سیٹھی صاحب قوم کو بے وقوف نہ بنائیں

سلیم خالق  ہفتہ 14 جنوری 2017
پی ایس ایل کے پہلے ایڈیشن سے ٹیلنٹ کے حوالے سے بھی کوئی گوہر نایاب نہیں ملا تھا۔ فوٹو: فائل

پی ایس ایل کے پہلے ایڈیشن سے ٹیلنٹ کے حوالے سے بھی کوئی گوہر نایاب نہیں ملا تھا۔ فوٹو: فائل

’’ ویسٹ انڈین ٹیم پاکستان آ رہی ہے، دوبارہ سے قذافی اسٹیڈیم کے پریس باکس میں بیٹھ کر انٹرنیشنل میچ کور کرنے کا موقع ملے گا‘‘

میرے ساتھی عباس رضا نے فون پر پُرجوش لہجے میں جب یہ کہا تو میں نے جواب دیا میرے دوست مجھے نہیں لگتا کہ سیریز ہو، اگر بورڈ سنجیدگی سے یہ کوشش کر رہا ہوتا تو یقیناً اچھی بات تھی لیکن یہ صرف ایک سیاسی چال اور قوم کی آنکھوں میں دھول جھونکنے کی کوشش ہے، اگر ویسٹ انڈین ٹیم آجائے تو ہر پاکستانی کی طرح میں بھی بیحد خوش ہوں گا لیکن فی الحال اس کا امکان نہیں لگتا، اس پرعباس بھی مجھ سے متفق ہونے لگے۔

آپ آئیں ان حقائق کا جائزہ لیتے ہیں جس کی بنا پر یہ ٹور ہوتا دکھائی نہیں دے رہا تھا، یہ کچھ عرصے قبل کی بات ہے جب بورڈ کی ایگزیکٹیو کمیٹی کے سربراہ نجم سیٹھی نے یہ شوشہ چھوڑا کہ 2 بڑی ٹیمیں پاکستان آنا چاہ رہی ہیں، دیگر 9 ٹیسٹ اقوام میں شامل بھارت، انگلینڈ، آسٹریلیا، نیوزی لینڈ، جنوبی افریقہ کا تو کوئی امکان ہی نہیں تھا، زمبابوے اور بنگلہ دیش کو بڑی سائیڈز قرار نہیں دیا جا سکتا، اب بچے سری لنکا اور ویسٹ انڈیز تو سب کا خیال تھا کہ انہی دونوں سے بات چیت چل رہی ہے، ایسے میں سری لنکن بورڈ آفیشل نے ’’ایکسپریس ٹریبیون‘‘ کے فواد حسین سے بات چیت کرتے ہوئے واضح کر دیا کہ ان کا ٹیم پاکستان بھیجنے کا کوئی ارادہ نہیں، ویسٹ انڈینزکے بارے میں سب جانتے ہیں کہ انھیں پیسہ دو تو کہیں بھی کھیلنے کو تیار ہو جاتے ہیں۔

البتہ یہ بھی مشہور ہے کہ وہ سیکیورٹی معاملات پر آسٹریلیا اور انگلینڈ سے زیادہ محتاط بھی ہیں، جیسے ماضی میں انڈر 19 ٹیم کا دورئہ بنگلہ دیش کوئی براہ راست خطرہ نہ ہونے کے باوجود منسوخ کر دیا تھا، ایسے میں یہ بات سمجھ سے باہر تھی کہ ان کا بورڈ سینئر ٹیم پاکستان بھیج دے، پی سی بی نے امریکا میں میچز کھیلنے کے بدلے ٹور پر آمادہ کرنے کا پتہ پھینکا جس سے فائدہ نہ ہوا اور اب انھوں نے کرکٹ ٹیم تو دور سیکیورٹی وفد تک بھیجنے سے انکار کر دیا ہے، میں دعوے سے کہہ سکتا ہوں کہ بورڈ حکام کو پتا تھا کہ ایسا ہونا ہے لیکن اس کے باوجود یہ کیا، وجہ بالکل واضح ہے کہ سب کہتے ہیں بورڈ ملک میں کرکٹ کی واپسی کیلیے کچھ نہیں کر رہا ایسے میں کچھ تو دکھاوے کے اقدامات کرنے ہی ہیں۔

ساتھ ہی اب پی ایس ایل یو اے ای میں ہونے والی ہے، لوگ کیسے آپ کے ملک میں آئیں گے، وہ یہ کہہ سکتے ہیں کہ بھائی آپ پاکستان سپر لیگ دبئی میں کرا رہے ہو اور ہم سے چاہتے ہو آپ کے ملک آ کر کھیلیں کیا یہ کھلا تضاد نہیں، جس طرح نجم سیٹھی کے ویسٹ انڈیز سے سیریز پر متواتر انٹرویوز میڈیا میں آئے وہ دیکھ کر میں بڑا ہنستا تھا، ایک دن کوئی بات اگلے دن اس سے آگے کا بیان سامنے آتا، یوں وہ کئی روز تک ٹی وی چینلز اور اخبارات کی زینت بنے رہے، اس تمام مشق کا مقصد لوگوں کو یہ بتانا تھا کہ دیکھ لیں ہم تو ملک میں کرکٹ واپس لانا چاہ رہے ہیں مگر کوئی آنے کو تیار ہی نہیں ہے، ویسے پی سی بی میں بھی ایسے ایسے لوگ موجود ہیں جو فل ٹائم سیاستدان بن جائیں تو بڑوں بڑوں کو پیچھے چھوڑ دیں، بورڈ اگر واقعی ملک میں کرکٹ واپس لانا چاہتا ہے تو اسے سنجیدہ اقدامات کرنے ہوں گے۔

سب سے پہلے آپ ایشیائی ٹیموں کو بلانے کی کوشش کریں، بھارت کا تو مستقبل قریب میں آنے کا کوئی امکان نہیں، سری لنکا کا برے وقت میں ہم نے بہت ساتھ دیا، یہ ٹھیک ہے کہ لاہور میں ان کی ٹیم کے ساتھ بہت افسوسناک واقعہ ہوا لیکن اب ہمیں انھیں یقین دلانا ہو گا کہ ملک میں دہشت گردی بیحد کم ہو چکی اور حالات بہتری کی جانب گامزن ہیں، اگر وہ سب سے پہلے آنے کو تیار نہیں تو بنگلہ دیش سے دوستی بڑھانے کی کوشش کریں، وہ خود ان دنوں مسائل کا شکار اور بمشکل عالمی کرکٹ کیلیے نوگوایریا بننے سے بچا ہے۔

اسے سمجھائیں کہ ہم دونوں ایک ہی کشتی کے سوار ہیں، مشکل وقت میں ساتھ دینا ہوگا، جب ایک ، دو ایشین ٹیموں کے ٹورز خیریت سے ہو جائیں گے تو پھر دیگر کو بھی مدعو کرنے کا جواز بن جائے گا، ابھی ہمارا پہلا کام دنیا کو یقین دلانا ہے کہ پاکستان عالمی کرکٹ کیلیے محفوظ ہے، صرف پی ایس ایل فائنل سے ایسا نہیں ہو گا، اگر اس میں بڑے کرکٹرز نہ آئے تو پھر تو ملک میں انعقاد کا مقصد ہی ختم ہو جائے گا، اگر فائنل لاہور میں کرانا ہے تو پھر غیرملکی اسٹارز کی شرکت بھی یقینی بنانا ہوگی، بورڈ بھی یہ حقیقت اچھی طرح جانتا ہے مگر اس کے لیے پیسہ پانی کی طرح بہانا ہو گا، پی ایس ایل کے پہلے ایڈیشن سے پی سی بی کو معمولی سا فائدہ ہوا، اس کے باوجود بعض ملازمین نے ڈبل بونس لیے، اب دوسرے ایڈیشن کیلیے ایسی حکمت عملی بنانا ہو گی جس سے ایونٹ کے انعقاد کا کوئی مقصد سامنے آئے، پہلے ایڈیشن سے ٹیلنٹ کے حوالے سے بھی کوئی گوہر نایاب نہیں ملا تھا۔

آخر میں کچھ اپنے ایک دوست کا ذکر کر دوں وہ ڈائریکٹر مارکیٹنگ نائلہ بھٹی کے پی ایس ایل ایونٹ ڈائریکٹر بھی بننے پر ناراضی ظاہر کر رہے تھے کہ کیسے ایک نان کرکٹر کواتنی بڑی ذمہ داری سونپ دی ، میں نے انھیں یاد دلایا کہ بھولے بادشاہ سلمان سرور بٹ کون سے سابق کپتان تھے؟ سب سے بڑھ کر نجم سیٹھی اور شہریارخان کتنے ٹیسٹ کھیلے ہوئے ہیں، پی ایس ایل گورننگ کونسل یا کمپنی کے مجوزہ ڈائریکٹرز، پی سی بی گورننگ بورڈ وغیرہ میں کتنے کرکٹرز ہیں، یہ سن کر میرے دوست خاموش ہو گئے، آخر میں اختتام اس بات کے ساتھ کرتا ہوں کہ آج کل بورڈ میں جس کے سر پر نجم سیٹھی کا دست شفقت پڑ گیا اس کے وارے نیارے ہیں چاہے وہ باسط علی، نائلہ بھٹی،شکیل شیخ، امجد بھٹی، عثمان واہلہ یا کوئی بھی ہو، شہریارخان کتنے بااختیار ہیں اس کا اندازہ لگانے کیلیے صرف باسط علی کیس ہی کافی ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔