زندگی بانٹنے والیوں کی موت!

ثناء غوری  پير 31 دسمبر 2012
معاشرتی جہالت پولیو کے خلاف سرگرم خواتین کی زندگیوں کو نگل گئی۔ فوٹو: فائل

معاشرتی جہالت پولیو کے خلاف سرگرم خواتین کی زندگیوں کو نگل گئی۔ فوٹو: فائل

صبح سویرے فہمیدہ، مدیحہ، نسیم اور کنیز اپنے گھر سے پانی کی دو بوند پیے بغیر زندگی کے دو قطرے پلانے کے لیے روانہ ہوتی ہیں۔

جستجو یہ ہے کہ آج شہر کا کون سا حصّہ ہے جہاں ہمیں جانا ہے، سفر شروع ہوا، متعلقہ علاقوں میں پہنچ کر ان خواتین کی ٹولیاں شہر کراچی کی مختلف بستیوں میں پہنچنے لگیں۔ فقط 250 روپے  یومیہ اُجرت کے عوض یہ خواتین صبح 8 بجے سے لے کر رات کی سیاہی پھیلنے تک اپنے کام میں مگن رہتی ہیں۔  اتنی دیہاڑی پہ تو کوئی اور کام بھی کیا جا سکتا ہے، جس میں وقت نہ لگے اور شاید پیسے بھی زیادہ مل جائیں، لیکن یہ خواتین ایک عظیم مقصد کی تکمیل کے لیے سرگرم عمل ہیں، جس کے لیے کم معاوضے کی بھی شاید کوئی پروا نہیں۔

دو بوند پولیو کے قطرے پلانے پر مامور یہ خواتین اس بات کو جانتی ہیں کہ یہ صرف ان کا کام نہیں بلکہ ایک قومی فریضہ ہے جس کی ذمہ داری انہیں دی گئی ہے۔ یہ رضا کار خواتین پاکستان کی آیندہ نسلوں کو پولیو جیسی مہلک بیماری سے ہمیشہ کے لیے نجات دلانے کی غرض سے موسم کے سرد وگرم اور گھریلو پریشانیوں اور ذاتی الجھنوں کو ایک طرف رکھ کر باہر نکلتی ہیں۔ دنیا میں پاکستان افغانستان اور نائجیریا ایسے ممالک ہیں جو پولیو پر قابو پانے میں ناکام رہے ہیں اور اس وقت دنیا بھر کے 70 فی صد سے زاید مریضوں کا تعلق پاکستان سے ہی ہے۔ پاکستان دنیا کے اُن ممالک میں شامل ہے جہاں امدادی تنظیمیںکروڑوں روپے خرچ کر رہی ہیں تاکہ اس مرض کا خاتمہ کیا جاسکے لیکن پاکستان میں پولیو پر تاحال قابو نہیں پایا جاسکا۔

پاکستان میں گذشتہ 17 سالوں سے جاری پولیو مہمات کے باوجود پاکستان میں پولیو وائرس رپورٹ ہو رہا ہے۔ ملک کے قبائلی علاقوں سمیت سب سے بڑے شہر کراچی کی مضافاتی آبادی گڈاپ ٹاؤن میں دھمکیوں کے بعد رواں برس چلائی جانے والی مہموں کے دوران ساڑھے تین لاکھ سے زائد بچے پولیو کے حفاظتی قطرے پینے سے محروم رہے، لیکن رواں برس کراچی کے علاقوں گڈاپ اور بلدیہ ٹائون میں پولیو پی تھری کی تصدیق ہوئی۔ اس صورت حال کے باعث دھمکیوں کی فکر نہ کرتے ہوئے یہ خواتین رضا کار ان علاقوں میں زندگی کے خوشیوں کی دو بوند پلانے پہنچ گئیں، تاکہ اس قوم کے بچے عمر بھر کی معذوری سے بچ جائیں اور ایک مکمل اور بھر پور زندگی گزاریں۔

03

لیکن شر پسند عناصر نے ان کے جذبے اور خلوص کو بے رحمی سے روند ڈالا اور ایک ہی نشست میں انہیں اپنے تئیں الزامات کے تحت فرد جرم سنا کر زندگی سے محروم کر ڈالا۔ جو زندگیوں کو حقیقی زندگی کی نوید دینے آئی تھیں انہیں ہی ہمیشہ ہمیشہ کے لیے سلا دیا گیا۔۔۔ پروپیگنڈا اور عدم برداشت نے اپنے ’’ملزموں‘‘ کو ذرا بھی موقع نہیں دیا۔ سماعت و بصارت سے محروم بغیر دل گردے کی زندگی ملیامیٹ کرنے والی ان ’’مشینوں‘‘ نے چشم زدن میں ان کے ’’جرم‘‘ کو  ’’سزائے موت‘‘ کا حق دار قرار دے دیا۔۔۔ معاشرے میں زندگی دینے کی سزا زندگی سے محرومی  ٹھہری! ممتا کے فطری جذبے سے سرشار معصوم بچوں کو  زندگی کے دو بوند دینے کی خواہش رکھنے والی ان عظیم خواتین کو ہی زندگی سے دور کر دیا گیا۔

17دسمبر سے 19دسمبر تک چلائی جانے والی رواں برس کی آخری انسداد پولیو مہم کے دوران سندھ بھر سے 44 لاکھ 33 ہزار 680 بچے پولیو کے حفاظتی قطرے پلانے کے لیے 6 ہزار 455 ٹیمیں فرائض انجام دے رہی تھیں۔ پولیو کے خلاف گھر گھر جا کر معصوم بچوں کو پولیو کے حفاظتی قطرے پلانا قومی مشن ہے، لیکن چند فرسودہ اور جاہلانہ سوچ کے حامل افراد کی جانب سے خود ساختہ الزامات کے تحت رضا کار خواتین کو نشانہ بنایا گیا جس کی وجہ سے اس مہم کو فوری طور پر روکنا پڑا۔ یہ فقط چند جانوں کا نہیں بلکہ ایک قومی نقصان ہے، نہ جانے کتنے ہی بچے اب پولیو ویکسینیشن کے دو قطرے پینے سے محروم ہو جائیں گے۔

وہ لیڈی ہیلتھ ورکرز جو اس قوم کے بچوں کو عمر بھر کے لیے معذور ہونے سے بچا رہی ہیں ان کی زندگی نہایت قیمتی ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ حکومت ان رضا کاروں کو مکمل تحفظ فراہم کرے اور اپنی جانیں دینے والی عظیم خواتین کے لیے معاوضے کا اعلان کیا جائے، ساتھ ہی لیڈی ہیلتھ ورکرز کی یومیہ اُجرت میں بھی اضافہ کیا جائے اور ساتھ ہی معاشرے میں تیزی سے پھیلنے والی عدم برداشت اور جہالت کے خلاف بھی عملی اقدام کیے جائیں تاکہ اس طرح کے افسوس ناک واقعات کا تدارک ہوسکے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔