زردار، طاقت والوں، اختیار والوں کی دنیا میں خالی ہاتھ والے بے کس لوگوں پر کیا گزرتی ہے؟

محمد عثمان جامعی / اقبال خورشید  ہفتہ 14 جنوری 2017
رات دن ایسے ہی دل دہلانے والے مناظر پھیلے رہتے ہیں۔ فوٹو: فائل

رات دن ایسے ہی دل دہلانے والے مناظر پھیلے رہتے ہیں۔ فوٹو: فائل

کم سِن گھریلو ملازمہ طیبہ کا مقدمہ ان دنوں ہمارے سامنے ہے۔ یہ معاملہ راضی نامے کے ذریعے خاموشی سے نمٹایا جارہا تھا۔ نچلی عدالتوں میں خوف ناک بدعنوانی، رشوت ستانی، ہیر پھیر کا سلسلہ جاری ہے۔ لیکن ہماری عدالت عظمیٰ انصاف کی روشن امید کا وسیلہ بنی ہوئی ہے۔

اس معاملے میں بھی عدالت عظمیٰ کی مداخلت کے طفیل اب پرتیں کُھلتی جارہی ہیں، رازوں سے پردے اٹھتے جارہے ہیں۔ اس مقدمے نے ہمارے ظالمانہ اور استحصالی نظام کی سیاہیوں سے پردہ اٹھا دیا ہے۔ یہ المیہ خالی جھولی والوں کی مجبوری اور زردار، بااختیار حاکم طبقے کی چھین جھپٹ کا پورا قصہ بیان کرتا ہے۔ بہت کچھ لکھا جارہا ہے، بہت کچھ کہا جارہا ہے، لیکن حالات تبدیل نہیں ہوتے۔ بدعنوانیاں ننگے قہقہے لگاتی ہیں، ظالم لوگ ہنستے ہیں اور مظلوم، نادار لوگ خون کے گھونٹ پیتے ہیں، سسک سسک کر جیے جارہے ہیں۔

غریب، لاچار لوگ انصاف سے محروم کیوں رہتے ہیں، کیوں وہ سو بار مرتے اور سو بار جیتے ہیں؟ کیوں ان کی آنکھیں رات دن آنسوؤں سے بھری رہتی ہیں؟ کیوں ان کے بچے اپنی ننھی مُنی آرزوؤں کو مجبوری کی قبروں میں دفن ہوتے دیکھتے رہتے ہیں؟ ہمارے اردگرد

رات دن ایسے ہی دل دہلانے والے مناظر پھیلے رہتے ہیں۔ ہم دیکھتے ہیں، اور گزر جاتے ہیں۔ ہم اس صفحے پر ایسے چند مناظر پیش کر رہے ہیں۔ آپ چاہیں تو دیکھیں اور گزر جائیں، چاہیں تو ناانصافیوں کے خلاف اپنی آواز کا پرچم کھولیں۔ ہماری خاموشی ظلم کے ہاتھ مضبوط کرتی ہے !!

تم اور حرف شکایت۔۔۔تمھاری یہ اوقات

’’صاحب فارغ ہوئے جی!‘‘

تھانے کی بینچ پر بیٹھے افضل نے پاس سے گزرتے کانسٹیبل سے ڈرتے ڈرتے پوچھا۔ تین گھنٹوں میں اس نے بس دوسری بار یہ سوال کیا تھا۔

’’اوئے جب ہوں گے بلالیں گے، بیٹھا رہ!‘‘ کانسٹیبل رعونت سے جواب دیتا گزر گیا۔ ’’ابا، گھر چلو، بھوک لگی ہے۔‘‘

اس کے ساتھ بیٹھی دس سالہ جنت کے لہجے میں التجا تھی۔ اس کا چہرہ جگہ جگہ سے زخمی تھا، ماتھے پر لگا گہرا زخم میلی کچیلی پٹی میں چھپا دیا گیا تھا۔ ہتھیلی کی پشت پر جھلسائے جانے کا نشان بھی تھا۔

افضل بار بار اپنی بیٹی کو دیکھتا، جو اس کے ساتھ لگی بیٹھی تھی، کبھی اس کے رخساروں پر پڑے تشدد کے نشانات پر ہاتھ پھیرتا، کبھی جھلسے ہوئے ہاتھ کو چوم لیتا۔ زخموں کے مندمل کرنے کی جیسی تیسی کوشش کرلی تھی، مگر دل کا گھاؤ بھرنے کے لیے کیا کرتا، بچی کے دل کا گھاؤ جو اب باپ کے سینے میں رِس رہا تھا۔

’’ابا! اس نے مجھے کُتیا کہا، گندی گالیاں دیں۔۔۔۔مجھے اس نے۔۔۔‘‘

بیٹی کے رُندھے ہوئے لفظ افضل کے کانوں میں مسلسل گونج رہے تھے، ’’مجھے اس نے ۔۔۔‘‘ وہ آگے آنے والے لفظ کو سماعت سے نوچ پھینکتا، مگر وہ دیوار سے ٹکرا کر بازگشت بن جاتا، سوچتا رہ گیا، ’’ٹھیک ہے بابا، تم بڑے لوگ، ہم کمی کمین، پر میری معصوم بیٹی کو ایسی گالی تو نہ دیتے۔‘‘

مجبوری کی بیڑیاں پڑی تھیں، ورنہ غیرت کے تقاضے اور تھے۔

ایس ایچ او کے کمرے سے پہلے زوردار قہقہے گونجتے رہے، اور پھر سفید کاٹن کے سوٹ اور سیاہ کوٹ میں ملبوس ایک بھاری بھرکم شخص برآمد ہوا۔ پیچھے پیچھے ایس ایچ او تھا، اپنی توند کو بیلٹ میں ٹھیرانے کی کوشش کر رہا تھا۔

’’تو پھر کام پکا سمجھوں ناں؟‘‘ بھاری بھرکم شخص نے احاطے میں کھڑی اپنی بیش قیمت گاڑی کی طرف بڑھتے ہوئے پوچھا۔

’’او فکر ہی نہ کریں ملک صاحب، ہفتے کی شام اٹھائیں گے، کسی کا بھی مال اس پر ڈال دیں گے، اتوار کو عدالتیں بند۔ پھر وہ ہوگا اور آپ کا بھائی۔۔۔پِیر کو اس نے آپ کے پیر پکڑ کر معافی نہ مانگی تو میں آپ کا مجرم۔‘‘
دونوں کے مکروہ قہقہوں سے تھانہ گونج اٹھا۔

ایس ایچ او مُڑا، سامنے میلے کچیلے کپڑوں میں ملبوس افضل پر نظر پڑتے ہی چہرے سے عاجزی اور ہونٹوں سے ہنسی غائب ہوگئی۔ اب یہ ایک جلاد کا چہرہ تھا۔ ’’بول کیا مسئلہ ہے تیرا، چل اندر۔‘‘

افضل بچی کو لیے ایس ایچ او کے پیچھے پیچھے اس کے کمرے میں داخل ہوگیا۔

بچی کی نظر چائے کی خالی پیالیوں کے ساتھ رکھے بسکٹوں اور پیٹیز پر پڑی تو ویران آنکھیں چمک اٹھیں۔ ’’چل انور، یہ لے جا!‘‘ حکم سنتے ہیں سپاہی کھانے پینے کی اشیاء سمیٹنے لگا۔

’’بول!‘‘ ایس ایچ او نے دونوں ٹانگیں میز پر رکھ کر سگریٹ سلگالی۔

’’سر جی! یہ میری بچی ہے، یہ ایک گھر میں کام کرتی ہے۔ اس سے استری کرتے ہوئے غلطی سے مالکن کی قمیص جل گئی، تو اسے بہت مارا جی، جھاڑو سے مارا، بیلٹ سے مارا، استری لگا کر اس کے ہاتھ، پاؤں کمر جلادی۔‘‘

’’اوئے، تم لوگ کسی کا نقصان کروگے تو وہ تمھیں پیار کرے گا؟ کس کے گھر کام کرتی ہے یہ؟‘‘

’’ارے، شمیم برلاس صاحب کے گھر جی۔۔۔‘‘

ایس ایچ او کی آنکھیں پھیل گئیں۔

’’شمیم برلاس۔۔۔۔جو اسمبلی میں رہ چکا ہے؟‘‘

’’او چل دفع ہو یہاں سے، منہ اٹھا کے آجاتے ہو، کسی کی بھی شکایت لے کر، تیری اوقات ہے، جو تو شمیم برلاس کی بیوی کے خلاف پرچہ کرائے؟‘‘

’’سر جی ایف آئی آر۔۔۔‘‘

’’اوئے چل اوئے، تیری تو۔۔۔بھگا اس دَلّے کو!‘‘

کانسٹیبل اپنا ’’فرض‘‘ پورا کرنے کے لیے آگے بڑھا، لیکن اس سے پہلے ہی افضل بچی کا ہاتھ تھامے تیز تیز قدموں سے چلتا تھانے سے نکل گیا۔

ایسی ویسی مجبوری

گھر پہنچ کر افضل نے خود کو کمرے میں پڑی اکلوتی کھاٹ پر گرادیا۔

’’کیا ہوا؟‘‘ زرینہ نے بیٹی کے سر پر ہاتھ پھیرتے ہوئے نڈھال شوہر سے پوچھا۔

’’کیا ہونا ہے ہم جانوروں کے ساتھ؟ ہم جانور، ہمارے بچے جانور۔ کچھ نہیں کرسکتے ہم۔ ہمارا ان کا کیا مقابلہ۔۔۔تو ایسے ہی بکواس کیے جارہی تھی، ایف آئی آر کٹوا، ظلم ہوا ہے میری بچی پر، صحیح ہوا ہے اس کے ساتھ۔ یہی ہونا چاہیے ہمارے ساتھ۔‘‘

افضل روہانسا ہوگیا۔

’’مجھے تو پتا ہے یہ پولیس وولیس ہم غریبوں کی ہے ہی نہیں۔ اسی لیے میں ایم پی اے دلاورشاہ کے پاس گیا تھا، بہت تقریریں کرتا تھا کہ غریبوں کے لیے آواز اٹھاؤں گا، یہ کروں گا، وہ کروں گا۔ گھنٹوں اس کے دروازے پر انتظار کیا، تب کہیں جاکر وہ باہر نکلا، میں نے جنت کو سامنے کرکے کہا، صاحب جی! یہ دیکھیں میری بچی کا کیا حال کردیا ہے۔ اس نے میری پوری بات سنی ہی نہیں، بس اتنا کہا، ایف آئی آر کٹوا کے آؤ، پھر دیکھتے ہیں۔ یہ کہہ کر ہاتھ ہلایا اور یہ جا وہ جا۔‘‘

اس نے نم آنکھوں کے ساتھ بیوی کو بپتا سنائی۔

’’اب میں اپنی بچی کو کسی کے گھر کام پر نہیں بھیجوں گی!‘‘ ممتا نے بیٹی کو سینے سے لگالیا۔ اس کی کھانسی ہچکیوں میں ڈھل گئی۔ زرد چہرہ آنسوؤں میں ڈوب گیا۔

’’تو یہ باقی کے چار بچوں کو کیسے پالے گی۔ تو مسلسل بیمار رہتی ہے، مجھے کبھی کام ملتا ہے، کبھی نہیں، انھیں کہاں سے کھلائے گی، اس کمرے کا کرایہ کیسے دیں گے، تیری دوا کا کیا ہوگا؟‘‘

’’تو کیا میں اپنی بچی کو قصائیوں کے حوالے کردوں۔ دیکھو، کیا حال کیا ہے ذرا سی غلطی پر معصوم کا۔‘‘ اس کے کھردرے ہاتھ بچی کے ایک ایک گھاؤ کو یوں چھونے لگے جیسے مرہم لگارہے ہوں۔

’’تو جانتی ہے زرینہ، میں کب چاہتا ہوں کہ میری بیٹی کسی کے گھر کام کرے، میں تو اسے پڑھانا چاہتا ہوں، لیکن بہت مجبور ہوں زرینہ۔ جب ہادی بخش نے کہا تھا کہ تیری بچی کوایک گھر پر رہ کر جھاڑوبرتن کرنا ہوگا، مہینے کے دو ہزار ملیں گے تو میں نے چھوٹتے ہی منع کردیا تھا۔ لیکن گھر میں دو دن تک کھانا نہیں پکا، بچے بھوک سے بلکنے لگے، تیرا کھانس کھانس کر بُرا حال ہوگیا تو میں مجبور ہوگیا، ہماری مجبوری بِک گئی زرینہ!‘‘

اداسی ان کے چہروں سے کمرے کی خستہ دیواروں تک پھیل گئی۔

’’افضل، بہت ظلم ہوا ہے، میری بچی پر، مجھ سے برداشت نہیں ہوتا۔۔۔اچھا دیکھ، وہ نذیر ہے ناں حاجرہ خالہ کا پڑوسی، وہ کسی وکیل کے ہاں ڈرائیور لگ گیا ہے، کل اس کی بیوی بتارہی تھی۔ اس سے بات کر، وکیل ہمیں انصاف دلا سکتا ہے۔‘‘

افضل کی آنکھوں میں امید روشن ہوگئی۔

کسے وکیل کریں

کمرے میں بے نام سی گھٹن تھی۔

کرسی، میز، دیوار، ہر شے سے فرسودگی عیاں تھی۔ بلب کی زرد روشنی میں جنت کے زخم کچھ اور واضح ہوگئے تھے۔ ایڈووکیٹ نعیم غوری کے چیچک زدہ چہرے پر کرختگی اور آنکھوں میں گہری سوچ تھی۔

افضل نے گہرا سانس لیا۔ گھٹن سینے میں اتر گئی۔ وہ کل صبح ہاجرہ خالہ کے پڑوسی شکور چاچا سے ملا تھا۔ چاچا بیرسٹر فصیح عامر کے گھر ڈرائیور تھا۔ جنت کی حالت دیکھ کر شکور چاچا کا دل پسیج گیا، مگر اُسے اپنے صاحب کے مزاج کا علم تھے۔ صاحب کی فیس لاکھوں میں تھی۔ چاچا نے اسے سٹی کورٹ کی راہ دکھا دی۔ افضل اپنی زخمی گڑیا کو لیے سٹی کورٹ پہنچا، تو اسے امید تھی کہ کالے کوٹ والے آگے بڑھ کر اس کے زخموں پر مرہم رکھیں گے۔ وہ آگے تو بڑھے، مگر جب اُنھیں اندازہ ہوا کہ افضل کی جیب میں مجبوری کے پیوند لگے ہیں، تو ان کی دل چسپی جھاگ کی طرح بیٹھ گئی۔ اب وہ خوش گپیوں میں مگن تھے۔ اُس نے ایک دو وکیلوں سے بات کرنے کی کوشش کی، مگر انھوں نے نظرانداز کردیا۔ افضل وہی بے بسی محسوس کر رہا تھا، جس کا تجربے اسے تھانے میں ہوا تھا۔

باریک مونچھوں والاایک نوجوان وکیل شمیم برلاس کا نام سن کر چونکا۔ ’’بھائی، تیرا مسئلہ تو صرف ایڈووکیٹ نعیم غوری حل کرسکتا ہے۔‘‘

وہ انھیں ایک سیلن زدہ عمارت میں لے گیا۔ ایڈووکیٹ نعیم کے کمرے میں سگریٹ کا دھواں بھرا تھا۔ نوجوان وکیل نے جلدی جلدی مدعا بیان کیا۔ ایڈووکیٹ مسکرایا۔ اُس کے دانت سفیدی کھو چکے تھے۔ ’’تو شمیم برلاس کی بیوی نے تم پر تشدد کیا؟‘‘

’’جی صاحب۔ بہت مارا ظالم نے۔‘‘ آدمی بولا، تو وکیل نے ڈانٹ دیا۔ ’’تم نہیں، بچی کو بولنے دو؟‘‘

’’وہ۔۔۔ وہ۔۔۔‘‘ بچی جھجک رہی تھی۔ کرب الفاظ کی راہ میں رکاوٹ تھا۔ ’’اس نے میرے سر پر گملا مارا۔۔۔‘‘ معصوم نے ہاتھ سر پر رکھ لیا۔ ’’اور۔۔۔ میرا ہاتھ چولہے۔۔۔‘‘

بچی کی آواز رندھ گئی۔ افضل دھیرے دھیرے کانپ رہا تھا۔ وکیل کی آنکھیں چمک رہی تھیں۔ ’’ٹھیک، میں کیس لڑوں گا۔‘‘

’’باؤ جی، میں آپ کا احسان نہیں بھولوں گا۔‘‘ افضل عجز کا پیکر بن گیا۔ ’’جو ہو سکا، کروں گا۔‘‘

’’اِس کی ضرورت نہیں۔ میں فی سبیل اللہ یہ کیس لڑوں گا۔‘‘ وکیل کا لہجہ مصنوعی تھا۔ ’’بس، تمھیں وہی کرنا ہوگا، جو میں کہوں۔ سمجھ گئے؟‘‘

آدمی نے گردن ہلائی۔ جنت کو اپنے ہتھیلی پر جلن کا احساس ہورہا تھا۔

ہر چیز یہاں پر بکتی ہے

افضل اور جنت کے جانے کے بعد وکیل نے ایک نمبر ڈائل کیا۔ دوسری طرف معروف کرائم رپورٹر، ملک احمد تھا۔

’’ملک صاحب، لاٹری لگی ہے۔‘‘ وکیل تفصیلات بتانے لگا۔ شمیم برلاس کا نام سن کر صحافی چہکا۔ ’’اب آیا ناں اونٹ پہاڑ کے نیچے۔‘‘

وکیل نے ٹھوڑی کھجائی۔ ’’میڈیا ٹرائل ہی ہمارا ہتھیار ہے۔ ایک دو این جی اوز کی بھی ضرورت ہوگی۔ جتنا شور مچے گا، اتنا فائدہ ہوگا۔‘‘

’’وہ تو ہوجائے گا، مگر۔۔۔‘‘ صحافی کی آواز میں شکوہ تھا۔ ’’پچھلی بار آپ نے ہمارا صحیح طرح خیال نہیں رکھا تھا۔‘‘

وکیل نے قہقہہ لگایا۔ ’’شام کو ملتے ہیں!‘‘

شام ڈھلے وہ ایک فائیو اسٹار ہوٹل میں ملے۔ صحافی کے ساتھ ایک بااثر سوشل ورکر، فرقان ناصر بھی تھا۔ تینوں نے منصوبہ ترتیب دیا۔ علاقے کے ایم پی اے، دلاور شاہ سے بھی رابطہ کیا گیا۔ پولیس، میڈیا، عدلیہ، این جی اوز؛ سب کے حصوں کا تعین ہوا۔ پھر وہ کھانے پر ٹوٹ پڑے۔

ایڈووکیٹ نعیم چرغے پر ہاتھ صاف کر رہا تھا، زرینہ پتلی دال میں بھیگی روٹی جنت کے منہ میں ڈال رہی تھی۔ جھلسے ہوئے ہاتھ کے باعث بچی خود کھانے سے قاصر تھی۔ افضل ہر لقمے کے ساتھ پانی پیتا۔ وہ جانتا تھا کہ آج روٹی کم ہے اور زرینہ ابھی بھوکی ہے۔

قانون رنگ بدلتا ہے

جو بے چینی وہ گھر چھوڑ آیا تھا، وہ تھانے میں داخل ہوتے ہی پھر عود کر آئی۔

جنت بھی ڈری ہوئی تھی۔ وہ اس مکروہ ہنسی والے تھانے دار کا سامنا کرتے گھبرا رہی تھی۔ ایڈووکیٹ انتظامات کر چکا تھا۔ کرائم رپورٹر اپنی کیمرا ٹیم کے ساتھ موجود تھا۔ تین گھنٹے قبل اس نے جنت کیس سے متعلق خبر بریک کی تھی۔ سوشل ورکر جنت کے بارے میں مسلسل ٹوئٹ کر رہا تھا، جسے اُس کی مستعد ٹیم فوراً ری ٹوئٹ کر دیتی۔ سوشل میڈیا پر بچی کی تصاویر وائرل ہوگئیں۔ ان تمام باتوں سے بے خبر جنت۔۔۔ سر جھکائے تھانے میں بیٹھی تھی۔ تھانے دار اور وکیل سرگرشیاں کر رہے تھے۔

اچانک باہر گاڑیوں کے ٹائر چرچرائے۔ دلاور شاہ اسلحہ بند گارڈز کے ساتھ اندر داخل ہوا۔ تھانے دار کے چہرے پر خوشامدی مسکراہٹ دمکنے لگی۔ کیمرے دلاور شاہ پر فوکس تھے۔ وہ سیدھا جنت کے پاس آیا۔ سیاہ عینک اتاری، تو آنکھوں میں نمی تھی۔ اس نے جنت کے سر پر ہاتھ رکھا۔ افضل کو گلے لگا لیا۔ اُس کے بدن سے خوش بو کی لپٹیں اٹھ رہی تھیں۔ ہر منظر کیمرے میں محفوظ ہوتا رہا۔

افضل حیران پریشان دلاور شاہ کو دیکھ رہا تھا۔ جو کل تک رعونت کا پہاڑ تھا، آج انکساری کا پیکر بنا ہوا تھا۔ ایم پی اے نے بچی کو انصاف دلوانے کا عزم کرتے ہوئے باپ کو ملازمت دینے کا بھی وعدہ کر ڈالا۔ ہزار کا نوٹ نکال کر جنت کو دیا۔۔۔ ہر منظر کیمرے میں محفوظ ہورہا تھا۔

آخر میں دلاور شاہ تھانے دار کی سمت آیا۔ دھیرے سے کہا۔ ’’برلاس ابھی ملک سے باہر ہے۔ اِس سے پہلے کہ وہ کسی تگڑی سفارش کا انتظام کرے، اُس کی بیوی کو گرفتار کر لو۔ اور ہاں، میڈیا اور این جی اوز کو ساتھ لے کر جانا۔‘‘
تھانے دار نے قہقہہ لگایا۔ وکیل ٹھوڑی کھجانے لگا۔

گھاؤ کے بھاؤ لگے ، سودا طے پایا

کرپشن کے الزامات، دھماکے، ٹریفک حادثے، لینڈ سلائیڈنگ، پانی اور بجلی کی قلت۔۔۔ ہر خبر بے معنی ہوئی۔

ملک بھر کے میڈیا کی توجہ جنت کیس پر مرکوز تھی۔ ہر چینل پر ننھی جنت کا زخموں سے چور چہرہ دکھائی دے رہا تھا۔ افضل کے خستہ حال مکان پر صحافیوں کا تانتا بندھ گیا۔ سماجی تنظیمیں راشن اور کپڑے لیے پہنچیں۔ فوٹو سیشن شروع ہوگیا۔ ایڈووکیٹ سائے کی طرح اس کے ساتھ تھا۔

’’مجھ سے پوچھے بنا کچھ نہ کرنا۔ کوئی غلطی کی تو الٹا تم پر چائلڈ لیبر کا کیس بن جائے گا۔‘‘

شمیم برلاس کی بیوی، نازیہ بیگم کو گرفتار کیا جاچکا تھا۔ خبر ملتے ہی برلاس پاکستان لوٹ آیا۔ سیدھا تھانے پہنچا۔ تھانے دار اسے دیکھ کر کھڑا ہوگیا۔ سر جھکا کر اپنی مجبوری بیان کی۔ ’’اب معاملہ میڈیا میں آگیا ہے سر۔ بہتر ہے، کوئی اچھا وکیل کیا جائے۔‘‘

یہی مشورہ برلاس کو اُن بااثر شخصیات نے دیا تھا، جن سے وہ مسلسل رابطے میں تھا۔ بیوی کو ضمانت دلانے کے لیے وہ آخری حد تک جانے کو تیار تھا۔ ادھر دلاور شاہ بھی اثر و رسوخ استعمال کر رہا تھا۔ ایڈووکیٹ نعیم غوری، کرائم رپورٹر، ملک احمد اور سوشل ورکر فرقان ناصر اپنے اپنے محاذ پر اس کیس کو اچھال رہے تھے۔ دباؤ کے آگے شمیم برلاس کی کوششیں نہ ٹھہر سکیں۔ اس کی بیوی کو ریمانڈ پر پولیس کے حوالے کر دیا گیا۔
کورٹ روم کے باہر ایڈووکیٹ نعیم کے اسسٹنٹ نے ایک خط شمیم برلاس کو سونپا۔ یک سطر تحریر تھی۔ ’’راستہ نکالا جاسکتا ہے۔‘‘

ایک بار پھر۔۔۔ پنج ستارہ ہوٹل کے ایک تاریک گوشے میں کچھ لوگ اکٹھے ہوئے۔ شمیم برلاس اور نعیم غوری میں طویل گفتگو ہوئی۔ کھیل کے دیگر حصے داروں سے رابطہ ہوا۔ ایک تگڑی رقم پر معاہدہ پایا۔

آخری کال دلاور شاہ کو تھی۔ ایک زبردست سیاسی ڈیل ہوئی۔ دشمنی اب سودے بازی میں بندھنے جارہی تھی۔ شمیم برلاس نے اپنا سیاسی وزن دلاور شاہ کے پلڑے میں ڈال دیا۔ ادھر دلاور شاہ کیس سے پیچھے ہٹنے کو تیار ہوگیا۔
جس لمحے زر پرست، طاقت کے نشے میں چور اس مکروہ کھیل میں مصروف تھے، ننھی جنت ان چھوٹے بڑے کھلونوں سے کھیل رہی تھی، جو آج اُس کے گھر آئے تھے۔ ان میں ایک بڑی سی گڑیا بھی تھی۔ بالکل جنت جیسی۔ بس، اس کے ماتھے پر کوئی زخم نہیں تھا۔

عدالت نے کھیل بگاڑا دولت کا

صبح یہ حیران کن خبر آئی کہ جنت اور اس کے ماں باپ غائب ہوگئے ہیں۔ گھر کے بے رنگ دروازے پر ایک چھوٹا سا تالا پڑا تھا۔ صبح تڑکے ایک بڑی سی سیاہ گاڑی آئی تھی، جو افضل کے خاندان کو لے کر جانے کہاں غائب ہوگئی۔

میڈیا نے سوشل ورکر، فرقان ناصر سے رابطہ کیا۔ اس کا فون بند تھا۔ دلاور شاہ بیرونی دورے پر چلا گیا۔ زرینہ کی اسٹوری بریک کرنے والا ملک احمد رات سے بیمار تھا۔ کورٹ نے شمیم برلاس کی بیوی کی بیل منظور کرلی۔ گاڑی میں بیٹھنے کے بعد برلاس نے ایک نمبر ڈائل کیا۔

’’ہاں ہیلو۔۔۔ رقم میں نے ٹرانسفر کردی ہے۔ اب جلدی معاملہ نمٹاؤ۔‘‘

دوسری طرف ایڈووکیٹ نعیم غوری تھا۔ ’’بے فکر رہیں سر، ہم آپ کے خادم ہیں۔‘‘

فون بند کرکے نعیم نے سگریٹ سلگایا۔ اس کے سامنے افضل، زرینہ اور جنت بیٹھے تھے۔ زرینہ نے خود کو چادر میں لپیٹ رکھا تھا۔ وکیل مسلسل اُسے گھور رہا تھا۔

’’ہمیں یہاں کیوں لائے صاحب۔‘‘ افضل خاصا بے چین تھا۔

’’کیوں کہ برلاس بڑا خطرناک آدمی ہے۔ وہ تمھیں نقصان پہنچا سکتا ہے۔‘‘ وکیل نے ایک کاغذ سامنے رکھا۔ ’’اس پر انگوٹھا لگاؤ۔‘‘

’’یہ کیا ہے صاحب۔‘‘ افضل نے پوچھا۔

’’معافی نامہ۔‘‘ وکیل ہنسا۔ ’’بھائی، تم نے اتنی چھوٹی بچی سے نوکری کروائی۔ تم پر کیس بنتا ہے۔ معافی نامہ پر انگوٹھا لگا دو، ورنہ پولیس تمھیں پکڑ لے گی، بچی کسی یتیم خانے میں ڈال دی جائے گی۔‘‘

جنت کے زخم میں درد اٹھا۔ افضل کانپ گیا۔ جب افضل نے انگوٹھا لگایا، وکیل کی مسکراہٹ گہری ہوگئی۔ اس نے موبائل پر ایک ایس ایم ایس ٹائپ کیا۔ ’’راضی نامہ ہوگیا!‘‘

یہ پیغام بہ یک وقت کئی لوگوں کو وصول ہوا، سب کے ہونٹوں پر معنی خیز مسکراہٹ تھی۔

جنت کی اسٹوری بریک کرنے والا جرنلسٹ، جو رات بیمار پڑ گیا، چھلانگ مار کر بستر سے نکلا، اور راضی نامے کا بیپر دینے لگا۔

خبر نے کھلبلی مچا دی۔ تجزیوں، تبصروں کا سیلاب آگیا۔ شور ایسا تھا کہ کان پڑی آواز سنائی نہ دیتی۔ اور اس شور سے دور۔۔۔ شہر کے مضافات میں واقع ایک مکان میں افضل اور اس کا خاندان قید تھا۔ جنت کو رہ رہ کر وہ گڑیا یاد آرہی تھی۔

راضی نامے کا دو دن تک شور رہا۔۔۔ ٹاک شوز ہوئے، کالم لکھے گئے، بیانات دیے گئے، سوشل میڈیا پر بھی بڑی لے دے ہوئی، مگر قانونی محاذ پر خاموشی تھی۔۔۔ شمیم برلاس اور دلاور شاہ چپ تھے، این جی اوز پیچھے ہٹ گئیں، ایڈووکیٹ نعیم بھی منظر سے غائب تھا۔۔۔ جنت پر ہونے والے ظلم کو دھندا بنانے والے مطمئن وہ مسرور تھے۔۔۔ ان کا منصوبہ مکمل ہوا۔۔۔

مگر یک دم منظر بدلا۔ قدرت کی لاٹھی حرکت میں آئی۔ کہانی میں ڈرامائی موڑ آیا۔ ایک اور خبر چینلز کی زینت بنی۔۔۔ اعلیٰ عدلیہ نے کیس کا ازخود نوٹس لے لیا تھا۔

ہوئے تم دوست جس کے دشمن اس کا آسماں کیوں ہو

’’جناب اسپیکر! جن حکم رانوں کے دور میں ایک غریب معصوم بچی ظلم سے محفوظ نہیں، انھیں حکومت کرنے کا کوئی حق نہیں۔۔۔‘‘

قائد حزب اختلاف جمال جیلانی اپنی تقریر میں حکومت پر تابڑتوڑ حملے کر رہا تھا۔ آج ایوان میں کم سن گھریلو ملازمہ جنت پر تشدد کا معاملہ زیربحث تھا۔

اگلی تقریر حزب اختلاف کی ایک اور موثر جماعت کے پارلیمانی لیڈر اعجاز سبحانی کی تھی۔

’’ہم غریبوں کے وارث ہیں، ان پر ظلم نہیں ہونے دیں گے۔‘‘

وہ خاصی دیر گرجتا رہا۔

حزب اختلاف کے ارکان کی تقاریر کا سلسلہ ختم ہوا تو حزب اقتدار کے ارکان کی باری آئی۔

’’حکومت ملک میں اس طرح کے واقعات برداشت نہیں کرے گی۔ ہم جنت کو انصاف فراہم کریں گے۔ حزب اختلاف اس معاملے پر سیاست نہ چمکائے۔‘‘

وزیربرائے انسانی حقوق توصیف علی منمناتا رہا، مگر حزب اختلاف جنت کو حکومت کی طرف سے انصاف نہ ملنے کے خلاف اجلاس کا بائیکاٹ کرکے جا چکی تھی۔ ایک رکن نے اسپیکر کی توجہ کورم پورا نہ ہونے کی طرف دلائی، جس کے ساتھ ہی اجلاس صرف دو گھنٹے کی کارروائی کے بعد برخاست ہوگیا۔

ہم ایک ہیں

’’او جیلانی صاحب، ضد چھوڑو، مل کر بل لے آتے ہیں۔ آپ نے گھریلو ملازمین پر تشدد اور ان کے حقوق کے بارے میں جو بل تیار کیا ہے، اس کی کاپی مجھے دے دیں، تھوڑا ادِھراُدھر کرکے لے آئیں گے۔ واہ واہ بھی ہوجائے گی کہ غریبوں کے مسائل پر حکومت اور حزب اختلاف ایک ہیں۔‘‘

وفاقی وزیرپارلیمانی امور طیب کھوسہ نے جمال جیلانی کے گلاس سے گلاس ٹکراتے ہوئے کہا۔

’’یار بل ہم لائیں یا آپ، کیا فرق پڑنا ہے، کسے عمل کرنا ہے۔ ویسے بھی ان سالے ملازمین کے کاہے کے حقوق۔ یہ لوگ کام چور ہوتے ہیں۔ نمک حرامی کرتے ہیں۔ جن گھروں سے روٹی پاتے ہیں، وہاں چوریاں کرتے ہیں۔ ڈانٹ ڈپٹ کرو تو بھیگی بِلّی بن جاتے ہیں۔ مظلوم بن جاتے ہیں۔‘‘

جمال جیلانی کے الفاظ میں تلخ مشروب کی ساری تلخی گھلی ہوئی تھی۔

’’صحیح کہہ رہے ہیں جیلانی صاحب! ہڈحرامی ان کے خون میں شامل ہوتی ہے۔ لیکن کیا کریں، اب سب کے سامنے تو یہ باتیں نہیں کہہ سکتے ناں۔ پبلک کے سامنے تو ہمیں کچھ جھوٹ بولنا پڑتا ہی ہے۔‘‘

طیب کھوسہ نے ہنستے ہوئے آنکھ ماری۔

’’ہاں کچھ نہ کچھ تو کرنا پڑے گا۔ ’’طیب جی! اچھا وہ شمیم برلاس کو تسلی دے دینا۔ بہت پریشان ہے۔ مجھ سے کہہ رہا تھا تم لوگ یار ہوکر دغا کر رہے ہو۔ میرے خلاف بیان پر بیان دے رہے ہو، میں نے کہا یارا، فکر کیوں کرتا ہے، کسی کمی کمین کے لیے ہم اپنے بندے کو نقصان تھوڑی ہونے دیں گے۔ آپ بھی اطمینان دلا دینا۔‘‘

اعجاز سبحانی نے اپنی بات ختم کی اور بوتل سے گلاس بھرنے لگا۔

’’میری اس سے بات ہوگئی ہے۔ میں نے کہہ دیا ہے معاملہ دبتے ہی ہمیں زبردست پارٹی چاہیے، وہ بھی دبئی میں۔‘‘

کمرہ قہقہوں سے گونج اٹھا۔

اور سال گزر گیا

ایک سال بعد:

اخبار کی سرخی:

’’لاہور میں کم سن گھریلو ملازمہ شازیہ مالک کے تشدد سے ہلاک‘‘

دوسرے دن کے اخبار کی سرخی:

’’عدلیہ نے کم سن شازیہ کی ہلاکت کا ازخود نوٹس لے لیا۔‘‘

تیسرے دن کے اخبار کی سرخیاں:

’’گھریلو ملازمہ شازیہ کی ہلاکت پر قومی اسمبلی میں ہنگامہ، اپوزیشن کا بائیکاٹ۔‘‘

’’حکم راں خون کا حساب دیں: قائد حزب اختلاف۔‘‘

’’ننھی شازیہ کو انصاف فراہم کیا جائے گا: وزیراعظم‘‘

چوتھا دن:

’’گھریلو ملازمین کے حقوق کے لیے مؤثر قوانین بننے چاہییں اور ان پر عمل ہونا چاہیے۔۔۔۔‘‘

ٹی وی چینل کے ٹاک شو میں گفتگو۔۔۔۔۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔