللہ بھائی کو بتایا کہ کراچی ہوں تو انہوں نے ایک سیکنڈ کے ہزاروے حصے میں ملنے کی دعوت دے ڈالی، اِسی طرح فہیم بھائی نے بھی فوری ناشتے کی دعوت دی تھی۔ خیر تفصیلی کسی سے بھی نہ مل سکا لیکن انشاءاللہ اگلے دورے میں سب سے ملاقات ہوگی۔

ایک بات جو اہم ہے وہ یہ کہ میں نے اِس سارے سفر میں موبائل کا آزادی سے استعمال کیا۔ اللہ کے فضل سے کہیں بھی شائبہ بھی نہیں ہوا کہ کچھ ہونے والا ہے، یا کچھ ہوسکتا ہے۔ میں نے کراچی کے سفر میں کراچی کو سمجھنے کیلئے موٹر سائیکل پر بھی تھوڑا سا سفر کیا اور الحمدللہ کچھ نہیں ہوا۔ میں اپنے اُن مہربانوں کا بھی مشکور ہوں جنہوں نے مجھے ایک نمبر دیتے ہوئے یہ یقین دہانی کروائی تھی کہ اول تو انشاءاللہ کچھ نہیں ہوگا لیکن اگر شک بھی ہو تو کال کیجئے گا، باقی ہم دیکھ لیں گے۔ اللہ کے فضل سے کال کرنے کی نوبت ہی نہیں آئی۔ ساتھ ساتھ ایک اور بھی اقرار کرنے دیجیے کہ یہاں کے لوگ انتہائی ملنسار اور خوش اخلاق پائے، مذاق سہنے والے اور ہنسنے والے لوگوں کے ساتھ وقت اچھا گزرا۔ 9 جنوری کو پی آئی اے سے ہی واپسی تھی، یہ پرواز 15 منٹ تاخیر کا شکار ہوئی تاہم وقت پر لاہور لینڈ کرگئی تھی ۔

کراچی میں اگر سسٹم کو اپ گریڈ کردیا جائے اور صفائی کا مربوط نظام، سڑکوں کی مرمت جیسے اہم کام کر لیے جائیں تو یقین کیجئے کہ کراچی واقعی میں دیکھنے سے تعلق رکھتا ہے۔ آپ ڈیفنس اور کلفٹن چلے جائیں، آپ کو عرب ممالک جیسی فیلنگ آتی ہیں۔ میں یہ بات اِس لئے کررہا ہوں کہ میں اُن ممالک کا سفر کرچکا ہوں۔ اللہ نے پاکستان اور کراچی کو بے شمار نعمتوں سے نوازا ہے اور دعا ہے کہ اللہ ہمیں زوال نعمت سے بچا کر رکھیں۔ مجھے یقین ہے کہ انشاءاللہ بہتری کا یہ سفر یہاں پر رُکے گا نہیں بلکہ آگے بڑھے گا۔ خدا کرے کہ یہ عمل کسی سیاسی مصلحت کا شکار نہ ہوجائے۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

اگر آپ بھی ہمارے لئے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کےساتھ [email protected] پر ای میل کریں
سالار سلیمان

سالار سلیمان

بلاگر ایک صحافی اور کالم نگار ہیں۔ آپ سے ٹویٹر آئی ڈی پر @salaarsuleyman پر رابطہ کیا جاسکتا ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔