ناروے کے حسین مناظر کی جھلکیاں دکھاتی ایک سفر بیتی

ڈاکٹر محمد حامد زمان  اتوار 15 جنوری 2017
قطبِ شمالی کے سائے میں کیے گئے اس سوال کا میرے پاس جواب نہ تھا۔ فوٹو : فائل

قطبِ شمالی کے سائے میں کیے گئے اس سوال کا میرے پاس جواب نہ تھا۔ فوٹو : فائل

رات کے ساڑھے نو بج رہے تھے۔ ہلکی ہلکی برف باری سے سامنے کا رستہ نظر نہ آتا تھا۔ برف کے بھاری بوٹوں اور زمیں پر برف کی وجہ سے ہر قدم بوجھل تھا۔ سڑک پر اکا دکا گاڑیاں چل رہی تھیں۔ رات تاروں کی جھلملاہٹ سے محروم تھی، مگر برف کی سفیدی کی اپنی روشنی اور اس کی اپنی یکساں جاذبیت برقرار تھی۔ میں پہاڑ کے اوپر کی طرف جارہا تھا، جہاں سے ایک مدھم سی روشنی مجھے اپنی طرف کھینچ رہی تھی۔

اپنے بھاری قدم اٹھاتا، میں جوں جوں عمارت کے قریب پہنچتا جا رہا تھا، توں توں اس کی روشنی کی کشش مجھے اپنے پاس بلاتی جا رہی تھی۔ اپنے بھاری قدم اٹھاتا میں جب عمارت کے قریب پہنچا تو عمارت کی شان سے دنگ رہ گیا۔ نہ صرف عمارت چاروں جانب سے شیشے پر مشتمل تھی بل کہ اس کے اندر ایک اور دنیا آباد تھی، کتب بینوں کی دنیا۔ اور اس دنیا کا ہر شخص لفظوں، رنگوں اور تصویروں کی الگ الگ دنیاؤں میں گم۔

میں ناروے کے شمالی شہر ٹرامزو میں تھا۔ جنوری کے دن تھے اور اندھیرے کے غلاف سے نکل کر دنوں کی بیداری میں کچھ مہینے باقی تھے۔ مگر لائبریری کا نور سردی میں حرارت بھی دے رہا تھا اور اندھیرے میں حُسن بھی۔ گو اگلے دن تعطیل تھی مگر قطب شمال کے پڑوس میں موجود اس چھوٹے سے شہر کی لائبریری میں ہر عمر کے کتب بینوں سے عمارت کھچا کھچ بھری ہوئی تھی۔

میں دروازے پر رک گیا اور سوچنے لگا کہ ہم میں اور ان میں کس قدر فرق ہے۔ گو یہاں گھپ اندھیرا، سیاہ رات اور سرد موسم، مگر کتب بین وافر۔ ہمارے ہاں دن روشن سہی مگر کتابیں ناپید اور کتب بیں نایاب۔ پھر خیال آیا کہ روشن خیالی کا تعلق قدرت کے گرد و نواح سے نہیں بل کہ دل کے گرد و نواح سے ہوتا ہے، ہمارے دلوں کے گرد و نواح اب صاف نہیں رہے۔ میں دروازے سے واپس مڑ گیا، اور اپنے اور ناروے کے درمیان ہزاروں میل اور کروڑوں عزائم کا فاصلہ محسوس کر تے ہوٹل لوٹ آیا۔

کام کی غرض سے میرا ناروے آنا جانا لگا رہتا ہے، مگر کبھی بھی قطب شمال کی جانب سفر کرنے کا موقع نہیں ملا تھا۔ دائرہ آرکٹک کے اندر واقع یونیورسٹی آف ٹرامزو دنیا کی سب سے شمالی یونیورسٹی جانی جاتی ہے۔ ناروے میں ایک کانفرنس کی وجہ سے یہاں کے ریکٹر ڈاکٹر کینتھ روڈ سے میری ملاقات ہوئی۔ میرے کام کی نہ جانے کیا بات انہیں بھائی کہ ہماری دوستی ہو گئی۔ یہ جان کر کہ میں بھی ان کی طرح ایک کیمیا داں ہوں ہمارا تعلق مزید پختہ ہوگیا۔ آخر ہماری ڈگری کسی کام تو آئی! اس بار جنوری جو ناروے آنا ہوا تو ڈاکٹر روڈ نے ٹرامزو آنے کی دعوت دی، جو میں نے جھٹ سے قبول کرلی!

پہلی رات میرے ٹرامزو پہنچتے ہی ڈاکٹر صاحب نے مجھے ایک روایتی ریستوراں میں مدعو کیا اور مقامی لذتوں کے ساتھ ساتھ قطبی کیکڑے کے لذیذ عشائیے سے بھی نوازا۔ قطبی کیکڑے کھاکر خوشی بھی ہوئی اور دکھ بھی۔ خوشی اس لیے کہ آج سے پہلے کبھی یہ لذت میسر نہ ہوئی تھی اور افسوس اس لیے کہ بدلتے موسموں کی وجہ سے قطبی برف پگھل رہی ہے اور یہ کیکڑے اب ریستورانوں کی زینت بن رہے ہیں۔ گویا جب موسم بدلا اور رت گدرائی تو یہ کیکڑے جُنوں میں چاک گریباں کرکے لقمۂ اجل بن گئے۔

ڈاکٹر صاحب کے ساتھ گفتگو ہمہ پہلو بھی تھی اور علم و فضل کا سرمایہ بھی۔ کچھ لوگ اور اساتذہ ایسے ہوتے ہیں کہ جن کے ساتھ چند لمحے بھی مل جائیں تو یوں لگتا ہے کہ عمر بھر کا سرمایہ مل گیا، اور جی چاہتا ہے کہ ہزاروں ایسی عمریں مل جائیں۔ ڈاکٹر صاحب نے ٹرامزو کی تاریخ پر بھی روشنی ڈالی اور یونیورسٹی آف ٹرامزو کے عزائم و مقاصد پر بھی۔ گو ٹرامزو کا موسم سرد و تاریک ہے، مگر ان کے مقاصد روشن و تازہ۔ ڈاکٹر روڈ کی قیادت میں یونیورسٹی کام یابی کے زینے تیزی سے چڑھ رہی ہے اور بالخصوص مقامی مسائل پر توجہ دے رہی ہے۔

ناروے میں لوگ عموماً ساڑھے پانچ یا چھے بجے تک کھانے سے فارغ ہوجاتے ہیں۔ اب تقریباً سوا نو بج رہے تھے، اور مجھے اس بات کا شدت سے احساس تھا کہ مروتِ میزبانی میں ڈاکٹر روڈ کچھ نہیں کہیں گے۔ میں نے ڈاکٹر صاحب سے اجازت چاہی، شکریہ ادا کیا اور باہر نکل آیا۔

اگلی صبح سورج نامی کوئی چیز تو نہ نکلی، مگر آسمان سے آنے والی ایک ہلکی سی روشنی صبح اور رات کا فرق بتا رہی تھی۔ میں گرما گرم ناشتہ کرکے ہوٹل سے باہر آ گیا۔ میری منزل وہی لائبریری تھی جو کہ رات بھر میرے سر پر سوار رہی۔ سڑک پر سے برف صاف ہو چکی تھی مگر سردی بدستور قائم تھی۔ سڑک کے برابر سمندر منجمد تھا مگر افق پر کشتیاں نظر آ رہی تھیں۔ نقطے برابر یہ کشتیاں، اور ان کے ہارن بتلا رہے تھے کہ تلاشِ معاش کے آگے سمندر کا انجماد بھی بے معنی ہے۔ لائبریری کے قریب پہنچا تو دیکھا کہ صبح میں اس کا حسن مزید بڑھ گیا ہے۔

آنے والے بچوں کی تعداد میں قدرے اضافہ ہو چکا تھا۔ میں سیدھا لائبریرین کے پاس پہنچا، اور ٹرامزو کی تاریخ پر ایک کتاب کی درخواست کی۔ میں نہ تو ٹرامزو کا شہری تھا، اور نہ ہی اس لائبریری کا ممبر، مگر لائبریرین کی پوری توجہ مجھ پر یوں مرکوز تھی کہ گویا مجھ سے زیادہ اہم کوئی اور شخص نہیں۔ میں نے تو ایک کتاب مانگی تھی، مگر لائبریرین نے میرے آگے کتابوں کا مینار کھڑا کردیا۔ سب پڑھنے کا تو سوال ہی پیدا نہیں ہوتا تھا، اس لیے ایک کتاب کے پہلے دو باب پڑھنے پر ہی اکتفا کیا۔

معلوم ہوا کہ ٹرامزو ناروے میں ایک خصوصی مقام رکھتا ہے، ملک کے شمال کا یہ شہر صوبے کا سب سے بڑا شہر بھی ہے اور شمالی ناروے کا کاروباری مرکز بھی۔ عرصہِ دراز سے موجود مچھیروں کے لیے بھی اہم ہے اور ماضی قریب میں آئے ہوئے تیل کے تاجروں کے لیے بھی، مگر جہاں معدنیات اور تیل امریکا، چین اور مشرقِ وسطی میں ماحولیاتی آلودگی کا سبب بن رہا ہے، ٹرامزو میں ماحول سے محبت بچے بچے کے رگ و پے میں دوڑ رہی ہے۔ پہاڑ، سمندر اور خصوصاً فیورڈ، ناروے کے لوگوں کی شناخت ہیں۔ اپنی شناخت میں وہ تیل کے زہر کی آمیزش برداشت نہیں کرسکتے۔

تاریخ کی کتاب پڑھ کر مجھے اس بات کا بھی اندازہ ہو گیا کہ گو ناروے رہنے کے لیے دنیا کے پسندیدہ ترین ممالک میں شمار کیا جاتا ہے، مگر اس رعنائی کے پیچھے تاریکی بھی راج کرچکی ہے۔ ان تاریکیوں کی آنکھوں میں آنکھیں ڈالنے کے لیے ایک ہی جگہ تھی، ٹرامزو کا عجائب گھر۔ میوزیم لائبریری سے تقریباً اڑھائی میل دور تھا، اور جو کچھ روشنی باقی تھی، وہ اب ختم ہونے کو تھی۔ شاید دل کو خوش رکھنے کے لیے اور صبح اور شام کے اس مصنوعی فرق کو واضح کرنے کے لیے ٹرامزو کے باسی سردیوں میں تین بجے اپنے گھر کے باہر کی روشنیاں جلا دیتے ہیں۔ ان ننھی منی قندیلوں سے شہر بھر جگمگا اٹھتا ہے۔

میں لائبریری سے میوزیم کی جانب چل پڑا۔ قندیلوں سے شہر چراغاں تھا۔ میرے برفانی بوٹ میرے پاؤں کو گرم کیے ہوئے تھے۔ میرا کوٹ اپنا منفرد مزاج رکھتا تھا۔ اس کا مقصد ظاہری جاذبیت زیادہ اور حدت آمیزی کم تھا۔ کبھی اپنے آپ کو گلے لگاتا اور کبھی اپنے ہاتھوں کو تیزی سے ملتا میں میوزیم کی جانب چلتا رہا۔ کبھی پھسلا، کبھی بھٹکا مگر تاریخ کی کشش مجھے راہِ راست پر لاتی رہی۔ گھنٹے بھر کی مسافت کے بعد میوزیم پہنچا تو اس کے سادہ مگر حسین طرز تعمیر سے متاثر ہوئے بغیر نہ رہ سکا۔

میوزیم ناروے کے شمال کے قدیم اور آبائی شہری، یعنی سامی لوگوں کے بارے میں تھا۔ سامی لوگ دنیا کے شمالی ترین علاقوں میں ہزاروں برس سے آباد رہے ہیں اور ناروے کے علاوہ سویڈن، فن لینڈ اور روس میں بھی پائے جاتے ہیں۔ کہا جاتا ہے کہ آخری زمانۂ برف کے بعد یہ لوگ شمال منتقل ہوتے چلے گئے اور ان شمالی علاقوں میں ان لوگوں نے اپنی ثقافت کی بنیاد ڈالی۔ باقی یورپ کے مقابلے میں ان لوگوں کی ثقافت بہت آگے تھی۔ جہاں یورپ میں صرف سفید و سیاہ رنگ کے لباس تھے۔ وہاں سامی لوگوں کے ملبوسات رنگوں کی دھنک سے آراستہ تھے بالخصوص سرخ، نیلے اور سنہرے رنگ کی بہتات تھی۔

خاندانوں میں ملت تھی اور جنگ و جدل سے احتراز۔ بارہ سنگھے کے گوشت، کھال اور دودھ پر پلنے والے یہ لوگ محنت کش بھی تھے اور اپنے گردونواح کے محبوب بھی۔ میوزیم میں موجود سامی تہذیب کے نوادرات دیکھ کر میں کسے اور دنیا میں آ گیا۔ تاریخ کے دریچوں کو پھلانگتے، میں نے اپنے آپ کو شمالی ناروے کے ایک گاؤں میں پایا۔ جوں جوں میں میوزیم کے مختلف حصوں سے گزرتا، توں توں میں اپنے آپ کو سامی میزبانوں کے ساتھ پاتا۔ اپنی خیالی دنیا میں بارہ سنگھے کی کھال اوڑھے میں شام کو ایک خیمے میں بیٹھ کر لوک گیت گاتا، دودھ پیتا، ہم عصروں سے کہانیاں سنتا اور جب آنکھیں بند کرلیتا تو قطبِ شمالی کے تارے مجھے لوری دینے آتے۔

میرا اطمینان مصنوعی اور ناپائیدار تھا۔ میں میوزیم کے آخری حصے میں آ چکا تھا۔ یہاں سامی سکون کی پشت میں یورپی ترقی کے نام پر خنجر گھونپا جا رہا تھا۔ سادگی کی شفاف نہر میں خودپسندی اور حرص کا زہر ملایا جا رہا تھا۔ انیسویں صدی کے وسط میں یورپ کا نو آبادیاتی نظام صرف ایشیا اور افریقہ کے لوگوں کا ہی استحصال نہیں کر رہا تھا، بل کہ وہ تو اپنے قدیم اور مقامی باسیوں کے صدیوں پرانے تمدن کے بھی پرخچے اڑا رہا تھا۔

اسی عہد میں ناروے کی حکومت نے سامی ثقافت اور سامی زبان کو غیرقانونی قرار دے دیا اور اسکولوں میں بچوں کو مجبور کیا کہ وہ نہ صرف اسکول میں بل کہ گھر پر بھی صرف نارویجی زبان بولیں۔ بچوں کو یہ احساس دلایا گیا کہ ان کی ثقافت پس ماندہ ہے اور محرومیوں سے اٹی پڑی ہے اور جدید اور ترقی یافتہ ناروے میں اس کی کوئی جگہ نہیں۔ ثقافت کے ساتھ ساتھ ذریعہ معاش پر بھی کاری ضرب لگی۔

جنوب سے آنے والے شکاریوں نے بارہ سنگھوں کی نشوونما پر بہت برا اثر ڈالا اور بہت سے مقامی لوگوں کے لیے اپنے ذریعہ معاش کو برقرار رکھنا ممکن نہ رہا۔ جوں جوں ناروے نے ترقی کی، توں توں سامی تہذیب کی حالت بد سے بد تر ہوتی چلی گئی۔ اسی دوران بہت سے سامی مجبوراً جنوبی ناروے بھی منتقل ہونے پر مجبور ہوگئے، اور ناروے کی بھاری بھرکم حکومت کے زور کے آگے اپنی ثقافت کو برقرار نہ رکھ سکے۔ بین الاقوامی صنعتی ترقی سے بڑھتے ہوئے درجۂ حرارت کی وجہ سے یہاں کی مقامی ثقافت پر مزید برا اثر پڑا۔

اس بھاری بھرکم دل اور پُرنم آنکھوں کے ساتھ میں میوزیم کے آخری حصے میں آ کھڑا ہوا۔ یہاں پر ماضی قریب کی کوششوں کی داستان بیان کی گئی تھی۔ ناروے کی حکومت اپنے کیے پر شرمندہ ہے، اور گو نقصان بہت ہوا، اور تلافی میں بہت وقت لگے گا، مگر اس تلافی کا پہلا قدم احساسِ زیاں و ندامت ہے۔ ناروے کی حکومت یہ جان گئی ہے کہ کسی بھی ثقافت کو یکسانیت کے پیمانے پر تولنا، اور احساسِ کمتری یا برتری میں اس کی پیمائش کرنا نہ صرف افسوس ناک ہے بل کہ اگلی نسلوں کے ساتھ ظلم ہے۔

میوزیم کے آخری کمرے میں ماضی قریب کی کوششوں کا ذکر ہے، جن میں اس بات کا عہد کیا گیا ہے کہ گو نقصان بہت ہوا، اب جو کچھ بچا ہے اس کی حفاظت کرنا ہمارا قومی فریضہ ہے۔ حال ہی میں ناروے کی حکومت نے سامی علاقوں کو خودمختاری دے کر ان کی ایک پارلیمان قائم کی، سامی زبان کو قومی زبان کا درجہ دیا گیا، اور یہ قانون بھی بنادیا کہ تمام سرکاری دستاویزات نارویجی کے ساتھ اب سامی زبان میں بھی چھپا کریں گی۔

یہ کمرہ دیکھتے ہوئے میں اس سوچ میں گم ہو گیا کہ وطنِ عزیز تو ثقافتوں کی آمیزش سے مالامال ہے، مگر کاش وہ جو کہ اس بات پر تلے بیٹھے ہیں کہ ثابت کردیں کہ ملک کی ایک ثقافت دوسری سے بہتر ہے، ان کی زبان، ان کا لباس، ان کا رقص بہتر، اور دوسرے بھلے وہ اپنے ہی ہم وطن کیوں نہ ہوں، ہم سے کمتر ہیں، اس میوزیم کو آ کر دیکھ لیں۔ دل سے دعا نکلی کہ خدارا، ہماری ثقافتوں کو ہمارے گھروں اور دلوں میں آ باد رکھ۔ کہیں ایسا نہ ہو کہ وہ صرف میوزیم کا حصہ بن جائیں۔ مگر ہمارے پاس تو میوزیم بھی نہیں ، اگر وہ کھوگئیں تو؟ میں جلدی سے اس کمرے نکل آیا۔

میوزیم کے برابر میں ایک چھوٹی سی دکان ہے، میں نے وہاں سے کچھ دستکاریاں خریدیں، اور اپنے خیالی سامی میزبانوں سے دوبارہ ملنے کا وعدہ کر کے باہر آگیا۔ باہر اب اندھیرا ہو چکا تھا۔ میں شہر کی جانب چل نکلا۔ شدید بھوک لگ رہی تھی۔ ایک چھوٹے سے کیفے سے گرما گرم کافی اور ایک سینڈوچ خرید کر دکان کے سامنے کے سمندر، اڑتی چڑیوں اور دھندلکے پہاڑوں پر موجود چھوٹے چھوٹے گھروں کے قمقموں کو دیکھ کر کسی اور دنیا میں کھو گیا۔ ماحول میں حد درجے کا سکون تھا۔ فی الحال مجھے ماضی کے دریچوں کو خیر باد کہ کر ایک کھوجی بننا تھا، جھومتی، مچلتی روشنیوں کا کھوجی!

قطبِ شمالی کے علاقے، بالخصوص الاسکا، آئس لینڈ اور ناروے سردیوں میں اپنی رنگا رنگ شمالی روشنیوں کے لیے مشہور ہیں۔ شمالی روشنیاں درحقیقت سورج سے آنے والی شمسی ہواؤں اور قطبِ زمین کے مقناطیسی مدار میں موجود گیس کے ذروں کے ٹکراؤ سے پیدا ہوتی ہیں۔ زمانۂ قدیم سے انسانوں کی حیرت کا سبب بننے والی یہ شعاعیں کبھی بھوت بن بیٹھیں اور کبھی بزرگانِ رفتہ کا پوشیدہ پیغام، کبھی دیوتا اور کبھی جنگجو دیوتاؤں کی زرہ بکتر۔ بالآخر ایک نارویجی سائنس داں، کرسچن برکلینڈ نے ان کی حقیقت کو دریافت کیا۔ میرے لیے یہ شعاعیں اک خاص معنی رکھتی ہیں۔

میں نے زمانہِ طالبِ علمی میں جب سائنسدانوں کی سوانحِ عمری پڑھنا شروع کی تو کرسچن برکلینڈ کی سوانحِ عمری نے مجھ پر گہرا اثر ڈالا۔ نہ صرف کرسچن کی شخصیت کو زمانے نے بہت برا بھلا کہا، بل کہ اس کی تحقیق کو بھی تحقیر کی نگاہ سے دیکھا گیا۔ کبھی اندھیرے پہاڑ پر، اور کبھی اندھیری تجربہ گاہ میں بسنے والا یہ سائنس داں، اپنے اندر کے اندھیروں میں بھی روشنی ڈھونڈ رہا تھا۔ انہی جنگوں میں مگن، وہ پراسرار حالت میں تقریباً سو برس پہلے چل بسا، مگر آج، اس کا کتابی چہرہ ناروے کے 200 کرونر نوٹ کو زینت بخش رہا ہے۔

بس کا ٹکٹ میں صبح ہی لے چکا تھا۔ بس کمپنی نے ٹکٹ بیچتے ہوئے یہ بات باور کرا دی تھی کہ میاں! اگر روشنی وغیرہ نظر نہ آئی تو تمہاری قسمت، پیسے واپس نہیں ملیں گے، پیسے ہمارے اور مقدر تمہارا۔ ٹکٹ پر ہم نے کچھ پھونکا اور شام سات بجے بس میں سوار ہو گئے۔ بس کچھا کچھ بھری ہوئی تھی اور اس میں سوار لوگ جس قدر تیاری سے آئے تھے، مجھے تو ایسا لگتا تھا کہ شاید میں اس بس میں مفت لفٹ لینے آیا ہوں اور اگلے اسٹاپ پر اتر جاوًں گا۔ کچھ لوگوں کے کیمرے ان کے منہ سے بڑے تھے اور کچھ کے کیمرے ایسے تھے کہ گمان ہوتا تھا کہ شاید کسی ٹی وی اسٹوڈیو سے ابھی چرائے ہیں۔ میرے آئی فون اور جیکٹ دونوں ہی یہ پیغام دیتے تھے کہ شکل و صورت کا جاہ و جمال تو بہت تھا، مگر ضرورت پڑنے پر معذرت کرلیں گے۔

کچھاکھچ بھری بس روشنی کے تعاقب میں نکلی تو بس کا کنڈکٹر جس کا نام مارکس تھا اور وہ خود سویڈن کا باسی تھا، ہمیں رات بھر کا پروگرام بتانے لگا کہ ہم کہاں کہاں جائیں گے، روشنی کو کہاں ڈھونڈیں گے اور کہاں پائیں گے۔ بس میں دنیا بھر سے لوگ آئے ہوئے تھے۔ میرے برابر میں ایک انگریز جوڑا ابھی شام ہی کو پہنچا تھا۔ چین سے آئے ایک جوڑے کو شدید سردی لگ رہی تھی اور ایک بڑی بی اور ان کی سہیلی اپنے اپنے کیمروں کو سینے سے لگائے بیٹھی تھیں کہ ادھر شعاع نے بادلوں کے پیچھے سے جھانکا، ادھر ٹھک سے انہوں نے تصویر لی۔

باہر ہلکی ہلکی برف باری شروع ہوچکی تھی جو کہ خوش آئند بات نہ تھی۔ مارکس نے بتایا کہ اگر بادل اور برف یوں ہی رہے تو پھر روشنی اپنے دماغ سے ہی دیکھیے، مگر ہارنے والے ہم بھی نہ تھے۔ آنکھ مچولی کا کھیل شروع ہو چکا تھا۔ ادھر کسی تارے نے بادل کی اوڑھنی پہنی، ادھر ہم نے بس کا رخ دوسری جانب موڑا۔ مارکس بدستور اپنے موبائل فون پر دوسری بسوں اور کنڈکٹروں سے رابطے میں تھا اور ڈرائیور کو مشورے دیتا جا رہا تھا۔ ڈرائیور کبھی سنجیدہ ہوجاتا، کبھی مسکراتا اور کبھی کھلکھلا کر ہنسنے لگتا۔ مجھے تو لگا کہ شاید مجھ پر ہنس رہا ہوگا کہ دیکھو! ان بابو میاں کو، یوں ڈنر کوٹ پہن کر آئے ہیں کہ لگتا ہے کہ شمالی روشنیاں دیکھنے نہیں بل کہ ماموں زاد کا ولیمہ کھانے تشریف لائے ہیں۔

گھنٹے بھر کی مسافت کے بعد ہم ایک پیٹرول پمپ پر رکے کہ لوگ کچھ کھانے پینے کا سامان خرید لیں۔ دور دور تک کوئی آبادی نہ تھی۔ کچھ مسافروں نے بیت الخلا کی سہولت سے فائدہ اٹھایا۔ میں دکان دار سے گپ شپ میں لگ گیا۔ میں حیران تھا کہ اس ویران سے گاؤں میں بھلا کون رہتا ہے، اور پیٹرول پمپ پر کام کرنے والی یہ لڑکی آخر رات بھر کیوں کام کر رہی ہے، وہ کہاں رہتی ہے اور اس کو اس ویرانے میں رہنا کیسا لگتا ہے؟

معلوم ہوا کہ قریبی گاؤں میں رہتی ہے اور طالبہ بھی ہے، میں تو اس سے مل کر حیران تھا ہی، مجھے لگا کہ مجھے دیکھ کر وہ زیادہ حیران تھی! ابھی گفتگو شروع ہوئی ہی تھی کہ بس جانے کے لیے تیار ہو چکی تھی اور میں آخری مسافر تھا جو کہ ابھی تک واپس نہیں آیا تھا، بھاگ کر بس واپس پہنچا۔ بس میں سبھی لوگوں کی نظریں مجھ پر گڑی ہوئی تھیں۔ میں نے وہی کیا جو کہ آج کل نگاہیں چرانے کا سب سے موزوں طریقہ ہے، یعنی اپنے فون کو گھورتے ہوئے، بغیر کسی سے نظریں ملائے اپنی سیٹ میں دھنس گیا۔

بس اب سڑک پر دوبارہ دوڑنے لگی، چھوٹے چھوٹے گاؤں گزرتے جا رہے تھے، اور ان کے سادہ گھروں میں ایک عجیب حیرت انگیز سکوں تھا۔ شاید کبھی ان کے باسیوں سے کچھ سیکھنے کا موقع ملے۔ بس بدستور بادلوں سے آنکھ مچولی کھیلتی بل کھاتی اندھیری سڑک پر دوڑتی رہی۔ ہمیں ابھی تک کوئی خاطر خواہ کام یابی نہیں ہوئی تھی۔ رات کے ساڑھے گیارہ بج رہے تھے اور بھوک سے بدحال لوگوں کو ہر طرف شمالی سبز روشنیاں نظر آرہی تھیں۔ اچانک ڈرا نے ایک کونے میں بس روکی اور اعلان کر دیا کہ ہم یہاں اس ویرانے میں عشائیہ کریں گے۔ ڈرائیور جھٹ سے اٹھا اور بس کی پشت سے لکڑی کے بڑے بڑے ٹکڑے نکال کر کاٹنے لگا، اس نے ان لکڑیوں کو آگ لگادی۔

سرد ویرانے میں ان شعلوں سے حرارت بھی پیدا ہوئی اور روشنی بھی۔ مگر ہوا سے آگ برقرار رکھنا آسان نہ تھا۔ عجیب سحرانگیز سماں تھا، دنیا بھر کے کونوں سے آئے درجن بھر لوگ ایک ننھے منے سے شعلے کی حفاظت کر رہے تھے۔ یہ ایک شعلہ اور یہ ایک شمع ہمارے لیے روشنی بھی تھی اور حدت کا ساماں بھی۔ ہم سب کے ساتھ بیٹھنے کا وسیلہ بھی اور کھانا گرم کرنے کا بہانہ بھی۔ گو موسم سرد تھا، ہوا زوردار اور زمین پُرنم، مگر ہر ایک کی کوشش تھی کہ آگ جلتی رہے۔ باقی مسافروں کے شانہ بشانہ میں بھی کبھی آگ کو پھوک کر ہوا دیتا، کبھی مزید لکڑیاں کاٹتا اور کبھی اس طرح کھڑا ہو جاتا کہ ہوا سے آگ بجھنے نہ پائے۔ ننھا سا شعلہ مجھ سے پوچھنے لگا کہ اگر تم مل کر ایک شعلے کی اتنی حفاظت کرسکتے ہو تو مل کر کرۂ ارض کی دیکھ بھال کیوں نہیں کرسکتے؟ قطبِ شمالی کے سائے میں کیے گئے اس سوال کا میرے پاس جواب نہ تھا۔

مارکس نے کھانے کے لیے ایک انتہائی لذیذ سوپ کا انتظام کیا۔ ٹماٹر کی چٹنی میں بنا مقامی مچھلی کے اس سوپ نے بھوک بھی مٹائی اور بدن کے اندر کی سردی کے زور کو بھی توڑا۔ پھر گرما گرم کافی پلائی گئی۔ کافی کے بعد سوئے ہوئے بے جان جسموں میں جان آ گئی۔ انگریز جوڑا بالخصوص کافی خوش گوار موڈ میں آگیا تھا۔ چینی جوڑا اپنی زبان میں جذباتی ہورہا تھا اور اونچا بول رہا تھا، جانے ان لوگوں کے سوپ یا کافی میں کیا تھا؟ اور شاید مجھے حلال کافی دی گئی تھی۔ کچھ سوالوں کا جواب کبھی نہیں ملتا!

کافی اور کھانے کے بعد کچھ لوگوں کو قدرتی ضرورت نے آواز دی۔ بیت الخلا کے بارے میں دریافت کیا گیا تو مارکس نے بہت اطمینان سے بتایا کہ جی ہاں، ہم نے آپ کے لیے خصوصی انتظام کر رکھا ہے۔ جنگل میں دائیں جانب دس قدم پر مردوں کے لیے اور بائیں جانب دس قدم پر خواتین کے لیے انتظام ہے، جتنی چاہیے جگہ لیجیے کہ ہر ملکِ ماست کہ ملکِ خدائی ماست!

ہم اس وقت تک بس کے سائے میں شعلوں کی آغوش میں بیٹھے رہے کہ جب تک آتش جواں رہی، پھر ہم اپنی منزل اور پھدکتی روشنی کے کھوج میں بس میں بیٹھ گئے۔ گھنٹے بھر کی مزید مسافت کے بعد مارکس نے اعلان کیا کہ بادل کچھ چھٹ گئے ہیں اور قریب ہی پڑاؤ کریں گے۔ سڑک سے ذرا ہٹ کر بس رک گئی اور حکم ملا کہ باہر آجائیں۔ مطلع کسی حد تک صاف تھا مگر بلا کی سردی تھی۔ مارکس نے مسافروں سے کہا کہ ذرا دیکھ کر اتریے گا کہ ہلکی سی برف ہے۔

ہماری لغت میں ہلکی سی برف کے معنی غالباً کچھ اور ہیں، یا شاید مولوی فیروزالدین صاحب نے فیروزاللغات کی تالیف کے وقت قطبِ شمالی کا دورہ نہیں کیا تھا۔ جوںہی میں نے برف پر پاؤں رکھا تو برف گھٹنے سے بھی اوپر آگئی۔ یہ دیکھ کر قدرے اطمینان ہوا کہ صرف میرے کانوں نے ہی دھوکا نہیں دیا تھا، دیگر مسافر بھی کچھ اور ہی سوچ کر اترے تھے۔ جنوبی افریقہ سے آنے والی خاتون کا پاؤں جانے کہاں پڑا کہ وہ تو برف میں دھنس ہی گئیں۔ خاتون کے شوہر آگے جا چکے تھے اور کیمرا سیدھا کر رہے تھے۔ مارکس نے ان خاتون کو کھینچ کر برف سے باہر نکالا اور ضرورت سے زیادہ دیر تک ان کی برف جھاڑتا رہا۔

مارکس نے پہلے اپنی اور پھر کیمرے کی آنکھ سے دیکھا اور مسکرانے لگا۔ مجھے تو کچھ نظر نہیں آ رہا تھا، مگر مارکس نے مجھے شمال مشرق کی طرف مڑنے کو کہا۔ ہلکی ہلکی گلابی اور سبز روشنی رقص کرتی نظر آ رہی تھی۔ تاروں کے درمیان ایک ابھرتی، امڈتی، ڈولتی روشنی کی نہر، پل بھر میں ادھر، پل بھر میں جدا۔ ایک سحرانگیز منظر تھا۔ روشنی کے سحر میں گرفتار میں چند قدم دور نکل آیا۔ چاند تاروں کی منزلوں سے بہت دور سبز گلابی روشنی اٹھکھیلیاں کرتی رہی، پھر روشنی کی ایک تیز لہر نے اچانک بادلوں کی چلمن کا پردہ گرایا اور چلتی بنی، کسی اور آسمان پر کسی اور کائنات میں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔