پلی بارگین تو ہوگی ،نیب نہیں عدالتیں کریں گی!

رحمت علی رازی  ہفتہ 14 جنوری 2017
rehmatraazi@hotmail.com

[email protected]

آرڈیننس ڈکٹیٹر جاری کیا کرتے ہیں جن پر جمہوری ایوان تنگ ہوتے ہیں یا پھر وہ مطلق العنانی کے خمار کو مطمئن کرنے کے لیے اپنا یک شخصی حکم لاگو کرتے ہیں‘ چند روز قبل ہماری منتخب جمہوری حکومت نے بھی پلی بارگین سے متعلق ایک خاص منافذہ کا اجراء کیا جسکے ذریعے پلی بارگین کو ختم کرنے کے بجائے یہ اختیار چیئرمین نیب سے اُچک کر انسدادِ دہشت گردی کی عدالت کو تھما دیا گیا اور مزے کی بات یہ ہے کہ کرپشن کرنیوالے کے لیے ایک گھنٹے کی بھی پابندِ سلاسل ہونے کی سزا تجویز نہیں کی گئی۔

کیا ہی اچھا ہوتا اگر پلی بارگین کا قانون ہی کالعدم قرار دیدیا جاتا یا پھر نیب کا ادارہ ختم کرکے اس کی جگہ احتساب کا کوئی اور مؤثر ادارہ بنا دیا جاتا۔ نوازشریف اور بینظیرشہید کے مابین طے پانے والے ’’میثاقِ جمہوریت‘‘ کی ایک شق یہ بھی تھی کہ نیب کو ختم کرکے احتساب کا ایسا متبادل نظام لایا جائے گا جو میرٹ اور آئین وقانون کی پاسداری کرتے ہوئے یکساں احتساب کے تمام تقاضے پورے کریگا‘ جنرل پرویز مشرف کے دور میں متعارف کروائے گئے ترمیم شدہ نیشنل اکاؤنٹ ایبلٹی بیورو کے ذریعے ملک کی سرکار مخالف جماعتوں کو سیاسی انتقام کی بھینٹ چڑھایا گیا۔

ان میں سب سے زیادہ مجروح ہونے والی جماعتیں مسلم لیگ نون اور پاکستان پیپلزپارٹی ہی تھیں جن کے رہنماؤں پر نیب کو آئینی آلۂ کار کے طور پر استعمال کرتے ہوئے مالی بدعنوانیوں کے بڑے بڑے مقدمات بنائے گئے‘ بینظیر تو خیراب اس دُنیا میں نہیں رہیں تاہم ان کے سیاسی جانشین آصف زرداری نے اقتدار میں آنے کے بعد میثاقِ جمہوریت کو محض کاغذ کا ایک پرزہ قرار دیتے ہوئے کہا کہ معاہدے کوئی حدیث تو نہیں ہوتے‘ پھر نوازشریف کی باری آئی تو انھوں نے بھی نیب کے مردہ گھوڑے کو آگے گھسیٹنے پر ہی اکتفا کیا‘ بنیادی وجہ یہ کہ احتساب کا کڑا نظام شاید بی بی شہید کا جذبہ تو ہوسکتا تھا مگر نوازشریف اور آصف زرداری ذہنی اور دلی طور پر ایسے کٹھور احتسابی سسٹم کے اس لیے سخت مخالف تھے، ہیں اور رہیں گے کیونکہ وہ خود ناک ناک کرپشن میں دھنسے ہوئے ہیں اور وہ ایسا بانوراسانڈ کبھی نہیں پالیں گے جو خود ان کی پسلیاں توڑ کر رکھ دے۔

یہ بات تو مسلمہ ہے کہ دوسروں کا احتساب وہی کرسکتا ہے جس کا اپنا دامن صاف ہو‘ جو آرٹیکل 62/63 پر پورا ہی نہ اُترتا ہو وہ بھلا کیونکر بے رحم احتساب کا میکنزم وضع کریگا‘ گویا نون لیگ اور پیپلزپارٹی نے طے کرلیا کہ وہ ایک دوسرے کو سیاسی انتقام کا نشانہ بنانے کے بجائے باہمی مک مکا کا راستہ اپنائیں تو دونوں کا فائدہ ہی فائدہ ہے۔

اسی ’’میثاقِ مُک مکا‘‘ کو ان سیاسی باریاں لگانے والوں نے جمہوریت کا نام دے رکھا ہے جسے یہ کبھی خطرے میں نہیں دیکھ سکتے‘ ایسی نام نہاد اور سیف گارڈ ڈیموکریسی سے اگر کسی کو خطرہ ہے تو وہ تحریکِ انصاف ہے جو تنِ تنہا اس سیاسی گٹھ جوڑ سے نبردآزما ہے، ایک ایسا سیاسی گٹھ جوڑجو باہر سے تو دو الگ الگ اکائیاں ہیں مگر اندر سے ان کے ڈانڈے بھینچ کر ایک دوسرے سے ملے ہوئے ہیں۔

موجودہ چیئرمین کا تقرر بھی وزیراعظم نوازشریف اور اپوزیشن لیڈر خورشید شاہ کی مشترکہ پسند سے کیا گیا تھا جنھوں نے اپنے محسنوں پر کرپشن کے سنگین مقدمات کا ذاتی طور پر تاہنوز کوئی نوٹس نہیں لیا۔ پانامالیکس جیسے قومی ایشو پر بھی نیب کی انگڑائی تک نہیں ٹوٹی حالانکہ یہ ایک ایسا ایشو ہے جس پر ایف بی آر، ایف آئی اے کے ساتھ ساتھ سب سے زیادہ متحرک نیب کو ہونا چاہیے تھا‘ یقینا یہ نیب کا تجاہلِ عارفانہ ہی ہے کہ عدالتِ عظمیٰ بھی اس اہم ترین مقدمہ میں بے بس نظر آرہی ہے۔

قومی احتساب بیورو نے آج تک جتنا لوٹا ہوا مال برآمد کیا ہے اس سے کہیں زیادہ تشہیری مہموں پر صرف کرچکا ہے۔ 450 ارب روپے کی مبینہ کرپشن تو صرف ایک قومی ’’ہیرو‘‘ ڈاکٹر عاصم جیسے شخص نے کی ہے اور نیب 285 ارب روپے اپنے قیام سے اب تک ریکور کرنے کی بار بار شیخی بگھارتا نہیں تھکتا۔ پاکستان میں ڈاکٹر عاصم جیسے اور نجانے کتنے قومی ’’ہیرو‘‘ پڑے ہیں جنھوں نے اربوں کھربوں کی ایسی کرپشن کی ہے جس کا ریکارڈ میگا سکینڈلز کی شکل میں نیب کے پاس موجود ہے مگر نادیدہ مجبوری کی وجہ سے وہ اِن پر گرفت نہیں کر سکا، بس 285 ارب روپے کا ڈھنڈورا تو عزت بچانے کے لیے ہے۔

چیئرمین نیب جب سے آئے ہیں خادمِ اعلیٰ پنجاب کی طرح دوڑ دھوپ تو بہت کررہے ہیں مگر باوجود اس کے، ملک وقوم کا بھلا ایک ٹکے کا بھی نہیں ہوا، تو پھر کیوں نہ اس اعلیٰ کارکردگی کو محض کاغذی کارروائی ہی شمار کیا جائے جو صرف فائلوں میں اعدادوشمار کی حد تک جاذبِ نظر معلوم ہوتی ہے‘ کیا طلسماتی فہرست ہے۔

بمطابق چیئرمین نیب گزشتہ 16سال کے دوران مختلف افراد اور نجی و سرکاری اداروں کی جانب سے 3لاکھ 26ہزار 694شکایات جمع کرائی گئیں‘ اس عرصہ کے دوران نیب نے 10ہزار 992 شکایات کی جانچ پڑتال، 7303 انکوائریوں اور 3648 انویسٹی گیشن کی منظوری دی جب کہ 2667 بدعنوانی کے ریفرنس متعلقہ احتساب عدالتوں میں دائر کیے گئے، اس طرح سزا کا مجموعی تناسب 76 فیصد رہا‘ مالیاتی کمپنیوں میں فراڈ، بینک فراڈ، بینک نادہندگی، اختیارات کے ناجائز استعمال، عوام کو بڑے پیمانے پر دھوکہ دہی اور سرکاری ملازمین کے سرکاری فنڈز میں خوردبرد کے کیسز کو زیادہ اہمیت دیتے ہوئے نیب نے اپنے قیام سے لے کر اب تک بدعنوان عناصر سے لوٹے گئے 285ارب روپے وصول کرکے قومی خزانہ میں جمع کرائے۔

نیب نے سرکاری، غیرسرکاری تنظیموں، میڈیا، سول سوسائٹی اور معاشرے کے مختلف طبقات کے ساتھ ملکر منظم مہم چلائی‘ سال 2016کے دوران کرپشن کے خلاف آگاہی مہم کی تفصیلات بھی جاری کی گئیں جن کے مطابق تمام شیڈولڈ بینکوں کی اے ٹی ایم مشینوں پر کرپشن کے خلاف نیب کا پیغام جاری کیا گیا۔

گزشتہ ایک سال کے دوران نیب اور ایچ ای سی کے تعاون سے ملک بھر کی یونیورسٹیوں، کالجوں اور اسکولوں میں 42ہزار سے زائد کردار سازی کی انجمنیں قائم کی گئیں‘ اسلام آباد ٹریفک پولیس کے تعاون سے تمام ڈرائیونگ لائسنسوں پر 24لاکھ پیغامات پرنٹ کرنے کا کام شروع کیا گیا‘ فلم سنسر بورڈ کے تعاون سے ملک کے تمام بڑے سینما ہاؤسز میں انسدادِ بدعنوانی کے ویڈیو پیغامات چلائے گئے‘ وزارتِ قومی صحت کے ساتھ مل کر تمام سگریٹ کے پیکٹس پر کرپشن کے خلاف پیغامات پرنٹ کرنے کا فیصلہ کیا گیا‘ گلگت بلتستان اور بلوچستان میں چھپنے والے تمام سرکاری ٹینڈر نوٹسز پر کرپشن کے خلاف نیب کے پیغام چھاپے گئے۔

پی ٹی اے کے تعاون سے مختلف موبائل فون کمپنیوں کے ذریعے عالمی اینٹی کرپشن ڈے کے موقع پر نیب کے کرپشن کے خلاف پیغامات بھجوائے گئے‘ چاروں صوبوں میں 3سالوں کے دوران 85سیاستدانوں، 663 کاروباری شخصیات اور 1210 دیگر شعبوں سے تعلق رکھنے والے افراد کے خلاف 1333 ریفرنس دائر کیے گئے‘ پنجاب میں سیاستدانوں کے خلاف 45 کاروباری شخصیات کے خلاف 224، بیوروکریٹس کے خلاف 483 اور دیگر کے خلاف 792 ریفرنس دائر کیے گئے‘ صوبہ سندھ میں 543 افسران کے خلاف ریفرنس دائر کیے گئے۔

سیاستدانوں کے خلاف 13، کاروباری شخصیات کے خلاف 143 اور دیگر کے خلاف 137 مقدمات درج کیے گئے‘ نیب قانون پر عملدرآمد، آگاہی اور تدارک کے ذریعے انسدادِ بدعنوانی مہم جاری رکھتے ہوئے سول سوسائٹی، میڈیا اور عوام سمیت تمام متعلقہ فریقین کے تعاون سے بدعنوانی کی روک تھام کے لیے مربوط کوششیں کی گئیں‘ اسی لیے تو پلڈاٹ کی ایک رپورٹ کے مطابق 42فیصد لوگ نیب پر اعتماد کرتے ہیں اور پاکستانی قوم کو لاکھ لاکھ بدھائی ہوکہ ٹرانسپرنسی انٹرنیشنل کی کرپشن پرسیپشن انڈیکس میں پاکستان 126 سے 124ویں نمبر پر آگیا ہے۔

مزید براں بدعنوانی کی روک تھام کی بہترین کوششوں کی وجہ سے نیب سارک اینٹی کرپشن فورم کا پہلا چیئرمین بن گیااور یہی نہیں، بدعنوانی کی روک تھام کے لیے چین کے ساتھ مفاہمت کی یادداشت پر بھی دستخط کیے تاکہ اس معاہدہ کے تحت پاک چین اقتصادی راہداری منصوبوں میں شفافیت یقینی بنانے کی نگرانی کی جاسکے۔

آفریں! آفریں! صد ہزار آفریں! سننے اور پڑھنے کی حد تک یہ سب کتنا اچھا لگتا ہے کہ نیب نے پاکستان کے غریب عوام کے خون پسینے سے زمین آسمان کے قلابے ملا دیے جس کا اثر یہ ہوا کہ آج وطنِ عزیز میں کوئی کرپٹ آدمی ڈھونڈے سے نہیں ملتا، سب گنگا جل اور شیرِمادر کی طرح پاک صاف، اُجلے اور شفاف ہوچکے ہیں۔ پلڈاٹ اور ٹرانسپرنسی کے حوالہ نے تو نیب کی اس عمدہ پرفارمنس پر مہرِتصدیق ثبت کردی‘ یہ وہ این جی اوز ہیں جن سے کوئی بھی ادارہ یا بزنس مین اپنا من پسند توصیف نامہ جاری کروا سکتا ہے۔

ہمارے حکمران طبقہ نے بھی ان ہی بابرکت سروے ایجنسیوں کی خدمات حاصل کررکھی ہیں جن کے اعدادوشمار پاکستان کو انڈیا، چائنا اور امریکا سے بھی مالی طور پر برتراور ترقی یافتہ ملک ظاہر کررہے ہیں‘ یہ بات الگ ہے کہ پاکستان کی 60فیصد آبادی خطِ غربت سے نیچے لڑھک چکی ہے اور ہر چوتھا آدمی یہاں فاقے کرنے پر مجبور ہے، لیکن فکر کرنے کی کیا ضرورت ہے، ہمارے پاس نیب ہے ناں! نیب یقینا ملک کی لوٹی ہوئی دولت واپس لائیگا اور غرباء کے وارے نیارے ہو جائینگے۔ کاش حقیقت میں ایسا ہوجاتا، مگر ہمارے حال کی رہتی دنیا تک تو ایسی کوئی اُمید عبث ہے۔

نیب اور انسدادِ رشوت ستانی کے محکموں کی موجودگی میں کرپشن بڑھتی جارہی ہے‘ وہ نیب جسکا فریضہ احتساب تھا، اس کے قانون میں پلی بارگین کے بارے میں شق نے کرپشن کو ختم کرنے کی بجائے مزید فروغ دیا‘ کرپٹ عناصر کے حوصلے اس قدر بڑھ بڑھ چکے ہیں اور وہ احتساب سے اس حد تک بے خوف ہوگئے ہیں کہ اعلانیہ کہا جاتا ہے، ’’رشوت لے کر پکڑا گیا ہے، رشوت دیکر چھوٹ جا‘‘۔ پھر اس جرم میں ماخوذ افراد سے جو بارگین ہوتی ہے وہ محب وطن شہریوں کے لیے صدمے کا باعث ہے۔ پکڑے جانے پر لوٹ مار کا قلیل حصہ واپس دیکر باقی حرام کو حلال کردیا جاتا ہے۔

تعجب تو ان لوگوں پر ہے جنھوں نے نیب کے قانون میں پلی بارگین کی شق ڈالی‘ وطنِ عزیز کو آزادی کے فوراً بعد کرپشن کا روگ لگ گیا‘ ابتداء میں کرپٹ لوگ یہ دھندہ چھپ چھپا کر کرتے تھے‘ انسدادِ رشوت ستانی کا ایک غیرموثر اور بے ضرر سا محکمہ موجود تھا‘ بے ضرر اور غیرموثر اس لیے کہ عموماً نچلے درجے کے سرکاری ملازم ہی گرفت میں آتے تھے‘ پھر نوبت یہاں تک پہنچی کہ انسدادِ رشوت ستانی کا محکمہ خود کرپشن کا سمبل بن گیا۔

اوّل تو راشی پکڑے ہی نہیں جاتے تھے، جو کسی طرح پھنس جاتے تھے وہ دے دلا کر چھوٹ جاتے‘ پلی بارگین کے چند ایسے واقعات سامنے آئے جنھیں دیکھ اور سن کر قوم کا سرشرم سے جھک گیا کہ چند لٹیروں نے، جن کے ہاتھ میں بدقسمتی سے قوم کی باگ ڈور چلی گئی ہے، ملک کے ساتھ کیا ہاتھ کیا ہے‘ چنانچہ 70سال بعد بالآخر سپریم کورٹ کو ازخود اس صورتحال کا نوٹس لینا پڑا‘ مختلف حلقوں کی طرف سے دباؤ بڑھا، احتجاج ہوا، نیب کے طریق کار اور قوانین پر بڑی لے دے ہوئی‘ دوسری طرف پاکستان تحریکِ انصاف نے پانامالیکس کے مسئلے کو قومی ایشو بنا دیا‘ ان سب عوامل نے ملکر حکومت کو یہ قانون لانے پر مجبور کردیا۔

احتساب قانون میں صدارتی آرڈیننس کے ذریعے کی جانیوالی حالیہ ترمیم جسکے تحت پلی بارگین کے لیے چیئرمین نیب کے صوابدیدی اختیار کو ختم کرکے احتساب عدالت کو فیصلے کا اختیار دیا گیا ہے، نیز پلی بارگین کرنیوالے سرکاری اہلکاروں کی بحالی کے بجائے تاحیات نااہلی لازمی قرار دی گئی ہے‘ ملک کو کرپشن سے نجات دلانے کے لیے بلاشبہ ناگزیر تھی تاہم اس سلسلے میں صدارتی آرڈیننس لانے کے بجائے پارلیمان میں براہِ راست قانون سازی کی جاتی تو زیادہ بہتر ہوتا۔

فی الحقیقت احتساب قانون کے تحت مالی بدعنوانیوں کے معاملات میں چیئرمین نیب کو دیا گیا پلی بارگین کا صوابدیدی اختیار شروع ہی سے متنازع تھا، اس کی وجہ یہ تھی کہ اس کی رُو سے قومی وسائل کی لوٹ کھسوٹ کے مرتکب افراد قانون کی گرفت میں آنے کے بعد کسی بھی مرحلے پر لوٹی گئی رقم کا ایک حصہ واپس کرکے نہ صرف کسی بھی قسم کی تادیبی کارروائی سے بچ سکتے تھے بلکہ سرکاری عہدیدار ہونے کی صورت میں اپنے منصب پر بحال بھی ہوسکتے تھے‘ اس صورتحال کی سنگینی پچھلے دنوں بلوچستان حکومت کے سیکریٹری خزانہ مشتاق رئیسانی کے کیس میں بہت نمایاں ہوکر سامنے آئی اور پلی بارگین کے طریق کار پر سیاسی، عوامی اور صحافتی حلقوں کی جانب سے سخت اعتراضات کیے گئے۔

وائٹ کالر جرائم سے نمٹنے کے لیے پلی بارگین سے متعلق نیب آرڈیننس کی شق 25 جو 2حصوں پر مشتمل ہے جو مشرف دور کے اوائل میں نیب قانون میں شامل کی گئی تھی۔ سپریم کورٹ کی ہدایت کے چار دن بعد ہی اس آرڈیننس کے لائے جانے کو حکومت کی سنجیدگی کے بجائے عجلت پسندی کا نام ہی دیا جاسکتا ہے‘ سوال یہ ہے کہ آیا قانون ساز ادارے کو بائی پاس کرکے پلی بارگین کے معاملہ میں چیئرمین نیب کے صوابدیدی اختیار کوختم اور یہ اختیار عدالت کو منتقل کرکے شفافیت کا اطمینان بخش اہتمام کیا گیا ہے؟

پلی بارگین کرنیوالے سرکاری اہلکاروں کی تاحیات نااہلی کا قانون بظاہر تو بھارت اور دُنیا کے کئی ملکوں کے مقابلے میں زیادہ سخت ہے جہاں پانچ یا سات سال بعد متعلقہ اہلکاروں کی بحالی عمل میں لائی جاسکتی ہے مگر تاحیات نااہلی کے بعد بھی پاکستان میں یہ توقع ہرگز نہیں کی جاسکتی کہ اس کے نتیجے میں قومی احتساب بیورو اپنا کردار زیادہ موثر طور پر ادا کرسکے گا اور معاشرے سے بدعنوانی کو جڑسے اکھاڑنے میں اسے خاطرخواہ کامیابیاں حاصل ہو پائیں گی۔

پلی بارگین چیئرمین نیب کا اختیار تھا، پلی بارگین کی جب بھی خبر سامنے آئی، اس پر ہر حلقہ اور طبقہ فکر کی طرف سے شدید ردعمل سامنے آیا تاہم چیئرمین نیب پلی بارگین کے زبردست حامی ہیں‘ ان کا یہ موقف بھی ہے کہ کرپٹ لوگوں سے ریکوری ہوتی ہے تاہم پلی بارگین کے تحت ان کو جیل نہیں جانا پڑتا اور وہ 10سال تک کسی سرکاری عہدے کے اہل بھی نہیں رہتے۔ بلوچستان کے سابق سیکریٹری خزانہ پر 40ارب روپے کی کرپشن کے الزامات کی بات کی جاتی ہے، اس سے متعلق عوامی سطح پر 3ارب روپے معاف کرنے پر شدید ردعمل ظاہر کیا جا رہا تھا، یہ معاملہ اس شدت سے اُٹھا کہ حکومت کو پلی بارگین سے متعلق چیئرمین نیب کا اختیار واپس لینے کے لیے صدارتی آرڈی نینس جاری کرنا پڑا جو موجودہ شکل میں پوری طرح اطمینان بخش نہیں ہے۔

ضرورت تو اس اَمر کی تھی کہ پلی بارگین کا سرے سے خاتمہ کر دیا جاتا مگر یہ بدعت اب بھی برقرار رکھی گئی ہے، اب بارگین کی منظوری احتساب عدالت دیا کریگی۔ پہلے 10سال نااہلیت کی سزا تھی، اب کرپٹ لوگ تاحیات نااہل ہو جایا کرینگے۔ کیا جیل سے محفوظ رہنے کا حق اب بھی مجرم کو حاصل رہیگا؟ سرکاری ملازم یا عوامی نمائندہ جس نے بھی کرپشن کی اس کے ساتھ کسی قسم کی رعایت کرپشن کو فروغ دینے کے مترادف ہے۔ پلی بارگین کے حامیوں کا موقف ہے کہ یہ قانون کئی مغربی ممالک میں بھی لاگو ہے، کئی ممالک میں تو کرپشن کی سزا موت بھی ہے۔

ہم نے کرپشن پر قابو پانا ہے جو ایک ناسور کی شکل اختیار کر چکی ہے۔ اس سے کسی بھی صورت میں نجات حاصل کرنی ہے جو کڑی سزاؤں ہی سے ممکن ہے‘ مجرموں کو رعایت دینے سے کرپشن کا خاتمہ نہیں ہو سکتا۔ وزیراعظم کی طرف سے کرپشن پر زیرو ٹالرنس پالیسی کی بات توکی جاتی ہے مگر زبانی جمع خرچ سے کچھ نہیں ہوگا‘ اس کے لیے مکمل کمٹمنٹ کے ساتھ ساتھ مربوط اقدامات اور قانون سازی کی ضرورت ہے۔ جس نے لوٹ مار کی، اس سے ایک ایک پائی کی ریکوری کے ساتھ ساتھ جرمانہ وصول کیا جانا چاہیے، اوّل تو قومی وسائل لوٹنے والوں کے لیے سزائے موت ہونی چاہیے‘ بیشک اس کا اطلاق آج کے بعد ہونے والی کرپشن پر ہو، اگر پارلیمنٹ میں اس پر اتفاق نہیں ہوتا تو عمرقید کی سزا ضرور ہونی چاہیے۔ وسائل کس طرح لوٹے جاتے ہیں، اس کی بہت بڑی مثال پاناما اور بہاماز لیکس ہیں۔

ایک کالم میں ہم نے یاد دلایا تو وزیرخزانہ اسحاق ڈار کو یاد آیا کہ ہاں سوئٹزرلینڈ کے بینکوں میں پاکستانیوں کے 200ارب ڈالر پڑے ہوئے ہیں جو واپس لانے کی وہ قوم کو کئی بار اُمید دلاچکے ہیں مگر عملی طور پر کچھ نہیں کیا گیا کیونکہ ان پیسوں میں کئی پردہ نشینوں کا مال بھی ہے‘ ایسے ہی ایک محبِ وطن پاکستانی پاک بحریہ کے سابق سربراہ منصور الحق تھے جن کا ایڈمرل کا رینک، تمام میڈل اور اعزازات ضبط کر لیے گئے تھے ‘وہ پاکستان سے امریکا منتقل ہو گئے تھے، پھر صدر مشرف کی ذاتی کوششوں سے ان کو پاکستان واپس لایا گیا، ان سے 2004ء میں احتساب بیورو نے بارگین کر کے 75لاکھ ڈالر وصول کیے تھے۔ اس رقم کی ادائیگی کے بعد منصور الحق پھر امریکا چلے گئے اور آج وہاں کرپشن کی باقی دولت سے پرتعیش زندگی گزار رہے ہیں۔

نیب کے لیے اب نئی قانون سازی ہو رہی ہے، کرپشن کے جڑسے خاتمے کے لیے کڑے قوانین کے ساتھ ساتھ ہرمجرم کے لیے حکومتی سطح پر مشرف جیسی کمٹمنٹ کی ضرورت ہے۔ فی الحال یہ توقع رکھنا کہ نیب قوانین میں ترمیم یا نیا قانون آنے سے کرپشن کا مکمل خاتمہ ہوجائیگا، خوش فہمی کے مترادف، البتہ کم ازکم لوٹ مار اور کالے دھن کو سفید بنانے کے عمل میں تھوڑی بہت کمی ضرورآئیگی‘ اسی دوران پانامالیکس بارے سپریم کورٹ کا فیصلہ آئیگا تو اس سے بھی ٹیکس چوری اور دولت کو چھپانے، قومی سرمائے کی غیرقانونی بیرون ملک منتقلی کے دھندے پر یقینا اثر پڑیگا‘ کرپٹ عناصر قانون کے کمزور پہلوؤں کی مدد سے نقب زنی کے مواقع تلاش کرہی لیتے ہیں لہٰذا کوئی ضمانت نہیں کہ یہ سارا دھندہ اتنی آسانی اور کثرت سے جاری نہیں رہ سکے گا۔

بہرحال قانون کوئی بھی ہو، صرف اسی صورت نتیجہ خیز ہوتا ہے جب اسے سختی سے بلا رو ورعایت نافذ کیا جائے، سو ضروری ہے کہ احتساب کرنیوالے اداروں کو کرپٹ عناصر کی گرفت کرتے وقت کسی رکاوٹ کو خاطر میں نہیں لانا چاہیے‘ اگر کوئی قانون یا حکومت کرپشن کے انسداد میں کامیاب ہوگئی تو یہ اس کا تاریخی کارنامہ ہوگا‘ اگر وطنِ عزیز کے قیام کے مقاصد ہنوزتشنہ تکمیل ہیں تو اس کی بڑی وجہ کرپشن ہے‘ قوانین کو ان کی  روح کے مطابق جذبے سے نافذ کیا جاتا تو یہ صورتحال پیدا نہ ہوتی‘ بہرکیف اگر حکومت اور نیب کی نیت میں فتور ہے تونئے آرڈیننس کے نفاذ سے کرپشن کے خلاف جدوجہد کا آغاز اب بھی نہیں ہوگا کیونکہ اگلا مرحلہ اس پر صدق دل سے عملدرآمد کا ہے جس کی اُمید بظاہر نظر نہیں آتی، چنانچہ یہ قانون بھی دوسرے قوانین کی طرح بے بس ثابت ہوگا۔

یہ آرڈیننس بھی حکومت اور اپوزیشن کی ملی بھگت سے لایا گیا ہے جس میں کان کو دائیں طرف سے چھوڑ کر بائیں طرف سے پکڑا گیا ہے جب کہ اصل مسئلہ تو جوں کا توں ہے‘ پلی بارگین نیب کرے یا انسدادِ رشوت ستانی یا دہشت گردی کی لوئرکلاس کی خاص عدلیہ، قومی ڈکیت مک مکا کرکے موجیں مارتے پھریں گے کیونکہ یہ قانون بھی انھیں سلاخوں کے پیچھے نہیں ڈال سکتا۔ ہم سمجھتے ہیں پلی بارگین کا قانون جب تک ختم نہیں کیا جاتا اور مجرموں کو سخت تادیبی سزائیں نہیں دی جاتیں، کرپشن کا جن کوزے میں بند نہیں کیا جاسکتا۔

ایک انتہائی نیک مقصد کے لیے ہمیں یہ اہم کالم مختصر کرنا پڑا‘ ڈاکٹر عافیہ صدیقی کی رہائی کے لیے ان کی والدہ محترمہ عصمت صدیقی کی آواز اس خط کے ذریعے پاکستانی اور امریکی حکومت کے ساتھ ساتھ قومی وعالمی میڈیا تک پہنچنی چاہیے۔ خط کا متن: جناب رحمت علی رازی صاحب! السلام علیکم! اس خط کے ذریعے ایک دُکھیاری ماں آپ سے مخاطب ہے‘ آپ بخوبی واقف ہونگے کہ امریکی صدر اوباما اپنی مدت صدارت کے آخر میںخصوصی اختیارات کے تحت ایک ہزار قیدیوں کو معافی دے چکے ہیں‘ ان میں 350قیدی خواتین بھی شامل ہیں جن کو مقدمات سے بری کرکے آزادی دیدی گئی ہے۔

صدر اوباما اپنی مدت صدارت کے اختتام تک کچھ مزید خواتین کو بھی رہا کرنے کی منظوری دے چکے ہیں‘ ان میں پاکستانی قوم کی بیٹی ڈاکٹر عافیہ صدیقی بھی شامل ہے لیکن عافیہ چونکہ پاکستانی شہری ہے اس لیے قوانین کا تقاضا ہے کہ پاکستان کے صدر یا وزیراعظم اس معاملے پر امریکی صدر کو تحریری طور پر خط میں مطالبہ کریں کہ عافیہ کو پاکستان واپس بھیجا جائے‘ اس سلسلے میں پاکستان کا فارن آفس کہتا ہے کہ وہ امریکا کو خط لکھ چکے ہیں لیکن مجھے اپنی بیٹی کے امریکا میں موجود وکلاء کے ذریعے معلوم ہوا ہے کہ پاکستان نے ایساکوئی خط امریکی حکومت کو نہیں لکھا، جس سے ثابت ہوتا ہے کہ ہمارا فارن آفس جھوٹ بول رہا ہے۔

اس ساری صورتحال پر مجھے امریکا سے نہیں بلکہ اپنی حکومت سے گلہ ہے‘سچ تو یہ ہے کہ قوم کی بیٹی عافیہ کی وطن واپسی میں امریکا نہیں پاکستان کی حکومت رکاوٹ بنی نظر آرہی ہے‘ سابق گورنر پنجاب سلمان تاثیر، سابق وزیراعظم پاکستان یوسف رضا گیلانی اور چیف جسٹس سندھ سیدسجاد علی شاہ کے مغوی بیٹے بازیاب ہوچکے ہیں‘ پوری قوم نے دیکھا اور مشاہدہ کیا کہ سیاسی اور اعلیٰ عہدیداروں کے بیٹوں کی رہائی، بازیابی اور گھروں کو واپسی کے سلسلے میں پوری انتظامیہ حرکت میں آگئی تھی‘ ملک کی تمام ایجنسیاں اور اداروں نے سرگرمی کا مظاہرہ کیا کیونکہ شاید وہ خاص لوگوں کے بیٹے تھے جب کہ عافیہ مجھ جیسی ایک عام پاکستانی کی بیٹی ہے جس کے بزرگوں نے قیام پاکستان کے لیے اپنا سب کچھ قربان کرنے سے بھی دریغ نہیں کیا تھا۔

سابق ڈکٹیٹر جنرل (ر) مشرف نے اپنی کتاب میں ملک کی معصوم بیٹی اور بیٹوں کو امریکی ڈالروں کے عوض فروخت کرنے کا ہرجگہ برملا اعتراف بھی کیا‘ آج پرویز مشرف مکمل آزادی کے ساتھ دُنیا بھر میں گھوم رہے ہیں لیکن عافیہ کو 5020 دن گزر گئے ہیں اور وہ پابندِ سلاسل ہے‘ حکومت کا کوئی ذمے دار افسر، وزیر، کابینہ یا ادارہ اس حوالے سے حرکت میں نہیں آرہا‘ ہر طرف بے حسی طاری ہے‘ مجھے سب سے زیادہ دُکھ اس بات کا ہے کہ ان 14سالوں میں ایک مرتبہ بھی حکومتِ پاکستان نے باضابطہ طور پر امریکی حکومت سے عافیہ کی واپسی کے لیے رابطہ نہیں کیا ہے حالانکہ دُنیا کی ہر حکومت اپنے شہریوں کے بنیادی حقوق کی محافظ ہوتی ہے۔

آپ کو یاد ہوگا کہ لاہور میں 5قتل کے بعد کتنی آسانی سے امریکی جاسوس اور قاتل ریمنڈڈیوس کو سرکاری پروٹوکول کے ساتھ واپس بھیجا گیا‘ میری آنکھیں بھیگ جاتی ہیں جب میں یہ سوچتی ہوں کہ کیا امریکی سینیٹر نے صحیح کہا تھا کہ ’’پاکستانی تو چند ڈالروں کے عوض اپنی ماں کو بھی فروخت کردیتے ہیں‘‘، کیا اس سے زیادہ گھٹیا طرز حکمرانی دُنیا میں کہیں نظر آتی ہے؟ وزیراعظم پاکستان میاں نوازشریف نے میرے روبرو کہا تھا کہ وہ اپنی حکومت کے ابتدائی 100دنوں میں ڈاکٹر عافیہ کو وطن واپس لے آئیں گے‘ آج میاں صاحب کی حکومت کو ساڑھے تین برس سے زیادہ ہورہے ہیں مگر وہ عافیہ کو بھول ہی گئے ہیں۔

افسوس کہ میاں صاحب کو اپنے قول وفعل کا پاس نہیں‘ ڈاکٹر عافیہ کی وطن واپسی صرف میرا مسئلہ نہیں، یہ پوری پاکستانی قوم کا مطالبہ ہے کہ ڈاکٹر عافیہ کو باعزت طریقے سے وطن واپس لایا جائے‘ میں نوازحکومت کی توجہ اس جانب مبذول کرانا چاہتی ہوں کہ وہ امریکی حکومت سے عافیہ کی فوری واپسی کا مطالبہ کرے‘ خاموشی اور دانستہ غفلت ختم کی جائے‘ امریکی صدر اوباما کے چلے جانے کے بعد نئے صدر سے عافیہ کی بابت یہ اَلمناک کہانی پھر الف سے شروع کرنا ہو گی، چنانچہ عافیہ کی واپسی کا یہ موقع کھویا نہ جائے‘ امریکی حکومت سے براہِ راست خط کے ذریعے عافیہ کی واپسی کا مطالبہ وقت کی آواز بن چکاہے جس پر حکومت کو فی الفور کان دھرنے کی ضرورت ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔