جہاں قبریں ماتم کررہی ہوں

آفتاب احمد خانزادہ  ہفتہ 14 جنوری 2017

اگر کوئی شخص چیخ چیخ کر یہ کہنا شروع کردے کہ ہم سب بیس کروڑ ایک ایسی گاڑی میں سوار ہیں جس کے بریک فیل ہوچکے ہیں اور جو بغیر ڈرائیور کے اپنی پوری رفتار سے اندھادھند بھاگی جارہی ہے، جس کی نہ تو کوئی سمت ہے اور نہ ہی کوئی منزل۔ تو ظاہر ہے ہم سب اس پر ہنسیں گے، اس کی بات پر قہقہے لگائیں گے اور اسے پاگل قرار دے دیں گے۔ آئیں عظیم یہودی ماہر نفسیات و ادیب وکٹر فرینکل کی کتاب کا ایک اقتباس پڑھتے ہیں۔ دوسری جنگ عظیم میں اس کے ماں باپ، بھائی، بہن سب مارے جاچکے تھے، فرینکل بچپن میں کسی نہ کسی طرح نازیوں کے اذیتی مراکز سے نکلنے میں کامیاب ہوگیا تھا۔ وہ لکھتا ہے کہ ’’جب نازی فوجی انھیں ایک ٹرین میں اذیتی کیمپ لے جارہے تھے تو اس ٹرین میں موجود ہر انسان کو یہ معلوم تھا کہ انھیں زندہ جلا دیا جائے گا، ٹرین میں موجود سب لوگ خوفزدہ تھے، لیکن ان کے پاس فرار کا کوئی راستہ موجود نہیں تھا۔

آپ جانتے ہیں ہٹلر نے لاکھوں بھٹیاں بنوائی تھیں، جن میں یہودیوں کو زندہ جلایا جاتا تھا، ان میں ایک ایسی بھٹی بھی تھی جس میں دس ہزار لوگوں کو ایک ساتھ ڈال دیا جاتا تھا اور وہ پل بھر میں راکھ ہوجاتے تھے۔ یہودیوں سے بھری ٹرین ان ہی بھٹیوں کی طرف بڑھ رہی تھی اور سب لوگ پریشان تھے، سب لوگ یہ ہی سوچ رہے تھے کہ وہ کسی نہ کسی معجزے کی وجہ سے بچ جائیں گے۔ ٹرین ہر طرف سے بند تھی، اچانک ایک عورت نے چلانا شروع کردیا، وہ پاگل ہوگئی تھی، اس عورت کے پاس ایک چھوٹا سا بچہ تھا اور وہ پاگلوں کی طرح رو رہی تھی، اس کا بیٹا اسے سمجھانے کی کوشش کررہا تھا کہ وہ جلد ہی اپنے باپ کے پاس پہنچ جائیں گے اور وہ اسے بچالے گا اور وہ عورت تھی کہ بار بار چیخ رہی تھی ’’دیکھو آگ آسمان کی طرف بڑھ رہی ہے، آگ کی لپٹیں نکل رہی ہیں‘‘۔

یہ سن کر لوگوں نے باہر دیکھنا شروع کردیا اور اس عورت کو برا بھلا کہنا شروع کردیا کہ نہ آگ ہے اور نہ ہی بھٹیاں۔ لوگ اس عورت کو ڈانٹنے لگے کہ وہ چپ رہے لیکن اس کا پاگل پن بڑھتا جارہا تھا۔ کچھ دیر بعد لوگوں نے اسے چپ کرانے کے لیے مارنا شروع کردیا لیکن وہ عورت ہنس ہنس کر کہہ رہی تھی کہ ’’چمنیاں ہیں، آگ ہی آگ ہے، ہزاروں لوگ جل رہے ہیں، تمھیں انسانی گوشت کے جلنے کی بو نہیں آرہی؟ لوگ ڈر کے مارے سونگھتے ہیں، لیکن کوئی باس نہیں ہے۔ پھر لوگوں نے اسے چپ کرانے کا ایک طریقہ ڈھونڈ لیا، کیونکہ وہ عورت خوفزدہ ہوکر ان کے خوف کو جگا رہی تھی، وہ عورت انھیں بھی موقع دے رہی تھی کہ وہ شعور کو لاشعور میں تحلیل کرلیں۔

لوگ ایک دوسرے سے کہنے لگے کہ پتہ نہیں کیا ہونے کو ہے اور یہ عورت بھی ہمارے لیے ایک مصیبت بن گئی ہے، یہ ہمارے گھاؤ کو بار بار چھو رہی ہے۔ یہ کہہ کر لوگوں نے اس کے سر پر ڈنڈوں کی بارش کردی۔ وہ عورت کچھ دیر کے لیے بے ہوش ہوجاتی ہے لیکن ہوش آنے پر پھر شور مچانا شروع کردیتی۔ کچھ دیر بعد لوگ سمجھنے لگے کہ وہ پاگل ہے، اس لیے اس کی باتوں پر دھیان دینے کی ضرورت نہیں۔ تیسرے دن جب ٹرین اذیتی کیمپ کے قریبی ریلوے اسٹیشن پر پہنچی تو لوگوں نے دیکھا کہ بھٹیوں سے شعلے اٹھ رہے تھے اور انسانی گوشت کے جلنے کی بو آرہی تھی۔ وہ سب کچھ بالکل ویسا ہی تھا جیسے وہ عورت بتا رہی تھی اور وہ پاگل تھی اور وہ سب ہوش میں تھے‘‘۔

کیا یہ حقیقت نہیں ہے کہ ایک ایسا ملک جہاں بدنظمی اور بدانتظامی عروج پر ہو، جہاں نیتوں کو کینسر لاحق ہوچکا ہو، جہاں اداروں پر فالج کا حملہ ہو چکا ہو، جہاں صرف باتیں ہی باتیں ہو رہی ہوں، جہاں جھوٹ کا راج قائم ہوچکا ہو، جہاں کرپشن، لوٹ مار، غبن قومی نعرہ بن چکا ہو، جہاں سچ بولنے اور سننے کے لیے لوگ تیار نہ ہوں، تو ظاہر ہے پھر اس کی کھائی کے علاوہ اور دوسری منزل کوئی کیسے ہو سکتی ہے۔ وہ شخص پاگل ہرگز نہیں ہو سکتا، بلکہ وہ ہم سب سے زیادہ ہوشیار اور سمجھ دار ہے، کیونکہ وہ سب کچھ دیکھ رہا ہے جو ہم نہیں دیکھ پا رہے یا پھر دیکھنا ہی نہیں چاہتے ہیں۔

کیا آپ نے کبھی یہ سوچا ہے کہ آخر ہمارے ملک کے یہ حالات کیوں ہوگئے ہیں، اگر نہیں تو پھر آئیے میں آپ کو بتاتا ہوں کہ ہمارے یہ حالات کیوں ہوگئے ہیں۔ اس کی بڑی ہی سیدھی سادی سی وجہ ہے کہ ہمارے ملک نے اچھے انسان بنانا بند کردیے ہیں، آپ کو ہمارے ملک میں اچھے ڈاکٹر، اچھے انجینئر، سیاست دان، علما، بیوروکریٹس، جاگیردار، سرمایہ دار مل جائیں گے، اس کے ساتھ ساتھ آپ کو ایک سے بڑھ کر ایک بڑا اچھا لٹیرا، ڈاکو، کرپٹ، راشی، زانی، جھوٹا، لالچی، دھوکے باز، فراڈی، کمیشن خور، سودخور، غدار ڈھونڈے بغیر ہی مل جائیں گے، لیکن اچھے اور نیک انسان ملنا ناممکن ہے۔

اصل میں ہماری زمین بانجھ ہوگئی ہے، بنجر ہو گئی ہے، بیوہ ہوگئی ہے۔ جس زمین میں صدیوں کی ناانصافی ہو، جہاں وحشیانہ خیالات آزادانہ گھومتے رہتے ہوں، جہاں انسانی روحیں انصاف کی تلاش میں بھٹکتی پھر رہی ہوں، جہاں محرومیوں کے درخت اگ رہے ہوں، جس کی مٹی بے گناہوں کے خون سے رنگی ہوئی ہو، جہاں ویرانوں میں دکھ روتے ہوں، جہاں درد چیختے ہوں، جہاں آہیں چلاتی ہوں، جہاں آنسو گریہ کرتے ہوں، جہاں قبریں ماتم کررہی ہوں تو پھر ایسی زمین میں سے اچھے انسان کیسے اگ سکتے ہیں۔ ہم ایسی توقع بھی کیوں کرسکتے ہیں۔

ڈاگ ہیمرشولڈ کہتا ہے ’’آپ اپنے اندر کے جانور کے ساتھ نہیں کھیل سکتے، جب تک کہ آپ مکمل طور پر جانور نہ بن جائیں۔ برائی اور جھوٹ کے ساتھ نہیں کھیل سکتے جب تک کہ اپنے سچ کے حق سے دستبردار نہ ہوجائیں۔ وحشی پن کے ساتھ نہیں کھیل سکتے جب تک کہ آپ اپنے ذہن کی حساسیت کو نہ چھوڑ دیں، جو اپنے باغ کو صاف ستھرا رکھنا چاہتا ہے وہ کانٹوں کی جھاڑیوں کے لیے علیحدہ پلاٹ نہیں رکھتا‘‘۔ ایک دفعہ جب ہم خود آگاہ ہوجائیں تو پھر ہمیں زندگی گزارنے کے لیے چند مقاصد اور اصول چن لینے چاہئیں۔

اگر ہم ایسا نہیں کریں گے تو خلا پر ہوجائے گا اور ہم اپنی خود آگاہی کھو دیں گے اورایسے غراتے ہوئے جانور کی زندگی گزاریں گے کہ جس کا مقصد محض زندہ رہنا اور اپنی جبلتیں پوری کرنا ہوتا ہے، جو لوگ اس سطح پر زندہ ہوتے ہیں وہ زندگی نہیں گزار رہے ہوتے بلکہ زندگی انھیں گزار رہی ہوتی ہے۔ یاد رکھیں ایک روز ہر جانور بوڑھا ہوجاتا ہے اور پھر کسی بھی کام کا نہیں رہتا اور پھر ہمیشہ کے لیے مر جاتا ہے، لیکن اچھا انسان کبھی نہیں مرتا، حتیٰ کہ مرنے کے بعد بھی نہیں۔ اب یہ آپ پر منحصر ہے کہ آپ کیسی زندگی گزارنا چاہتے ہیں اور کیسی موت چاہتے ہیں اور ساتھ ہی ساتھ کیسا ملک اور کیسا معاشرہ چاہتے ہیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔